• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

سعادت حسن اور منٹو

شائع September 20, 2015 اپ ڈیٹ September 6, 2017
— پبلسٹی فوٹو
— پبلسٹی فوٹو
منٹو کی حقیقی بیٹیاں نگہت، نزہت اور نصرف اداکار سرمد کھوسٹ اور ثانیہ سعید کے ساتھ کھڑی ہیں— بشکریہ منٹو فلم ڈاٹ کام
منٹو کی حقیقی بیٹیاں نگہت، نزہت اور نصرف اداکار سرمد کھوسٹ اور ثانیہ سعید کے ساتھ کھڑی ہیں— بشکریہ منٹو فلم ڈاٹ کام

پاکستان کے سب سے بڑے افسانہ نگار کو سعادت حسن سے منٹو بننے میں جتنی شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا، اس توڑ پھوڑ سے جنم لینے والی کہانیاں معاشرے کے لیے زناٹے دار تھپڑ ثابت ہوئیں اور منٹو کے لیے گالیاں۔

منٹو ایک آدمی نہیں پورے عہد کا نام تھا۔ ایک ایسا عہد، جس میں سچے ادیب کی تخلیقی اذیت قسط وار فروخت ہو رہی تھی۔ وہ اپنے خون سے سینچے ہوئے احساسات کو افسانوں میں قلم بند کر رہا تھا، ہر کہانی اس کی آنکھیں سرخ اور زخم ہرے کر رہی تھی۔

معاشرے کی برہنگی اور ہجرت کے مصائب کا کرب لکھنے کی پاداش میں منٹو کے دامن پر کئی ہاتھ پڑے، لیکن اس کے تخلیقی بہاؤ پر کوئی بند نہ باندھ سکا۔ وہ کہانیاں لکھتا گیا اور معاشرے کے چہرے سے نقاب الٹاتا گیا۔ معاشرے اور منٹو کے مابین جنگ میں جیت منٹو کی ہوئی، اسی لیے آج تک اس کا فن اور شخصیت موضوعِ بحث ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی حال ہی میں نمائش ہونے والی فلم ”منٹو“ ہے۔ اس کوایک فقرے میں لکھا جائے، تو یہ فلم سعادت حسن کی زندگی کی عکاس ہے، نہ کہ منٹو کے بارے میں۔

فلم کے پوسٹر پر لکھے جملے کے مطابق اس کو ”سوانحی فلم“ کے طور پر بنایا گیا۔ تکنیکی طور پر ایسی فلم میں حقیقی کرداروں اور واقعات پر انحصار کیا جاتا ہے، جو کسی حد تک اس فلم میں ہیں بھی، مگر مجموعی طور پر نہیں۔ شاہد محمود ندیم نے فلم کا اسکرپٹ لکھا، مگر نہ جانے مسودے کی تکمیل کے لیے کیا ذرائع استعمال کیے، وہ بہتر جانتے ہوں گے، لیکن یہ بات حتمی ہے کہ فلم کے تمام واقعات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں، اور اس فلم کی کہانی میں فکشن کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے۔

میں جو یہ بات اتنے یقین سے لکھ رہا ہوں، وہ منٹو کی زندگی کے آخری برسوں میں ان کے انتہائی قریب رہنے والے ایک شاگرد نے مجھ سے کہی ہے، وہ خود بھی عہدِ حاضر کا ایک بڑا ادیب ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ معاشرے نے جس طرح منٹو کو دربدری اور فاقہ کشی کی زندگی کی طرف دھکیلا، اسی طرح یہ ادیب بھی منٹو جیسی معاشرتی فراموشی اور غفلت کا شکار ہے۔

انور سجاد — فوٹو بشکریہ خرم سہیل
انور سجاد — فوٹو بشکریہ خرم سہیل

حیرت ہے کہ منٹو کی زندگی کے آخری برسوں پر بننے والی فلم کو تخلیق کرتے وقت کسی کو بھی منٹو کے اس لاڈلے شاگرد کا خیال نہ آیا۔ اس ادیب نے بھی منٹو کی طرح معاشرے کے گال پر اپنی کہانیوں کے طمانچے رسید کیے، پھر کیسے ممکن تھا کہ معاشرہ سزا میں اسے تنہائی نہ دیتا؟

یہ وہی ادیب ہے جس کے لیے منٹو نے حلقہء اربابِ ذوق، لاہور کی ایک نشست میں حاضرین کے سامنے کہا تھا ”تمہاری کہانیاں ان کو سمجھ نہیں آئیں گی۔“ ان دونوں میں معاشرے کے لیے تلخی کا باہمی احساس یکساں تھا اور یہی جرم بنا دونوں کا۔ عہدِ حاضر میں منٹو کے اس پرتو کا نام انورسجاد ہے۔ ان کے بقول ”صفیہ بھابھی نے منٹو صاحب کا ہرممکن خیال رکھا، منٹو اپنی تینوں بچیوں سے بے حد پیار کرتے تھے، یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ان کی کوئی بچی گھر میں بیمار پڑی ہوتی اور وہ جتن سے کمائے ہوئے پیسوں سے دوا لانے کے بجائے شراب خرید لاتے“ (فلم میں ایسا ہی دکھایا گیا ہے)۔

انور سجاد کے مطابق ”یہ بچیاں اس وقت بہت کمسن تھیں،انہیں یاد بھی نہیں ہوگا، تو بھلا پھر وہ کون سا حوالہ ہے، جس کو استعمال کرتے ہوئے فلم میں منٹو کی کردار کشی کی گئی۔“ اسی طرح کئی اور مناظر بھی ہیں، جو حقیقت سے چغلی کھاتے ہیں۔ انور سجاد صاحب کی گفتگو کے بعد اسکرپٹ پر سوانحی ہونے کا گمان مشکوک ہونے لگا ہے۔ امید ہے کہ شاہد محمود ندیم اس پر ضرور اپنی رائے دیں گے۔

فلم ”منٹو“ کا آغاز باصلاحیت رقاصہ سوہائے ابڑو اور تھیٹر کے اداکار وجدان شاہ کے رقص سے ہوتا ہے، جس کے ذریعے منٹو کی افسانہ نگاری کو علامتی طور پر کامیابی سے پیش کیا گیا۔ پوری فلم میں صداکاری اور فلم کی کہانی ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ صداکاری کے فرائض سرمد کھوسٹ نے نبھائے، جبکہ فلم کا مرکزی کردار ”منٹو“ بھی انہوں نے ہی ادا کیا۔

