انڈس ڈیلٹا کے ساحل کی جہاں اپنی خوبصورتی ہے وہاں اپنے دکھ اور درد بھی ہیں۔ کراچی کے 'بابا بھٹ آئلینڈ' سے چلے جائیں تو شاہ بندر تک آپ کو چھوٹے بڑے تین سو سے زائد جزیرے ملیں گے۔ ان میں سے 70 سے زائد جزیروں پر ہزاروں خاندان صدیوں سے آباد ہیں۔ یہ مچھیرے ان جزیروں پر جنم لیتے ہیں، وہیں ان پر جوانی کی بارشیں برستی ہیں، وہیں ان پر بڑھاپے کی چاندی آتی ہے اور ان ہی جزیروں پر سمندر کی لہروں کی آواز سنتے سنتے ان کے سانس کی آخری ڈور ٹوٹتی ہے۔
پتہ نہیں اس سمندر کی چاہ میں کون سی گہرائی چھپی ہوئی ہے کہ جو ایک دفعہ اس کے سحر میں گرفتار ہوتا ہے وہ آخری سانس تک اس کے سحر میں جکڑا رہتا ہے۔ لیکن سمندر کی بڑھتی ہوئی پانی کی سطح ان جزیروں کا وجود مٹانے پر تلی ہوئی ہے اور پانی کی یہ ضد ہزاروں خاندانوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ جزیروں سے سمندر کے کناروں تک کا یہ ہجرتی سفر اس ساحلی پٹی کے مقدر کا سب سے بڑا سفر ہوگا اور فطرت سے دور جانے کا درد نہ جانے کتنے برس ان کے روح میں لگے ہوئے زخم کی طرح رستا رہے گا۔
جب میں صبح کے وقت کیٹی بندر کے چھوٹے سے شہر کی ویران سی گلیوں سے گذر رہا تھا، تو اس وقت بچے اسکول میں قومی ترانہ گا رہے تھے۔ رات کی پڑی اوس کی وجہ سے گلیوں کی نمک سے بھری مٹی ابھی گیلی تھی۔ میں جب ان جزیروں پر جانے کے لیے جیٹی پر پہنچا تو میرا میزبان ایک کشتی اور دو ملاحوں کے ساتھ چلنے کے انتظار میں کھڑا تھا۔ سورج اگ آیا تھا مگر بھیگی ہوئی رات کی ٹھنڈک اب بھی گلیوں میں بہتی تھی۔ کہتے ہیں کہ سمندر کے پانیوں کا مدّ و جزر کا سلسلہ اس کو حرکت میں رکھتا ہے۔ ہم نے جب کیٹی بندر سے مغرب کی طرف اپنا سفر شروع کیا تو سمندر خالی کناروں کو بھر رہا تھا۔
![]() |
انڈس ڈیلٹا میں زیادہ تر لوگوں کا پیشہ مچھلی پکڑنا ہے. |
![]() |
انڈس ڈیلٹا میں زیادہ تر لوگوں کا پیشہ مچھلی پکڑنا ہے. |
![]() |
حاجی اسماعیل جت گاؤں کے اسکول کی 2006 میں لی گئی تصویر. |
![]() |
حالیہ تصویر. |
سمندر میں آپ جیسے آگے چلتے جاتے ہیں تو ایک عجیب سی خاموشی بھی آپ کے ساتھ میں سفر کرتی ہے۔ لہروں کا مدھم سا شور اور کبھی کبھار کسی پرندے کی آواز آپ تک پہنچ جاتی ہے۔ جہاں مٹی کا ٹیلہ نظر آتا ہے وہاں تیمر کے بیج اگ آئے ہیں۔ کچھ کشتیاں سمندر سے مچھلی کا شکار کر کے واپس لوٹ رہی ہیں۔ ہم کچھ کلومیٹر ہی چلے ہوں گے تو ایک ویران سا جزیرہ نظر آیا اور اس پر ٹوٹے پھوٹے کمرے نظر آئے۔ میرے ساتھ کیٹی بندر کے کلیم اللہ شاہ بخاری ساتھ میں تھے۔ اس نے کہا: "آج سے 25 برس پہلے یہاں حاجی اسماعیل جت کا بڑا گاؤں تھا۔ ایک سو سے بھی زائد گھر تھے یہاں پر اور یہ پرائمری اسکول کی عمارت ہے۔"
