• KHI: Fajr 5:06am Sunrise 6:23am
  • LHR: Fajr 4:28am Sunrise 5:50am
  • ISB: Fajr 4:29am Sunrise 5:54am
  • KHI: Fajr 5:06am Sunrise 6:23am
  • LHR: Fajr 4:28am Sunrise 5:50am
  • ISB: Fajr 4:29am Sunrise 5:54am
شائع September 4, 2015 اپ ڈیٹ September 5, 2015

پہاڑوں کے دامن میں واقع گاؤں اسلام پور ضلع سوات کا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا وہ واحد گاؤں ہے جہاں سولہ سترہ ہزار کی آبادی میں ایک بھی شخص بے روزگار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں اسلام پور اپنے ہنرمند باسیوں کی وجہ سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونی ممالک کے سرد ترین خطوں میں ایک ایسے گاؤں کے طور پر پہچانا جاتا ہے جہاں بھیڑ بکریوں کے اون سے رنگ برنگی گرم اعلیٰ کوالٹی کی چادریں اور شالیں تیار کی جاتی ہیں۔ یہاں سیزن میں ماہانہ تقریباً تین ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔

اسلام پور گاؤں کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ یہاں بدھ مت کے آثار جابجا بکھرے پڑے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوگئے۔ اس کے علاوہ اسلام پور کو یہاں کے ایک مذہبی پیشوا میاں نور بابا جی کی وجہ سے بھی کافی شہرت حاصل ہے۔ میاں نور بابا جی کے دادا اخون درویزہ بابا 940 ہجری میں اسلام پور آئے تھے۔ 970 ہجری میں ان کے ہاں اخون کریم داد کے نام سے بیٹا پیدا ہوا۔ میاں نور بابا جی اخون کریم داد کی اولاد میں سے ہیں۔ اخون درویزہ 1040 ہجری میں وفات پا گئے۔ میاں نور بابا جی کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ مذہبی علم کے حصول کے لیے ہندوستان گئے تھے اور جہاں سے علم حاصل کیا تھا، اس علاقے کا نام ’’اسلامپور‘‘ تھا۔ علم مکمل کرنے کے بعد واپسی پر آکر انہوں نے اپنے گاؤں کا نام ’’اسلامپور‘‘ رکھ دیا۔

لیکن یہاں اسلام پور کے ساتھ ساتھ اس گاؤں کو ’’سلامپور‘‘ بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک الگ روایت مشہور ہے اور وہ یہ کہ مذکورہ گاؤں کے فلک بوس پہاڑوں میں سے ایک ضلع سوات اور ضلع بونیر کی سرحد کا کردار بھی ادا کرتا ہے، تو اسی وجہ سے مشہور ہے کہ جب بھی کوئی بونیر سے سوات آتا تھا یا سوات سے کوئی بونیر جاتا تھا، تو مقامی لوگ دست بستہ کھڑے ہو کر ہر آنے جانے والے کو سلام کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے علاقے کا نام ’’سلامپور‘‘ پڑ گیا۔ گاؤں میں لبِ سڑک پر قائم اسکول چونکہ گورنمنٹ اسلام پور ہائی اسکول ہے اور اس کے علاوہ اسلام پور تک جانے والی سڑک پر نصب ایک بورڈ پر اسلامپور لکھا گیا ہے، اس وجہ سے زیادہ ترجیح اسی نام کو دی جاتی ہے۔

اسلام پور گاؤں.
اسلام پور گاؤں.
مشین پر اُونی تار بن رہا ہے۔
مشین پر اُونی تار بن رہا ہے۔
ایک ہنر مند مشین کی مدد سے دھاگے بھر رہا ہے۔
ایک ہنر مند مشین کی مدد سے دھاگے بھر رہا ہے۔

اسلام پور آج کل پوری دنیا میں سرد موسم کے حامل خطوں میں اپنے ہنر مندوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں تیار ہونے والی چادریں، گرم شال، پکول (اون سے بنی روایتی ٹوپی) اور واسکٹ نہ صرف اندرون ملک بلکہ افغانستان، روس، یورپی ممالک اور دنیا کے ہر اس خطے میں بھیجی جاتی ہیں، جہاں درجہ حرارت منفی رہتا ہے۔

