• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کیا کارل مارکس بھی چربہ ساز تھا؟

شائع September 23, 2015 اپ ڈیٹ September 27, 2015
— بشکریہ thequestion.ru
— بشکریہ thequestion.ru

پندرہویں صدی عیسوی میں یورپ کا سماج ارتقاء کے اُس دور سے گزر رہا تھا جب وہاں سائنسی بنیاد پر ابتدائی تجربات اور نئے علوم کی تخلیق ہورہی تھی۔ یورپ کا یہ دور جاگیرداروں کے مظالم کی لمبی داستانوں اور اس طاقتور طبقے کا مذہبی طبقہ جو عیسائیت کے نظریات کا پیروکار تھا ، مضبوط گٹھ جوڑ تھا۔

جب یورپ کا سماج اندھیروں سے روشنی کی طرف سفر کرنے کی جستجو کر رہا تھا تو اسی دور میں تجارت کی بنیاد پر چھوٹے اور بڑے سرمایہ دار بھی ظہور پذیر ہوئے۔ ان سرمایہ داروں نے دولت کی بناء پر سماج کو کنٹرول کرنا شروع کیا، تو معاشی ترقی کے نئے نظریات بھی جنم لینے لگے۔ اس دوران برطانیہ میں ایڈم سمتھ نے 1776ء میں ویلتھ آف نیشن کتاب لکھ کر معاشی ترقی کے نئے اُصول دے دیے جس میں پیدائش دولت سے لے کر تقسیم دولت کے طریقہ کار پر بحث کی گئی۔

یہ کتاب یورپ کے سرمایہ داروں کے لیے بائبل بن گئی اور ایڈم سمتھ کے بنیادی نظریات کی بناء پر یورپ میں سرمایہ دارنہ طبقہ مضبوط ہونے لگا۔ اٹھارویں صدی تک یہ طبقہ بہت طاقتور ہوا، مذہبی پارساؤں اور کلیساؤں نے بھی اسی طبقے کی حمایت کی۔ سرمایہ داروں کے اس ٹولے نے جب دولت کا بہاؤ اپنے کنٹرول میں لے لیا تو سماج میں دولت کی تقسیم کا توازن قائم نہیں رہا اور پھر غریب، متوسط طبقات ان کے معاشی جبر کا شکار ہونے لگے، یورپ کو اس نہج تک پہنچنے میں 300سال لگے۔

معاشی جبر کے رد عمل میں 1779ء میں فرانس میں جمہوری انقلاب برپا ہوا جس نے ان طبقات کے گٹھ جوڑ پر مشتمل بادشاہی نظام کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد یورپ میں سرمایہ داروں کے خلاف لہر اُٹھی اور پسے ہوئے طبقات نے جدوجہد کا آغاز کیا جس کے رد عمل میں کیمونسٹ اور سوشلسٹ نظریات پیدا ہوا۔

کارل مارکس نے جرمنی کے سرمایہ داروں کے خلاف اس جدوجہد کا آغاز کیا جس میں فیڈرک اینگلز بھی شامل رہا۔ اس تحریک نے پرولتاریہ طبقہ(یعنی مزدور طبقہ جس کا پیدائش دولت میں حصہ تھا) کو ساتھ ملا کر بورژوا طبقہ (جو دولت اور حکومت پر قابض تھا) کے خلاف آواز اُٹھائی۔

اگرچہ کارل مارکس نے سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کا آغاز جرمنی سے کیا لیکن کیمونسٹ نظریات پر پہلا انقلاب مارکس کے انتقال کے 34سال بعد روس میں برپا ہوا۔ یورپ میں اس وقت تین طبقات وجود میں آئے، پرولتاریہ، درمیانی طبقہ اور بورژوا ۔ مارکس کا ہدف پرلتاریہ طبقہ کو ساتھ ملا کر بورژوا یعنی سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کرنا تھا، نتیجے میں درمیانی طبقہ (مڈل کلاس) کو نظر انداز کیا گیا ۔ مارکس نے 1848ء میں جو کیمونسٹ منشور لکھا اس میں مارکس کے ذاتی خیالات نہیں تھے بلکہ نومبر1847ء میں لندن میں کیمونسٹ لیگ کے اجلاس میں مارکس اور اینگلز کو پارٹی کا نظریاتی منشور لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور ایک سال بعد یہ منشور تیار ہونے کے بعد شائع کر دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ منشور مارکس کے ذاتی خیالات نہیں تھے تو پھر اس کا مسودہ کہاں سے آیا۔

فرانسیسی سوشلسٹ وکٹر کونسیڈرینٹ نے 1843ء میں "سوشلزم کے اُصول: اُنیسوویں صدی کی جمہوریت کامنشور (Principles of Socialism: Manifesto of Democracy of the Nineteenth Century) " کے عنوان سے فرانسیسی زبان میں مقالہ تحریر کیا اس کا دوسرا ایڈیشن 1847ء میں پیرس سے چھپا، یعنی مارکس کے کیمونسٹ منشور سے ایک سال پہلے۔ انتہائی دلچسپ بات ہے کہ ان دنوں مارکس ، اینگلز کے ساتھ پیرس میں ہی مقیم تھا۔ ایک سو تینتالیس صفحات پر مشتمل اس پمفلٹ میں وکٹر کونسیڈرنٹ نے سوشلزم کے تمام اُصولوں کو تحریر کیا۔ مارکس اور اینگلز نے 1848ء میں جومنشور تحریر کیا اس کا نظریاتی مواد کونسیڈرنٹ کے پمفلٹ سے اخذ کیا گیا ہے حتیٰ کہ مارکس کے تحریر کردہ منشور کا متن بھی کونسیڈرنٹ کی تحریر کا چربہ ہے جسے آج تک کھل کر منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

وکٹر کونسیڈرنٹ نے باب دوم کا عنوان یوں رکھاتھا؛ The Present Situation & 89; The Bourgeoisie & Proletrains جبکہ مارکس اور اینگلز نے اس باب کا عنوان The Bourgeois & Proletarians رکھا۔ کونسیڈرنٹ نے اپنے پمفلٹ میں جمہوریت پر بھی بحث کی اور سوشلسٹ جمہوریت پر یہ عنوانات مرتب کیے؛1 ۔ جامد جمہوریت،2۔مراجعتی جمہوریت،3۔ مراجعتی جمہوریت میں سوشلسٹ پارٹی۔ دوسری جانب جب مارکس نے یہ منشور چرایا تو ان عنوانات کو تبدیل کر کے یوں رکھ دیا گیا؛ 1۔ رجعت پسند سوشلزم،2۔ قدامت پرست اور بورژوا سوشلزم،3۔ تنقیدی تصوراتی سوشلزم اور کیمونزم۔ انٹونی سی سٹن نے اپنی کتاب فیڈرل ریزرو کنسپائریسی میں اور ڈبلیو کیرکیسوف نے اپنی تصنیف Pages of Socialist History میں اس چربہ سازی پر تفصیل سے بحث کی ہے۔

انہی کتابوں میں یہ بھی درج ہے کہ مارکس کو سرمایہ داروں کے ٹولے کی جانب سے مالیاتی پشت پناہی بھی حاصل تھی کیونکہ مارکس کا ذریعہ معاش کُچھ نہیں تھا۔ کیمونسٹ منشور کی اشاعت ، مارکس اور اینگلز کے اخراجات کے لیے رقوم جرمنی اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے حکمران اشرافیہ سے ملتی تھی۔ کیمونسٹ منشور کی اشاعت کے لیے جین لافٹے کی وساطت سے مالی امداد مارکس کو پہنچائی جاتی تھی، مارکس کو ملنے والی مالی امداد پر تفصیلاتStanley Clisby Arthur کی دو کتابوںJean Laffite, The Gentleman Rover اورThe Journal of Jean Laffite میں موجود ہیں اور ان کتابوں میں کیمونسٹ منشور کی اشاعت کے اخراجات برداشت کرنے کے طریق کار کے بارے میں اصل دستاویزات دیکھی جاسکتی ہیں۔

