• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
شائع August 21, 2015 اپ ڈیٹ March 23, 2018

"صاحب! کشمیر تو سارا ان (ہندوستان) کے پاس ہے، ہمارے پاس تو صرف مسئلہ ہے"۔ میرے ڈرائیور نے کیرن سیکٹر سے گزرتے ہوئے کنٹرول لائن کے پار اشارہ کرتے ہوئے ایسا کہا اور جیپ کی کھڑکی سے باہر منہ نکال کر پان کی پِیک پھینک دی۔

آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے شمال کی جانب چہلہ بانڈی پل سے شروع ہو کر تاؤبٹ تک 240 کلومیٹر کی مسافت پر پھیلی ہوئی حسین و جمیل وادی کا نام نیلم ہے۔ یہ وادی اپنے نام کی طرح خوبصورت ہے۔ وادی نیلم کا شمار پاکستانی کشمیر کی خوبصورت ترین وادیوں میں ہوتا ہے جہاں دریا، صاف اور ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے نالے، چشمے، جنگلات اور سرسبز پہاڑ ہیں۔ جا بجا بہتے پانی اور بلند پہاڑوں سے گرتی آبشاریں ہیں جن کے تیز دھار دودھیا پانی سڑک کے اوپر سے بہے چلے جاتے ہیں اور بڑے بڑے پتھروں سے سر پٹختے آخر دریائے نیلم کے مٹیالے پانیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔

اگر آپ ٹھنڈے میٹھے چشموں، جھاگ اڑاتے شوریدہ پانیوں، اور بلندی سے گرتی آبشاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس وادی سے بہتر مقام شاید ہی کوئی اور ہو۔ اس وادی کا صدر مقام اٹھمقام ہے۔ وادی دو تحصیلوں اٹھمقام اور شاردا پر مشتمل ہے۔ مظفرآباد سے شاردا تک سڑک ٹھیک حالت میں موجود ہے مگر اس سے آگے ٹوٹا پھوٹا، بل کھاتا، کچا، اور کہیں سے پتھریلا جیپ روڈ ہے جو آخری گاؤں تاؤبٹ تک جاتا ہے۔

تاؤبٹ کا اوپر سے منظر.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ کا اوپر سے منظر.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔

یہ علاقہ آزادی سے قبل دراوہ کہلاتا تھا۔ آزاد حکومت کے قیام کے 9 سال بعد 1956 میں قائم حکومت کی کابینہ میٹنگ میں غازیء کشمیر سید محمد امین گیلانی نے کشن گنگا دریا کا نام دریائے نیلم اور دراوہ کا نام وادی نیلم تجویز کیا اور کابینہ کے فیصلے کے مطابق یہ نام تبدیل کر دیے گئے۔ یوں کل کا دراوہ آج کی وادیء نیلم ہے۔

ہمالیہ کے دامن میں بسی دور دراز کی اس انسانی بستی کا بلاوا میرے نام آیا تو میں نے نوکری اور شہر کو خیرباد کہا، سامان سمیٹا، اور کشمیر کے سرسبز پہاڑوں میں گم ہونے کو نکل کھڑا ہوا۔ گاڑی جہلم پہنچی تو دریا کے پل پر کھڑے ہو کر میں نے جہلم کے پانیوں کو دیکھا۔ مٹی رنگے پانی سست روی سے بہہ رہے تھے۔ میں اسی دریا کو دیکھنے وہاں جا رہا تھا جہاں سے یہ پاکستان کے زیرِانتظام ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں تو یہ دھیما دھیما بہے جا رہا تھا مگر وہاں پہاڑوں میں شور مچاتا، غصیلا، جھاگ اڑاتا، تنگ دروں میں بہتا سبز پانیوں کا دریا ہے۔ جہلم عرف نیلم عرف کشن گنگا۔ گاڑی کے اندر گانے کی آواز گونج رہی تھی "کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا"۔

تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ کے گھر.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ کے گھر.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری.
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری.

