نڑالی: منفرد تاریخی عمارات کا امین
پنجاب کی تحصیل گجر خان کے دیگر دیہاتوں کی طرح میں نڑالی کی طرف بھی اس کی شاہکار تاریخی عمارتوں کی وجہ سے کھنچا چلا گیا۔ آزادی سے قبل نڑالی کو خطے میں تجارت کے مرکز کی شہرت حاصل تھی۔
دولتلہ قصبے سے 4 کلومیٹر شمال میں قائم اس گاؤں میں رادھے شام کا مندر، ایک پانی کا ٹینک جسے نڑالی تالاب کہا جاتا ہے، اور کئی سکھ اور ہندو حویلیاں ہیں۔
رادھے شام مندر، نڑالی تالاب، اور ایک حویلی کا منظر. |
رادھے شام مندر ایک کافی بلند تعمیر ہے اور نڑالی کی دیگر تعمیرات میں منفرد نظر آتی ہے۔ دو منزلہ مندر کے اوپر ایک 'شکھر' (چوٹی) ہے جبکہ اوپر اور نیچے دونوں منزلوں کا داخلی حصہ محرابی ہے۔
نچلی منزل عبادت گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی جبکہ اوپری منزل میں بھگوان کی مورتی ہوا کرتی تاکہ عقیدت مند دور سے ہی 'درشن' کر پائیں۔ شاید یہ ہندوؤں میں ذات پات کے سخت گیر نظام کی وجہ سے کیا گیا ہوگا تاکہ سب سے نچلی ذات کے دلت ہندو اونچی ذات والوں کے پاس نہ پھٹکیں اور دور سے ہی عبادت کر لیں۔
رادھے شام مندر. |
مندر کے اندر نصب تختی. |
پوٹوہار کے ایک بڑے حصے میں اونچی ذات، یعنی برہمنوں اور کشتریوں، اور ویشوں کے مندر کافی تعداد میں ہیں لیکن ایک بھی مندر شودر، ہریجن، یا دلت ذات کے لوگوں کا بنایا ہوا نہیں ہے۔
رادھے شام مندر پوٹوہار کا بلند ترین مندر ہے۔ رادھے شام مندر، اور ٹیکسلا اور راولپنڈی کے دو مندروں کو چھوڑ کر پاکستان میں اس طرح کے مندر دیکھ پانا بہت ہی نایاب تجربہ ہے۔
رادھے شام مندر. |
مندر چوکور صورت میں تعمیر کیا گیا ہے، اور شکھر سمیت دونوں منزلیں بھی چوکور ہی ہیں۔ مندر کی اندرونی دیواروں پر گلکاری کی گئی ہے۔ بدقسمتی سے مندر کی بیرونی دیواروں پر موجود نقش و نگار وقت کی سختیاں نہیں جھیل پائے، اور اب ان کی گذشتہ شان و شوکت کی صرف جھلک ہی باقی رہ گئی ہے۔
گاؤں کے بیچوں بیچ پانی کا ایک بڑا ٹینک ہے۔ اس کی مغربی دیوار پر سیڑھیاں ہیں جو اوپر تک لے جاتی ہیں۔ جنوبی دیوار پر ایک تختی نصب ہے جس پر لکھا ہے:
"یہ تالاب بخشی ہرنام سنگھ سب اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سروے و برادران نے اپنے والد بخشی تیجا سنگھ اور چچا سنت صاحب سنگھ کی یاد میں تعمیر کروایا۔"
نڑالی تالاب قدیم طرز پر تعمیر کیا گیا ہے اور مجھے ابھی بھی نڑالی کے قریبی دیہاتوں میں اینٹ کا اتنا نفیس کام نظر نہیں آیا ہے۔
مندر اور تالاب کے علاوہ نڑالی میں چار شاندار حویلیاں بھی ہیں۔ ایک حویلی تالاب کی جنوبی سمت میں ہے۔ اس دو منزلہ حویلی پر سنگِ مرمر سے نہایت نفیس استرکاری کی گئی ہے۔ حویلی کے مرکزی داخلی راستے پر دو دروازے ہیں۔ تمام دروازوں پر باریک تراش کی گئی ہے۔ مرکزی دروازے کے اوپر سنگِ مرمر میں پھولوں کے نقش تراشے گئے ہیں۔
تمام حویلیاں رادھے شام مندر سے 200 میٹر مغرب میں ایک تنگ گلی میں واقع ہیں، جبکہ ان کی بالکونیاں لکڑی سے بنائی گئی ہیں۔
نڑالی کی تنگ گلیاں. |
زیادہ نمایاں حویلیاں وہ ہیں جن میں اوپر چوکور برج بنے ہوئے ہیں، جو پوٹوہاری حویلی کی پہچان ہیں۔
کونٹریلہ میں بخشی رام سنگھ کی حویلی، دولتلہ میں حویلی اتم سنگھ، کلر سیداں میں حویلی کھیم سنگھ بیدی اور واہ حویلی میں ایسے ہی برج موجود ہیں۔ حویلیوں میں لکڑی کی بالکونیاں معمار اور مالکان دونوں ہی کے اعلیٰ ذوق کا پتہ دیتی ہیں۔
نڑالی کی ایک حویلی. |
یہ حویلی نڑالی تالاب کے سامنے واقع ہے. |
ایک حویلی میں خوبصورت طاق. |
تعمیرات کے ان شاہکار نمونوں کو خستہ حالت میں دیکھ کر دل ٹوٹ جاتا ہے، خاص طور پر یہ سوچ کر کہ نڑالی کا یہ تاریخی گاؤں سیاحت کے لیے کتنا موزوں ہو سکتا ہے۔
میں حکومتِ پنجاب پر زور دیتا ہوں کہ وہ ان تاریخی مقامات کی نشاندہی کے لیے بورڈ لگائے، جبکہ محکمہء سیاحت پنجاب کو اس ورثے کی حفاظت و بحالی کے لیے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ان کی تاریخی حیثیت بھلائے جانے کے بجائے برقرار رہ سکے۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.
تبصرے (4) بند ہیں