کارل مارکس کو امریکاسے بھی براہ راست امداد فراہم کی جارہی تھی، مارکس کی مالی مدد کا ذریعہ نیو یارک ٹائمز بنا، اس اخبار کے ایڈیٹر چارلس اینڈرسن ڈانا نے نیو یارک ٹائمز میں لکھنے کے لیے کارل مارکس کی خدمات حاصل کی تھیں۔1851ء سے لے کر 1861ء تک مارکس نے نیو یارک ٹائمز کے لیے پانچ سو سے زائد مضامین تحریر کیے تھے جس کے لیے مارکس کو بھاری رقم ادا کی جاتی تھی۔ اسی طرح مارکس کی مالی معاونت فریڈرک اینگلز اور پروشیا کے اشرافیہ کی جانب سے کی جاتی تھی۔ پروشیا کے ویسٹ فالن خاندان میں مارکس کی شادی ہوئی ، اگرچہ یہ خاندان اشرافیہ کا نمائندہ تھا تاہم اس کے باوجود ویسٹ فالن خاندان مارکس کی کفالت کرتا رہا۔

مارکس نے اگر اپنے منشور کا مواد وکٹر کونسیڈرنٹ کے پمفلٹ سے حاصل کیا تھا تو پھر مارکس کو اس کا کریڈٹ بھی کونسیڈرنٹ کو دینا چاہیے تھا۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ مارکس سے منصوب منشور صرف اسی کے ذہن سے اخذ شدہ نہیں تھا بلکہ اس منشور کو ایک ایسی تحریر سے لیا گیا جو بعد میں تاریخ کے گمنام کوچوں میں چلی گئی۔بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور مارکسزم کے ماننے والوں کے لیے یہ نئی تحقیق نہ صرف حیران کن ہوسکتی ہے بلکہ اسے سرمایہ دارانہ نظام کی کیمونزم کے خلاف سازش بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

ان تمام حقائق کے باوجود یہ بات بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ کیمونسٹ نظریات، سرمایہ داریت کے خلاف رد عمل کے طور پر پیدا ہوئے اور بنیادی طور پر عالمی سرمایہ داری نظام کو آج 150سال بعد بائیں بازو کے نظریات ہی للکار رہے ہیں۔ مارکس کو مالی امداد فراہم کرنے کے جو بھی مقاصد سرمایہ داروں نے طے کیے تھے وہ اُسے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور دولت کی بنیاد پر دنیا پر قابض ہونے کے خواہشمند ان سرمایہ داروں کے لیے آج بھی کیمونسٹ نظریات کے حامی ممالک مزاحمتی کردار ادا کر رہے ہیں اور اپنے اپنے سماج میںیہ نظریہ انصاف اور دولت کی بنیاد پر ظلم کے خاتمے کا داعی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

سرمایہ داریت کو آج روس اور چین سے شدید پریشانی ہے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایشیاء میں روس اور چین کا بڑھتا ہوا اثر عالمی سرمایہ داروں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