شہر، قصبے، بستیاں گزرتی رہیں۔ راولپنڈی چھوٹا اور مری کا موڑ آیا تو گاڑی نے مظفرآباد کی راہ لی۔ کوہالہ سے مظفرآباد تک کا سفر تنگ سی مگر ٹھنڈی سڑک پر جاری رہا۔ درختوں کے سایوں میں گاڑی چلتی رہی۔ اردگرد پہاڑوں پر نئی نویلی شوخ رنگی گھاس اگ آئی تھی۔ ہرے کچور منظر تھے۔ اس ہریالی میں جگہ جگہ سڑک کے اطراف لگے انار کے بوٹے نظر آتے جن پر سرخ کلیاں کھِلی ہوئی تھیں۔ ایسے سبزے میں سرخ پھول کھِلے دیکھ کر دل میں عجب سی لہر دوڑ جاتی ہے۔ میرا دل چاہنے لگا کہ انارکلی اپنے سفر میں ساتھ رکھ لوں مگر جون ایلیاء فوراً دھیان میں آ کر بولے "دیکھ لو پھول، پھول توڑو مت"۔ انارکلیاں گزرتی رہیں اور انہی مناظر کو دیکھتے دیکھتے مظفرآباد آ گیا۔ بھرپور آبادی کا شہر، مکان کے اوپر مکان، لوگوں کے اوپر لوگ۔ دریائے نیلم کا پل پار کیا تو میں نے گاڑی کو چھوڑا اور جیپ لے لی۔ میری منزل وادی نیلم تھی۔

تاؤبٹ کا جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ کا جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ میں دریائے نیلم. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ میں دریائے نیلم. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔

اس دن دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ چلا تو یہ سوچتا چلا کہ دریا دو ملکوں کی سرحد بنا کیسے اطمینان سے بہے جا رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان تھا دوسری طرف ہندوستان۔ نوسیری کے مقام پر نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ شروع ہے جہاں پاکستان دریائے نیلم پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ موسمِ گرما کا آغاز ہو چکا تھا مگر پراجیکٹ پر ابھی تک موسمِ سرما چھایا ہوا معلوم پڑا۔ وادی کا صدر مقام اٹھمقام آیا تو بازار میں ہجوم تھا۔ ہجوم سے گاڑی نکلی تو کیرن آ گیا۔ دریا پر بنے پل کے پار جو کشمیر تھا اس پر ہندوستان کی حکومت قائم تھی۔

ڈرائیور نے ٹیپ ریکارڈر کی آواز آہستہ کی اور بولا "صاحب! کشمیر تو سارا ان (ہندوستان) کے پاس ہے، ہمارے پاس تو صرف مسئلہ ہے"۔ کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ چلتے مجھے محسوس ہوا کہ دونوں طرف ایک بات تو کم سے کم مشترک ہے اور وہ ہے موسیقی۔ دونوں طرف چلنے والی گاڑیوں میں انڈین موسیقی چلتی ہے۔ ثقافت میں بھی کوئی فرق نہیں۔ خوراک بھی ایک سی ہے۔ رنگ و نسل بھی ایک۔ بیچ میں بہتا دریا بھی ایک۔ اوپر سے گزرتا بادل بھی ایک۔ بس پرچم بدل جاتا ہے۔ سرکار بدل جاتی ہے۔ دل بدل جاتے ہیں۔ ڈرائیور اپنی بات کہہ چکا تو اس نے ٹیپ ریکارڈر کی آواز پھر اونچی کر دی۔ گاڑی میں گانا گونج رہا تھا "غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے۔"

تاؤبٹ میں دریائے نیلم. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ میں دریائے نیلم. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ میں دریائے نیلم. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ میں دریائے نیلم. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

دواریاں کا قصبہ آیا۔ یہیں سے رتی گلی جھیل کو راستہ نکلتا ہے۔ رتی گلی جہاں قدرت نے سبز گھاس کا مخملی قالین بچھا کر اس پر پیلے، نیلے اور نارنجی رنگوں سے گلکاری کر کے جھیل کے نیلے پانیوں کے اطراف میں ایسے منظر سجا دیے ہیں جن کو ایک نظر دیکھنے کے واسطے سیاح اور کوہ نورد ہمالیہ کے پہاڑوں سے سر ٹکراتے، نالے عبور کرتے، چڑھائی چڑھتے پیدل چلتے جاتے ہیں۔ رتی گلی، ایک جھیل جس کو دیکھنے کی چاہ میں انسان سب کچھ لٹا دے تو بھی خسارے کا احساس نہ ہو۔

گاڑی آگے بڑھتی گئی۔ تھوڑا آگے ایک سڑک پہاڑ کے اوپر چڑھتی جاتی ہے جو اپر نیلم گاؤں میں جا نکلتی ہے۔ شاید اس گاؤں کے نام کی وجہ سے ساری وادی کا نام نیلم رکھا گیا ۔ شاردا آیا تو جیپ بازار میں رک گئی۔ نگاہوں نے دیکھا کہ مکانوں اور دکانوں کی چھتوں پر اگی گھاس کو گدھے چر رہے تھے۔ ایسا منظر دیکھ کر ہنسی لبوں پر پھیل گئی۔ شاردا جہاں مکانوں کی چھتوں پر گدھے چرتے ہیں۔ پہاڑی ڈھلوانوں کے ساتھ بسے مکانوں کے چھتیں پہاڑ سے ملتی ہیں، وہیں سے جانور آسانی سے چھتوں پر چڑھ سکتے ہیں۔ چھتوں پر پڑی مٹی میں گھاس اور جڑی بوٹیاں اگ آتی ہیں جن کی خوشبو کے پیچھے گدھے بھی آ جاتے ہیں۔

