• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

دو 'فرشتوں' کی مفت موٹرسائیکل سروس

شائع August 24, 2015
ایک دہائی سے عاشق اور ظفر ان لوگوں کو لفٹ دے رہے ہیں جو رکشہ کا کرایہ نہیں برداشت کر سکتے۔
ایک دہائی سے عاشق اور ظفر ان لوگوں کو لفٹ دے رہے ہیں جو رکشہ کا کرایہ نہیں برداشت کر سکتے۔
ظفر علی (دائیں) اور عاشق علی (بائیں)
ظفر علی (دائیں) اور عاشق علی (بائیں)

دیر رات سے جب حیدرآباد کی سڑکوں سے ٹریفک غائب اور گلیاں خالی ہوجاتی ہیں، تو صرف چند پتھر سے بھرے ٹرک، اکا دکا گاڑی، لینڈ کروزر، یا موٹرسائیکل ہی نظر آتی ہے، وہ بھی اتنی رفتار پر کہ انہیں ٹھیک سے دیکھنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔

لیکن رات کے اس پہر جب حیدرآباد کے زیادہ تر شہری پریشانی کے عالم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے لفٹ مانگ رہے ہوتے ہیں، تو دو شہری ایسے ہیں جو یہ خدمت بالکل مفت میں انجام دیتے ہیں۔

عاشق علی حیدرآباد کے پکے قلعے کے گاؤں اللہ داد چنڈ میں رہتے ہیں۔ گزر بسر کے لیے وہ کھوکھر محلے میں اپنی دکان پر موٹرسائیکلوں کی مرمت کرتے ہیں۔ دکان بند کرنے کے بعد وہ ایک اور نوکری شروع کرتے ہیں جس میں انہیں ذہنی سکون کے علاوہ کوئی منافع نہیں ملتا۔

ہر روز عاشق اور ان کے دوست ظفر علی عاشق کی موٹرسائیکل پر سوار ہو کر ان لوگوں کو مفت میں ٹرانسپورٹ مہیا کرتے ہیں جو رکشے کا کرایہ نہیں بھر سکتے۔

عاشق گدو چوک پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے شہر کے مختلف علاقوں کوٹری، قاسم آباد، لطیف آباد، حسین آباد وغیرہ کو راستے جاتے ہیں۔ وہاں سے وہ لوگوں کو اٹھاتے اور ان کی منزلوں تک چھوڑ کر آتے ہیں۔

"میں گزر بسر کے لیے دکان پر کام کرتا ہوں، لیکن دنیا میں اس کے لیے نہیں آیا۔ ان لوگوں کے لیے جو کچھ میں کرتا ہوں، اس سے مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی بھی کار آمد ہے اور صرف ضائع نہیں ہو رہی۔ میں اس کام سے بہت خوش ہوں۔"

یہ مفت سروس رات 11 بجے شروع ہوتی ہے اور 2 بجے ختم ہوتی ہے، لیکن رمضان میں یہ لوگ اس کام کو سحری تک بھی جاری رکھتے ہیں۔ اب تقریباً 20 سے 25 لوگ ہیں جنہیں عاشق اور ظفر مختلف جگہوں سے اٹھاتے ہیں اور ان کے گھروں تک چھوڑ کر آتے ہیں۔

زندگی گلزار ہے

عاشق کے دوست ظفر علی نابینا ہیں، پیدائشی نہیں، مگر بچپن سے۔ چار سال کی عمر میں وہ سیڑھیوں سے گر کر شدید زخمی ہوگئے۔ ان کے والدین تعلیم یافتہ نہیں تھے لہٰذا انہوں نے ان کا علاج گھر پر کرنے کو ترجیح دی۔ آہستہ آہستہ ان کی نظر کمزور ہونا شروع ہوئی اور 6 سال کے اندر اندر وہ مکمل طور پر بینائی سے محروم ہوگئے۔

یہ وہ مقام تھا جب ظفر نے پانچویں کلاس میں اسکول چھوڑ دیا۔ ان کے بعد ان کے دوست عاشق علی نے بھی اپنی پڑھائی چھوڑ دی۔

ظفر علی اب شادی شدہ اور دو بیٹوں کے والد ہیں۔ پہلے وہ سمجھتے تھے کہ وہ ایک بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ وہ گھر بیٹھے رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ مگر جب سے انہوں نے اپنے دوست کا ساتھ دینا شروع کیا ہے تو ان کے مطابق ان کی زندگی کو مقصد مل گیا ہے۔

"میری بے معنی زندگی کو ایک نئے معنیٰ مل گئے ہیں۔ میری معذوری کے باوجود میں بے یار و مددگار لوگوں کی مدد کر سکتا ہوں۔ مجھ پر کبھی کبھی حملے بھی ہوئے ہیں جس میں سے ایک حملے میں گولی میری انگلی کو چھو کر گزر گئی، لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا ہے کیونکہ مجھے اس میں خوشی ملتی ہے۔"

ظفر اور عاشق ایک ہی ہفتے میں پیدا ہوئے اور ایک ہی علاقے میں پلے بڑھے، ایک ہی ساتھ کھیلے، اور ایک ہی ساتھ پڑھے، اور اب ایک ہی ساتھ سماجی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ ان کا عزم اسے تب تک جاری رکھنے کا ہے جب تک ان میں قوت ہوگی۔

کیونکہ ظفر کام نہیں کر سکتے، اس لیے عاشق علی ان کے لیے استعمال شدہ موٹرسائیکلیں خریدتے ہیں اور ان کی مرمت کرنے اور انہیں فروخت کرنے میں ظفر کی مدد کرتے ہیں تاکہ ان کے دوست کی آمدنی جاری رہے۔

10 سالوں سے روز کے 250 روپے

ہر صبح عاشق علی رات کے لیے 250 روپے الگ کر لیتے ہیں، جس سے 3 سے 4 گھنٹوں کے لیے مسلسل موٹرسائیکل چلائی جا سکتی ہے۔

انہیں یہ کام کرنے کا خیال کب آیا؟

"دس سال قبل 2005 میں ہم کوٹری کے بابا صلاح الدین مزار سے آدھی رات کو واپس آ رہے تھے۔ راستے میں ہم ایک نوجوان لڑکے سے ملے جس نے حیدرآباد تک کی لفٹ مانگی۔ جب ہم نے اسے اس کے گھر چھوڑا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے ہمارے لیے دعا کی۔ اس دن ہم نے یہ کام کرنے کی ٹھان لی، اور چاہے سردی ہو یا بارش ہو، ہم یہ کام جاری رکھتے ہیں۔ ہم نے ایک دن کا بھی ناغہ نہیں کیا سوائے بینظیر بھٹو کے قتل کے، جب پولیس نے ہمیں 15 دن تک کام نہیں کرنے دیا۔"

عاشق علی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس گاڑی نہیں ورنہ وہ شہر کے مزید دور دراز علاقوں سے لوگوں کو اٹھاتے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ حیدرآباد جیسے شہر میں جہاں ہر کسی کے پاس لوٹ مار کی داستان ہے، وہاں یہ دونوں کس طرح اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

عاشق کہتے ہیں کہ "ڈاکوؤں نے ہم پر کئی بار حملہ کیا ہے، اور ایک دفعہ تو گولی ان کی انگلی چھو کر گزر گئی تھی۔ بلاشبہ یہ ایک خطرناک کام ہے۔ شروع میں پولیس بھی ہمیں تنگ کرتی تھی، اور ہم جس شخص کو لفٹ دیتے ان سے ہمارے بارے میں پوچھ گچھ کرتی۔ مگر اب ہم پولیس کو جانتے ہیں اور وہ ہمیں جانتے ہیں۔"

عاشق کہتے ہیں کہ ابتداء میں لوگ ان پر ہنستے تھے۔ ان کے رشتے دار انہیں پاگل کہتے، اور ان کے والدین انہیں اس کام سے روکتے۔ مگر انہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور اب انہیں اس کے لیے پہچانا جاتا ہے۔ ان کے فون نمبر شہر بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور لوگ کسی بھی وقت شہر کے کسی بھی حصے سے انہیں فون کر کے ان کی خدمات مفت میں حاصل کر سکتے ہیں۔

ان دس سالوں میں انہوں نے وہی موٹرسائیکل استعمال کی ہے، جبکہ تقریباً 15 ایسے لوگ جنہیں انہوں نے کبھی لفٹ دی تھی، اب اپنی موٹرسائیکلوں کے مالک بن چکے ہیں۔

عاشق کہتے ہیں کہ "ایک ایسے معاشرے میں رہنا جہاں کسی کو کسی دوسرے کی فکر نہیں ہوتی، وہاں اس طرح کا کام کرنا بہت عجیب لگتا ہے، اور اسی وجہ سے ابتدائی دنوں میں لوگ ہم سے دور بھاگ جاتے تھے۔ ہم لوگوں سے پوچھتے کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں لفٹ دے سکیں۔ کچھ لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے اور ہم سے بچنے کی کوشش کرتے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہم نے موٹرسائیکل پر ایک ٹیپ ریکارڈر لگا لیا جس پر ہم نعتیں چلایا کرتے۔ جس سے لوگوں کا شک دور ہونے میں کافی مدد ملی۔"

لیکن پھر بھی ایسے لوگ جو ان فرشتہ صفت انسانوں سے پہلی بار ملتے ہیں، ان کے لیے ان کی نیک سیرت پر یقین کرنا مشکل کام ہے۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔

انگلش میں پڑھیں.

منیش کمار

لکھاری یونیورسٹی آف سندھ سے ماس کمیونیکیشن کی ڈگری رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (14) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Aug 24, 2015 08:23pm
بہت ہی دلچسپ سٹوری ہے۔ ڈاکوؤں سے کئی بار بچ جانے کے باوجود دونوں کا لفٹ مفت دینے کا کام جاری رکھنا بہت بڑی بہادری ہے۔ عام طور پر اگر کسی کا ایک کام کر دیں یا کسی کو پیسے دے دیں تو لوگوں کی عادت بن جاتی ہے کام کروانا اور پیسے لینا۔ یہی صورتحال مفت لفٹ سروس کے ذریعے بھی درپیش ہوئی ہو گی۔ کرایہ دینے کی ہمت رکھنے والے بھی کرایہ بچانے کی خاطر مفت لفٹ کا استعمال کرتے ہوں گے ! دیکھنا چاہیے کہ مفت لفٹ سروس کی شکل میں کہیں لوگ عاشق اور ظفر کی معصومیت یا سیدھا پن سے فائدہ تو نہیں اٹھا رہے۔ موٹرسائیکل پر مفت لفٹ سے ایک بات تو کلئیر ہے کہ یہ سروس صرف مرد حضرات کے لیے ہے۔ خواتین مسافروں کے لیے بھی کوئی پروگرام شروع کرنے کا منصوبہ بنانا چاہیے تاکہ کارخیر میں ترقی کی جا سکے اور زیادہ سے زیادہ سکون سمیٹا جاسکے۔ سکون سے مجھے ایک شعر یاد آیا۔ سکون محال ہے قدرت کے کارخانے میں، ثبات فقط اک تغیر کو ہے زمانے میں۔
Sh Owais Ahmed Aug 24, 2015 08:40pm
Good People Does exist in this Cruel World If You cant Find Them then Become One.
Ahmed Zarar Aug 24, 2015 08:48pm
Are they doing some thing better?Some social service continuously for 10 years?But they cant be prominent or heroes. May be time to change definitions.......
آئی کے Aug 24, 2015 09:05pm
ان دونوں دوستوں کا کردار ہم سب کے لیے خاص کر ہمارے حکمرانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ حکمرانوں کے منہ پر تو یہ رویہ ایک زور دار طمانچہ ہےجو عوام کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے بجائے انہیں نت نئے طریقوں سے تنگ کرتے رہتے ہیں مثلاًکوئی متبادل بندوبست کیے بغیر ہزاروں چنگچی رکشوں پر پابندی اور پھر سی این جی دو دو روز کے لیے بند کردینا!! خدا کی پناہ ان ظالموں کو ذرابھی احساس نہیں کہ عوام کی زندگیاں کن عذابوں سے دوچار ہیں۔
shafi Aug 24, 2015 09:08pm
allah ap ko or himmat din agar moqa allah ny dia to ap k kam ko enshallah develop kringy. shafi from italy
azhar Aug 24, 2015 09:27pm
I really love to read this . I am also wanna start this thanks buddy for sharing this. I had this idea b4 in my mind.
akhtar hafeez Aug 24, 2015 10:55pm
Zabrdst manesh tmam bhlo likhyo athea ain ahre qism jun shyun anja b achn ghurjn. Jin wasele anokhan kirdarn ji daryaft huje.
Mohammad Ayub Khan Aug 25, 2015 11:42am
sirf yeh dua karoonga Allah in donoN ko humesha sehat aor selamtiy dey- aor sirati mustaqeem par chalney ki tofeeq dey --amin
ahmad Aug 25, 2015 11:51am
ایسے لوگوں کو دیکھ کے لگتا ھے کہ پاکستان میں ابھی مسلمان باقی ہیں
Aazad Aug 25, 2015 11:59am
chotta chotta per buhet bara kaaam :) yehi tabdeli hey ager koi samjhey.
فدا حسین Aug 25, 2015 01:29pm
جس طرح حضور ﷺ کی حدیث کے مطابق یہ کائنات انہی لوگوں کے طفیل کائنات چل رہی ہے۔ بلکل اسی طرح پاکستان بھی انہیں لوگوں کی وجہ سے قائم و دائم ہے ورنہ یہ نام نہاد جمہوریہ تو عوام کا خون چوسنے میں کوئی کسر نہیں چھورتے۔ آخر میں میری طرف سے منیش کمار کو سلام جنہوں نے یہ سٹوری لکھ کر بہت سے لوگوں کے دلوں میں اپنی زندگیوں کے مقصد کے بارئے سوال پیدا کئے۔ خاص کر ان لوگوں کےلئے جو عوام کی خدمت کا نعرہ مستانہ لگا کر سیاست میں آتے ہیں بعد میں وہ اپنی تجوریاں بھر رہے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سب بڑا سوال ریاست کے کردار اٹھتا ہے کہ اگر یہ دو شخص یہ کام کر سکتے ہیں تو ریاست لوگوں کو یہ سہولت کیوں نہیں دے سکتی؟
Sharminda Aug 25, 2015 02:25pm
Subhan Allah
Kamal Aug 25, 2015 02:31pm
Please send me phone number of Mr.Ashique
Qazi ZubairUddin Aug 25, 2015 06:28pm
Really this is great work by both Zafar & Ashique Well done Brothers my Prayers with you keep continue social work. Always Be happy....

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024