دو 'فرشتوں' کی مفت موٹرسائیکل سروس
دیر رات سے جب حیدرآباد کی سڑکوں سے ٹریفک غائب اور گلیاں خالی ہوجاتی ہیں، تو صرف چند پتھر سے بھرے ٹرک، اکا دکا گاڑی، لینڈ کروزر، یا موٹرسائیکل ہی نظر آتی ہے، وہ بھی اتنی رفتار پر کہ انہیں ٹھیک سے دیکھنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
لیکن رات کے اس پہر جب حیدرآباد کے زیادہ تر شہری پریشانی کے عالم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے لفٹ مانگ رہے ہوتے ہیں، تو دو شہری ایسے ہیں جو یہ خدمت بالکل مفت میں انجام دیتے ہیں۔
عاشق علی حیدرآباد کے پکے قلعے کے گاؤں اللہ داد چنڈ میں رہتے ہیں۔ گزر بسر کے لیے وہ کھوکھر محلے میں اپنی دکان پر موٹرسائیکلوں کی مرمت کرتے ہیں۔ دکان بند کرنے کے بعد وہ ایک اور نوکری شروع کرتے ہیں جس میں انہیں ذہنی سکون کے علاوہ کوئی منافع نہیں ملتا۔
ہر روز عاشق اور ان کے دوست ظفر علی عاشق کی موٹرسائیکل پر سوار ہو کر ان لوگوں کو مفت میں ٹرانسپورٹ مہیا کرتے ہیں جو رکشے کا کرایہ نہیں بھر سکتے۔
عاشق گدو چوک پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے شہر کے مختلف علاقوں کوٹری، قاسم آباد، لطیف آباد، حسین آباد وغیرہ کو راستے جاتے ہیں۔ وہاں سے وہ لوگوں کو اٹھاتے اور ان کی منزلوں تک چھوڑ کر آتے ہیں۔
"میں گزر بسر کے لیے دکان پر کام کرتا ہوں، لیکن دنیا میں اس کے لیے نہیں آیا۔ ان لوگوں کے لیے جو کچھ میں کرتا ہوں، اس سے مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی بھی کار آمد ہے اور صرف ضائع نہیں ہو رہی۔ میں اس کام سے بہت خوش ہوں۔"
یہ مفت سروس رات 11 بجے شروع ہوتی ہے اور 2 بجے ختم ہوتی ہے، لیکن رمضان میں یہ لوگ اس کام کو سحری تک بھی جاری رکھتے ہیں۔ اب تقریباً 20 سے 25 لوگ ہیں جنہیں عاشق اور ظفر مختلف جگہوں سے اٹھاتے ہیں اور ان کے گھروں تک چھوڑ کر آتے ہیں۔
زندگی گلزار ہے
عاشق کے دوست ظفر علی نابینا ہیں، پیدائشی نہیں، مگر بچپن سے۔ چار سال کی عمر میں وہ سیڑھیوں سے گر کر شدید زخمی ہوگئے۔ ان کے والدین تعلیم یافتہ نہیں تھے لہٰذا انہوں نے ان کا علاج گھر پر کرنے کو ترجیح دی۔ آہستہ آہستہ ان کی نظر کمزور ہونا شروع ہوئی اور 6 سال کے اندر اندر وہ مکمل طور پر بینائی سے محروم ہوگئے۔
یہ وہ مقام تھا جب ظفر نے پانچویں کلاس میں اسکول چھوڑ دیا۔ ان کے بعد ان کے دوست عاشق علی نے بھی اپنی پڑھائی چھوڑ دی۔
ظفر علی اب شادی شدہ اور دو بیٹوں کے والد ہیں۔ پہلے وہ سمجھتے تھے کہ وہ ایک بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ وہ گھر بیٹھے رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ مگر جب سے انہوں نے اپنے دوست کا ساتھ دینا شروع کیا ہے تو ان کے مطابق ان کی زندگی کو مقصد مل گیا ہے۔
"میری بے معنی زندگی کو ایک نئے معنیٰ مل گئے ہیں۔ میری معذوری کے باوجود میں بے یار و مددگار لوگوں کی مدد کر سکتا ہوں۔ مجھ پر کبھی کبھی حملے بھی ہوئے ہیں جس میں سے ایک حملے میں گولی میری انگلی کو چھو کر گزر گئی، لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا ہے کیونکہ مجھے اس میں خوشی ملتی ہے۔"
ظفر اور عاشق ایک ہی ہفتے میں پیدا ہوئے اور ایک ہی علاقے میں پلے بڑھے، ایک ہی ساتھ کھیلے، اور ایک ہی ساتھ پڑھے، اور اب ایک ہی ساتھ سماجی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ ان کا عزم اسے تب تک جاری رکھنے کا ہے جب تک ان میں قوت ہوگی۔
کیونکہ ظفر کام نہیں کر سکتے، اس لیے عاشق علی ان کے لیے استعمال شدہ موٹرسائیکلیں خریدتے ہیں اور ان کی مرمت کرنے اور انہیں فروخت کرنے میں ظفر کی مدد کرتے ہیں تاکہ ان کے دوست کی آمدنی جاری رہے۔
10 سالوں سے روز کے 250 روپے
ہر صبح عاشق علی رات کے لیے 250 روپے الگ کر لیتے ہیں، جس سے 3 سے 4 گھنٹوں کے لیے مسلسل موٹرسائیکل چلائی جا سکتی ہے۔
انہیں یہ کام کرنے کا خیال کب آیا؟
"دس سال قبل 2005 میں ہم کوٹری کے بابا صلاح الدین مزار سے آدھی رات کو واپس آ رہے تھے۔ راستے میں ہم ایک نوجوان لڑکے سے ملے جس نے حیدرآباد تک کی لفٹ مانگی۔ جب ہم نے اسے اس کے گھر چھوڑا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے ہمارے لیے دعا کی۔ اس دن ہم نے یہ کام کرنے کی ٹھان لی، اور چاہے سردی ہو یا بارش ہو، ہم یہ کام جاری رکھتے ہیں۔ ہم نے ایک دن کا بھی ناغہ نہیں کیا سوائے بینظیر بھٹو کے قتل کے، جب پولیس نے ہمیں 15 دن تک کام نہیں کرنے دیا۔"
عاشق علی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس گاڑی نہیں ورنہ وہ شہر کے مزید دور دراز علاقوں سے لوگوں کو اٹھاتے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ حیدرآباد جیسے شہر میں جہاں ہر کسی کے پاس لوٹ مار کی داستان ہے، وہاں یہ دونوں کس طرح اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عاشق کہتے ہیں کہ "ڈاکوؤں نے ہم پر کئی بار حملہ کیا ہے، اور ایک دفعہ تو گولی ان کی انگلی چھو کر گزر گئی تھی۔ بلاشبہ یہ ایک خطرناک کام ہے۔ شروع میں پولیس بھی ہمیں تنگ کرتی تھی، اور ہم جس شخص کو لفٹ دیتے ان سے ہمارے بارے میں پوچھ گچھ کرتی۔ مگر اب ہم پولیس کو جانتے ہیں اور وہ ہمیں جانتے ہیں۔"
عاشق کہتے ہیں کہ ابتداء میں لوگ ان پر ہنستے تھے۔ ان کے رشتے دار انہیں پاگل کہتے، اور ان کے والدین انہیں اس کام سے روکتے۔ مگر انہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور اب انہیں اس کے لیے پہچانا جاتا ہے۔ ان کے فون نمبر شہر بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور لوگ کسی بھی وقت شہر کے کسی بھی حصے سے انہیں فون کر کے ان کی خدمات مفت میں حاصل کر سکتے ہیں۔
ان دس سالوں میں انہوں نے وہی موٹرسائیکل استعمال کی ہے، جبکہ تقریباً 15 ایسے لوگ جنہیں انہوں نے کبھی لفٹ دی تھی، اب اپنی موٹرسائیکلوں کے مالک بن چکے ہیں۔
عاشق کہتے ہیں کہ "ایک ایسے معاشرے میں رہنا جہاں کسی کو کسی دوسرے کی فکر نہیں ہوتی، وہاں اس طرح کا کام کرنا بہت عجیب لگتا ہے، اور اسی وجہ سے ابتدائی دنوں میں لوگ ہم سے دور بھاگ جاتے تھے۔ ہم لوگوں سے پوچھتے کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں لفٹ دے سکیں۔ کچھ لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے اور ہم سے بچنے کی کوشش کرتے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہم نے موٹرسائیکل پر ایک ٹیپ ریکارڈر لگا لیا جس پر ہم نعتیں چلایا کرتے۔ جس سے لوگوں کا شک دور ہونے میں کافی مدد ملی۔"
لیکن پھر بھی ایسے لوگ جو ان فرشتہ صفت انسانوں سے پہلی بار ملتے ہیں، ان کے لیے ان کی نیک سیرت پر یقین کرنا مشکل کام ہے۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
تبصرے (14) بند ہیں