تاؤبٹ کے قریب جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ کے قریب جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ کے قریب جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ کے قریب جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

— فوٹو سید مہدی بخاری۔
— فوٹو سید مہدی بخاری۔

شاردا تک قدرے شہری ماحول وادی پر چھایا رہتا ہے اور اشیائے ضرورت فراوانی اور آسانی سے مل جاتی ہیں۔ شاردا کے آگے کے مقامات دیہی علاقے ہیں۔ سڑک بھی شاردا تک ہی ٹھیک ہے اس سے آگے بہت خستہ حالت میں ہے۔ دریائے نیلم اس مقام پر قدرے چوڑا بہتا رہتا ہے۔ شاردا ضلع نیلم کا دوسرا سب ڈویژن ہے۔ یہ خطہ زمانہ قدیم میں علم و دانش کا مرکز رہا ہے۔ دریا کے پل کو پار کر کے دوسری طرف جائیں تو وہاں کھنڈر نما قلعے کے آثار ملتے ہیں۔ یہ قلعہ نہیں بلکہ دانش گاہ تھی۔

بعض مؤرخین کے مطابق شاردا ہندو مندر کا نام تھا۔ کیا شاردا مندر تھا یا دانش گاہ تھی؟ اس پر اب بھی تحقیق ہو رہی ہے۔ ریاست کے نامور محقق ڈاکٹر احمد دین صابر آفاقی کی تحقیق کے مطابق شاردا اور سرسوتی ہندو عقیدہ میں برہما کی اہلیہ کے دو نام ہیں جنہیں علم و دانش کی دیوی مانا گیا ہے۔ زمانہ قدیم میں مندر گیہاں دھان (عبادت) اور تعلیم کے مرکز تھے۔ البیرونی نے اس مندر کا جغرافیہ اور کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ "ملتان کے سورج دیوتا تھامنیر کے چکر سوامی اور سومنات کے مندر کے بعد شاردا بھی بہت بڑا مندر ہے۔ یہ مندر سرینگر سے کوئی دو تین روز کی مسافت پہ کوہستان بلور کی سمت ایک مشہور صنم کدہ ہے۔" اکیسویں صدی میں دریائے نیلم کے کنارے آباد یہ گاؤں شاردا اب صرف سیاحت کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے۔ دریائے نیلم اس گاؤں کے چرنوں کو چھوتا ہوا خاموشی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔

سفر پھر سے شروع ہوا۔ سڑک ختم ہوئی اور کچا راستہ شروع ہوا جس پر سے جگہ جگہ کوئی پہاڑی چشمہ تیز بہتا راہ میں پڑ جاتا۔ جیپ پانیوں کو عبور کرتی اور پھر ہچکولے لیتی اپنی منزل کو گامزن رہتی۔ اندر بیٹھے یوں لگتا جیسے میں اونٹ پر سوار ہوں۔ پہاڑوں سے دھوپ ڈھل رہی تھی۔ چیڑ کے لمبے سائے مزید لمبے ہو چلے تھے۔ جیپ جب کیل میں داخل ہوئی تو نمزدہ مٹی سے معطر ہوا نے استقبال کیا جو سارے علاقے میں پھیلی تھی۔

گجر نالہ. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔
گجر نالہ. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔

گجر نالہ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
گجر نالہ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

پہاڑی چشمہ. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔
پہاڑی چشمہ. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔

پہاڑی چشمہ. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔
پہاڑی چشمہ. تاؤبٹ. (لانگ ایکسپوژر) — فوٹو سید مہدی بخاری۔

محکمہء سیاحت کے موٹل میں چیک اِن کروا کر میں اپنے کمرے سے ملحقہ بالکونی میں شام کی ماند پڑتی ہلکی دھوپ میں بیٹھ کر وادی کی چہل پہل دیکھنے لگا۔ دائیں جانب ایک مکان کی چھت پر دو کمسن بچے سبز رنگ پلاسٹک کی چھوٹی سی گیند کے ساتھ ٹینس کھیل رہے تھے۔ ان کے برابر والے مکان کی چھت پر چار لڑکے کسی اور کھیل میں مشغول تھے غالباً اسٹاپو قسم کا کوئی کھیل تھا۔

