پراسرار رنی کوٹ: ' دنیا کا سب سے بڑا قلعہ'
قلعہ رنی کوٹ، جسے 'دیوارِ سندھ' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دنیا کا سب سے بڑا قلعہ سمجھا جاتا ہے، مگر کس نے اسے تعمیر کیا اور مقصد کیا تھا؟ ان سوالات کے جوابات ہم سب کو چکرا دیتے ہیں۔
مصنف ازوبیل شا تحریر کرتی ہیں "قلعہ رنی کوٹ کا حجم تمام وجوہات کی تردید کرتا ہے، یہ ایسی جگہ کے درمیان ہے جہاں کچھ نہیں. پھر یہاں یہ کس چیز کے دفاع کے لیے تعمیر کیا گیا؟"
26 کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا یہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے، مگر اس کے باوجود حکام یہاں سیاحت کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں.
کراچی سے اس قلعے تک رسائی نہایت آسان ہے اور قومی شاہراہ کے ذریعے یہاں پہنچا جا سکتا ہے. کراچی سے نکلنے کے بعد دادو کی جانب انڈس ہائی وے پر سفر کریں۔ اس سڑک کی حالت بہترین ہے اور سندھی قوم پرست جی ایم سید کے آبائی قصبے سن تک ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ اس قصبے سے کچھ آگے ایک دوراہا آتا ہے، ایک زنگ آلود بورڈ پر اعلان کیا گیا ہے کہ رنی کوٹ یہاں سے لگ بھگ تیس کلو میٹر دور واقع ہے۔ اگرچہ سڑک کافی خراب ہے مگر پھر بھی یہ فاصلہ تیس سے چالیس منٹ میں طے ہوجاتا ہے۔
اس سڑک سے آپ قلعے کی مشرقی سمت تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور اس راستے کو "سن دروازے" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں قلعے کی دیواریں بہتر حالت میں ہیں، جبکہ دونوں اطراف سے اوپر چڑھنے سے اس جگہ کا بہترین نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
یہاں سے میٹل روڈ کچھ پیچ و ختم کے بعد آپ کو "میری" تک لے جاتا ہے، جو قلعے کے اندر ایک چھوٹا قلعہ ہے جہاں شاہی رہائش گاہیں موجود ہیں۔ یہاں سے کوئی بھی "شیرگڑھ" کو دیکھ سکتا ہے. یہ ایک اور چھوٹا قلعہ ہے جو اوپر پہاڑیوں پر موجود ہے۔
رنی کوٹ میں موہن گیٹ کو دیکھنا نہ بھولیں، اس تک پہنچنے کے لیے پہلے آپ کو میری جانا ہوگا اور وہاں سے کچھ کلومیٹر گاڑی پر سفر کرنے کے بعد ایک مشکل راستے پر چلنا پڑتا ہے۔
یہ راستہ آبی درے کی جانب لے جاتا ہے جہاں سے آپ بارش کے پانی سے بھرنے والے چشمے میں غوطہ لگا سکتے ہیں جو کہ قلعے کے اندر مقیم گبول دیہاتیوں کے لیے آبِ حیات ہے۔ تین سے چار کلومیٹر کی چہل قدمی کے بعد آپ 'پرین جو تلاؤ' (پریوں کا تالاب) تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ تالاب کئی مقامات پر کافی گہرا ہے اور اس کے ارگرد موجود پتھر کافی پھسلن زدہ ہیں لہٰذا کافی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔
تالاب میں غوطہ لگائیں اور موہن گیٹ کی جانب بڑھ جائیں مگر اس کے لیے رہائشیوں کی گزرگاہ کے راستے پر ہی رہیں۔
چند کلومیٹر بعد آپ گیٹ تک پہنچ جاتے ہیں، یہاں برساتی چشمہ غائب ہوجاتا ہے، اور مختلف سرنگوں کے ذریعے پانی کے دیگر ذخائر سے منسلک ہے۔
دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ پانی کا بہاﺅ ہلکے زلزلے کے بعد سے بڑھ گیا ہے. افواہیں ہیں کہ جانوروں کے منتشر ڈھانچے اور زمانہ قبل از تاریخ کے فوسلز یہاں وہاں سے دریافت ہوئے ہیں۔ مقامی گائیڈ صادق گبول آپ کو اپنے دفتر میں ایسے ایک یا دو ڈھانچے دکھا سکتے ہیں۔
اب یہ اہم سوال کہ کیا اس قلعہ کی سیر کراچی والوں کے لیے محفوظ ہے؟ کیا اس علاقے میں ڈاکو موجود ہیں؟ اس کا جواب کافی پیچیدہ ہے۔
ہم نے خاندانوں کے خاندان، کراچی کے باسی، اور گورے بھی یہاں دیکھے. مقامیوں کا اصرار ہے کہ یہ جگہ محفوظ ہے مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہاں پولیس کہیں نظر نہیں آتی۔
مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ آپ یہاں ایک دن کے اندر گھوم پھر کر واپس آسکتے ہیں (مگر آپ اس دوران شیرگڑھ کی سیر نہیں کرسکیں گے)۔ وہاں جانے کے لیے علی الصبح نکلیں، دوپہر وہاں گزاریں اور سورج غروب ہونے سے قبل حیدرآباد لوٹ جائیں۔ توقع ہے کہ یہ محفوظ اور اچھا سفر ثابت ہوگا۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
فاروق سومرو کراچی کے رہائشی ہیں جو کراچی کی زندگی (یا اس کی عدم موجودگی) سامنے لاتے ہیں۔ انہیں ونائل ریکارڈز اور کتابیں جمع کرنے کا شوق ہے۔
انہیں فیس بک پر فالو کریں، اور ان کی ویب سائٹ دی کراچی والا وزٹ کریں۔
تبصرے (20) بند ہیں