سنہ 1998ء میں گاؤں کی مردم شماری کی گئی تھی جس کی روشنی میں مضافات کو ملا کر اسلام پور کی آبادی 536 گھرانوں پر مشتمل تھی۔ آج محض 17 سال گزرنے کے بعد یہاں پر 1700 تک گھرانے آباد ہیں جن کی کل آبادی 16 سے 17 ہزار بنتی ہے۔ آبادی کا 70 فی صد حصہ کھڈے کے کام سے وابستہ ہے، باقی ماندہ 30 فیصد میں بیشتر محکمۂ پولیس اور دیگر سرکاری محکموں میں برسر روزگار ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں زراعت سے بھی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد وابستہ ہے۔

پورے گاؤں میں ساڑھے چار پانچ ہزار کھڈے ہیں (’’کھڈا‘‘ زمین میں کھودا گیا وہ مخصوص قطعہ زمین ہے جہاں بیٹھ کر ہنر مند روایتی مشینوں سے چادر تیار کرتے ہیں)۔ ہر کھڈے پر 3 سے 6 تک چادریں یا شالیں روزانہ کی بنیاد پر تیار ہوتی ہیں۔ اس حساب سے کہا جاسکتا ہے کہ گاؤں اسلام پور میں روزانہ پندرہ تا سولہ ہزار مختلف کوالٹی کی چادریں اور شالیں تیار ہوتی ہیں۔ ایک چادر یا شال کی قیمت 500 سے لے کر 40 ہزار روپے تک ہے اور یہ نرخ معمول کے مطابق ہیں۔

یہاں آرڈر پر تیار ہونے والی چادروں کی قیمت بسا اوقات 1 لاکھ روپے سے بھی متجاوز ہوتی ہے۔ اسی حساب سے گاؤں اسلام پور میں کم از کم 8 کروڑ روپے روزانہ کا کاروبار ہوتا ہے اور ماہانہ دو ارب ستر کروڑ کی حد عبور کرتا ہے۔ کھڈے سے وابستہ لوگوں کی تعداد 40 ہزار سے زائد بنتی ہے جن میں اسلام پور گاؤں، مینگورہ شہر اور آس پاس کے علاقوں کے دکان دار، خام مال لانے، تیار کرنے والے اور تیار مال واپس چھوٹی بڑی منڈیوں تک پہنچانے والے شامل ہیں۔ بالفاظ دیگر اسلام پور گاؤں کے ساتھ ضلع سوات کے 50 ہزار خاندانوں کی روزی روٹی وابستہ ہے۔ بے کار ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، بے کاروں کے علاوہ اسلام پور میں اتنا کام ہے کہ یہاں کوئی بھی شخص بے روزگار نہیں ہے۔‘

پرانے طرز کا کھڈا۔
پرانے طرز کا کھڈا۔
نئے طرز کا کھڈا۔
نئے طرز کا کھڈا۔
زمین کے اوپر نصب کی گئی روایتی مشین جسے گاؤں والے کھڈا ہی پکارتے ہیں۔
زمین کے اوپر نصب کی گئی روایتی مشین جسے گاؤں والے کھڈا ہی پکارتے ہیں۔

گاؤں میں دو قسم کے کھڈے ہیں۔ ایک تو روایتی کھڈے ہیں جن کے لیے باقاعدہ طور پر زمین کھودی جاتی ہے جبکہ دوسری قسم میں زمین کے اوپر مشین نصب کی جاتی ہے۔ اول الذکرکھڈا جگہ کم گھیرتا ہے جبکہ مؤخر الذکر زیادہ۔ دونوں قسم کے کھڈوں میں نصب مشینوں میں بعض میں دو گیئر لگے ہوتے ہیں اور بعض میں چار۔ دو گیئر والی روایتی مشین پر بنی چادر یا شال ہلکی ہوتی ہے جبکہ چار گیئر والی مشین کی چادر بھاری ہوتی ہے۔

1934ء میں پیدا ہونے والے محمد عمر کا کہنا ہے کہ وہ 1945ء سے کھڈے کی مدد سے چادر بنا رہے ہیں۔ ان کے بقول ان دنوں اتنی مہنگائی نہیں تھی مگر پیسہ بھی کسی کے پاس نہیں تھا۔ ’’اس وقت ہم ڈگرہ نامی چادر بیچا کرتے تھے، جسے ’’گھریلو خمتا‘‘ بھی کہتے تھے۔ چار آنے گز کے حساب سے ہم وہ کپڑا دیا کرتے تھے۔ دو روپے کے کپڑے سے ایک آدمی کے کپڑے پورے ہوتے تھے لیکن وہ دو روپے کسی کے پاس نہیں ہوتے تھے۔‘‘ اب چونکہ محمد عمر میں وہ طاقت نہیں رہی اس لیے انہوں نے کھڈے کا ہنر اپنے پانچ بیٹوں اور پوتوں کو منتقل کر دیا ہے۔

گاؤں میں داخل ہوتے ہی ہر جگہ رنگ برنگی چادریں اور شالیں نظر آتی ہیں۔ ہر دوسری تیسری عمارت میں کوئی نہ کوئی ہنر مند اپنے کام میں مصروف نظر آتا ہے۔ گھروں میں عورتیں دھاگے تیار کرنے یا تیار شدہ چادروں کے جھالر تیار کرنے میں مگن ہوتی ہیں۔ چادر مہنگی ہو، تو ان کی مزدوری زیادہ ہوتی ہے، چادر سستی ہو، تو اس حساب سے مزدوری بھی کم ہوتی ہے۔ دو پھولوں والی چادر سستی ہوتی ہے، اسے تیار کرنے کے دو سو روپے ملتے ہیں جب کہ تین پھولوں والی چادر مہنگی ہوتی ہے، اس کے لیے محنت بھی زیادہ درکار ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی چار سو روپے مزدوری ملتی ہے۔ ایک دن میں کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ چھ چادریں تیار ہوتی ہیں۔

مردانہ چادروں کے اوپر بننے والے نقش و نگار جنھیں یہاں روایتی طور پر ’’پھول‘‘ کہتے ہیں، میں یہاں سوات کی قدیم روایات اور تہذیب کی عکاسی کی جاتی ہے۔ اس کے لیے عموماً چار سے لے کر چھ رنگ کے دھاگے استعمال ہوتے ہیں۔ تار سے چادر تیار کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ کچھ تار ایسے ہیں جنہیں یہاں گاؤں میں ہی تیار کیا جاتا ہے جبکہ زیادہ تر تار باہر سے منگوایا جاتا ہے جس کے لیے بڑی منڈی پشاور ہے۔ تار مہیا ہونے کے بعد چادر تیار کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ شال جب تیار ہوتا ہے، تو یہاں گھروں میں عورتیں اس کا جھالر بناتی ہیں۔ جھالر کا عمل مکمل ہونے کے بعد اس کی رنگائی شروع ہوتی ہے۔ رنگائی کے بعد اس کو صاف پانی سے دھویا جاتا ہے اور اسے استری کیا جاتا ہے اور آخر میں اسے دکان دار کے حوالے کیا جاتا ہے۔

پیروں کی مدد سے چادروں کی دھلائی جاری ہے۔ پانچ چادروں کی دھلائی کا یہ عمل عموماً ایک گھنٹہ لیتا ہے۔
پیروں کی مدد سے چادروں کی دھلائی جاری ہے۔ پانچ چادروں کی دھلائی کا یہ عمل عموماً ایک گھنٹہ لیتا ہے۔
روایتی طریقے سے چادر سکھائی جا رہی ہے۔
روایتی طریقے سے چادر سکھائی جا رہی ہے۔
چادروں کی رنگائی کا عمل شروع ہوا چاہتا ہے۔
چادروں کی رنگائی کا عمل شروع ہوا چاہتا ہے۔

اسلام پور میں داخل ہوتے ہی لگ بھگ 60 دکانوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا بازار آتا ہے۔ تمام دکانوں میں یہاں کا تیار شدہ مال سلیقے سے رکھا گیا ہوتا ہے، جسے دیکھتے ہی خریدنے اور زیب تن کرنے کو جی چاہتا ہے۔ راولپنڈی سے آئے ہوئے توصیف احمد جو پیشے کے لحاظ سے بزنس مین ہیں، کہتے ہیں کہ جب سے سوات میں حالات معمول پر آئے ہیں، وہ ہر سال گرمیوں کے موسم میں یہاں ضرور آتے ہیں۔ "واپسی کے وقت ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جاڑے کے موسم کے لیے اسلام پور کی اونی چادر اور شال بطور سوغات ضرور لیتے جائیں۔ یہاں اس کی قیمتیں اتنی زیادہ نہیں ہوتیں جتنی راولپنڈی یا اسلام آباد میں ہوتی ہیں۔ دوسری بات، کوالٹی بھی یہاں کی بہتر ہوتی ہے۔ 30 سے لے کر 35 ہزار روپے میں پورے خاندان کی سردیوں کی شاپنگ باآسانی ہوجاتی ہے۔"

افسوس کی بات یہ ہے کہ تار سے لے کر چادر کی تیاری کے تمام مراحل اور اس کے بعد دکاندار کو حوالے کرنے تک تمام کی تمام محنت ہنر مندوں کی ہوتی ہے جبکہ فائدہ مڈل مین لے جاتا ہے۔ اس حوالے سے حاضر گل کا کہنا ہے کہ ’’تمام محنت ڈیلی ویجرز کی ہے اور فائدے میں مڈل مین رہتا ہے۔ ڈیلی ویجرز بے چارے آسانی سے اپنا کام شروع نہیں کر سکتے۔ مڈل مین اسے خام مال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ چادر تیار کیا کرو، میں ہی اسے خریدوں گا۔

یہاں کا مڈل مین اتنا طاقتور ہے کہ گاؤں کے چھوٹے سے بازار میں دکانیں اس کی ہیں، خام مال لانے اور تیار مال باہر لے جانے کے لیے گاڑی اس کے پاس ہے۔ ہنرمند مزدور خود یا اس کے خاندان کا کوئی فرد بیمار پڑتا ہے، تو ڈاکٹر بھی مڈل مین کا دوست ہے۔ غرض قدم قدم پر مڈل مین نے یہاں کے ہنر مند مزدوروں کو اپنا محتاج بنائے رکھا ہے۔ سترہ ہزار آبادی کے اس گاؤں میں کوئی سرکاری اسپتال نہیں ہے، مگر اس میں اٹھارہ سے لے کر بیس تک پرائیویٹ کلینکس قائم ہیں۔

چادروں کو پریس کیا جا رہا ہے۔
چادروں کو پریس کیا جا رہا ہے۔
تیار چادریں.
تیار چادریں.
تیار چادریں.
تیار چادریں.

ایک بنیادی صحت مرکز ہے اور وہ بھی تین ساڑھے تین کلومیٹر دور۔ یہاں چمڑے کی بیماریاں عام ہیں۔ اس طرح گاؤں میں نکاسیء آب کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ چونکہ گاؤں پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے، اس لیے یہاں پر گھروں میں کھڈ تعمیر نہیں کیے جاسکتے۔ زمین پتھریلی ہے، تو لیٹرین کا گندا پانی بھی بالآخر نہر میں ہی آملتا ہے۔ پھر اس پانی کے استعمال ہی کی وجہ سے گاؤں کے ہر چوتھے یا پانچویں شخص کو ہیپاٹائٹس اے، بی یا سی میں سے کوئی ایک لاحق ہے۔

گاہے گاہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ان مسائل کے حوالے سے بات کی گئی ہے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا ہے۔ گاؤں کے ہنر مند مزدور حکومت وقت سے اس حوالے سے شاکی ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ یہاں کے ہنر مندوں کو بلا سود چھوٹے چھوٹے قرضے دے، مڈل مین کو بیچ میں سے نکال کر ہنرمندوں کے لیے مارکیٹ مہیا کرے۔ حکومت وقت یہ بھی کر سکتی ہے کہ خام مال ہنرمندوں کو دے اور پھر ان سے تیار شدہ مال اچھے داموں خرید کر برآمد کرے۔ یوں ایک طرف ان ہنر مندوں کا استحصال نہیں ہوگا، تو دوسری طرف اچھا خاصا زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (39) بند ہیں

Hanif Sep 04, 2015 09:32pm
Super...
Gulaley Sep 04, 2015 10:00pm
میری ماں سوات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ گاؤں میں دیکھ چکی ہوں۔ ہم موسم سرما کے لئے یہاں سے شال خریدتے ہیں۔ پچھلے سال میرے پاپا نے یہی سے ایک شال خرید کے مجھے دی تھی۔
Dr Jawad Iqbal Sep 04, 2015 10:02pm
Dr Amajad Sahaba saib Thank You for bringing such informative and well written and taken stories.
Muhammad Ayub Khan Sep 04, 2015 10:02pm
can you tell me the difference between employment and Classical unemployment Cyclical unemployment Marxian theory of unemployment Full employment Structural unemployment Frictional unemployment Hidden unemployment Long-term unemployment and under employment? If you can reply to this question you will not sayکوئی شخص بیروزگار نہیں
احسان علی خان Sep 04, 2015 10:14pm
بہت خوب
Abbass Khan Sep 04, 2015 10:55pm
I have gone through this article and highly appreciate the effort. This is the real task of media to highlight and speak for those who cannot speak for themselves. Well done Dawn & keep it up!
JUNAID ALI Sep 05, 2015 01:11am
VERY GOOD EFFORT BY THE AUTHOR.
Ayaz Sep 05, 2015 06:27am
agr app rural aur industrial culture ko dekana chahthe han tu islampoor aye kionke kal hum ne eder se shoping ki dohankandar ne gar se chaye mangowa kar hume pehla di
Imran Sep 05, 2015 06:31am
" پھر اس پانی کے استعمال ہی کی وجہ سے گاؤں کے ہر چوتھے یا پانچویں شخص کو ہیپاٹائٹس اے، بی یا سی میں سے کوئی ایک لاحق ہے۔" اب روزگار ہونا یا نہ ہونا برابر ہو گیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
محمد وقاص Sep 05, 2015 09:20am
سحاب سر بہت خوب۔ ایک دفعہ پھر آپ انتہائی دلچسپ اور معلوماتی آرٹیکل سامنے لائے۔ بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہم ایک ایسے فرٹائیل خطے سے طعلق رکتھے ہیں۔ ساتھ میں جب ارباب اختیار کی غفلت اور ظالمانہ رویہ دیکتھے ہیں تو دکھ ہوتا ہے۔چین کی طرقی کے پیچھے اسی کاٹیج انڈسٹری کا ہاتھ ہے۔ مقامی صنعتوں کے فروغ سے ہم ایک خوشحال قوم کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔
Nadeem khan Sep 05, 2015 10:17am
proud of my village (Y)
Muhammad Shoaib Sep 05, 2015 12:23pm
Buhut buhut shukriya Amjad Ali Sahaab sab ka bhe aur Dawn media group ka bhe. Tareekh ky hawaly sy ye zaroor kahunga ke Hazrat Mian Noor baba-je ilm hasil karny k lea Hindostan gaye thy. Un ky Hindosatan wapasi par he yahan deeni uloom ka sarchashma jari hogya, aik madrassy (Khanqah Deniya Rahmaniya) ka qayam aml mai laya gay, jis sy ab tak hazooron log mustafeed hoty chaly aarahy hai, aur yun dheerey dheerey yahan deni mashaghil ka charcha aam hony lagay. Ye khushboo chand he saalon mai pory darray (Valley) mai pheil gai, log deen ky gharaz sy yahan ana shoro hogaye aur youn aik deeni darasgah aur islami riwayat ky waja sy ye khitta Islampur ky naam sy yaad kiya jany laga. Aur jahan tah Salampoor ky naam ka taaluq hai tu eski aik waja ye bhe hosakti he ke yahan ky beishtar loog karoobar sy wabista hai, Sayed taleem sy doori ky waja sy esy short-name Salampoor sy yaad kiya jany laga ho, halanke yahn ki basiun aur degar tehreri kaghazaat mai shoro he sy Islampur ka naam likha jata hai.