نیچے ایک پہاڑی ڈھلوان، جس کے اطراف لکڑی کے شہتیروں کا حاشیہ لگا ہوا تھا، کے بیچ کچے نم راستے پر عورتیں اپنے سروں پر پیتل اور سلور کے مٹکے اٹھائے وقفے وقفے سے گزرتیں۔ ان گھڑوں میں پانی ہوتا۔ راستے کے آغاز پر ایک صاف شفاف پانی کی نالی تھی جس کے اوپر لکڑی کا شہتیر ڈالا ہوا تھا، اسی نالی کے کنارے اور شہتیر کے اوپر چند عورتیں کپڑے دھونے میں مصروف تھیں۔ وہیں برابر سے دو دو کر کے عورتیں پانی سے گھڑے بھرتیں اور کچے راستے پر چڑھائی چڑھتے اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتیں۔

اسی گھاٹ کے ساتھ ایک کھیت، جس کی حاشیہ بندی لکڑی کے چوپٹوں سے کی گئی تھی، میں دو بچیاں گول گول گھومتیں اور کچھ دیر میں چکر کھا کر مٹی پر گر جاتیں، پھر دیر تک کھِلکھِلا کر ہنستی رہتیں۔ ان کی ہنسی کی آواز ٹینس کھیلتے بچوں کی ہنسی کے ساتھ گڈمڈ ہو کر مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد دونوں بچیاں اٹھتیں اور گول گول گھومنے کا کھیل پھر سے شروع ہو جاتا چکر کھا کر گرنے تک جاری رہتا۔

وادی کیل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
وادی کیل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

کیل گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
کیل گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

گگئی جاتے ہوئے.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
گگئی جاتے ہوئے.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

گگئی جاتے ہوئے.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
گگئی جاتے ہوئے.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

میری بالکونی کے بالکل نیچے ایک کھیت میں بے شمار ڈینڈلائن اگے تھے جن کے بیچ بھورے رنگ کی بلی نہ جانے کیا سونگھتی پھر رہی تھی۔ ڈینڈلائن پر ڈھلتے سورج کی کرنیں پڑ رہیں تھیں جن کی وجہ سے ان کے ریشے کناروں سے جگمگاتے نظر آ رہے تھے۔ دائیں ہاتھ وادی میں گھروں کی چمنیوں سے دھواں نکل رہا تھا۔ ڈھلوانی چھتوں پر سرخ، سفید اور مالٹا رنگ کیا گیا تھا۔ جیپ روڈ سے کبھی کبھار کوئی جیپ یا موٹر سائیکل گزرتی۔

کچھ دیر میں غروب ہوتے سورج کی آخری آخری کرنیں بادل کے ان دو ٹکروں کے چہروں پر گلال ملنے لگیں جو روئی کے بڑے سے گالے جیسے محسوس ہوتے کب سے آسمان پر ٹھہرے تھے۔ سرخی نے آسمان کو رنگا تو وادی میں سردی بڑھنے لگی۔ بادلوں کی سرخی کے ماند پڑنے تک پانی کی گھاٹ خالی ہو چکی تھی، بچوں کے کھیل ختم ہو چکے تھے، بھوری بلی بھی اب اپنے گھر کو نکل گئی تھی۔ چمنیوں سے دھواں مزید اٹھنے لگا۔ رات کے کھانے کی تیاری ہو رہی تھی۔ سردی بڑھتی گئی۔ اندھیرا پھیلنے لگا۔ وادی ٹمٹمانے لگی۔ میں جو ان منظروں سے چکنا چور ہو چکا تھا، خود کو سمیٹ کر اٹھا اور کمرے میں چلا گیا۔

پھلوائی گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
پھلوائی گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

سرداری کے قریب.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
سرداری کے قریب.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

سرداری گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
سرداری گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

سرداری گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
سرداری گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

رات 11 بجے بالکونی پر دوبارہ آیا۔ اب آسمان پر تارے تھے۔ چاند کی آخری تاریخیں تھیں۔ کالی سیاہ رات تھی۔ خاموشی وادی میں گونج رہی تھی۔ صرف نالی میں بہتے پانی کی آواز تھی یا اپنی دھڑکن کی۔ چمنیاں ٹھنڈی پڑ چکیں تھیں۔ بستی پر نیند اتر چکی تھی۔ کیل میں اوس پڑنے لگی تو تارے بھی مدھم ہونے لگے۔ دور کہیں سے کتوں کے بھونکنے کی آواز آئی اور پھر آتی ہی چلی گئی۔ چپ وادی میں بھونکتے کتے ماحول کو پراسرار بناتے جا رہے تھے۔ کمرے میں آ کر بستر پر لیٹا تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی مگر آنکھیں بند کیں تو کیل کی ساری وادی آنکھوں کے پردے پر گھومنے لگی۔ میں چکرا کر وہیں سو گیا۔ نیند کی دیوی نے ساری وادی کو آغوش میں بھر لیا تھا۔ صبح تک تمام کائنات منجمد ہو چکی تھی۔