فلم میں صداکاری سے اداکاری پر آتے جاتے یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ سرمد صاحب کب کہانی سنا رہے ہیں اور کب مکالمے ادا کر رہے ہیں۔ یا تو ان کے مکالموں کی ادائیگی اتنی اچھی تھی کہ صداکاری میں ان کا رنگ غالب تھا، یا پھر وہ صداکاری میں اتنے ڈوبے ہوئے تھے کہ مکالموں کو بولنے کے بجائے پڑھتے ہی چلے گئے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ فلم منٹو میں سب سے مضبوط پہلو فلم کی ہدایت کاری تھا، جس کے سو فیصد مستحق بھی سرمد کھوسٹ ہی ہیں۔ فلم کے مناظر کی عکس بندی، کرداروں کی بناوٹ، ان کا تسلسل، رنگوں کا استعمال، تدوین، برقی اور صوتی تاثرات نے فلم کی کہانی کو متاثر کن بنا دیا، جس کی آڑ میں بہت کچھ چھپ گیا۔

موسیقی کے پہلو سے بھی فلم میں مجید امجد کی نظم ”کون ہے یہ گستاخ“ کو جاوید بشیر نے خوب نبھایا اور میشا شفیع نے بھی بخوبی اپنی ذمے داری ادا کی۔ پس منظر کی موسیقی بھی قابل ستائش تھی، جس کے لیے اس فلم کے موسیقار جمال رحمان کو داد ملنی چاہیے، البتہ غالب کے کلام کو بے سُرے انداز میں گانے پر اگر کبھی اعزازات دینے کا فیصلہ ہوا تو علی سیٹھی اول انعام کے حقدار ہوں گے۔ تاثیر سے عاری اس گیت میں ان کی گائیکی سے یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ استاد نصیرالدین سامی کے شاگرد ہیں۔

— پبلسٹی فوٹو
— پبلسٹی فوٹو

فلم منٹو میں اداکاروں کے انتخاب میں سب سے بڑی غلطی سرمد کھوسٹ کا خود کو منتخب کرنا تھا۔ منٹو صاحب کی کم گو اور بارعب شخصیت ان کے نرم مزاج لہجے کی متحمل نہیں ہوسکی، صرف حلیہ بنا لینے سے تو منٹو کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بقول احمد ندیم قاسمی:

صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں

میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں

منٹو صاحب کی بیوی صفیہ کا کردار ثانیہ سعید نے نبھایا اور وہ فلم بینوں پر اپنے مکالموں اور چہرے کے تاثرات سے سحر طاری کرنے میں کامیاب رہیں۔ میڈم نور جہاں کے روپ میں صبا قمر نے اپنی زندگی کا یادگار کام کیا۔ منٹو کے لکھے ہوئے افسانوں کے کرداروں میں سب سے شاندار کام عرفان کھوسٹ کا ہے۔ انہوں نے مختصر کردار کے باوجود منٹو کی تحریروں کے درد اور کرداروں کی اذیت کو مکمل طور پر بیان کر دیا۔ ان کے چہرے سے بہتے ہوئے آنسوؤں میں ہجرت کرنے والوں کے دکھوں کی تپش صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ بے شک وہ ہمارے عظیم اداکارہیں۔ ان کے بعد اگر کوئی کردار اسکرین پر چھائے، تو وہ شمعون عباسی اور یُسرا رضوی ہیں، جنہوں نے خاموشی کی زبان میں سب کچھ کہہ ڈالا۔ ریحان شیخ، نمرا بچہ، عدنان جعفر اور فیصل قریشی بھی اپنی اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔ ارجمند رحیم، نادیہ افگن، سویرا ندیم، ماہرہ خان اور اظفر رحمان کی اداکاری بوجھل رہی۔ ان میں سے اکثریت کردار بھرتی کے محسوس ہوئے۔

منٹو کی حقیقی بیٹیاں نگہت، نزہت اور نصرف اداکار سرمد کھوسٹ اور ثانیہ سعید کے ساتھ کھڑی ہیں— بشکریہ منٹو فلم ڈاٹ کام
منٹو کی حقیقی بیٹیاں نگہت، نزہت اور نصرف اداکار سرمد کھوسٹ اور ثانیہ سعید کے ساتھ کھڑی ہیں— بشکریہ منٹو فلم ڈاٹ کام

شنید ہے کہ اس فلم کے بعد منٹو پر بنایا ہوا ڈراما سیریل بھی عنقریب نشر ہوگا، بقول سرمد کھوسٹ ”اس میں پوری طرح کرداروں سے انصاف کیا گیا ہے“۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو، مگر اس فلم میں تو منٹو کو انصاف نہیں ملا۔ البتہ انہوں نے فلم کے میڈیم میں منٹو کو بطور موضوع منتخب کیا، اس انتخاب اور فیصلے کے لیے یقیناً وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

فلم کی عوامی تشہیر اور گفتگو کے زیادہ تر سیشن انگریزی زبان میں ہوئے۔ ایک ایسا دور جس میں کارپوریٹ سیکٹر کی مدد کے بغیر کوئی چیز نہیں بن سکتی اس میں سرمد صاحب منٹو کو کمرشلائزیشن کی دہلیز تک تو لائے، چاہے اس میں 60 برس ہی لگ گئے۔ اور کارپوریٹ والوں کی زبان تو انگریزی ہے، تو پھر فلم کی آفیشل ویب سائٹ کی زبان اردو کیسے ہوسکتی تھی؟ یا ان کی ترجیح وہ زبان کیسے ہوسکتی تھی جس میں منٹو نے لکھا اور جس کے بولنے والوں کے لیے یہ فلم بنائی گئی۔

منٹو کا اپنی قبر پر لگانے کے لیے لکھا گیا کتبہ
منٹو کا اپنی قبر پر لگانے کے لیے لکھا گیا کتبہ

منٹو صاحب اپنی زندگی کے ان آخری برسوں میں بہت متحرک تھے، ان کی ادبی سرگرمیاں، دوستیاں، عدالتی کارروائیاں اور دیگر پہلو فلم میں پوری طرح شامل نہ ہونے سے یہ فلم ادھوری اور کہانی تشنہ محسوس ہوئی۔ کارپوریٹ سیکٹر کا منٹو فلم میں بہت بے بس دکھائی دیا، جبکہ وہ حقیقی زندگی میں کافی بے باک اور جرات مند شخص تھے۔

فلم کے ہدایت کار سرمد کھوسٹ بہت عمدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے مستقبل میں ابھی بہت کام کرنا ہے لیکن فلم کے میڈیم میں منٹو کو تسخیر کرتے وقت اگر وہ ذہن نشین رکھتے کہ فلم ڈراما نہیں ہوتی اور اگر وہ سوانحی ہو، پھر تو اس میں ڈرامے کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہوتی، تو بہت سی تکنیکی غلطیوں سے بچا جا سکتا تھا۔ میں نے سرمد صاحب کاموقف لینے کے لیے متعدد بار ان سے رابطہ کیا، ہر بار انہوں نے ایک نئے وعدے کے ساتھ ٹال دیا۔ وہ اس فلم پربات کر لیتے تو شاید معلومات میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا۔

منٹو کے چاہنے والوں کا بھی منٹو پر اتنا ہی حق ہے جتنا سرمد صاحب کا۔ وہ منٹو پر بات کرنے کے بجائے سعادت حسن پر بنائی گئی فلم کی ”تشہیر اور فروغ کی سرگرمیوں“ میں اتنے مصروف رہے کہ انہیں شاید یاد ہی نہ رہا کہ میں اور منٹو ان کا انتظار کر رہے ہیں۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (50) بند ہیں

