• KHI: Fajr 5:23am Sunrise 6:39am
  • LHR: Fajr 4:49am Sunrise 6:10am
  • ISB: Fajr 4:53am Sunrise 6:16am
  • KHI: Fajr 5:23am Sunrise 6:39am
  • LHR: Fajr 4:49am Sunrise 6:10am
  • ISB: Fajr 4:53am Sunrise 6:16am
شائع August 25, 2015 اپ ڈیٹ August 27, 2015

پانی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا نہ کوئی رنگ ہے اور نہ ہی کوئی ذائقہ، فطرت کے بھی عجیب اسرار ہیں جن میں حیرانگی کی کئی پگڈنڈیاں نکلتی ہیں اور دور تک چلی جاتی ہیں، شعور کی سرحد سے بھی باہر۔ پانی جس کا کوئی رنگ نہیں ہے پر جس رنگ میں ملاؤ اس رنگ میں رنگ جاتا ہے، دنیا کی ساری خوبصورتیاں، سارے رنگ، سارے کیفیتیں اور سارے ذائقے اس پانی کی وجہ سے ہی ہیں لیکن پھر بھی ہے بے رنگ اور بے ذائقہ۔

رچرڈ ایف برٹن نومبر 1845 میں کراچی سے حیدرآباد جانے کے لیے نکلا تھا، ساتھ میں کچھ اونٹ بھی تھے جن پر اس کا سامان لدا ہوا تھا اور اس سفر سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھا۔ وہ مکلی اور ٹھٹہ سے ہوتا ہوا، جاڑوں کے ابتدائی دنوں میں یہاں "کینجھر" پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے: "یہ مچھِیروں کی ایک بستی ہے۔ یہاں میٹھے پانی کی جھیل ہے جس کے کناروں پر سرکنڈے، پھوس، دوب اور دوسری جنگلی گھاس اگی ہوئی ہے۔ یہاں سے سامنے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر سرخ پتھر کا مزار نظر آتا ہے۔ یہ 'جام تماچی' کی محبوب گھر والی 'نوری' کا مزار ہے۔"

اس کے بعد برٹن صاحب 'جھرک' کی طرف بڑھا اور یہاں کے گھنے جنگلوں اور جنگلی حیاتیات کو دیکھا اور جنگلوں کے فائدوں کے متعلق بہت کچھ تحریر بھی کیا۔ برٹن صاحب کو یہیں پر چھوڑتے ہیں، کیونکہ یہاں کے جنگلوں میں اس کے قافلہ کا ایک اونٹ کھو گیا تھا۔

مغربی کنارے سے.
مغربی کنارے سے.
مغربی کنارے سے.
مغربی کنارے سے.

ابن بطوطہ 1333 میں یہاں آیا تھا یا نہیں، اس کے متعلق یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ کینجھر کی قدامت کے متعلق 'سمہ دور حکومت' (1519-1351) میں اس جھیل کا تذکرہ اور "نوری جام تماچی" کی خوبصورتی کے رنگوں میں ڈوبی ہوئی عشقیہ داستان کا تفصیلی ذکر سننے کو ضرور ملتا ہے۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی (1752-1690) نے 'نوری' اور 'جام تماچی' کے رشتے کو جس رنگ میں دیکھا اور محسوس کیا اس کا اظہار انہوں نے "شاھ جو رسالو" کے 'سر کاموڈ' میں کیا ہے۔ 'کاموڈ' بنیادی طور پر ایک مشہور راگنی کا نام ہے جس کا تعلق دیپک راگ سے بتایا جاتا ہے۔ اس عشقیہ داستان کے متعلق شاہ سائیں کہتے ہیں:

"وہ ملاحوں میں پیدا تو ہوئی تھی، مگر قسمت میں تھے اوصاف حوری،

سمہ سردار نے پہچان کر ہی، اسے بخشا تھا اعزاز حضوری،

'سرندے' میں نیا تاگا ہو جیسے، یوں ہی تھی رانیوں کے بیچ نوری"

کہتے ہیں کہ "سمہ خاندان کے ایک مشہور حاکم 'جام تماچی' کے عہد میں کینجھر جھیل کے اردگرد بہت سے مچھیرے رہا کرتے۔ وہ مچھلی پکڑتے اور بیچتے، بس زندگی کے شب و روز ایسے ہی گزرتے جاتے۔ ان مچھیروں میں ایک کے یہاں چاند جیسی بیٹی پیدا ہوئی، اس کی ماہتابی صورت دیکھ کر اس کا نام 'نوری' رکھ دیا۔ جام تماچی سیر و شکار کا بے حد شوقین تھا۔ ایک مرتبہ وہ ایک خوبصورت شاہی کشتی میں سوار ہوکر کینجھر جھیل کی سیر کر رہا تھا کہ اتفاقاً اس کی نظر اس حسین و جمیل دوشیزہ پر پڑی۔ پہلی ہی نظر میں اس کی طرف کچھ ایسا مائل ہوگیا کہ جب واپس اپنے محلات پہنچا تو نوری کی خوبصورت آنکھوں نے اس کا آرام و چین چرا لیا۔ اسی بے چینی میں ذات پات کے سارے بندھن توڑ کر اس نے نوری سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی اور بطور خاص اس کے رشتہ داروں کو شاہی محل میں طلب کیا۔ نوری کے عزیز و اقارب نے یہ رشتہ بڑی خوشی سے قبول کیا۔

جام تماچی کے حکم سے شادیانے بجنے لگے۔ مچھیروں سے جو محصول لیا جاتا تھا اسے بالکل معاف کردیا گیا، اور شاہی خزانے سے ہر ایک کو اتنا مال و زر عطا کیا گیا کہ آن کی آن میں ان غریبوں کے دن پھر گئے۔ نوری شاہی محل میں رہنے لگی، اور اکثر شام کے وقت کشتی میں بیٹھ کر کینجھر جھیل کی سیر کرتی۔ نوری کو اس قدر اوج پر دیکھ کر سب لوگ بصد احترام آداب شاہی بجا لاتے، حتیٰ کہ تمام دوسری رانیوں کو بھی اس کے سامنے جھکنا پڑتا۔ لیکن خلافِ توقع اتنا اعزاز حاصل ہونے کے بعد بھی نوری کی سادگی اور نیازمندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ نوری نے اپنی اس سادہ طبیعت اور نیازمندی سے جام تماچی کے محل کی 'مہارانی' کا لقب پایا۔

"کنارہ کش رہی ہر انجمن سے، جدا سب سے تھی اس نوری کی فطرت،

سے کیا اہل کینجھر سے تعلق، تماچی سے ہوئی جس کو محبت۔"

کہا جاتا ہے کہ نوری کو اس کی موت کے بعد کینجھر جھیل کے وسط میں دفن کیا گیا. ایک قبر بھی یہاں پر موجود ہے مگر کچھ مؤرخین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نوری ہی کی قبر ہے یا نہیں. شاہ عبداللطیف بھٹائی بھی یہاں شاید جاڑوں کے موسم میں آئے ہوں گے۔ اپنی شاعری میں کینجھر کی خوبصورتی بڑے خوبصورت انداز میں بیان کی ہے۔ ایک شعر کا لب لباب یہ ہے کہ: "کینجھر میں پانی اور اوپر پانی میں جھولتی ہوئی گھاس ہے۔ کناروں پر درختوں کی قطاریں ہیں، ایسے میں جب جاڑوں کا موسم آتا ہے اور شمال کی ٹھنڈی ہوائیں لگتی ہیں تو کینجھر جھولنے جیسی ہوجاتی ہے۔"

مگر میں جب مئی میں جھیل کے مغربی کنارے پر پہنچا تو مغربی جنوبی ہوائیں اپنے زوروں پر تھیں اور تیز دھوپ تھی جس کی وجہ سے آنکھیں چندھیا سی جاتیں، اور دور دیکھنے کے لیے سر پر ہتھیلی جمانی پڑتی۔ میں پتھریلے راستے پر چلتا جاتا کہ جھیل کے کنارے کھڑے پیپل کے پیڑ کے پاس پہنچ سکوں۔ مٹیالے رنگ کے پتھر پاؤں کے نیچے آتے اور ایسی آواز آتی جیسے ہم مصری کی ڈلی کو منہ میں رکھ کر توڑتے ہیں۔ میں جب پیپل کے پیڑ تک پہنچا تو پسینے سے تربتر تھا۔ ہوائیں شمال کی نہیں تھیں اس لیے جھیل بھی جھولنے جیسی نہیں تھی پر کنول کے پھول تھے جو کنارے پر کھلتے تھے اور ساتھ میں پھوس بھی تھی جو کنول کے پھولوں کے ساتھ اگی تھی۔

تیز ہوا کی وجہ سے لہروں کو سکون نہیں تھا اور ہوائیں پانی کی سطح پر گاتی گنگناتی دور تک چلی جاتیں۔ ہوا کے تیز جھونکوں پر پیپل کے پتے ایک ردھم سے ایسے بجتے جیسے ننھے منھے ہاتھ تالیاں بجا رہے ہوں اور پھر جھونکا گزر جاتا تو پتے بھی خاموش ہوجاتے۔ میری نظر جہاں تک جاتی ہے ایک نیلی پانی کی لکیر بچھی ہوئی ہے۔ پھر اچانک اس لکیر پر ماہیگیروں کی کشتی ظاہر ہوتی ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے اس نیلی لکیر میں کہیں گم ہوجاتی ہے۔

صدیوں سے یہ جھیل یہیں پر ہے البتہ 60 کی دہائی میں اس کے شمال میں دوسری چھوٹی جھیل 'سونہیری' کو اس سے ملا دیا گیا اور کینجھر کو وسعت دی گئی تاکہ کراچی کو اسی جھیل سے پینے کا میٹھا پانی فراہم کیا جا سکے۔ 1976 میں اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھائی گئی اور اب کوٹری بیراج جامشورو سے 'کلری بگھار فیڈر' کے ذریعے جھیل کو پانی کی فراہمی ہوتی ہے، اور جھیل سے کراچی کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

کینجھر کو اس وقت دو اعزاز حاصل ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ملک کی تازہ میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے جس کی لمبائی اندازاً 24 کلومیٹر اور چوڑائی 6 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ اندازاً 13,470 ہیکٹرز میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کی پانی کی گنجائش 0.53 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کو 'رامسر' سائیٹ ہونے کا اعزاز ملا ہوا ہے، جو ان جھیلوں کو دیا جاتا ہے جو ماحولیاتی حوالے سے بڑی شاندار اور مالدار ہوتی ہیں۔

کلری بگھار فیڈر.
کلری بگھار فیڈر.

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں سردیوں کے موسم میں 'انڈس فلائی وے زون' کے راستے باہر سے آنے والے پرندوں کی تعداد 1 لاکھ تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ اور 1977 سے اس جھیل کو 'وائلڈ لائف سینکچوئری' قرار دیا گیا ہے۔ اس جھیل کے قرب و جوار میں 40 ہزار سے زیادہ مچھیرے رہتے ہیں جن کا ذریعہ معاش اس جھیل سے وابستہ ہے اور 800 کے قریب چھوٹی بڑی کشتیاں ہیں جو اس جھیل سے مچھلی پکڑتی ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اپنی رپورٹ میں یہ حقیقت بھی تحریر کی ہے کہ 1988 میں یہاں مچھلی 58 ہزار میٹرک ٹن پکڑی گئی جبکہ 2005 میں یہ کم ہوکر 15650 میٹرک ٹن رہ گئی۔ اس کے علاوہ سردیوں میں آنے والے مہمان پرندوں کی تعداد 1988 میں 2 لاکھ 5 ہزار تھی جبکہ 2002 میں کم ہو کر 30,610 تک رہ گئی۔

پیپل کے پتے ابھی تک چھوٹے معصوم ہاتھوں سے تالیاں بجا رہے تھے۔ میں کچھ تصاویر بنانے کی تگ و دو کر چکا تھا۔ میں نے جھیل کے مغربی کنارے سے جھیل کی خوبصورتی کو دل کی آنکھوں سے دیکھا۔ یقیناً کینجھر خوبصورت تھی۔ اور اب مشرقی کنارے پر جانا تھا، میں 'جھم پیر' کے نیم غنودگی میں ڈوبے ہوئے چھوٹے سے شہر کے بیچ سے گزرا۔ دھوپ کی وجہ سے بازار ویران پڑا تھا اور دکانداروں کی آنکھیں گاہک کا انتظار کرتی رہتیں۔ گاہک تو نہ آتا مگر نیند کا خمار ضرور آجاتا اور وہ اونگھنے لگتے۔ مجھے کچھ خریدنا نہیں تھا اس لیے میں نے ان کی نیند خراب نہیں کی۔

شہر سے نکلنے کے بعد ایک بے آب و رنگ لینڈاسکیپ آنکھوں کے سامنے پھیل گیا۔ نہ کسی درخت کا وجود اور نہ گھاس کا ہرا تنکا، بس کہیں کہیں زقوم کی جھاڑی اگی تھی جو احساس دلاتی کہ دنیا میں ابھی رنگ ہیں۔ تھوڑا آگے چلے تو پھیکی زرد پہاڑیاں جیسے چار سو اگ سی گئیں۔ پھر اچانک لینڈ اسکیپ تبدیل ہوگیا اور پتھروں کی جگہ بھوری مٹی نے لے لی اور زمینوں سے ہرا رنگ ابل سا پڑا۔ پھر مچھیروں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں آئے اور پھر آب جو آئی، پانی سے بھری ہوئی اور کینال کے دروازوں سے پانی شور کرتا کینجھر جھیل سے ملنے کے لیے سرپٹ بھاگ رہا تھا۔

کینال کے کنارے برگد کے گھنے پیڑ ہیں جن کی گھنی چھاؤں آپ کو ٹھنڈک اور سکون کی لوریاں دیتی ہے۔ درختوں سے لمبے لمبے گچھے لٹک رہے ہیں۔پھر اس پرسکون چھاؤں میں ہمیں کچھ بوڑھے ملے جن میں سے کچھ سو رہے تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان 'ارشاد عمر گندرو' مقامی پرائمری اسکول میں استاد ہیں۔ میں نے جب کینجھر جھیل کے حال اور مستقبل کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: "1956 میں بند باندھ کر جامشورو سے اس کو دریائے سندھ کا پانی دیا گیا۔ یہ پانی سیدھا کینجھر میں جاتا جس سے مچھلی کا سارا بیج جھیل میں آجاتا جس کی وجہ سے مچھلی بہت ہوتی تھی اور کراچی سے لے کر لاہور تک یہاں کی مچھلی جاتی تھی۔

1960 سے لے کر 1980 کا زمانہ ایسا خوشحال تھا کہ کوئی مہمان آتا تو واپسی پر اسے کئی کئی 'کرڑے' اور 'موراکھے' (میٹھے پانی کی اعلیٰ نسل کی مچھلیاں) تحفے میں دیتے۔ مگر 1980 میں کینجھر کی 'انلیٹ چلیہ سائیٹ RD-189 سے لنک کینال نکال کر جھیل میں سیدھے آتے ہوئے پانی کو روکا گیا، جس کی وجہ سے مچھلی کے بیج کا بڑا حصہ اس لنک کینال میں جانے لگا۔ دوسری طرف 'کراچی ایمرجنسی ریگیولیٹر' اور 'کے بی فیڈر لوور چلیہ' پر جالیاں نہ ہونے کے سبب کینجھر مچھلی کے حوالے سے برباد ہوگئی ہے۔"

برگد کے پیڑ کی چھاؤں گھنی تھی مگر اس نوجوان کی بات نے ایک خاموشی کی چادر سی کھینچ دی۔ میں نے دوسرا سوال نہیں کیا۔ اس نے اپنے گاؤں میں ایک قدیم خستہ اسکول دیکھنے کی دعوت دی جس کی عمارت آزادی کے وقت بنی تھی۔ اس کے بعد اس عمارت کو کسی نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سوچا ہوگا: 'اسکول کا کیا ہے، کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا۔ زمانے میں اور بھی اہم کام ہیں۔' بہرحال میں نے اس نوجوان کے گاؤں آنے اور اسکول کو دوسری دفعہ دیکھنے کا وعدہ کیا، اور کینجھر جھیل کے اس حصے کی طرف چل پڑا، جہاں گرمیوں میں لوگوں کے میلے لگتے ہیں۔

لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے مجھے مچھیروں کی ان چھوٹی بستیوں سے گزرنا پڑا جہاں چھوٹے چھوٹے کچے گھروں کے آگے ان کے چھوٹے چھوٹے کچے آنگن بکھرے پڑے تھے۔ کچھ لوگ جھیل سے پھوس کاٹ رہے تھے۔ اس کام میں ان کے بچے بھی ان کی مدد کرتے اور ساتھ میں جھیل کے پانی میں ڈبکی بھی لگالیتے۔ صبح ہوتی، شام ہوتی، اور جھیل کے کناروں پر زندگی یوں ہی تمام ہوتی۔ میں کچھ گھروں میں بھی گیا۔ یہ درد کی ایک الگ داستان ہے جو پھر کبھی سہی۔

مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی.
مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی.

میں کینجھر کے اس کنارے پر آیا جہاں گرمیوں میں لوگوں کا میلہ لگتا ہے، اور وہاں میلہ ہی لگا ہوا تھا۔ لہریں کنارے کو چھو کر لوٹ جاتیں۔ بچے پانی میں نہاتے۔ بڑے بھی نہاتے۔ ہزاروں لوگوں سے بھرا ہوا کینجھر کا کنارہ۔ تب مجھے کسی نے بتایا کہ 'پاکستان فشر فوک فورم' کے چیئرمین محمد علی شاہ صاحب یہاں کسی میٹنگ کے سلسلے میں آئے ہوئے ہیں۔ شاہ صاحب سے ملنے کا یہ موقع غنیمت تھا۔

میں نے کینجھر کی بگڑتی ہوئی ماحولیاتی صورتحال کے حوالے سے سوال کیا۔ جواب میں شاہ صاحب نے کہا: "مچھلی کے بیج کے اہم مسئلے کے علاوہ دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس جھیل کو ماحولیاتی گندگی کے ذریعہ برباد کیا جا رہا ہے۔ کوٹری اور نوری آباد کی انڈسٹریوں کا اخراج اس جھیل میں ہوتا ہے۔ کے بی فیڈر میں جو پانی آتا ہے اس میں شہروں کی گندگی کا اخراج ہوتا ہے۔ اب ایسی حالتوں میں ہم امید کریں کہ یہ جھیل ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہو، تو یہ ایک دیوانے کا خواب ہی ہے۔ اور اس ماحولیاتی بربادی کا سب سے بڑا اثر مقامی ماہیگیروں پر پڑا ہے۔

"ہزاروں خاندان ہیں جو یہاں سے ہجرت کر کے ابراہیم حیدری، ریڑھی میان اور کراچی کے دوسری فشنگ پوائنٹس پر چلے گئے ہیں۔ جانے کا سبب اس جھیل کے سکڑتے ہوئے وسائل ہیں جو روز بروز سکڑتے جا رہے ہیں۔ اور اگر اس کو پکنک پوائنٹ بنانا ہے تو ماحولیات کے قانون کی پاسداری کیوں نہیں کی جاتی؟ 'سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014' پر عمل کیوں نہیں کروایا جاتا؟ اور ان سب غیر ذمہ دارانہ روش کے اَثرات مقامی ماہیگیر برادری کو سہنے پڑ رہے ہیں۔"

میں ریسٹورنٹ سے باہر آیا۔ سورج ڈوب چکا تھا اور اس کی لالی آسمان پر پھیلی تھی۔ دور کچھ کشتیاں تھیں جن میں مچھیرے تھے جو جھیل کے اس گہرے اور وسیع پانی میں ماہی کی تلاش کرتے تھے کہ گھر کے آنگن میں بنے ہوئے مٹی کے چولھے میں آگ جل سکے اور اس آگ پر سرخ چاول کی روٹی پک سکے۔

جہاں ہزاروں لوگ تھے اب وہاں کچھ لوگ رہ گئے تھے اور وہ بھی جانے کی تیاری میں تھے۔ میں کینجھر کنارے پر آیا۔ منرل واٹر کی خالی بوتلیں، سافٹ ڈرنکس کے ٹن، جوس کے ڈبے، چپس کی تھیلیاں اور بہت کچھ کنارے پر پھیلا ہوا تھا۔ شاہ صاحب کی طرح مجھے بھی انوائرمنٹ ایکٹ کہیں نظر نہیں آیا۔

صدیوں پرانی اس جھیل کے کناروں پر نہ جانے کتنے لوگ آئے اور گئے، ہنسی اور خوشی کے کتنے کنول ان کناروں پر کھلے۔ الوداع کے کتنے موسم آنسوؤں کی چادر اوڑھے روتی ہوئی کوئلوں کی طرح کب کے اڑ چکے۔ پہلی نظر کی کتنی فاختائیں کب کی پھر ہو چکیں، مگر کینجھر وہیں پر ہے اس نے اپنی دین میں کوئی کمی نہیں کی۔

اس کی خوبصورتی اور دین ہزاروں برس چَلے، اس کے لیے ہم سب کو سوچنا پڑے گا، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ان کناروں پر آئیں اور اس جھیل کی خوبصورتی کو اپنے دل میں آخری دم تک سنبھال رکھیں۔

— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ


حوالہ جات

رسالہ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ"۔ مترجم: شیخ ایاز۔ سندھیکا اکیڈمی کراچی۔

"تحفتہ الکرام"۔ میر علی شیر قانع۔ سندھی ادبی بورڈ

"سندھ منھںجی نظر میں"۔ رچرڈ ایف برٹن۔ مترجم: عطا محمد بھنبھبرو۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (42) بند ہیں

Akhtar Hafeez Aug 25, 2015 05:43pm
کینجھر ہمیشہ سے میرا رومانس رہی ہے۔ یہ ایک ایسی جھیل ہے جو نہ صرف وہاں پر آباد لوگوں کے روزگار اور خوشحالی کا ایک وسیلا ہے بلکہ سندہ کے لوگوں کو اس جھیل سے ایک خاص انسیت ہے۔ جناب ابوبکر صاحب نے اس حوالے سے ایک بہت ہی اچھی تحریر لکھی ہے۔ جس میں نہ صرف زبان کی چاشنی ہے بلکہ اچھی خاصی معلومات بھی ہے۔
abdullah Aug 25, 2015 06:12pm
yar kiya ghazab ki photography hay!!!!!!!!
asad ullah Aug 25, 2015 06:34pm
aslaam o alekum very good work ,
xao ji Aug 25, 2015 06:54pm
اس جھیل کی آلودگی پر دل افسردہ ہوا۔
Abdul Qayoom Rind Aug 25, 2015 07:07pm
your camera is nice, but you don.t show very beautiful pic .
Sultan Altamish Aug 25, 2015 07:20pm
buht khoob Shaikh saab, jheel ko gandagi se bachna zarori hai...
asim Aug 25, 2015 07:59pm
@Abdul Qayoom Rind no the pics r gud one
Mohammad Ayub Khan Aug 25, 2015 08:13pm
Aapney apna farz adaa kardiya-- Allah aap sey razi ho---aap ney khali dabboN ka zikar kar diya-Humay ehsaas i zimadariy yad karaney key liye---bohat shukriya-------------mujhey yeh bhi bataayeN jheel key kenarey ya fasley par kaheyin bhi koorhey daan bhi parhey they ya naheyiN? yeh bhi batiye ga jheel ka zimadar konsa mekmah hey aor jheel kinarey un ehlkaroN meyN sey kitnoN ko paiyaa aapney--
Mohammad Ayub Khan Aug 25, 2015 08:15pm
@Abdul Qayoom Rind bhai sahib ney sab kuch dikhaya hey sirf fotoshop ka jadood naheyin kiya---jis keyliye woh mubarik baad key mustahik heyN
Muhammad Iqbal Aug 25, 2015 10:45pm
جناب ابو بکر صاحب کی تحریر دل میں اتر جاتی ہے. اور پڑھنے والا ماضی میں گم ہو جاتا ہے
Sadam Hussain laghari Aug 25, 2015 11:16pm
ابوبکر کا يہ آرٹيکل جب مين پرہتا گيا،تو ايسا محسوس ہونے لگا کہ ابوبکر کي ساتہ مين بہي کہينجہر کا سير کر رہا ہون، وه منظر وه عکس ميري آنکہون کي سامنے ایسے آنے لگے جيسے ميں ابہي ابہي ديکہ رہا ہون،، ابوبکر کی تحرير کسی تعريف کی محتاج نہين Sadam Laghari Tando Bago
شاہ نواز خان Aug 26, 2015 02:23am
ابو بکر شیخ صاحب کی تحریربہت عمدہ دلچسپ ہےقاری کو پورا مٖضمون پڑہنے پر مجبور کردیتے ہیں- خاص طور سے جو کینجر جہیل کی سیر کر چکے ہیںوہ ایک دفعــ پہر سے سیر کرنےلگ جاتے ہیں،
Anwar Amjad Aug 26, 2015 05:13am
Very nice write up and photos. The fishermen’s village looks more like temporary dwellings of the nomads.
Tarique Khan Aug 26, 2015 08:54am
to see this literature, I believe that Mr. Abu Bakar Shaikh, is a very sensitive mind person and having God Gifted skills to draw the nature in his words, the photography of Mr. Shaikh has also value added to their words. may Allah bless him always Tarique Khan
NB Nsr Aug 26, 2015 09:22am
Excellent work dear Abu Bakar, kindly explore and educate us about some other hidden treasures in the areas like KT Bandar and sea side near Badin and Thatha district.
Murtaza Khudai Aug 26, 2015 09:32am
Booohat Khooob
Matloob Hussain Tahir Aug 26, 2015 09:41am
Ooh i am very sad for pollution i love nature i wanna see this کینجھر and i hope people of Pakistan also love with this
Javaria Aug 26, 2015 09:59am
میں یہاں دو مرتبہ جا چکی ہوں اور ہر مرتبہ یہ جھیل اپنی خوبصورتی سے مجھ پر ایک سحر طاری کردیتی ہے۔ آلودگی اور مسائل کو اجاگر کرنا اچھی بات ہے لیکن آپ کو یہاں کینجھر کی خوبصورت تصاویر بھی شیئر کرنی چاہیئے تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ وہاں جانا چاہیں۔
Sarfraz ali khowaja Aug 26, 2015 10:05am
Thatta is my Home district , its very good column by Mr. abu bakar, thanks for sharing ..
Fida Soomro Aug 26, 2015 11:10am
An excellent narration of folklore and situational description of lake in different epochs of history; he holds good command on history and folklore. He has used idiomatic language very artistically such as narrating pebbles, current on water and rhythmic blowing of leaves as well as illustration of landscapes when the boats prying on such currents and again make immemorial rhyme. Apart from traditional background, the article also highlights briefly economic worth of lake in terms of Siberian birds during winter period as well as fish-catch and narration. It also presents a glimpse of current water storage capacity which is one of major sources of water of Karachi metropolitan. This article also raises some questions of human behavior towards this lake to be considered seriously especially by Pakistan Fisher folk Forum, focusing on socioeconomic uplift of these fishing communities. PFF must launch campaign for proper implementation of Sindh Environment Protection Act (SEPA) 2014.
khushnood zehra Aug 26, 2015 11:50am
بہت معلوماتی بلاگ ہے، لطف آیا پڑھ کر،لیکن اگر تھوڑی سی تاریخ مزار اور اس میں داخل نہ ہونے والے پانی کے حوالے سے بیان کی جاتی کتنی حقیقت ہے اس میں ،تو مزید مزیدار ہوتا۔
ابوبکر شیخ Aug 26, 2015 12:45pm
@Mohammad Ayub Khan محترم ایوب خان صاحب۔۔میری تحریر کو پسند کرنے کیلئے میں آپ کا دلی طور پر مشکور ہوں۔۔آپ نے جو سوال کئے ہیں۔۔اُن کا جواب بھی میرے آرٹیکل کے ایک جملہ میں موجود ہے کہ۔۔۔۔"جہاں ہزاروں لوگ تھے اب وہاں کچھ لوگ رہ گئے تھے اور وہ بھی جانے کی تیاری میں تھے۔ میں کینجھر کنارے پر آیا۔ منرل واٹر کی خالی بوتلیں، سافٹ ڈرنکس کے ٹن، جوس کے ڈبے، چپس کی تھیلیاں اور بہت کچھ کنارے پر پھیلا ہوا تھا۔ شاہ صاحب کی طرح مجھے بھی انوائرمنٹ ایکٹ کہیں نظر نہیں آیا
Fahim Ahmed Aug 26, 2015 01:06pm
acha mazmoon he.........abu bakar sb.......aap ne keenjhar jheel ki sair karadi.........shukria...
Faisal Aug 26, 2015 01:28pm
Abu Bakar Sheikh Sb, in simple words a fantastic article & photography !!! Very well done and pls keep up the good work
Saeeda sager Aug 26, 2015 01:50pm
ایک اور خوبصورت تحریر،،،میں نے کینجھر دیکھی ہے یہ ایک خوبصورت جھیل ہے،،،مگر جس آنکھ سے آپ نے کینجھر کو ہمیں دکھایا ہے، وہ آنکھ قدرت کی دی ہوئی ایک نعمت ہے جو خدا نے آپ کو دی ہے،،،،،وہ ہی الفاظوں میں تصویریں بنتی جاتی ہیں،،،،،،جیسا آپ نے لکھا،،،،،،،،،،،،@صدیوں پرانی اس جھیل کے کناروں پر نہ جانے کتنے لوگ آئے اور گئے، ہنسی اور خوشی کے کتنے کنول ان کناروں پر کھلے۔ الوداع کے کتنے موسم آنسوؤں کی چادر اوڑھے روتی ہوئی کوئلوں کی طرح کب کے اڑ چکے۔ پہلی نظر کی کتنی فاختائیں کب کی پھر ہو چکیں، مگر کینجھر وہیں پر ہے اس نے اپنی دین میں کوئی کمی نہیں کی@ واہ،،،،،،کیا بات ہے،،،،،لکھتے رہئے اور ان جگہوں کے مسائل سے ان ہی الفاظی تصویروں سے ہمیں آگاہ کرتے رہئے،،،،،،،،،،
Shahid Riaz Aug 26, 2015 02:23pm
Thanks abubakar Sheikh Real life there, nothing else
Syed Mehdi Bukhari Aug 26, 2015 02:55pm
saein buhat khoob :) , you have done good documentary work now i have a urge to visit kenjher as soon as possible :) Regards/Syed Mehdi Bukhari Writer/Photographer
NOMAN SHAH Aug 26, 2015 03:06pm
ye to ghoomny k laiq buht aala maqaam hai
abubaker shaikh Aug 26, 2015 04:03pm
@Syed Mehdi Bukhari Buhat buhat shukrya Mehdi Bukhari sahb k meri tahrir ap ko pasand aae...ap jb bhi aaen Wellcome ye jheel aap ko buhat pasand aaey gi.. Abubaker Shaikh
Anwer Abbasi Aug 27, 2015 03:05pm
shaikh sahib zabardast artical hy kia alfaz likhy hen well dan.
GHULAM QADIR SOOMRO Aug 27, 2015 03:15pm
Manchhar and Kenjhar these both lake are laying in Sindh, Manchher is biggest Lake in Ashia . The problem of outfall drain (RBOD&LBOD Water and Sewerage System of all big cities fall in these 2 big lakes Even though River Indus also connected with polluted water at Sukkur. Larkana city attached with Rice Canal, Hyderabad, With Phulely canal. May Almighty ALLAH give Us a hygiene and healthy Vision
ASIF AHMED Aug 27, 2015 05:58pm
salam. bht khoob kaam kiya hy . ALLAH Pak is hokomat ko aakal de k wo is ko Save karne k koi acha kaam kare . aameen
Yasmeen Aug 27, 2015 07:06pm
BUHAT ACHI TAHRIR OR ACHI PHOTOGRAPHY. YAQENAN JB HUM ASY MAQAMAT PR JATY HEN TO HAMARI BHI KUCH ZUMEDARYAAN HOTI HEN K IN KO GANDA KARNY SY PARHEZ KREN. SHAIKH SAHB KI TAHRIR KA APNA ANDAZ HY OR BUHAT HI KHOBSURAT ANDAZ HY. GOD BLESS YOU. AP KI TAHARIR KA INTAZAR RAGY GA.
Muhammad Ayaz Aug 27, 2015 08:20pm
congratulations to u mr Abubakar for such a beautiful work. i belong to KPK. but i have visited so many times to Khanjar lake. but i didnt know any thing about its background. thank u for such a cultural and informative piece...
Muhammad Riaz Malik Aug 28, 2015 07:07pm
Thanks for great information about lake and its background history again thanks
Usama Aug 28, 2015 11:46pm
ye boht zrori ha ki pakistan ma logon ko maholiat or mosmi tabdili ki wajuhat malom hon.Ye boht bra or zrori masla ha. ku k jub tak hum apni zameen ko saf ni rakhty hum ksy survive kren gy. ma Abu Bakar sahab ka mashkoor hon k wo logon ko is masly k liye aik acha qadam uthaya..
haroon kamran Aug 29, 2015 03:32pm
بہت عمدہ تحریر ہے انداز بہت ہی خوبصورت ہے ، جھیل کا حال پڑھ کر لگا کے دیکھ رہے ہیں اسے ، ماحولیاتی آلودگی کا جو آپ نے ذکر کیا اس کا شکار پاکستان کی ہر خوبصورت جگہ ہے ، پتہ نہیں کب ہم لوگوں کو عقل آئے گی
یمین الاسلام زبیری Aug 29, 2015 11:29pm
بہت اچھی تحریر۔ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کہاں ہے وہ سندھ پر جان دینے کو تیار حکومت۔ کینجھر اور ایسے ہی دوسرے مقامات کا خیال کرنا ہی تو سندھ پر جان دینا ہے۔ سندھ کو ترقی کے لیے تیار رکھنا ہی تو اس پر جان دینا ہے۔ ابوبکر شیخ صاحب اور ڈان کا شکریہ کہ انہوں نے اس مسئلے کو اٹھایا۔
Parkash Aug 31, 2015 10:58pm
Very nice dear abubakar sheikh allaha ap ko hamesha khush rakhy keenjar my hawaly sy Jo ap NY information di ha WO qably tarif ha. Parkash soni umerkot
Munawar Sep 02, 2015 10:22am
Sir your column is heart touching and really a great photography.
Abdul Qayoom Rind Sep 09, 2015 08:23pm
@asim its beautiful, but many pic are available, its very beautiful place
Abdul Qayoom Rind Sep 09, 2015 08:25pm
its nice pic, but many pic are available here, because its very beautiful place, i love it