تعلیم برائے فروخت ... قیمت؟
اب تک تو آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ نجی اسکولوں کی فیسوں میں حالیہ اضافے کے خلاف پنجاب میں ایک احتجاجی تحریک شروع ہو گئی ہے۔ ملک کے نامور ترین اسکولوں نے اچانک بغیر کوئی وجہ بتائے، بغیر کوئی تاویل پیش کیے فیسوں میں اضافہ کر دیا ہے اور طلباء سے کہا ہے کہ یا تو وہ فیس ادا کریں، یا کوئی دوسرا اسکول ڈھونڈ لیں۔
لاہور، اسلام آباد اور ساہیوال میں والدین سڑکوں پر نکل آئے ہیں، اور فیسوں میں اس بلاجواز اضافے کے خلاف بلند کر رہے ہیں جو موجودہ معاشی صورتحال سے مطابقت نہیں رکھتا۔
جن اسکولوں کی بات ہورہی ہے، وہ سب سے مشہور اور اونچے درجے کے 'برانڈڈ' اسکول ہیں، جن کی ملک بھر کے تقریباً ہر شہر میں کئی کئی برانچز ہیں، اور ایسی جگہیں ہیں جہاں اپنے بچے کو داخل کروانے کے لیے والدین خواہاں رہتے ہیں۔
شروع میں ودہولڈنگ ٹیکس متعارف کروایا گیا تھا جو اب اس احتجاج کا حصہ بن چکا ہے۔ ودہولڈنگ ٹیکس سالانہ 20 ہزار روپے سے لے کر 50 ہزار روپے تک ہو سکتا ہے۔ اور یہ اس فیس کے علاوہ ہے جو والدین پہلے سے ہی ادا کر رہے ہیں۔
نظری اعتبار سے دیکھا جائے تو باقاعدہ ٹیکس فائل کرنے والوں کو اس ٹیکس پر واپس ادائیگی ہوگی، لیکن جو لوگ نان فائلر ہیں، ان کے لیے یہ پیسہ بہت زیادہ ہے۔ ٹیکس وصولی کا دائرہ بڑھانے کا یہ درست طریقہ نہیں ہے، اور خاص طور پر یہ اسکولوں کا مسئلہ تو بالکل بھی نہیں ہے۔
واضح الفاظ میں کہیں تو والدین فیسوں میں سالانہ تین سے چار ہندسوں کے اضافے کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے (جو ظاہر ہے اس لیے ہوتا ہے تاکہ اساتذہ اور اسٹاف کی تنخواہیں بڑھائی جا سکیں)۔
بلکہ والدین کا احتجاج حال ہی میں کیے گئے 15 سے 20 فیصد اضافے کے خلاف ہے جو بغیر کسی نوٹس، وجہ، یا اجازت کے کیا گیا۔
فیسوں میں اس اضافے کی وجہ کیا ہے، والدین جاننا چاہتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اسکول بغیر کسی ٹھوس معاشی وجہ کے والدین پر بھاری بھرکم فیس چالان پھینک کر یہ توقع نہیں کر سکتے کہ والدین ان کی فیسیں ادا کرتے رہیں گے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
نجی اسکولوں کی فیس کا طریقہ کار
ان اسکولوں میں داخلے کے وقت آپ سے ایک ایپلی کیشن یا درخواست فیس وصول کی جاتی ہے، جس کے بعد آپ سے رجسٹریشن فیس وصول کی جاتی ہے (بادی النظر میں یہ دونوں فیسیں مختلف ہیں)۔ اس کے بعد سکیورٹی ڈپازٹ اور پھر پیشگی ماہانہ فیس وصول کی جاتی ہے۔ کچھ اسکولز میں ایک کیٹیگری "سالانہ اخراجات" کے نام سے بھی ہوتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ اسکول کی پکنکس وغیرہ کے اخراجات ہیں۔
لہٰذا ابھی آپ کے بچے نے اسکول میں قدم بھی نہیں رکھا ہوتا کہ آپ ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ کر چکے ہوتے ہیں۔ جونیئر کلاسوں میں فیس کم ہوتی ہے، اور یہاں سے والدین کو پھانس کر فیس ہر سال بڑھتی جاتی ہے۔
اس کے بعد ایک حقیقی فیس ہوتی ہے؛ سستے اسکولوں کی 8 ہزار روپے ماہانہ، مہنگے اسکولوں کی 20 ہزار روپے ماہانہ، اور درمیانے درجے کے اسکولوں کی 12 ہزار روپے ماہانہ۔ پھر اس پر سالانہ اضافہ جو کہ کتابوں، کاپیوں، اسٹیشنری، یونیفارمز، ٹرانسپورٹ، اور دیگر منسلک اخراجات کے علاوہ ہے۔
کل ملا کر دیکھا جائے تو آپ اپنے بچے کو سالانہ 4 لاکھ روپے میں پڑھا رہے ہیں۔