راشد نذیر Sep 20, 2015 08:39pm
خرم آپ کا ڈرامہ دل کا کیا رنگ کروں میں نے دیکھا ہے۔ آپ نے اسکے علاوہ کوئی اور ڈرامہ بھی لکھا ہے کیا؟
راشد نذیر Sep 20, 2015 10:04pm
منٹو اصل میں ایک بیس اقساط پر مبنی ڈرامہ ہے۔ مگر ڈرامہ کی فلم بندی کے بعد اسکو فلم کی شکل میں بھی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور اسکے لیے، ڈرامہ کے فلماۓ گۓ مناظر سے ہی دو گھنٹہ کی فلم تدوین کر کے نکالی گئ۔ یہ بات سرمد سلطان نے خود کہی ہے مگر اپنی خامیوں کے باوجود یہ فلم ایک اچھی کوشش ہے۔ اگر اسے فلم کے طور پر ہی لکھا جاتا تو شاید مزید بہتر فلم بن جاتی۔ منٹو کے مقدمات دکھاۓ گۓ ہیں مگر منٹو کے زوردار دلائل نہیں ہیں جو اس نے اپنے دفاع میں کہے تھے
muhammad jawad Sep 20, 2015 10:37pm
its great and need more serial i love it in shaa Allah it creat lot success
احمد Sep 21, 2015 12:44am
شکریہ اچھا جائزہ تھا۔ کم از کم ایک مختلف رائے تو سامنے آئی سجاد انور کے ذریعے۔
محمد یاسین Sep 21, 2015 01:29am
بلا شبہ ایک اچھی تحریر ہے ادب سے منسلق لوگوں نے منٹو فلم کے آنے بعد ضرور کچھ نہ کچھ لکھا اور وہ کچھ نہ کچھ اچھے الفاظ پر مشتمل نہ تھا ۔۔ گزشتہ دنوں انتظار حسین کا کالم اور حامد میر کا تجزیہ اس بات کی گواہی ہے کہ درد سب کو ہوا گو حامد میر جیو فلمز کی وجہ سے خاموش رہے مگر منٹو میں جتنی بھی خامیاں ہیں وہ سب ابھی سامنے آنے میں وقت لگے گا اس کے لئے سرمد صاحب کو سامنے آنا ہوگا سینما کے سامنے ٹکٹ لیتے ہوئے ایک نوجوان کی آواز کانوں میں پڑی کہ منٹو دیکھ لیتے ہیں تو دوسرا نوجوان فورا بولا ؛ نہیں اوئے رہن دے ساری فلم میں کھانستا رہتا ہے اور مر جاتا ہے؛ فلم دیکھنے سے پہلے اندازا ہوگیا تھا لوگوں پر کیا اثر پڑ رہا ہے پھر انتظار صاحب کا کالم پڑھ کر یقین ہوگیا کہ منٹو میں اذیت اور تکلیف حد سے زیادہ دکھائی گئی ہے سرمد کھوسٹ سے ملاقات میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ آپ نے منٹو کو کیوں ایسا دکھایا مگر جواب نہیں آیا
شان Sep 21, 2015 02:02am
خرم صاحب لفظ ڈرامہ گریک زبان سے ہے جس کے معنی دکھانا آپ کے بلاگ میں فلم اور ڈرامہ کو الگ الگ بیان کیا اس میں تضاد ہے کیونکہ جب ہم ہالی وود یا یورب یا یرانی فلم دیکھے تو ان فلموں زیدہ تر ڈرامہ ہی انداز دکھا یا جاا ہے مثال کہ طور پہ آپ ایران کے کسی بھی فلم کے بارے پڑھیئے اس ڈرامہ ہے بتایا جاتا ہے اور یورب میں انگلستان ، فرانس یا اٹلی یا گرمن یا ڈچ کے فلموں کو دیکھے تو اس میں بھی ڈرامہ انداز ملے گا مگر ہم لوگوں نے ڈرامہ کو صرف ٹی وی تک محدود کیا ہوا ہے اور رہا سوال بلاگ کا بہت عمدہ ہے بلاگ ہے
khurram Shail Sep 21, 2015 01:26pm
@راشد نذیر صاحب ۔ میں ڈرامانگار نہیں ، وہ کوئی اور صاحب ہوں گے ۔ جہاں تک منٹو فلم کی بات ہے ، تو آپ نے سرمد کی جو بات یہاں دہرائی ہے ، میں اپنی تحریر میں اس کاحوالہ دے چکا ہوں کہ شنید ہے ڈراما بھی نشر ہونے والا ہے ، تو ابھی تو جو چیز سامنے ہے صرف اس کو دیکھنا ہے کہ اس کا معیار کیا ہے ، اس لیے وہ بعد کی بات ہے ڈرامے میں وہ کیا جادو جگائیں گے ۔ حالیہ فلم منٹو کے اسکرپٹ میں تحقیقی نکتہ نظر سے خاصا ابہام ہے بحوالہ انور سجاد صاحب ، ان سے تو آپ جیسے اہل ادب واقف ہی ہوں گے ۔ تحریر کے لیے آپ کی توجہ کا شکریہ
khurram Shail Sep 21, 2015 01:28pm
@احمد صاحب ، آپ کا بھی شکریہ ، مگر جس طرح میڈیا میں اندھا دھند تعریفوں کا سلسلہ جاری ہے اس فلم کے لیے ، اس ماحول میں بہت سارے لوگوں کو یہ پہلو ناگوار گزرا ہے ، بی بی سی اردو سروس کے تبصرے کے مطابق چونکہ اس فلم کا موضوع ادبی ہے اس لیے یہی کافی ہے کہ اس فلم کو دس میں سے دس نمبر دے دیے جائیں ۔ تو اب بتائیے کیا بات کی جائے ۔
khurram Shail Sep 21, 2015 01:29pm
@ محمد یاسین صاحب ، میں آپ کی تمام تر بات سے متفق ہوں
khurram Shail Sep 21, 2015 01:37pm
@شان صاحب ، آپ کا شکریہ تحریر کو غور سے پڑھنے کے لیے ، مگر شاید آپ غور نہیں کرپائے میں نے جو کہا وہ صرف اور صرف ان فلموں کے بارے میں کہا جو بائیوپیک یا سوانحی کہانیوں پر بنائی جاتی ہیں ، کسی شخص کی زندگی پر جب فلم بناتے ہیں اوریہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ یہ حقیقی کہانی ہے تو پھر اس میں فکشن کی گنجائش نہیں ہوتی ، البتہ اگر سوانحی یا حقیقی کا صیغہ لگائے بغیر آپ کچھ بنانا چاہیں تو پھر آپ جو اور جیسا کی بنیاد پر کچھ بھی بنالیں ۔ مجھے امید ہے ، اپ میرے نکتہ نظر تک پہنچ گئے ہوں گے ۔ بلاگ میں ہم اپنے ہر خیال کو تفصیل سے بیان نہیں کرسکتے ، کیونکہ تحریر کا طویل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ، تو اگر ذرا سی توجہ سے آپ پڑھیں تو آپ دوستوں کے اکثر سوالوں کے جوابات تحریر میں ہی موجود ہوتے ہیں ، جیسے کہ آپ کی اس بات کا جواب ۔ بہرحال مثبت تنقید ہونی چاہیے اور اس کے لیے ڈان اردو کا پلیٹ فارم حاضر ہے اور میں بھی ۔ شکریہ
Agha Salman Baqir.... writer, critic, Afsana-nigar....Member Halqa Arbab e Zouq, Lhr Sep 21, 2015 03:20pm
abteda me khuch zarori bateen....... manto or hum Laxhmi Mansion me rehty thay...Manto k ghar ka No. 31 or hamary ghar ka No.26 thaa. ..batoor Naqqad me ny Manto sahib k afsany "Khool Do' pr jo Tangeed or Tajziya lekha, uss ko Cambirdge University ny 2004 sy apny Urdu nesaab me shamil keya hua hy.... Saaf lagta hy k Manto pr banai jany wali ye film, asaal haqiqat sy bohat door hy, na to Un k ghar ko expose keya gya or na he ghar ko ander sy dekhaya gya. jis ghar ko ba-toor Manto ka ghar dekhaya gya, wo asal ghar say boht mukhtalif thaa... Manto bicycle ke bajy Tangay me safar krna pasand krty thay.... jin galyun ko dekhaya wo Laxhmi mansion ke galyaan ni theen..... Film ka end Life part Manto ke zinghi say koi talluq ni rakhta thaa. Ager Manto afsanun sy uss ke zindghi ke kahani ko kasheed keya jata to, film Haqayq k qreeb or aam admi k leay zayada dilchasp hoti. es film ka Majmuii Tassur ye banta hy k ager koi baybaq write/story teller banta hy to uss ka anjaam Manto jaysa ho ga.
Syed Mehdi Bukhari Sep 21, 2015 04:08pm
Khurram Sohail sb , Buhat aala , aap ki baat sy muttafiq hon Regards/Syed Mehdi Bukhari/ Photographer/Writer
نور Sep 21, 2015 10:07pm
پیشہ ور نقاد نہیں ہوں۔ ایک فلم بین کی حیثیت سے منٹو بہت اچھا لگا۔ چونکہ منٹو کی ساری کہانیاں پہلے سے پڑھ چکا تھا، اسلئے فلم دیکھنے اور سمجھنے میں آسانی رہی۔ کبھی کبھار ایسا بھی لگا کہ جنہوں نے منٹو کو نہیں پڑھا ہے ان کے لئے شائدفلم کو پوری طرح سمجھنا مشکل ہوجائیگا۔ میرا خیال ہے کہ زیادہ ترفلمی اداکاروں کے لئے منٹو کے افسانوں میں موجود کرداروں کے ساتھ پوری طرح انصاف کرنا ہمیشہ مشکل ثابت ہو گا۔
Khurram Sohail Sep 21, 2015 11:59pm
جناب Syed Mehdi Bukhari صاحب ، آپ کی توجہ کا بے حد شکریہ ، آپ جیسے صاحبانِ دانش و فراست کا اس موضوع پر موقف سامنے آنا بہت ضروری ہے ، مجھے خوشی ہے ، ہم اپنے لیجنڈز سے اب بھی پیار کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے ہمارے ملک کی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض سمیت کئی اہم شخصیات نے ہمارے اس موقف کی تائید کی ہے ، تو یہ بہت خوش کن بات ہے ۔ بے حد شکریہ
Khurram Sohail Sep 22, 2015 12:01am
جناب نور صاحب ، آپ کی توجہ کا شکریہ ، جی آپ نے درست فرمایا منٹو کو جس نے نہیں پڑھا اس کے لیے اس فلم کو سمجھنا مشکل ہوگا اوریہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ان کے افسانوں کو فلمانا مشکل ترین امر ہے ، مگر ناممکن نہیں ۔ بس اس کے لیے پیشہ ورانہ مہارت اور دانشورانہ رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
Khurram Sohail Sep 22, 2015 12:07am
@muhammad jawad جی بہت امید ہے ڈراما میں ان باریکیوں کا خیال رکھا جائے گا ۔ آپ کی توجہ کا شکریہ
Rahman Gul Sep 22, 2015 02:04pm
manto jesy azeem adeeb ka Ahata Koe bhi 2 ya 3 ghanty doranye ki film nhe kar sakti. Kuch ehm chezen Reh gae hyn Jin Ko Shamil karna Boht zaruri tha in k na Shamil hony ki waja se manto sahb ka over all impact new logun k lye Kuch Thek nhe gya un logun k lye jinhun ne manto Ko nhe parha. Lekin Pakistan jesy mulk men aisi film barish ki pehli bond ki tarah hy. Jitna manto Ko men ne parha hy us k Hawaly se itna kahun ga k film ne Ba Mushkil passing marks lye hyn 34/100 Lekin ye aik new logun ki Behtareen koshish hy aur is koshish k lye 100/100
Moiz Muqri Sep 22, 2015 02:44pm
Khurram ki tanqeed parh ke hamari maloomat main izafa hua. Warna hum Manto ke baray main film pe yaqeen kar baitth te
saba pervaiz Sep 22, 2015 02:44pm
سب سے پہلے تو سرمد کو سراہا جانا چائیے کہ اس نے منٹو پر فلم بنانے کی ہمت کی.کیونکہ اس کی اس کاوش کے بعد کم ازکم نئی نسل کو یہ پتا چلے گا کہ منٹو کون ہے ...اور اسے پڑھا بھی جائے گا.
saba pervaiz Sep 22, 2015 02:46pm
دوسرا پہلو ہے کہ منٹو پر فلم بناتے وقت انتہائی عجلت سے کام لیا گیا ہے.اس کی زندگی کو ایک سطح سے دیکھا گیا ہے
saba pervaiz Sep 22, 2015 02:47pm
منٹو کی زندگی میں بھی منٹو کی شخصیت اور منٹو کے افسانے دونوں زیر بحث رہے.منٹو کی زندگی اور منٹو کی فنی زندگی دو مضوعات ہیں.جیسے ہر بڑے نام کے ساتھ یہ مسلئہ رہا ہے..کچھ لوگ ذاتیات کے ساتھ فن کی کٹھنائیاں بیان کرتے ہیں.کچھ صرف فن اور کچھ ذاتیات پر گھومتے رہتے ہیں. منٹو پر فلم بنانا آسان نہیں کیونکہ اس کی زندگی کے ساتھ کئی محض کہانیاں وابستہ ہو چکی ہیں.بقول حمید اختر اس نے کبھی شراب کےلئے کسی سے پیسے نہیں مانگے..
saba pervaiz Sep 22, 2015 02:48pm
افسانوں کے کرداروں کی مدد سے کہانی آگے بڑھائی گئی ہے.جو کہ کسی طرح بھی قابل ستائش نہیں.اس کی زندگی میں از خود کئی فلمی gimmicks رہے ہیں.ان پر توجہ نہیں دی گئی.
Saleem Aazar Sep 22, 2015 02:51pm