اکمل سومرو

اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں akmalsoomroCNN@

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (21) بند ہیں

Muhammad Ayub khan Sep 23, 2015 03:00pm
This is not proper place to publish this paper. If you are correct, publish your research in an impact factor journal. This paper here has no value in scientific world. If you do not care, you will see this paper in form of newspaper shopping bag/envelope in the hands of street vendors/street shopkeeper.
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 23, 2015 07:13pm
کیا چربہ ساز کو ساری دنیا سر آنکھوں پر بٹھا سکتی ہے؟ کیا چربہ ساز کی کتابوں کے پے در پے ایڈیشن چھپ اور دھڑا دھڑ فروخت ہو سکتے ہیں؟ نظریہ پاکستان، دو قومی نظریہ کا چربہ نہیں؟ چربہ ساز کے خیالات اور مغز ماری پسے ہوئے طبقوں کو امید کی کرن اگر دکھاتی ہے اور چربہ سازی کو دنیاوی مذہب قرار دے رہی ہے تو وہ چربہ ساز نہیں بلکہ پسے ہوئے لوگوں کا مسیحا ہے۔ امریکہ سے اگر مارکس پیسے وصول کرتا رہا تو یہ معنی کیسے نکل آیا کہ وہ بکاؤ مال تھا؟ اب اگر میں ایک مسجد کا مولوی اوقاف محکمہ کے تحت بھرتی ہو جاتا ہوں تو اس کا یہ معنی نہیں کہ تھیوکریٹک ہو گیا ہوں اور نہ ہی یہ معنی ہے کہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ لٹریچر پڑھنا میرے لیے ممنوع ہو گیا ہے۔ روزگار اور ہوتا ہے جبکہ نظریات اور ہوتے ہیں۔ روزگار کے تحت نظریات کو پرکھنا بچگانہ عمل ہوتا ہے۔ مارکس کو چربہ ساز قرار دینے کی کوشش مارکسی نظریات کی دن بہ دن مقبولیت سے خوفزدگی کا اظہار ہے۔ بائی دی وے، مجھے بھی چربہ ساز کہیں کیونکہ یہ جو تبصرہ ہے اس میں لکھے گئے الفاظ میرے نہیں ہیں بلکہ صدی پہلے کسی نے ایجاد یا دریافت کیے تھے، میں نے صرف ان الفاظ کو پڑھا سکول میں۔ او-کے !
Ahmar Ali Sep 23, 2015 07:20pm
آپ کی تحریر بھی ایک پروپیگانڈا ہے اور وہ بھی اس سرمایادارانہ نظام کو درست ثابت کرنے اور مارکس کو غلط ثابت کرنے کا کام بہت پرانا ہے۔ نا آپ نے آج تک مارکس کی ایک اشاعت پڑھی ہو گی نا ہی اسکے فلسفے کا علم۔ مارکس ایک فلسفی تھا اور مارکس کی قابلیت پر شک کرنے سے پہلے آپ کو مارکس کی زندگی یا اس کے خیالات جاننے کی ضرورت ہے۔ نا آپکو جدلیات کا علم ہے نا ہی مادیت پسندی کا علم جو کہ آپکی تحریر سے صاف ظاہر ہے۔ اسلیے خدارا پہلے کچھ پڑھ لیں۔ دوسری بات آپ نے چین اور روس کو سوشلسٹ قرار دے کر مزید اپنی نا اہلی عیاں کر دی۔
Muslim Ullah Khan Sep 23, 2015 08:19pm
Karal Marx ne koi charbasazi nahi ki.Ye maujuda dour me socialism ki bharti hui maqbooliat ke khilaf aik qadam ho sakta he
احمد Sep 23, 2015 10:53pm
دولت کے ارتکاز اور اس کی تقسیم کے اصول اسلام نے صدیوں قبل متعین کر دیے تھے۔ باقی علوم کی طرح یورپ نے جو بھی نظریات ادھار لئے ہیں وہ چربہ ہی کہلائیں گے۔ بحوالہ 'اسلام کا اقتصادی نظام'۔
Hashim Farooq Sep 23, 2015 10:55pm
I think, the author has shown new angles for research about Karl Marx. Its one of the research oriented article. May be, some people hesitate to see these aspects of life of Karl Marx.
Dr. Taimur Rahman Sep 24, 2015 12:49am
