• KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:02pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:03pm Isha 6:30pm
  • KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:02pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:03pm Isha 6:30pm
شائع August 31, 2015

نڑالی: منفرد تاریخی عمارات کا امین

ذوالفقار علی کلہوڑو

پنجاب کی تحصیل گجر خان کے دیگر دیہاتوں کی طرح میں نڑالی کی طرف بھی اس کی شاہکار تاریخی عمارتوں کی وجہ سے کھنچا چلا گیا۔ آزادی سے قبل نڑالی کو خطے میں تجارت کے مرکز کی شہرت حاصل تھی۔

دولتلہ قصبے سے 4 کلومیٹر شمال میں قائم اس گاؤں میں رادھے شام کا مندر، ایک پانی کا ٹینک جسے نڑالی تالاب کہا جاتا ہے، اور کئی سکھ اور ہندو حویلیاں ہیں۔

رادھے شام مندر، نڑالی تالاب، اور ایک حویلی کا منظر.
رادھے شام مندر، نڑالی تالاب، اور ایک حویلی کا منظر.

رادھے شام مندر ایک کافی بلند تعمیر ہے اور نڑالی کی دیگر تعمیرات میں منفرد نظر آتی ہے۔ دو منزلہ مندر کے اوپر ایک 'شکھر' (چوٹی) ہے جبکہ اوپر اور نیچے دونوں منزلوں کا داخلی حصہ محرابی ہے۔

نچلی منزل عبادت گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی جبکہ اوپری منزل میں بھگوان کی مورتی ہوا کرتی تاکہ عقیدت مند دور سے ہی 'درشن' کر پائیں۔ شاید یہ ہندوؤں میں ذات پات کے سخت گیر نظام کی وجہ سے کیا گیا ہوگا تاکہ سب سے نچلی ذات کے دلت ہندو اونچی ذات والوں کے پاس نہ پھٹکیں اور دور سے ہی عبادت کر لیں۔

رادھے شام مندر.
رادھے شام مندر.
مندر کے اندر نصب تختی.
مندر کے اندر نصب تختی.

پوٹوہار کے ایک بڑے حصے میں اونچی ذات، یعنی برہمنوں اور کشتریوں، اور ویشوں کے مندر کافی تعداد میں ہیں لیکن ایک بھی مندر شودر، ہریجن، یا دلت ذات کے لوگوں کا بنایا ہوا نہیں ہے۔

رادھے شام مندر پوٹوہار کا بلند ترین مندر ہے۔ رادھے شام مندر، اور ٹیکسلا اور راولپنڈی کے دو مندروں کو چھوڑ کر پاکستان میں اس طرح کے مندر دیکھ پانا بہت ہی نایاب تجربہ ہے۔

رادھے شام مندر.
رادھے شام مندر.

مندر چوکور صورت میں تعمیر کیا گیا ہے، اور شکھر سمیت دونوں منزلیں بھی چوکور ہی ہیں۔ مندر کی اندرونی دیواروں پر گلکاری کی گئی ہے۔ بدقسمتی سے مندر کی بیرونی دیواروں پر موجود نقش و نگار وقت کی سختیاں نہیں جھیل پائے، اور اب ان کی گذشتہ شان و شوکت کی صرف جھلک ہی باقی رہ گئی ہے۔

گاؤں کے بیچوں بیچ پانی کا ایک بڑا ٹینک ہے۔ اس کی مغربی دیوار پر سیڑھیاں ہیں جو اوپر تک لے جاتی ہیں۔ جنوبی دیوار پر ایک تختی نصب ہے جس پر لکھا ہے:

"یہ تالاب بخشی ہرنام سنگھ سب اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سروے و برادران نے اپنے والد بخشی تیجا سنگھ اور چچا سنت صاحب سنگھ کی یاد میں تعمیر کروایا۔"

نڑالی تالاب قدیم طرز پر تعمیر کیا گیا ہے اور مجھے ابھی بھی نڑالی کے قریبی دیہاتوں میں اینٹ کا اتنا نفیس کام نظر نہیں آیا ہے۔

مندر اور تالاب کے علاوہ نڑالی میں چار شاندار حویلیاں بھی ہیں۔ ایک حویلی تالاب کی جنوبی سمت میں ہے۔ اس دو منزلہ حویلی پر سنگِ مرمر سے نہایت نفیس استرکاری کی گئی ہے۔ حویلی کے مرکزی داخلی راستے پر دو دروازے ہیں۔ تمام دروازوں پر باریک تراش کی گئی ہے۔ مرکزی دروازے کے اوپر سنگِ مرمر میں پھولوں کے نقش تراشے گئے ہیں۔

تمام حویلیاں رادھے شام مندر سے 200 میٹر مغرب میں ایک تنگ گلی میں واقع ہیں، جبکہ ان کی بالکونیاں لکڑی سے بنائی گئی ہیں۔

نڑالی کی تنگ گلیاں.
نڑالی کی تنگ گلیاں.

زیادہ نمایاں حویلیاں وہ ہیں جن میں اوپر چوکور برج بنے ہوئے ہیں، جو پوٹوہاری حویلی کی پہچان ہیں۔

کونٹریلہ میں بخشی رام سنگھ کی حویلی، دولتلہ میں حویلی اتم سنگھ، کلر سیداں میں حویلی کھیم سنگھ بیدی اور واہ حویلی میں ایسے ہی برج موجود ہیں۔ حویلیوں میں لکڑی کی بالکونیاں معمار اور مالکان دونوں ہی کے اعلیٰ ذوق کا پتہ دیتی ہیں۔

نڑالی کی ایک حویلی.
نڑالی کی ایک حویلی.
یہ حویلی نڑالی تالاب کے سامنے واقع ہے.
یہ حویلی نڑالی تالاب کے سامنے واقع ہے.
ایک حویلی میں خوبصورت طاق.
ایک حویلی میں خوبصورت طاق.

تعمیرات کے ان شاہکار نمونوں کو خستہ حالت میں دیکھ کر دل ٹوٹ جاتا ہے، خاص طور پر یہ سوچ کر کہ نڑالی کا یہ تاریخی گاؤں سیاحت کے لیے کتنا موزوں ہو سکتا ہے۔

میں حکومتِ پنجاب پر زور دیتا ہوں کہ وہ ان تاریخی مقامات کی نشاندہی کے لیے بورڈ لگائے، جبکہ محکمہء سیاحت پنجاب کو اس ورثے کی حفاظت و بحالی کے لیے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ان کی تاریخی حیثیت بھلائے جانے کے بجائے برقرار رہ سکے۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری

انگلش میں پڑھیں۔


ذوالفقار علی کلہوڑو اینتھروپولوجسٹ ہیں، اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد میں ٹورازم، گلوبلائزیشن، اور ڈویلپمنٹ پڑھاتے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے. انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Kalhorozulfiqar@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.

ذوالفقار علی کلہوڑو

ذوالفقار علی کلہوڑو اینتھروپولوجسٹ ہیں، اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد میں ٹورازم، گلوبلائزیشن، اور ڈویلپمنٹ پڑھاتے ہیں۔

ان سے فیس بک پر رابطہ کریں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

NB Nsr Aug 31, 2015 03:47pm
Excellent research work with amazing photography... Great work Zulfiqar Ali Kalhoro..
علی ظفر اعوان Aug 31, 2015 04:15pm
مجھے بھی تاریخی مقامات اور پرانی چیزوں سے بہت دلچسپی ہے دیکھنے مین
نجیب احمد سنگھیڑہ Aug 31, 2015 08:58pm
محکمہ آثار قدیمہ تاریخی عمارات کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ نہ تاریخی عمارات کی مرمت کی جاتی ہے اور نہ ہی ان عمارات کے ساتھ اور ان عمارات سے ملحقہ عمارتوں کی جدید خطوط میں تعمیر اور مرمت کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ محکمہ خزانے پر بوجھ ہے۔ لاہور کی تاریخی عمارتوں اور سکولوں کالجوں پر اس نے کبھی نظر نہیں دوڑائی جہاں پر تاریخ کو جدید کی پیوند کاری کر کے خوبصورتی کے نام پر ختم کیا جا رہا ہے۔
haroon kamran Sep 01, 2015 12:45pm
اچھی تحقیق ہے جناب ، اُمید ہے آپ ایسے ہی گمشدہ مقامات ڈھونڈتے رہیں گے اور لوگوں میں آگاہی پھیلاتے رہیں گے ، رہی بات محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ کی تو وہ بھی کبھی نہ کبھی پڑ جائے گی جب اُن کی باگ دوڑ اچھے ہاتھوں میں ہوگی ، شاید نئے پاکستان میں ، پر انسان کو کامیابی کی اُمید پر ہی کام نہیں کرنا چاہئے بس اپنی دُھن میں لگے رہو ۔