سعادت حسن منٹو ، غالب کی طرح ہر عہد کا بڑا افسانہ نگار ہےبلکہ ایسا افسانہ نگار جو افسانوی ادب کا معیار بن گیا ہے، اب آنے والے ہر افسانہ نگار کو منٹو کے معیار سے جانچا جائے گا جس طرح شاعری میں ہر شاعر کو میر اور غالب کے معیار سے پرکھا جاتا ہے۔ چنانچہ جب منٹو پر بنی فلم کی بات ہوگی تو اسے بہت باریک بینی سے دیکھا، پرکھا اور تنقید کے پلڑے میں رکھا جائے گا، اب وہ کوئی بھی ہو، اس کی کوشش کو تو اچھا کہا جاسکتا ہے فلمی صنعت کے بحران کے دور میں ادب کے موضوع فلم بنانے کے اقدام کو تو سراہا جاسکتا ہے مگر اپنے مشاہیر کی ساکھ پر قطعاً سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا خرم سہیل صاحب منٹو پر اتھارٹی ہیں انہوں نے منٹو کو گھول کر پیا ہوا ہے، اس حوالے سے ان کی تحریر بالکل درست ہے اور جو اصلاح اس فلم سے متعلقہ لوگ کرسکتے ہیں یا اس کی وضاحت کرسکتے ہیں وہ ضرور کریں تاکہ معیار منٹو برقرار رہے سلیم آذر
Saleem Aazar Sep 22, 2015 03:01pm
@راشد نذیر
Saleem Aazar Sep 22, 2015 03:01pm
سعادت حسن منٹو ، غالب کی طرح ہر عہد کا بڑا افسانہ نگار ہےبلکہ ایسا افسانہ نگار جو افسانوی ادب کا معیار بن گیا ہے، اب آنے والے ہر افسانہ نگار کو منٹو کے معیار سے جانچا جائے گا جس طرح شاعری میں ہر شاعر کو میر اور غالب کے معیار سے پرکھا جاتا ہے۔ چنانچہ جب منٹو پر بنی فلم کی بات ہوگی تو اسے بہت باریک بینی سے دیکھا، پرکھا اور تنقید کے پلڑے میں رکھا جائے گا، اب وہ کوئی بھی ہو، اس کی کوشش کو تو اچھا کہا جاسکتا ہے فلمی صنعت کے بحران کے دور میں ادب کے موضوع فلم بنانے کے اقدام کو تو سراہا جاسکتا ہے مگر اپنے مشاہیر کی ساکھ پر قطعاً سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا خرم سہیل صاحب منٹو پر اتھارٹی ہیں انہوں نے منٹو کو گھول کر پیا ہوا ہے، اس حوالے سے ان کی تحریر بالکل درست ہے اور جو اصلاح اس فلم سے متعلقہ لوگ کرسکتے ہیں یا اس کی وضاحت کرسکتے ہیں وہ ضرور کریں تاکہ معیار منٹو برقرار رہے سلیم آذر
K Sep 22, 2015 03:54pm
Corporate Ka Manto.... is say tau sari baat hi saaf hojati hai. Corporate wing wo papeeta hai jissy gosht hi kia haddiyaa bhi gala di jati hain. Aisy review ka Shukriya Khurram jis ki sab se ziada zarurat Manto flm k makers ko hai. Cinema ka haaliya manzarnama kisi film par bhari tanqid ka mutahammil nahi,main iss baat se muntafiq hun bhi aur nhi bhi.Meri malumaat k mutaq sarmad sb ne film k lye din raat ek kiye,jaan dharr ki bazi lagai tau ek film ki. Aisi surat mien ab unse shikwa nahi banta lekin sawal banta hai aur ye sawal unhun ne earn kia hai k aisi script jis k authenticity mien ja baja masaail hain,p wo kaam karny par Amado q huye? Mera muaqif is silsily mien mehez itna hi hai k har aanay wali film ekbohot barra qadam hai q k kahi kahani aur thesis mature hota nazar ayega tau jahi takniki o fanni shaubay. ..lekin agar sath hi film par tanqid karnway waloon ka dharra aur film banany waloon ka shauba mil kar na chala tau whi haal hoga jo iss waqt theatre k scenario mien nazar ata hai.Meri puchaye tau Aap,Manto hi kia Enver Sajjad bhi unka Intezar kar rahy hain!
رائے عرفان Sep 22, 2015 04:11pm
یہ بھی ایک عجیب منطق ہے کہ منٹو ،غالب یا کوئی اور ہر عہد کا ادیب یا شاعر ہے.ہر لکھنے والا اپنےعہد اور زمانے کی کوتاہیوں واقعات سانحات اور انسانی رویوں کو تحریر کرتا ہے.کسی بھی ادیب یا شاعرکےلکھے کو اگر اگلی نسلیں پڑھتی ہیں تو یہ یا تو انسانی معاشرے کا جمود ہوتا ہےکہ سالوں بعد بھی انسانی رویوں اور معاملات زندگی نہیں بدلے یا پھر اس نسل کا کمال کہ وہ ادیب یا شاعر کے لفظوں کی تکریم ہے.منٹونے شہکار افسانے 47بعد
رائے عرفان Sep 22, 2015 04:13pm
....شاہکار افسانے تحیرر کئے
ghulam.mohiuddin Sep 22, 2015 05:01pm
farukh .manto(film) par is say behtar tabsara ho hi nahin sakta,aap nay TANQEED ka haq ada kartay huoey is ka haqeeqi aur khoobsoorat pehlo bhi numayan kar dia hay,TANQEEDKISAY KEHTAY HAIN LOGON KO YE TAHREER PARH KAR ANDAZA KAR LAINA CHAHIYEY,
رائے عرفان Sep 22, 2015 05:33pm
منٹو کی زندگی کا یاد گار دور بمبئی میں ہے اس کے بعد جب وہ پاکستان آیا تو یہ ایک سانحہ اور المیہ تھا اس کی زندگی کا...اس کا ادبی سفر اپنی اوج پر اس وقت پہنچتا ہے جب وہ موزیل,ٹوبہ ٹیک سنگھ,ٹھنڈا گوشت ,کھول دو.,لکھتا ہے.شاید سرمد کھوسٹ افسانوں کی مدد سے ناظرین کو یہ دکھانا چاہ رہا تھا کہ ان افسانوں کا خالق منٹو ہے...تو پھر دستاویزی فلم زیادہ بہتر آلہ تھی.
ghulam.mohiuddin Sep 22, 2015 05:33pm
KHURRAM SOHAIL,SUB SAY PEHLAY TO IS TAHREER PAR MUBARAKBAD QUBOOL KARAIN,is kay zaryey aap nay bata dia hay keh assal main tanqeed kia hoti hay aur kaisay ki jati hay,aap nay tanqeed ka aur tabsiray ,doonon ka haq ada kar dia hai,boht jamey aur khoobsoorat tehreer hay.is main mallomati pehloo bhi hay aur ghor ka bhi.zidabad
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 22, 2015 06:44pm