میں سوچ رہا تھا کہ جہاں ایک سو سے زائد خاندان آباد ہوں وہ ایک بڑا گاؤں ہی ہوگا۔ صبح کے وقت اسکول کے آنگن میں بچوں کی اسمبلی ہوتی ہوگی، بچے اپنی باریک آواز میں قومی ترانہ گاتے ہوں گے اور ایک ردھم میں سر کو ہلاتے ہوں گے۔ معصوم آوازوں کا ایک سماں سا بندھتا ہوگا۔ گھر ہوں گے، گھروں کے آنگن ہوں گے، اور ان آنگنوں پر شام دھیرے سے اترتی ہوگی۔ اوطاقوں پر مہمان آتے ہوں گے، سردیوں کی موسم میں الاؤ جلتے ہوں گے، اور قہقہے لگاتے گپیں مارتے رات گزر جاتی ہوگی، اور مشرق کے ماتھے پر صبح کی لالی پھیل جاتی ہوگی۔
پر یہ اب تصور میں مہکتے قصے ہیں کیونکہ لالی تو اب بھی امبر کے ماتھے پر پھیلتی ہے، پر اب یہاں نہ کوئی قہقہہ ہے اور نہ ہی کوئی اسکول کی گھنٹی جو بچوں کو بلانے کے لیے بجتی ہے۔ بس ایک روح کی پاتال تک اترتی ہوئی خاموشی ہے اور سمندر کی لہریں ہیں جو بچے ہوئے جزیرے کو نگلنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اب کچھ وقت کے بعد اس اسکول کی یہ خستہ دیواریں بھی دیکھنے کو نہیں ملیں گی۔ بس باتیں رہ جائیں گی جو وزٹ پر آنے والوں کو بتائی جائیں گی۔ اب کوئی بھروسہ کرے نہ کرے یہ اس کا کام ہے۔
![]() |
پہلے یہ جزیرے سمندر سے کافی بلند اور خشک تھے، مگر ہر گذرتے سال کے ساتھ سمندر آگے آتا جا رہا ہے. |
![]() |
![]() |
پہلے یہ جزیرے سمندر سے کافی بلند اور خشک تھے، مگر ہر گذرتے سال کے ساتھ سمندر آگے آتا جا رہا ہے. |
![]() |
سمندر کے آگے آنے کی وجہ سے یہ جزیرے رہنے کے قابل نہیں رہے ہیں. |
تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو ماضی میں یہ بڑا زرخیز علاقہ رہا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کی یہ ساری کوسٹ بیلٹ دھان اور دیسی گھی کے حوالے سے بڑا مشہور تھا۔ جیمس برنس 1828 میں جب کچھ کے راستے اونٹوں پر سندھ آیا تھا تو راستے میں اسے ایک سو اونٹوں کا قافلہ ملا تھا جن پر دیسی گھی کے ڈبے لدے ہوئے تھے اور کچھ کی طرف جا رہے تھے۔
آپ چلتے جائیں راستے میں آپ کو تیمر کے جنگل ملیں گے۔ اور اگر آپ خوش نصیب ہیں تو Brahminy kite (چیل جیسا ایک پرندہ) دیکھنے کو مل جائے گی، اور اس سے بھی زیادہ خوش نصیب ہیں تو فلیمنگو بھی دور سے دکھائی دے سکتے ہیں۔ اور ہم خوش نصیب تھے کہ 'برہمنی کائیٹ' اور 'فلیمنگو' دیکھنے کو ملے۔
ہم جب 'صدیق دبلو' کے گاؤں پہنچے تو وہ گاؤں جو 15 برس پہلے 70 سے زائد گھروں پر مشتمل تھا وہاں اب 30 سے زیادہ گھر نہیں ہیں۔ بہت سے گھر ویران پڑے تھے اور کچھ خستہ ہو کر گر گئے تھے۔ ایک اسکول بھی بنا ہوا ہے مگر وہ خستہ نہیں ہے اس لیے گرا نہیں ہے۔ کتنا اچھا لگتا ہے جب سمندر کے بیچ کسی جزیرے پر آپ کو اسکول نظر آجائے اور وہ بھی اچھی حالت میں۔ مگر حالت باہر سے اچھی تھی میں جب اندر گیا تو ویرانی تھی اور ویرانی کی بوڑھی آنکھوں میں مایوسی بستی تھی۔ شاید بہت عرصے سے اسکول بند تھا۔ اسکول بستے اچھے لگتے ہیں۔ اسکول کا یونیفارم، آنکھوں میں سرمے کی لہر، سر میں سرسوں کا تیل اور کنگھی سے سنورے ہوئے بال، بستے بستے میں کتابیں اور اسکول کے آنگن میں اسمبلی اور معصوم آوازوں میں گایا ہوا ترانہ۔
![]() |
گاؤں صدیق دبلو کا اسکول. |
![]() |
گاؤں صدیق دبلو. |
ہم اسی اسکول کے سامنے والے گاؤں میں گئے مگر کشتی پر۔ ہم جب کشتی سے جزیرے پر اترے تو مردوں نے آگے بڑہ کر آؤ بھگت کی۔ عورتیں اپنے کام میں مصروف تھیں۔ کچھ عورتیں دھوپ میں مچھلی کو خشک کرنے کے لیے رکھ رہی تھیں۔ کچھ عورتیں دوپہر کا کھانا پکانے کی تیاری میں مصروف تھیں۔
کیونکہ ہم مہمان تھے اس لیے تیمر کی لکڑیوں اور گھاس سے بنی جھونپڑی میں ہمیں بٹھایا گیا۔ جزیروں پر گھر اس طرح سے بناتے ہیں کہ ہوا زیادہ سے زیادہ آسکے، اس لیے زمین والے حصے سے دو فٹ تک لکڑیوں کی دیوار کو بند نہیں کرتے۔ لہٰذا اب دھوپ باہر تھی اور سمندر کی ٹھنڈی نمکین ہوا لگتی اور فرحت دیتی۔
میں نے خیر محمد سے پوچھا: "پہلے یہ کتنا بڑا گاؤں تھا؟"
"بہت بڑا۔"
"اندازاً کتنے خاندان رہتے تھے یہاں؟"
"خاندان۔ خاندان تقریباً 70 سے بھی زیادہ تھے۔"
"اور اب کتنے ہیں؟"
"اب۔ اب۔ بیس پچیس گھر ہیں بس۔ وہ سامنے جو اسکول والا گاؤں تھا وہ سب چلے گئے کیٹی بندر۔"
![]() |
ایک گاؤں جو اب پانی چڑھنے کی وجہ سے ویران ہو چکا ہے. |
![]() |
"تم لوگ تو یہاں پر ہی رہوگے نا؟" میں نے یہ سوال جب خیر محمد سے کیا تو کچھ لمحوں کے لیے ایک درد کی لہر اس کی آنکھوں اور چہرے پر اگ سی گئی۔ بالکل ایسا غم جو اپنی کوئی پیاری سی چیز چھوڑنے پر ہوتا ہے۔ کچھ لمحوں کے بعد اس نے کہا: "ہم تو رہنا چاہتے ہیں پر سمندر یہاں رہنے نہیں دے گا۔ سمندر میں پانی بہت بڑھ گیا ہے۔ پہلے کتنی بھی تیز ہوائیں لگتی تھیں، طوفان آتے تھے، مگر ہمارے آنگن نہیں بھیگتے تھے۔ یہ جزیرے اوپر تھے۔ مگر اب پتہ نہیں جزیرے نیچے چلے گئے ہیں یا پانی اوپر ہوگیا ہے۔ اب تھوڑی بھی تیز ہوا لگتی ہے تو پانی آجاتا ہے۔ ہم بھی یہاں سے جانے کی سوچ رہے ہیں۔"
ہم نے خیر محمد سے ہاتھ ملایا، شکریہ ادا کیا، اور چھوٹے چھوٹے جزیرے دیکھتے ہوئے 'حجامڑو کریک' کی طرف روانہ ہوئے جہاں 'اسحاق دبلو' کا مشہور گاؤں ہے۔ مشہور اس لیے ہے کہ اسحاق دبلو اس گاؤں میں رہتا ہے، اور کیونکہ خوش مزاج ہے، اس لیے بس ہنستا رہتا ہے۔ ہم جب وہاں پہنچے اور اس کے بیٹے کے گھر میں اس سے کچہری کی تو وہ واقعی خوش مزاج ہی نکلا۔
اسحاق دبلو 80 برس کا ہے اور اس کے سارے دانت ہیں۔ اس کے مطابق دانت اب تک اس لیے ہیں کہ کبھی گٹکہ، پان، یا چھالیہ نہیں کھائی۔ اور یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ سندھ کے ساحلی علاقے کا ماہی گیر ہے اور گٹکا نہیں کھاتا۔ اس کے پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ وہ یہاں پر پیدا ہوا ہے اور 80 سے زیادہ جاڑوں کے موسم اس جزیرے پر گذارے ہیں۔
میں نے اس سے گذرے ہوئے دنوں کے متعلق پوچھا تو جو جواب آیا۔ اس میں دھان اور دیسی گھی کی خوشبو تھی۔ "میں جب جوان تھا تو یہاں سمندر نہیں تھا بلکہ دھان کی فصلیں ہوتی تھیں۔ دریا بادشاہ نے یہ ساری زمین بنائی ہے۔ دریا کی میٹھی نہروں سے پانی آتا جس پر ہم دھان اگاتے۔ 60 بھینسیں تو فقط میرے باپ جمعوں دبلو کی تھیں۔ یہ سمجھیں کہ ہزاروں بھینسیں تھیں اس پورے علاقے میں۔ جب گھاس بہت ہو تو بھینسیں کیوں نہیں ہوں گی؟
"جب میری شادی ہوئی تھی تو ڈھول بجانے والا 'گاڑہو' شہر سے آیا تھا۔ وہ ہمارا خاندانی ڈھول بجانے والا منگنہار ہے۔ شادی نہیں تھی میلہ تھا میلہ۔ دودھ مکھن کی فراوانی تھی۔ یہ پان اور گٹکہ کہاں تھا۔ ان گٹکوں نے تو نوجوانوں کو برباد کردیا ہے۔ اب کہاں ہے طاقت۔ وقت چلا گیا بابل سائیں۔ بس رہے نام اللہ کا۔ اب تو پانچ وقت نماز پڑھ کر دعا کرتا ہوں کہ آخر اچھی ہو۔"
![]() |
اسحاق دبلو. |
![]() |
![]() |
یہاں پینے کا پانی مہنگا ہے، اسی لیے اس کا ایک ایک قطرہ قیمتی ہے. |
![]() |
مچھیرے مچھلی پکڑنے کے لیے جال بن رہے ہیں. |
اسحاق نے اس بات کے بعد کچھ چٹکلے سنائے۔ گھر کے کونے میں ایک مرغی تھی جو انڈوں پر بیٹھی تھی۔ جب بھی کوئی دوسری مرغی اس کے قریب آتی تو مرغی برہم ہو جاتی اور غصے سے چونچ مار کر اسے دور بھگا دیتی۔ گھر کے کونے پر لکڑی کا اسٹینڈ تھا جس پر رلیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک دیوار پر المونیم کی کیتلی لٹکتی تھی اور جنوبی دیوار پر ڈیڑھ فٹ کا لکڑی کا بکسہ لگا ہوا تھا جس میں سرسوں کے تیل کی شیشی، سرمہ دانی، اور تبت پاؤڈر کا ڈبہ پڑا ہوا تھا۔ سولر یونٹ کی وجہ سے ایک دو انرجی سیور چھت پر لٹکتے تھے جو یقیناً رات کو جلتے بھی ہوں گے۔
اسحاق دبلو کی یہ ساری ملکیت تھی۔ جھونپڑی سے باہر تیز دھوپ تھی اور اسحاق دبلو کے بیٹے کیٹی بندر سے پینے کا پانی خرید کر لائے تھے۔ ٹینکر کا وہ پانی کشتی کے پیٹ میں پڑا ہوا تھا اور وہ وہاں سے پانی نکال کر وہ اپنے ڈرم بھر رہے تھے۔ پانی کا ٹینکر کیونکہ چار ہزار کا تھا اس لیے ان کی کوشش تھی کہ میٹھے پانی کا ایک قطرہ بھی ضائع نہ ہو۔
ماہی گیروں پر کام کرنے والی تنظیم 'پاکستان فشر فوک فورم' کے چیئرمین محترم محمد علی شاہ سے جب ان ڈوبتے جزیروں اور ان جزیروں سے نقل مکانی کرنے والے ماہی گیروں کے متعلق پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ "یہ ایک المیہ رہا ہے کہ ماہی گیروں سے کسی نے بھی اچھا رویہ نہیں رکھا۔ خاص کر انڈس ڈیلٹا کے ان جزیروں پر رہنے والے ماہی گیروں کے متعلق۔ وہ وہاں مشکل ترین زندگی گزار رہے ہیں مگر پھر بھی خوش ہیں۔
"ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوٹری ڈاؤن اسٹریم سے سارا برس اتنا پانی چھوڑا جائے جتنا چھوڑنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ 10 یا 12 ملین ایکڑ فٹ پانی ہے تو کم، کیونکہ یہاں ضرورت 35 ملین ایکڑ فٹ کی ہے۔ مگر یہ پانی بھی فقط بارشوں کے موسم میں چھوڑتے ہیں جس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔
"کوٹری ڈاؤن اسٹریم سے پانی نیچے نہ جانے سے نہ صرف ایک ڈیلٹائی کلچر برباد ہورہا ہے، بلکہ سمندر کے آگے بڑھ آنے سے زرخیز زمینیں بھی بنجر ہوتی جا رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے سمندر کے پانی کی سطح بڑھ رہی ہے اور ساری دنیا میں بڑھا ہے مگر دوسرے ملکوں میں اس طرح ڈیلٹا ختم نہیں ہو رہے جس طرح یہاں ہو رہا ہے۔ ایک اندازہ کریں کہ یہ جزیرے جو ڈوب رہے ہیں، ان کے لوگ جب دوسری جگہ جا کر بسیں گے تو ان کے لیے زندگی کتنی مشکل ہوگی۔ بہت سارے نفسیاتی مسائل پیدا ہوں گے ان کے لیے۔"
![]() |
![]() |
![]() |
جو گاؤں بچ چکے ہیں، وہاں سے بھی لوگ نقل مکانی کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں. |
![]() |
اگلے ایک سے دو سالوں میں ان دیہاتوں میں صرف پانی کا شور ہوگا. |