Muhammad Shoaib Sep 05, 2015 12:30pm
Buhut buhut shukriya Amjad Ali Sahaab sab ka bhe aur Dawn media group ka bhe. Tareekh ky hawaly sy ye zaroor kahunga ke Hazrat Mian Noor baba-je ilm hasil karny k lea Hindostan gaye thy. Un ky Hindosatan wapasi par he yahan deeni uloom ka sarchashma jari hogya, aik madrassy (Khanqah Deniya Rahmaniya) ka qayam aml mai laya gay, jis sy ab tak hazooron log mustafeed hoty chaly aarahy hai, aur yun dheerey dheerey yahan deni mashaghil ka charcha aam hony lagay. Ye khushboo chand he saalon mai pory darray (Valley) mai pheil gai, log deen ky gharaz sy yahan ana shoro hogaye aur youn aik deeni darasgah aur islami riwayat ky waja sy ye khitta Islampur ky naam sy yaad kiya jany laga. Aur jahan tah Salampoor ky naam ka taaluq hai tu eski aik waja ye bhe hosakti he ke yahan ky beishtar loog karoobar sy wabista hai, Sayed taleem sy doori ky waja sy esy short-name Salampoor sy yaad kiya jany laga ho, halanke yahn ki basiun aur degar tehreri kaghazaat mai shoro he sy Islampur ka naam likha jata hai.
haider ali Sep 05, 2015 01:22pm
i proud to say that i belonged here but our govt never give attention to promote this hand work as a hand industries even this village have a huge population but hard worker and no grievance about job except to promote their industries and there will be much more opportunities for neighbor villages
MIan Raheem Bahadar Sep 05, 2015 01:28pm
I aslo belong to this glorious village, and proud of it, bcz everyone of this village is busy in his own halal hardworking and stand on their own feet, and passing a properous life here, and also the love among the people..
Ali Sep 05, 2015 01:48pm
Author (Y)
MIan Raheem Bahadar Sep 05, 2015 02:39pm
I also belong to this glorious village, where every person of this village is busy in his own Halal hardworking and stand on their own feet and passing a prosperous life,, and also love among them
suliman Sep 05, 2015 04:42pm
zabar10 sir Amjad sahab great story
Muhammad nabeel Sep 05, 2015 09:13pm
Mujhy islampur daikhny k bhot shok ha. Ik dafaa zaroor jaon ga islampur sawat m.
abdul haq Sep 06, 2015 08:15am
this is a great village the people of which attached to a great profesion. it is the duty of govt to support this bussiness which has a great role in the economy
پارس Sep 06, 2015 09:07am
زبردست۔ یہ میرے گاوں کا قریبی علاقہ ہے
Awais afridi Sep 06, 2015 02:54pm
I appreciate the author weldone.when we listen these absoultly telant then we r happy.and when we listen these kind of talk ""%Model Man"" that is very very shocked
nouman ahmad Sep 06, 2015 04:25pm
dawn news is my favuraite news channel........great work.
Razia Khan Sep 07, 2015 10:48am
Its good to read that a place where no one is jobless and they doing remarkable work/handicrafts. Amazing Art, Govt. try to resolve their problems and make this place more better for living because those people are great assets of our country and we should need to establish them and give them support and update machinery to produce best designs which can be export every where in the world. Just need to land supporting hand and Take Care of them. PAKISTAN ZINDABAD..................
MUHAMMAD imran Sep 07, 2015 02:55pm