ایک اختلافی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ، "اگر آپ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، تو اپنے بچوں کو ان مہنگے اسکولوں میں کیوں بھیجتے ہیں۔" یہ دلیل انتہائی بے ہودہ ہے۔ اسکولوں میں فیسوں میں اضافے کا کوئی واضح طریقہ کار نہیں ہوتا، اس لیے آپ پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کر سکتے کہ نجانے کب آپ پر بھاری فیس کا بم گرا دیا جائے، جس کی ادائیگی کے لیے ایک اور تنخواہ لازمی ہو۔
بچوں کو تعلیم دلوانا والدین کے لیے ایک درست کاروباری فیصلے کے بجائے اسکول کے ساتھ ایک طویل مدتی رشتہ ہوتا ہے۔ کچھ اسکول واقعی اپنے طلباء کا خیال رکھتے ہیں، مگر صرف تب تک جب تک والدین ان کی ہر وقت بڑھتی ہوئی فیسیں ادا کرتے رہیں۔
مختلف شہر، مختلف معیار
اس کے علاوہ ملک بھر میں قائم برانچز (یا فرنچائز کہیں) والے اسکولوں میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ آپ یہ توقع نہیں کر سکتے کہ آپ اپنے بچے کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے کر جائیں گے، اور آپ کا بچہ سارا کورس بغیر کسی مشکل کے سمجھ جائے گا۔
برانچز کے اندر بالکل مختلف نظام بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کی فیسیں ایک ہی جتنی ہوتی ہیں۔ آپ اپنے بچے کی فیس شیخوپورہ میں بھی اتنی ہی دیں گے جتنی کہ کراچی میں، مگر آپ کے بچے کو تعلیم بھی اتنی ہی بہتر نہیں دی جائے گی۔ تعلیم کو جب کاروبار بنا دیا جائے، تو یہ سب کچھ ہونا لازمی ہے۔
کچھ اسکول ہیں جو ہمیشہ سے ہی مہنگے ہیں۔ والدین جانتے ہیں کہ وہ بڑے نام کے لیے ادائیگی کر رہے ہیں، اور وہ کر سکتے ہیں۔ یہ والدین اس اضافے سے پریشان نہیں ہیں اس لیے ان کی مثال بھی نہیں دی جا سکتی۔
میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو سالانہ پانچ چھٹیوں کو بھی ایک بہت بڑی نعمت سمجھتے ہیں، مگر پھر بھی اتنی اچھی تنخواہ اور زندگی نہیں پاتے جو ایک استاد کا حق ہوتی ہے۔ ایسے بھی اسکول موجود ہیں جو 5 منٹ دیر سے آنے پر استاد کی پورے دن کی تنخواہ کاٹ لیتے ہیں۔ سکیورٹی وجوہات کی بناء پر سالانہ پکنک منسوخ ہونا عام بات ہے، لیکن پکنک کے نام پر لیے گئے اخراجات واپس کرنا عام بات نہیں۔
تو اس طرح نجی اسکول والدین سے ایک ایک پیسہ نکلوانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح یہ پھر بھی اساتذہ کو بھرتی اور طلبہ کو داخل کرنے میں آزاد ہیں۔ ان اسکولوں کو تو خلاف ورزی پر پہلے ہی دن بند کر دینا چاہیے۔
خبر ہے کہ اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا گیا ہے اور اسکولوں کو نظم و ضبط میں لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، مگر اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے اور اسکول بخوشی بچوں کی تعلیم کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بالآخر والدین خود ہی اسکول کی فیس ادا کریں گے چاہے جتنی بھی ہو۔
پھر کچھ اسکول ایسے بھی ہیں جنہوں نے داخلے کا نہایت سخت معیار قائم کر رکھا ہے۔ وہ صرف ان طلبہ کو داخل کرتے ہیں جو اچھے نتائج لا سکیں۔ اس سے اسکول کی کارکردگی اور (بورڈ میں) نتائج مصنوعی طور پر زیادہ نظر آتے ہیں، اور ان کی مارکیٹ بہتر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اسی اسکول میں داخل کرنا چاہتے ہیں جہاں سے تعلیم حاصل کرنے پر اس کے پاس بہتر مواقع موجود ہوں۔
تعلیم اہم ہے اور بچوں کی تربیت قربانی مانگتی ہے۔ تو اگر والدین فیسوں میں اضافے کا واضح نظام آنے تک فیس کی ادائیگی سے انکار کریں تو مطلب کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہے۔
لیکن اگر فیس میں ادائیگی کا کوئی نظام موجود نہ ہو تو یہ رویہ نااہلی کے ساتھ ساتھ بھتہ خوری کے زمرے میں بھی آتا ہے۔
تبصرے (10) بند ہیں