Marx and Engels have been accused – by writers such as Georges Sorel, Morris R. Cohen, Harold J. Laski and W. Tcherkesoff – of plagiarizing their Communist Manifesto from Considerant’s Manifesto. A present-day rereading of Considerant’s work can lay these hollow accusations to rest. Although Considerant and Marx and Engels begin from the same premise, they adopt diametrically opposed means, which inevitably lead to radically different ends. The fallacious charge of plagiarism must be cut away so that we can see Considerant’s contribution as an important forefather of Marx. Considerant, indeed, enters history not as a visionary theorist of utopian systems, but as a path-breaking activist.
ثوبان Sep 24, 2015 02:12pm
آخری سطور پڑھ کر میرا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا--- \\سرمایہ داریت کو آج روس اور چین سے شدید پریشانی ہے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایشیاء میں روس اور چین کا بڑھتا ہوا اثر عالمی سرمایہ داروں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔"\\ سیاسیات کے پی ایچ ڈی طالب علم کو اتنا پتا ہونا چاہیے کہ آج روس اور چین بذاتِ خود سرمایہ دار ممالک ہیں اور سرمایہ داری کو ان سے کوئی خطرہ نہیں--- روس چین اور ویسٹ کی جو مخاصمت نظر آتی ہے وہ سرمایہ داری اور اینٹی سرمایہ دارانہ جدوجہد کا تضاد نہیں بلکہ اپنا اپنا اثر و رسوخ بڑھانا اور علاقوں اور وسائل پر قبضوں کا تضاد ہے---
اکمل سومرو Sep 24, 2015 05:06pm
جن احباب نے میرا بلاک پڑھا اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جو بھی اعتراضات احباب نے بلاک پر اُٹھائیں ہیںمجھے انہیں پڑھ کر خوشی ہوئی۔ بلاک کا مقصد مارکس پر جو الزام ہے اُسے سامنے لانا تھا۔ ہر قاری کی اپنی رائے ہے میں اس کا احترام کرتا ہوں لیکن آج سرمایہ دارانہ نظام کو عالمی سطح پر روس اور چین سے خطرہ ہے اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں۔ ہاں اگر چین اور روس کمیونسٹ نظریات کی اصل روح کے مطابق پالیسی نہیں بنا رہے تو ان پر تنقید ضرور ہوسکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذریعہ روزگار اور نظریات کا آپس میں تعلق بہرحال موجود ہے۔ عالمی سامراج کو مارکسزم سے خطرہ جن ممالک سے ہے اُن کی منصوبہ بندی سرمایہ داریت کے رد پر ہے، سرمایہ داریت کی بدلتی شکل کے ساتھ ساتھ مارکسزم کی شکل میں بھی تبدیلی پیدا ہوئی ہے، ہدف بس ایک ہے کہ عالمی سامراجیت کو توڑا جائے۔
اکمل سومرو Sep 24, 2015 05:12pm
دُنیا کے وسائل پر قبضوں کی جنگیں بہت پرانی ہیں لیکن بیسوویں صدی میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم انہیں وسائل پر قبضوں کی جنگیں تھیں جس میں کروڑوں انسان لقمہء اجل بنے۔ لیکن اگر چین اور روس کی پالیسی کو بھی اسی تناظر میں پرکھا جائے گا تو پھر انصاف نہیں ہوگا، اگر میں یہ کہوں کہ سرمایہ دارانہ جمہوریتوں کی بھی سازش ہے کہ اُنہوں نےچین اور روس کے خطے میں بڑھتا ہوئے اثر کو وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ قرار دینے کی خاطر اپنے اخبارات اور چینلز کا سہارا لیا ہے اور ہم یہ اثر قبول کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے بلاگ کا اختتام اچھے نوٹ پر کیا، کہ عالمی طاقتوں کو آج جن ممالک سے خطرہ ہے اور مارکس کے فلسفے کی پیروکار ہیں۔ یہ کوئی مارکس کے خلاف سازش نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اکمل سومرو Sep 24, 2015 05:15pm
اگر بلاگ کو دوبارہ غور سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ میں نے یہی کہا کہ اگر سرمایہ داروں نے مارکس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ہدف رکھا بھی ہوگا تو وہ اس میں ناکام رہے ہیں کیونکہ اس سے سرمایہ داریت کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ میرا صرف یہ سوال ہے کہ جو منشور مارکس نے اپنے نام سے منصوب کیا وہ منشور کسی اور کی تحریر ہے لیکن مارکس کے منشور میں اُس نام کا اظہار تک نہیں کیا گیا۔اگر حقائق میں جھوٹ شامل ہے تو بحث ممکن ہے۔
اکمل سومرو Sep 24, 2015 05:24pm
@Ahmar Ali بھائی میں نے سرمایہ داریت کو درست ثابت کرنے کی کوئی بات ہی نہیں کی اور نہ ہی مارکس کے نظریات پر کوئی تنقیدی نوٹ لکھا ہے۔ دوبارہ بلاگ تسلی سے پڑھ لیں واضع ہوجائے گا۔ شکریہ
Nawaz Soomro Sep 24, 2015 09:28pm
When is Mr. Akmal Soomro going to disclose that scores of other works on philosophy, history and economics, written by Marx are also plagiarised?
Shahab Saqib Sep 25, 2015 02:21am
آپ کو اپنا یہ آرٹیکل کسی عالمی شہریت یافتہ جرنل میں چھپوانا چاہئے۔ یقیناً آپ کی اس "تحقیق" نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ آپ اپنا وقت ڈان میں نہ ضائع کریں۔ قدم بڑھائیں اور عالمی شہریت یافتہ مارکسی اور غیر مارکسی دانشوروں سے رابطہ کریں اور ان کو اپنی اس "خوبصورت" تحقیق کے بارے میں آگاہ کریں۔
اکمل سومرو Sep 25, 2015 09:43pm
بہت شکریہ حوصلہ افزائی کا۔ میں اس تحریر کو ریسرچ پیپر کی شکل دے رہا ہوں مجھے اُمید ہے یہ کسی جریدے میں شائع ہوگا۔@Shahab Saqib
yousaf khanph Sep 26, 2015 09:55am
i think your article open our eyes we have to more research which is also not good for capitalists.
اکمل سومرو Sep 27, 2015 10:33pm
ڈاکٹر تعیمور رحمان صاحب، مجھے انتہائی خوشی ہوتی اگر آپ اپنے تبصرے میں یہ بھی بتا دیتے کہ یہ کہاں سے لیا ہے تو مجھے خوشی ہوتی، آپ نے جس تحریر سے یہ پیراگراف اُٹھایا ہے وہ دو ہزار گیارہ میں چھپی اور آپ نے اس تحریر کا پورا پیراگراف اُٹھا کر اپنے نام سے تبصرے میں لکھ دیا ہے۔حالانکہ میں نے بھی اسی طرح کی چربہ سازی پر اپنا بلاگ لکھا ہے جو کسی کی تحریر کو اپنے نام سے شائع کردیتے ہیں۔ آپ کے تبصرے کا پورا لنک بھی ساتھ بھیج رہا ہوں۔ بہرحال بہت شکریہ پڑھنے کا۔۔۔ http://sdonline.org/.../principles-of-socialism.../
اکمل سومرو Sep 27, 2015 10:41pm
@Dr. Taimur Rahman میں صرف اتنا کہوں گا کہ مارکسزم آج خود فرقہ واریت کا شکار ہے، ماؤسٹ گروپ، ٹراٹسکی گروپ، لینن گروپ،اُوٹوپین سوشلسٹ، ڈائیلکٹیکل سوشلسٹ اور پاکستان میں تو اس کے مزید فرقے موجود ہیں۔ مارکس کی اصل فلاسفی تو نجانے کہاں کھو کر رہ گئی ہے۔ اور دوسرا یہ کہ آپ نے جو تبصرہ کیا اسے جہاں سے اُٹھایا اُسکا حوالہ دینا دیانت مندی تھا۔ شکریہ۔
[email protected] Sep 28, 2015 04:32pm
you have written that after the end of cold war rise of Russia and Chine in Asia is a threat to Capitalism. I don't understand it how. Today's China and Russia has produced some of the biggest capitalists. If you see the list of richest people of world one would see many from Russia and China. Both these countries have adopted many of the capitalist ideas. With globalization and huge and rising individual fortunes of many of their citizens it is hard to think if these countries would at any time in near future revert back to Communist or Socialist ideas. Common Russian & Chinese citizen is now basking in the newly acquired wealth so their thinking is now more capitalist than communist or socialist. I think it is a changing reality and capitalists are not afraid of Chinese of Russians rather they are now taking part in the growth of capitalism in the these countries.
اکمل سومرو Sep 28, 2015 11:10pm
جی آپ نے ٹھیک کہا۔ روس اور چین نے سرمایہ دارانہ نظام کے پیدائش دولت کے طریقوں کو اپنایا ہے سرمایہ دارانہ نظام دولت پر قبضہ کر کے اسے چند خاندانوں تک محدود کر دینا ہے اور تقسیم دولت کے سرمایہ دارانہ اصولوں پر عمل درآمد کرتا ہے۔ چین اور روس یا پھر وینزویلا ، کیوبا وغیرہ نے پیدائش دولت کے نظریات کے تحت ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے اپنے ملکوں میں کام کرنے کی اجازت دی۔ سرمایہ دارانہ نظام صرف دولت کو جمع کرنے کے نظریے تک محدود نہیں بلکہ ملڑی ازم کے اس دور میں سرمایہ دار ممالک جنگیں بھی مسلط کرتے ہیں اور غربت کے پھیلاؤ کا بھی مؤجب بنتے ہیں۔ میں نے چین اور روس کا حوالہ اسی تناظر میں دیا تھا کہ عالمی سامراج اور اسکے اتحادی سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے تناظر میں دُنیا میں جنگیں مسلط کر رہے ہیں جبکہ روس چین اسکی مخالفت کرتے ہیں۔ باقی ان ممالک نے اپنے سماجی و معاشی ضروریات کے تحت پالیسیاں بنائی ہیں لیکن ہم ان پالیسیوں کو خالص سرمایہ دارانہ نظام نہیں کہہ سکتے۔@ وہ کسی نہ کسی شکل میں کیمونزم کے پیروکار ہیں۔[email protected]
اکمل سومرو Sep 28, 2015 11:27pm
@ [email protected] ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریتوں نے مشرق وسطی، افریقہ، جنوبی ایشیاء میں انسانیت کا قتل عام کرایا بھوک مسلط کی اور یہاں کی معیشت کو اپنے کنٹرول میں کیا۔ آج کیمونزم کو سرمایہ دارانہ جمہوریتوں سے جو خطرہ ہے میرے خیال میں یہ بہترین اسکا تو ڑ ہے کہ کیپٹل ازم کے پیدائش دولت کے اُصولوں کو اپنا لو۔ اگر آج ہم اسلام کے چودہ سو سال پرانے طریقہ حکومت کو نافذ کریں یا کیمونزم کے 1917ء کے نظریات کو نافذ کریں گے تو ناکامی ہوگی دیکھو آج کیوبا نے 70سال بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے ہیں آخر کوئی تو وجہ ہے؟ہمیں چین اور روس کی وہ حکمت عملی سمجھنی چاہیے جس سے وہ جنگوں کے خلاف عالمی سامراج کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ اب اگر یہ ممالک خالصتا کیمونزم کی فلاسفی پر عمل پیرا نہیں ہیں تو ان پر تنقید کی جاتی رہنی چاہیے۔ لیکن ان ممالک کو بھی سرمایہ دار ممالک کی فہرست میں شامل کرنا مناسب نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024