یہاں زندگی بہت مشکل ہے بلکہ انتہائی مشکل ہے۔ لیکن ان لوگوں کے دل اتنے وسیع اور شاہوکار ہیں کہ خوشی سے رہتے ہیں۔ اور یہیں پر رہنا چاہتے ہیں۔ مگر اب زیادہ وقت نہیں ہے ان کے پاس کہ وہ فطرت کی جھولی میں رہ سکیں اور سمندر کی لہروں کی لوری میں سو سکیں۔ اس بات کا اندازہ اسحاق دبلو کو بھی ہے۔ وہ یہاں سے جانا نہیں چاہتا کیونکہ کوئی بھی انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، جن آنگنوں میں دوڑ کر، کھیل کر بڑا ہوتا ہے، جن آنگنوں سے اس کے پیاروں کے جنازے اٹھے ہیں، وہ زمین نہیں چھوڑنا چاہے گا۔ مگر انسانی ترقی کی قیمت یہی ہے کہ لوگ اپنے آنگنوں کو چھوڑیں اور کہیں اور جا کر بسیں۔
مجھے نہیں پتہ کہ دو برس کے بعد جب اس جگہ پر آؤں گا تو بھی جزیرہ ڈوب رہا ہوگا، یا ڈوب چکا ہوگا۔ کیا میں خود کو خوش نصیب سمجھوں کہ اس جزیرے کو آخری بار دیکھ پا رہا ہوں اور اس کی کچھ تصویریں میرے پاس ہیں؟ ہم شہروں میں رہنے والے انسان کتنے مطلب پرست ہوتے ہیں مگر اس اسحاق دبلو جیسے اور بھی بہت سے اسحاق ہیں جنہوں نے ایک زمانہ گزار دیا ان جزیروں پر۔ عید کے کئی چاند گھر کے آنگنوں سے وقت کے آسمان پر دیکھے۔ کئی بارشیں اور سردیاں یہاں گزار دیں۔ لیکن اب سانس کی ڈوری یہیں ٹوٹنے کی ایک آخری خواہش شاید پوری نہ ہوسکے۔ مجھے نہیں پتہ کہ خوش بختی اور بدبختی کے بیچ میں کتنا باریک فرق ہوتا ہے۔
میں اسحاق دبلو سے گلے ملا اور شاید اس جزیرے پر آخری بار گلے ملا۔ کہنے کے لیے میرے پاس کچھ تھا نہیں اس لیے کچھ کہہ بھی نہیں سکا۔ ہم جھونپڑی سے باہر آئے۔ اسحاق کے پوتے مچھلی پکڑنے کے لیے جال بن رہے تھے۔ ایک جھونپڑی سے دھواں نکل رہا تھا۔ شاید شام کی چائے بن رہی تھی۔ ہم نے کشتی میں بیٹھ کر سارے جزیرے والوں الوداع کہا اور ہماری کشتی کیٹی بندر کی طرف چل پڑی۔
![]() |
یہاں فلیمنگو اور دیگر کئی طرح کے پرندے بھی نظر آتے ہیں. |
![]() |
اس جزیرے میں ابھی تو خشکی زیادہ ہے، مگر جانے کب تک. |
![]() |
جہاں کبھی خشکی تھی وہاں اب سمندر کا پانی چڑھ آیا ہے. |
![]() |
مینگروو کا ایک پودہ. |
واپسی کے لیے ہم نے دوسرا راستہ لیا لیکن منظر نہیں بدلے۔ سمندر کی لہریں جزیروں کی مٹی کو چاٹ رہی تھیں۔ پھر جیسے کیٹی بندر نظر آیا تو دو چھوٹی سی کشتیاں نظر آئیں۔ جن بچوں نے ان کشتیوں کو بنایا تھا وہ ہی ان میں سوار تھے۔ چھوٹے سے بادبان اور لہروں کے سہارے دھیرے دھیرے سے چلتیں اور بچے خوش ہوتے کہ ان کی بنی ہوئی کشتیاں سمندر میں تیر رہی ہیں۔
سمندر کے سحر سے کوئی نہیں بچ سکا۔ اور ہوسکتا ہے ان بچوں میں ایک اسحاق دبلو ہو اور جب 80 برس کا ہو جائے تب تک کیٹی بندر کا جزیرہ بھی سمندر میں دفن ہو چکا ہو۔
— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ۔
![]() |
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں