بیسنت ہال اور پرتاب کی 15 بلیاں
حیدرآباد کی ہر تاریخی عمارت آج کل اپنے وجود کو بچانے کی جی توڑ کوشش کر رہی ہے، مگر رفتہ رفتہ گزرتا وقت ان عمارات کو کمزور کر رہا ہے۔ ایسی ہی ایک عمارت ہے جو اب 115 برس کی ہو چکی ہے، اور وقت کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کا وجود بکھرتا جا رہا ہے۔ اس عمارت کا نام بیسنت ہال ہے مگر اکثر لوگ اسے بسنت ہال کہتے ہیں۔ اس کی دیکھ بھال پر معمور شخص پرتاب (فرضی نام) عرصہء دراز سے اس عمارت کا حصہ بن گیا ہے، جس کی اینٹیں اب وقت کے تھپیڑوں کا زیادہ اثر نہیں سہہ سکتیں۔
پرتاب کا جنم حیدرآباد میں ہوا، اسے حیدرآباد شہر سے اتنی انسیت رہی ہے کہ وہ تقسیم کے وقت بھی یہاں سے نہیں گیا اور نہ ہی اسے کسی اور شہر میں سکون ملتا ہے، اس لیے اس نے حیدرآباد کو ہی اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سندھ اس کا وطن ہے اور وہ اسے چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کہنے کو تو وہ اس عمارت کا رکھوالا ہے مگر جس طرح وہ بیسنت ہال کے لیے پریشان ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے جیسے اس کی روح کا اس عمارت کا ساتھ ازلی رشتہ ہے، اور یہ اپنائیت اسے بے چین کیے رکھتی ہے۔
یہاں پر وہ ان 15 بلیوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے جنہیں وہ 14 برسوں سے پال رہا ہے۔ اس کے پاس 40 کے قریب بلیاں ہوا کرتی تھیں جن میں سے اب صرف 15 رہ گئی ہیں۔ وہ ان بے زبان جانوروں کے احساسات کو سمجھتا ہے اور اسی طرح بلیاں اس کے جذبات کو سمجھ جاتی ہیں۔ "ھلیا پٽ" .... (آو بیٹے) کہہ کر جب وہ انہیں پکارتا ہے تو وہ اس کے پیچھے دوڑی چلی جاتی ہیں۔
![]() |
بسنت ہال کا بیرونی منظر. |
![]() |
ہال کا آنگن. |
![]() |
اس عمارت کو سماجی کارکن اینی بیسنت کے نام سے بیسنت ہال کہا جاتا ہے. |
بیسنت ہال کی عمارت 24 فروری 1901 میں تعمیر ہوئی، مگر اس کا افتتاح 1917 میں اینی بیسنت نے خود کیا۔ اینی بیسنت کا تعلق انگلستان سے تھا۔ ان کا جنم 1847 میں ہوا۔ وہ مظلوموں کی حامی اور انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتی تھیں۔ بیسنت ہال کے لیے پلاٹ اس وقت کے جنرل کمانڈنگ آفیسر کرنل آلکاٹ نے فراہم کیا۔ وہ ایک تھیوسوفسٹ تھے۔ اسی وقت سے تھیوسوفیکل سوسائٹی حیدرآباد میں سرگرم ہونے لگی اور یہ سوسائٹی آج تک قائم ہے۔ اس سوسائٹی کا مقصد عالمی بھائی چارہ قائم کرنا تھا، اور اس کا رکن بننے کے لیے مذہب، رنگ، نسل کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ خواہ انسان کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو، اس کی خدمت اس سوسائٹی کا بنیادی مقصد تھا۔
اینی بیسنت کو اس تھیوسوفیکل سوسائٹی کی صدر منتخب کیا گیا اور اس کے بعد اس عمارت کو اینی بیسنت کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اینی بیسنت نے تھیوسوفیکل سوسائٹی کی صدر ہونے کے دوران سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے قومی تعلیمی تحریک کا آغاز کیا، جس کا مقصد ہندوستان کی سماجی اور تعلیمی ترقی تھا۔ انہوں نے انڈین بوائے اسکاؤٹ ایسوسی ایشن کے لیے بھی کام کیا۔ اب تھیوسوفیکل سوسائٹی کے صدر سندھ کے مشہور ماہر تعلیم اور دانشور محمد ابراہیم جویو ہیں۔ مگر اب یہ سوسائٹی اتنی سرگرم نہیں رہی۔ وہاں لائبریری اور ریڈنگ روم ابھی بھی قائم ہیں، مگر اب وہاں کوئی مطالعے کے لیے نہیں آتا۔
![]() |
دیوان میٹھارام گدومل لائبریری. |
![]() |
بھائی گنگارام تلوکچند ریڈنگ روم. |
ہال کے برابر ایک اسٹیج بھی ہے جہاں پر تقسیمِ ہند سے پہلے اسٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے جس میں محمد ابراہیم جویو بھی کردار ادا کر چکے ہیں۔ اس کے بعد بھی ڈرامے کا سلسلہ جاری رہا مگر اب وہ اسٹیج اداس دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس پر اب کوئی بھی اداکاری کے جوہر نہیں دکھاتا۔ ویران اسٹیج کا فرش اینٹوں سے تیار کیا گیا ہے جو کسی زمانے میں کچا فرش ہوتا تھا۔ ہال کے اندر جو اسٹیج بنا ہوا ہے وہ اس وقت سیمنٹ کا ہے مگر اس سے پہلے وہ ساگوان کی لکڑی کا تھا۔ آہستہ آہستہ دیمک اس لکڑی کو چاٹ گئی اور ساگوان کی لکڑی سے بنے ہوئے اسٹیج کی جگہ سیمنٹ کے بنے ہوئے اسٹیج نے لے لی۔ ٹائلوں سے بنا ہوا ہال کا فرش اس وقت کے ایک مخیر بولچند نے 35 روپے کا چندہ دے کر تیار کروایا تھا۔
![]() |
بولچند پرسرام نے 35 روپے کا چندہ دے کر ٹائلوں کا فرش تیار کروایا تھا۔ |
![]() |
وہ اسٹیج جہاں کبھی ڈرامے ہوا کرتے تھے. |
![]() |
ہال کے اندر بنا ہوا اسٹیج. |
کچھ وقت قبل تک بھی یہاں پر سماجی اور ادبی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں مگر اب وہ سلسلہ بھی ختم ہو رہا ہے۔ اس وقت بھی بلڈر مافیا کی نظر اس عمارت پر ہے تاکہ اسے مسمار کر کے کوئی پلازہ بنایا جائے۔ چاروں اطراف سے قبضوں میں گھرا ہوا بیسنت ہال اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کو اب قومی اثاثہ قرار دیا جا چکا ہے۔ جس کے بعد ان تمام عناصر کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے جو اسے اجاڑنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔
ماضی میں اسی ہال میں شادی کی تقاریب بھی ہوا کرتی تھیں۔ اس کے لیے دو عروسی کمرے بھی تیار کیے گئے تھے جن میں دلہن کو تیار کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ہندو، مسلم، اور پارسی برادریوں کی شادی کی تقاریب یہاں ہوا کرتی تھیں۔ یہ ہال بجلی سے تب روشن ہوا جب حیدرآباد میں 1939 میں بجلی آئی۔ اس سے قبل روشنی کے ذرائع فانوس تھے۔ ان ہی کمروں میں ساگوان سے بنی ہوئی الماریاں بھی ہیں۔ ایک جھولا ہے جس میں مہاتما گاندھی کی تصویر آویزاں ہے۔
![]() |
دلہنوں کے لیے بنوائے گئے عروسی کمرے. |
![]() |
ساگوان کی بنی ہوئی الماریاں. |
![]() |
عروسی کمرے میں موجود واحد جھولا تنہائی کا شکار اور دلہنوں کا منتظر ہے. |
![]() |
جھولے میں مہاتما گاندھی کی تصویر لگی ہے، جس پر سال 1931 تحریر ہے. |
![]() |
باہر کا مرکزی فوارہ جو اب کام نہیں کرتا. |
اسی عمارت کے زیر سایہ سندھ کی سیاسی اور ادہی تحریکوں کے پروگرام بھی منعقد ہوتے رہے ہیں۔ ہال کے سامنے لگا ہوا بڑا فوارہ اب بند ہو چکا ہے۔ اس کی برابر میں ایک چھوٹا سا فوارہ بھی ہے، وہ بھی اب کام نہیں کرتا۔
جیسے ہی ہال میں داخل ہوتے ہیں تو ہال کی کھڑکیوں اور چھت کی ٹیئر گارڈر پہ بیٹھے ہوئے کبوتر دکھائے دیتے ہیں۔ جو ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی تک پھڑپھڑاتے رہتے ہیں۔ ہال کے اندر شمال کی جانب سے جانے والی سیڑھیاں بھی اکھڑ گئی ہیں۔ پرتاب کا کہنا ہے کہ وہ اس عمارت کو سنبھالنا چاہتا ہے مگر اس کے بس میں صرف اتنا ہے کہ وہ غیر متعلقہ لوگوں کو یہاں آنے اور اسے مزید نقصان پہنچانے سے روکے۔
بیسنت ہال ایک یادگار عمارت ہے۔ قومی اثاثہ قرار دیے جانے کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ادارے اس عمارت کو جلد از جلد بہتر کریں تاکہ وہ ساری سرگرمیاں ایک بار پھر سے شروع ہو سکیں جو کبھی اس کی پہچان ہوا کرتی تھیں.
— تصاویر بشکریہ عدیل احمد۔
![]() |
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں