ساحل پہ کھڑے ہو، تمہیں کیا غم!
ڈوبنے والے شامی بچے کی تصاویر نے دنیا کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ بدھ کی صبح لی گئی ان تصاویر میں عیلان کردی نامی تین سالہ بچے کی ترکی کے ساحل پر بہہ کر آنے والی لاش دیکھی جا سکتی ہے۔
وہ اور اس کا بھائی ان 12 لوگوں میں سے تھے جو شام میں جاری جنگ سے فرار ہونے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب گئے۔ دنیا کے زیادہ تر لوگوں نے بڑے پیمانے پر جاری اس انسانی ہجرت کی تلخ کہانی کو صرف تب محسوس کیا جب یہ تصاویر منظرِ عام پر آئیں.
رفیوجی یا پناہ گزین ایک شخص نہیں، بلکہ ایک اذیت کا نام ہے۔ یہ اپنی آبائی زمین سے نکال دیے جانے، اور آخری سانس تک دربدر رہنے کی اذیت ہے، جو نہ کبھی ختم ہوتی ہے، اور نہ چین سے جینے دیتی ہے۔ ایک پناہ گزین ایک اجنبی کاغذ پر لکھی ہوئی ایک نظم ہوتا ہے۔ یہ دو طرح کی شناخت، مقامی اور غیر مقامی کے درمیان پھنس چکی ایک زندگی ہوتی ہے۔ یہ دو طرح کی سرزمینوں، اپنی اور پرائی، کے درمیان پھنس چکی ایک روح ہوتی ہے. ہمیشہ پریشان، کبھی سکون نہ پانے والا رفیوجی ایک اجنبی سرزمین پر بہہ جانے والا آنسو ہوتا ہے۔
جذباتی صدموں کے علاوہ پناہ گزین ہونا تکلیف، ہلچل، اور پریشانی سے بھرپور تجربہ ہوتا ہے۔ یہ سختیوں، غیر یقینی صورتحال، اور مصیبتوں کی کہانی ہے جو اپنے مگر بدحال گھر سے نکلنے اور ایک پرائے مگر پرسکون گھر کے راستے میں آتی ہیں۔
دیکھیں: شامی پناہ گزینوں کی مزید تصاویر
پناہ گزینی ظلم سے بھرپور وہ گھڑی ہے جب وطن چھوڑ دینا صرف ایک انتخاب نہیں بلکہ مجبوری بن جاتی ہے۔
آج دنیا بھر میں 6 کروڑ کے قریب لوگ ایسے ہیں جو جنگ، تنازعات، یا نسل کشی کے خوف سے اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ 3 کروڑ 82 لاکھ لوگ اپنے ہی ملکوں کے اندر دربدری کا شکار ہیں جبکہ 1 کروڑ 95 لاکھ لوگ مختلف ممالک کی جانب ہجرت کر چکے ہیں۔
اسے دوسرے پیرائے میں دیکھا جائے تو کرہء ارض کے ہر 122 لوگوں میں سے 1 شخص دربدر ہے۔ شامی خانہ جنگی کی وجہ سے 95 لاکھ لوگ دربدر ہوچکے ہیں، جو کہ شام کی مکمل آبادی کا 43 فیصد ہے۔ آخری بار جنگِ عظیم دوئم کے دوران پناہ گزینوں کی تعداد 5 کروڑ سے زائد ہوئی تھی۔
یہ دور پناہ گزینی کا دور ہے۔
بحیرہء روم سے دردناک خبریں سامنے آ رہی ہیں، جہاں اس جنوری سے لے کر اب تک 2500 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر لوگ شام، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ، اور دیگر علاقوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب گئے۔ اس سال کے پہلے نصف میں یورپ پہنچنے والے ایک تہائی پناہ گزین شامی تھے۔ غلط نہیں ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ یورپ اپنی تاریخ کے سب سے بڑے پناہ گزین المیے سے گزر رہا ہے۔
جانیے: شامی مہاجرین یورپی عیسائیت کیلئے خطرہ؟
دربدر ہوچکے لوگوں کی بے نظیر تعداد اس بات پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے کافی ہے کہ دنیا آج نسبتاً محفوظ جگہ ہے۔
بحیرہء روم کے بے رحم پانیوں میں ڈوبنے والا ہر بچہ قومی سرحدوں کے ظلم و ستم کی نشاندہی کرتا ہے۔
گھر چھوڑنے پر مجبور کی جانے والی شام کی ہر عورت شدید مذہبی انتہاپسندی کی گواہ ہے۔
پاکستان بھر میں کسی بھی کیمپ میں رہنے والا آئی ڈی پی جنگوں کی بربریت اور جدید ریاستوں کی بے پناہ طاقت کا شاہد ہے۔
اس چیز کا اختتام کہیں نظر نہیں آتا۔ اوقیانوس کے ساحلوں سے لے کے بحرِ ہند کے ساحلوں تک قوم پرستی اور قومیت کا تصور اپنے عروج پر ہے۔ سوئیز سے لے کر دریائے سندھ تک مذہبی انتہاپسندی اور جدید سیاست کا گٹھ جوڑ معاشروں کو بکھیر رہا ہے۔ فرگوسن (امریکا) سے لے کر کشمیر تک، ریاستیں پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔
پڑھیے: دربدری جب مقدر بن جائے
پناہ گزین المیہ بنیادی طور پر جدید دنیا کا المیہ ہے جسے ہمارے وقت کے ہم سے کیے جانے والے سوالات کے جواب ڈھونڈے بغیر نہیں ختم کیا جا سکتا۔
اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اپنے آبائی علاقوں سے دربدر ہوجانے والے لاکھوں لوگوں کو کہاں اور کیسے ٹھہرایا جائے۔ 40 لاکھ کے قریب شامی لوگ دیگر ممالک میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ یورپی یونین کو یورپ پہنچنے والے پناہ گزینوں کی مدد کرنے کے لیے بھرپور اقدامات کرنے چاہیئں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ المیہ اتنا بڑا ہے کہ اکیلے یورپی یونین کے بس کی بات نہیں۔
اس کے علاوہ یورپی یونین نہیں بلکہ ترکی، لبنان، اردن، عراق، اور مصر نے 95 فیصد شامی پناہ گزینوں کو جگہ دی ہے۔
حیرت انگیز طور پر، یا شاید غیر حیرت انگیز طور پر، تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ممالک سعودی عرب، قطر، بحرین، کویت، اور متحدہ عرب امارات نے شامی پناہ گزینوں کو بالکل جگہ فراہم نہیں کی۔ صرف یہی ایک حقیقت 'ایک مسلم امت' کے تصور کو جھٹلانے کے لیے کافی ہے۔
اگر دنیا میں کوئی خطہ ایسا ہے جسے اس انسانی المیے کے حل کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہیئں، تو وہ خلیج ہے۔ ان ممالک کے پاس وہ وسائل اور انفراسٹرکچر موجود ہے جو اس طرح کے حالات سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب اکیلے ہر سال لاکھوں عازمینِ حج کو سنبھالتا ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی کلینڈر بھی ہجرت کے سال سے شروع ہوا اور ہجری کلینڈر کہلاتا ہے۔
برطانوی صومالی شاعر ورسان شائر جو برطانیہ منتقل ہوگئے تھے، انہوں نے یہ نظم لکھی تھی:
"تمہیں یہ سمجھنا ہوگا
کوئی بھی اپنے بچے کو کشتی میں نہیں ڈالتا
جب تک کہ پانی زمین سے زیادہ محفوظ نہ ہو"
ان سادہ الفاظ میں کتنی دردناک صدا پوشیدہ ہے، مگر یہ اتنی دردناک نہیں جتنی اس ڈوب جانے والے شامی بچے کی ہوگی۔
تبصرے (10) بند ہیں