جب تک میں یہ فلم نہیں دیکھتا تب تک تبصرہ کرنا درست نہیں ہے۔ محترم خرم صاحب سے التماس ہے کہ وہ بتا کر شکریہ کا موقع دیں کہ یہ فلم لاہور میں دستیاب ہے یا نہیں؟ اس کی کوئی وڈیو انٹرنیٹ پر مل سکتی ہے یا نہیں؟ اس کی کوئی سی ڈی یا ڈی وی ڈی تیار ہو کر مارکیٹ میں آئی ہے یا ابھی نہیں؟۔ سرمد کھوسٹ صاحب کے سابقہ کام پر نظر ماری ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے سرمد صاحب ایسی فلمیں، اور ان فلموں میں ایکٹنگ کر کے راتوں رات تیسی پر پہنچنا چاہتے ہیں۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 22, 2015 06:44pm
منٹو کی سب سے بڑی خوبی بولڈنیس ہے۔ منٹو نہیں دیکھتا کہ جو وہ لکھے گا عوام کو پسند آئے گا یا نہیں، کوئی طبقہ اس کے خلاف ہو گا یا حق میں، اس کی تحریروں پر فتوئے لگیں گے یا سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا۔ منٹو دو ٹوک الفاظ میں وہ لکھ دیتا ہے جو کہ اس کے خیال و مشاہدہ میں ہوتا ہے۔ بےلاگ افسانہ نگاری کرنا اور دنیائے عالم میں اپنا نام بنا جانا منٹو کی حقیقت پسندی کی جیت ہے۔ وگرنہ آج کل تو ہر ایک کو پالیسی کو سامنے رکھ کر لکھنا پڑتا ہے تاکہ قابل شائع ہو سکے۔ ایسی لکھت روح سے خالی ہوتی ہے اور وہ اثر نہیں رکھتی جو منٹو کے افسانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ منٹو نے ساری زندگی ایک ہی رسی کو تھامے رکھا اور وہ رسی تھی: “سچ کہہ کے کسی دور میں پچھتائے نہیں ہم، کردار پہ اپنے کبھی شرمائے نہیں ہم“۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 22, 2015 08:26pm
@رائے عرفان صاحب، کسی ادیب کو جب اگلی نسلیں پڑھتی ہیں تو یہ معاشرہ کا جمود نہیں ہوتا بلکہ موجودہ ادیبوں پر لمحہ فکریہ ہوتا ہے کہ وہ ایسا ادب تخلیق نہیں کر سکے جو پچھلی نسل کے ادیبوں نے کیا تھا۔ لفظوں کی تکریم کی وجہ سے کسی ادیب کو نہیں پڑھا جاتا بلکہ خیالات کو جس طریقہ کار کے تحت ادیب لکھتا ہے، اس سے متاثر ہوا جاتا ہے۔ لفظوں کی تکریم کا یہ معنی نہیں کہ جیسے بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندا ہوتا ہے۔ سنگرز کو دیکھیں، آج بھی لتا، رفیع، مکیش، منا ڈے، گیتا دت، عالم لوہار، سرندر کور، پرکاش کور، کشور کمار کے گیت سدابہار ہیں اور کمپیوٹرائزڈ زمانہ کے سنگرز بھی ان کی جگہ نہیں لے سکے۔ صرف اس لیے کہ تب آواز، موسیقی، گیت کے بول آج کے رولے کی طرح نہیں تھے۔ منٹو، راجند سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، امرتا پریتم، عزیز احمد، عبداللہ حسین جیسے ادیب آج ناپید ہیں۔
Khurram Sohail Sep 23, 2015 01:10am
@Rahman Gul آپ کی توجہ کا بہت شکریہ ۔ کوشش کرنے کے نمبر آپ نے بالکل ٹھیک دیے ہیں ، یہ ہمارے سینما کا ارتقائی دور ہے ، دوبارہ سے اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لیے اس صنعت کو اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا ۔ امید ہے اس میں مثبت تنقید کا بھی حصہ ہوگا اس لیے خفا ہونے کی بجائے غور کیا جائے ، کہاں اور کیسے بہتری لائی جاسکتی ہے ۔
Khurram Sohail Sep 23, 2015 01:12am
@Moiz Muqri شکریہ معیز مکری ۔ اس فلم پر اتنی تفصیل سے بات کرنے کا مقصد یہی ہے کہ منٹو ہمارے لیجنڈ افسانہ نگار ہیں ، اس طرح ان کا تشخص خراب نہیں ہونا چاہیے ، اس لیے بطور صحافی میں نے اپنا فرض پورا کیا ، امید ہے آپ لوگ فلم بھی دیکھیں گے اور منٹو صاحب کو ازسرنو پڑھیں گے تو موازنہ کرنے میں پوری طرح سے حقیقت آپ پر آشکار ہوجائے گی ۔ آپ کی توجہ کا شکریہ
Khurram Sohail Sep 23, 2015 01:14am
@saba pervaiz ۔ آپ کی توجہ کا بہت بہت شکریہ آپ نے فلم کے جن پہلوئوں کی طرف توجہ دی ہے ، یقیناً یہ سب پہلو بہت اہم ہیں ، فلمسازوں کو ادب سے متعلق شخصیات پر فلمیں بناتے ہوئے یہ سب کچھ ذہن میں رکھنا چاہیے اور امید کرتے ہیں آئندہ اس کا خیال رکھا جائے گا
Khurram Sohail Sep 23, 2015 01:15am
@Saleem Aazar ، آپ کی توجہ کا شکریہ آپ خود شعروادب سے متعلق خاصا گہراشعور رکھتے ہیں اورآپ نے میرے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ، میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا ،البتہ کوشش ہوتی ہے کہ جس موضوع پر بھی کام کیا جائے ، اس سے اچھی طرح انصاف ہوسکے ۔ بہرحال آپ کی عمیق نظر اور مشاہدے کا بے حد شکریہ
Khurram Sohail Sep 23, 2015 01:20am
@K آپ کی توجہ کا شکریہ ۔ آپ بے بالکل درست کہا سینما کی بہتری اور ترقی کے لیے اتفاق اور افہام و تفہیم بہت ضروری ہے ورنہ دیگر فنون کی طرح یہ شعبہ بھی پھر سے زوال کا شکار ہوسکتاہے ، مگر کیا کیاجائے ، ابھی تک معاشرے میں تعریف کو ہی پسند کیا جاتاہے ، تنقید کے شعبے کے بارے میں تو یہ چاہتے ہیں ، بالکل بند ہی ہوجائے ، تنقید کو اہمیت نہیں دی جاتی اور اس کو صرف اور صرف مخالفت کاعنصر سمجھا جاتاہے وگرنہ ہم تنقید نگار کیوں نہیں چاہیں گے کہ ہمارا سینما بہترہو ۔ مغرب میں سینما اس لیے مضبوط ہے ، وہاں تنقید کا مضبوط رجحان ہے ، ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے ، یہاں تو سرے سے ہی جواب نہیں دیاجاتا،جس میں یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید ان کو اس کی پرواہ نہیں ، یا وہ اس کو صرف محض ایک مخالف کا نکتہ نظر جانتے ہیں ۔ یہ تاثر ختم ہوگا تو تخلیق میں شعور کی بلندی کا تناسب بڑھے گا۔
Khurram Sohail Sep 23, 2015 01:22am
@نجیب احمد سنگھیڑہ - جناب آپ کی توجہ کا بے حد شکریہ آپ نے اپنے تفصیلی تاثرات میں جو باتیں کی ہیں ، میں بھی ان سے متفق ہوں ۔ مختصر بات کریں تو یہ فلم لاہور میں تمام سینمائوں پر لگی ہوئی ہے ، آپ مقامی سینما سے پتہ کرسکتے ہیں ۔ فلم دیکھیں اور پھر دوبارہ ریویو پڑھیں تو بات پوری طرح بیان ہوجائے گی ۔ آپ کے مشاہدے کا شکریہ
Khurram Sohail Sep 23, 2015 01:25am
@K یقیناً معاشرے کی ناقدری نے ہر تخلیق کار کو تنہا کیا اور تکلیف دی ، تب ہی اس وقت منٹو صاحب نے کٹھن وقت گزارا ااور آج انور سجاد جیسے بڑے ادیب سے جس طرح کی غفلت اور فراموشی کا احساس برتا جاتاہے ، وہ ناقابل افسوس ہے ، کاش ہم لوگ میڈیا کے علاوہ بھی کبھی سچ مچ میں اپنے دل کو نرم کرسکیں اور اپنے لیجنڈز کو ان کی زندگیوں میں ہی خراج تحسین پیش کرسکیں ، کاش معاشرے سے یہ منافقانہ رویہ ختم ہوسکے ۔ کاش ادب پوری طرح سے اذہان میں سرایت کرے اور معاشرے کے سدھار کا سبب بنے ، ایسے بہت سارے کاش مجھے پریشان کرتے ہیں مگر امید پر دنیا قائم ہے
INJILA HAMESH Sep 23, 2015 02:02am
film main bhi abhi tuk nah dekhi albata Khuram Sohail key column se yeh baat wazah hai ke yeh mumkin hi nahi ke unki(Manto) ki koi bachi ghar main bemar pari ho aur woh jatan se kamaee hoe peson se dawa lane key bajae sharab khaird laye..yeh alfaz Dr Enver Sajjad key hain jo Manto key bauth qareeb rahe aur beshak bina kisi heel hujat key Dr Enver Sajjad key in words ko authentic samjhna chaye hona tau yeh chahye tha ke is film key hawale film key team ko Dr Enver Sajjad jese calibre key se rajoo karna chaye tha jo Manto ko sanjedgi se samjhte aur dekhte hain. ttheek hai film ki apni zaroort hoti hai magar yeh policy hargiz nahi honi chaye ke atne bare aur ahem writer ko is qism ki fake aur confuse situation dikha uske martbe ko kum karne ki koshiish karen sub se bara muqam writer/takheelqkar ka hota hai aur humare mulk main log isi baat se khaif hain. aur is baat pe mulawon ki tarah shukar ada karna shukar ada kia jaye kisi wirter key hawale se film bani tau yeh aur bhi ajeeb baat hai kaam kia jaye tau theek se kia jaye ,aik biographical film pori reserach key sath banni chaye tub muqam e shukar hoga.
khurram Shail Sep 23, 2015 01:40pm
@ghulam.mohiuddin جناب بے حد شکریہ اورخیرمبارک ۔ مجھے خوشی ہے آپ جیسے اہل نظر لوگ اس موضوع پر بات کررہے ہیں اور آپ نے بالکل ٹھیک بات کی ہے ، میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں ۔
ghulam.mohiuddin Sep 23, 2015 02:19pm
this is my third try to post my comments. mr khurram, aap ki yeh tehreer tanqeed ki tareef pur soo feesad poori utarteee hay, boht khoobsoorti aur sachai kay sath aap nay bhurpoor aur purmaghaz tajziaa kia hay. is thahreer say nam nihad naqadon ko seekhna chahiey jo sirf taareef ya nuqs nikalnaey hi ko tanqeed jantay hain. is tehreer ki aik khoobi yeh bhi hay kah parhnay waley ko saadat mantoo kay baray main boht kuch mukhtasar pairaey main mill jata hay aur jinhoon nay mantoo ko nahin parha ya samjha woh us kay baray main zaroor parhain gay.boht umda mubarak bad qubool farmaiye.
Usman Akhter Sep 23, 2015 03:55pm
محترم خرم صاحب! میں ایک نقاد ہرگز نہیں لیکن ادب کا قاری ہوں۔ دراصل منٹو بے باکی اور کھلی حقیقت کے ادرک اور بیان کا نام ہے۔ منٹو کے حوالے سے کوئی بھی توصیحی یا تنقیدی کام وہی بے باکی کامتقاضی ہوتا ہے جو منٹو کی پہچان ہے۔ ڈاکٹر روش ندیم صاحب نے وہ خاصہ اپنائے رکھا ۔ نجانے آپ کیوں مروت میں پڑ گئے۔
Khurram Sohail Sep 23, 2015 11:50pm
@Usman Akhter ۔ آپ کی توجہ کا بہت شکریہ ڈاکڑ روش ندیم کاکام مجھے پسند ہے اور اس کا حوالہ بھی میں اکثر دیتا ہوں ، جس کی ایک مثال حالیہ اس فلم کے تبصرے کے دوران جاری بحث میں ان کا تذکرہ ہے ، جہاں تک آپ نے میری مروت کی بات کی ، میں سمجھا نہیں کہ کیسی مروت میں پڑگیا ، آپ کے خیال سے تبصرے میں مجھے کیا کرنا چاہیے تھا جو مروت کی وجہ سے نہیں کرسکا ؟ میں نے تو فلم منٹو کا تبصرہ لکھا ہے نہ کہ منٹو ، یہ فرق ملحوظ خاطر رکھیے گا اوریہ بھی کہ یہ محدود لفظوں کی ایک تحریر تھی نہ کہ پی ایچ ڈی کامقالہ ۔
Syed Mehtab Shah Sep 24, 2015 12:53am
خرم سہیل بھائی السلام علیکم ماشااللہ سے آپ نے سعادت حسن اورمنٹوپرجس زاویئے سے سحرحاصل تبصرہ کیا ہے وہ لائق تحیسن ہے،ماشااللہ
Khurram Sohail Sep 24, 2015 01:32am
@Syed Mehtab Shah ،آپ کی توجہ کا بہت شکریہ یہ بہت اہم اور باریک فرق ہے ، سعادت حسن صرف ایک شخص تھا اور منٹو ایک عہد ، اس کا خیال رکھنا چاہیے
Humaira Ather Sep 28, 2015 12:39pm
واہ۔۔۔۔۔ ایک بھرپور تبصرہ جس نے اس فلم کی خوبیاں اور خامیاں بلا کم وکاست بیان کی۔
Khurram Sohail Sep 28, 2015 09:38pm
@Humaira Ather بہت بہت شکریہ ، آپ نے تبصرے میں تحریر کے توازن کو محسوس کیااور اپنی رائے دی ۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024