Amazing n Dazzling Starz
Mujahid Torwali Sep 07, 2015 07:31pm
Thanks Amjad Sahab, you did a brilliant job. These are the most important things which we can show to the rest of the world that we have the potentials and we can do anything but we need opportunities
Munir Dar Sep 07, 2015 11:27pm
Bohat Khoob. Pakistan Zindabad. Lakin Kam ki Qader honi chaheya.
عبدالخالق Sep 08, 2015 06:57am
الله تعالى سوات سميت تمام ملك كوامن كامنبع بنا امين
Syed Ammar Sep 08, 2015 05:10pm
This is wonderful. Government should support these people to expand their business in terms of export goods.
Shahmeer Sep 09, 2015 09:36am
Mehanti log Allah tala ko bhut pasand hai, Allah pak her Paksitan k shaer aur gaon k logon ko haq hilal rozgar atta farmai!
مصطفیٰ Sep 09, 2015 09:14pm
ایک کہاوت ہے "آزمودہ را آزمودن جہل است " حکومت اور اس کے نمائندوں سے کسی قسم کی مددکی امید رکھنا عبث ہوگا بلکہ جہالت ہی کہلاۓ گا ..... آپ لوگوں کو اپنی مدد آپ کرنی ہوگی ..... آپ لوگوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ انڈیا کے مختلف علاقوں اور مقبوضہ کشمیر میں بھی کاٹیج انڈسٹری کے اپنے اسٹور براہ راست اپنی اپنی مصنوعات گاہکوں کو فروخت کرنے کا اہتمام کرتے ہیں -- یہ کام آن لائن بھی ہوتا ہے جس کےسیٹ اپ کے لئے کچھ محنت کی بھی ضرورت ہے - غیر ملکی گاہکوں سے سب سے پہلے ایمانداری سے پیش آنا انتہائی ضروری ہے ..... اس کے بغیر یہ گاڑی آگے نہیں چل سکتی ---- بد قسمتی سے ماضی کے ریکارڈ کے مطابق ہماری بزنس کمیونٹی میں ایمانداری کا فقدان ہے.... ایک اور انگریزی کی کہاوت ہے " You can fool some of the people some of the time, but you can't fool all the people all the times " There is a large Pakistani community and market for these products all over the world. اس پروگرام کی کامیابی کریڈٹ کارڈ کے استعمال کے بغیر تقریبا ناممکن ہے امجد علی سحاب آپ کا یہ آرٹیکل ستائیش کا مستحق ہے
IRFAN SHAHZAD Sep 10, 2015 12:24am
wonder full, excellent
M shoaib Sep 10, 2015 09:14pm
really appreciable work done by author
Gulaley Sep 11, 2015 12:20pm
Would Dawn administration share writer's photo with short description please?
Faiz Ali Sep 12, 2015 12:15pm
Thanks to the author for highlighting several health related issues. However, I feel that several statements regarding the economics, employment and every 4ht Hepatitis need to be verified. I also agree with the author in his feeling for immediate attention of the government for the water born diseases and sewerage system. I would imagine, this village may serve as model village in the country setting as example for the rest of the country provided the daily wagers, who are almost 90 % get the due share in the whole industry instead of being working for the so called "Middle Man", I term it Mafia.. regards: Regards:
Samiullah Khatir Sep 29, 2015 11:39am
Well Written and composite story by Amjad Ali Sahaab. Worth of reading and of course the village can set a role model for the rest of the country. Home based industry surely be supported by Government and we must have new techniques to end the middle man monopoly in silk industry of Salam Pur Swat.
shafi ur rehman Nov 15, 2015 08:13am
buht khoob ALLAH say dua hai ke yelog jo qadam uthaye taraqqy ki taraf ALLAH inki madad farmaye or kamiabi ki rahin kholin inky liye
حسن امتیاز Nov 15, 2015 09:26am
امجد علی سحاب صاحب کا یہ مضمون بہت معیاری ہے ۔
M. Ijaz Nov 16, 2015 11:50am
very nice people and technical persons allah tala pure pakistan m ese tarah ke log age ayen phir inshallah pura pakistan berozegari se pak ho jae ga inshallah