— فوٹو سید مہدی بخاری۔
— فوٹو سید مہدی بخاری۔

— فوٹو سید مہدی بخاری۔
— فوٹو سید مہدی بخاری۔

— فوٹو سید مہدی بخاری۔
— فوٹو سید مہدی بخاری۔

— فوٹو سید مہدی بخاری۔
— فوٹو سید مہدی بخاری۔

اگلی صبح کی پہلی کرنوں کے ساتھ میں نے کیل کو چھوڑا۔ جیپ دشوار گزار کچے راستے پر ہچکولے کھاتی رہی۔ فوجی چوکیوں میں اندراج ہوتا رہا۔ دریائے نیلم ایک مقام پر سڑک کے پہلو کے ساتھ آ لگا۔ دریا سے محض ایک فٹ اونچے راستے پر جیپ فراٹے بھرتی گزر رہی تھی۔ پھر ایک آبشار کا سامنا ہوا جس کے پانی سڑک پر گر رہے تھے۔ پھوار سے اردگرد کا سارا راستہ کیچڑ بنا ہوا تھا۔ جیپ نے آبشار کو پار کیا تو ٹھنڈی پھوار چہرے کو بھگو گئی۔

دریائے نیلم کے کنارے کنارے چلتی سڑک نے پھر اونچائی بھرنا شروع کی اور جیپ اوپر کو اٹھتی چلی گئی۔ دریا کہیں نیچے رہ گیا۔ آگے سرداری، پھلوائی، اور ہلمت کی بستیاں تھیں، اور کہیں آخر میں تاؤبٹ تھا جہاں گاڑی نے رک جانا تھا، جو سفر کا آخری پڑاؤ تھا، جس کے آگے سڑک ختم تھی۔ اس دن میں کیل سے چلا تو ایک بات نوٹ کرتا چلا کہ وادی کے ان علاقوں میں عورتیں محنت کش ہیں، کھیتوں میں کام کرتی ہیں، مال مویشی سنبھالتی ہیں اور ایک خاص بات کہ سرخ رنگ کے کپڑے پہنتی ہیں۔ شاید سرخ رنگ یہاں کی عورتوں کو کافی پسند ہے۔ میں نے دس میں سے آٹھ عورتوں کو سرخ رنگوں میں ہی دیکھا۔

راستے میں جگہ جگہ خانہ بدوشوں کے قافلے ملے۔ بکروالوں کے قبیلے اپنے مال مویشیوں اور خاندان کے ساتھ مسلسل سفر میں تھے۔ جیپ کا شور سن کر بھڑ بکریاں راستہ چھوڑ دیتیں۔ بکروال کشمیر سے چلتے ہیں اور ہمالیہ کے بلند دروں کو عبور کرتے دیوسائی کے میدان میں جا نکلتے ہیں۔ وہاں سے اسکردو کی راہ لیتے ہیں یا کچھ استور کی طرف گامزن رہتے ہیں۔ ابھی دیوسائی کی برفیں نہیں پگھلی تھیں اس لیے بکروالوں کے قافلے سست روی سے چل رہے تھے۔ جگہ جگہ قیام کرتے۔ بستی بستی پڑاؤ ڈالتے۔ کوچہ کوچہ خیمہ زن ہوتے۔ ان خانہ بدوشوں کی زندگی بھی عجب معمہ ہے۔ چلتے چلتے جس کو جہاں موت آ جائے وہیں دفن کر دیا جاتا ہے۔ ان کی قبریں کشمیر کی بستیوں سے لے کر اسکردو اور استور کے بیچ جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔

تاؤبٹ بالا.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ بالا.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

گگئی کی جانب ٹریکنگ کرتے ہوئے.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
گگئی کی جانب ٹریکنگ کرتے ہوئے.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ بالا.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ بالا.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ بالا.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ بالا.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

ایک بکروال نے بتایا کہ صدیوں سے آباء و اجداد یہی پیشہ اور راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ چلنا اور چلتے رہنا، یہی ان کی زندگی ہے۔ گزرتے گزرتے نگاہ پڑی تو ایک بکروال دریا کے کنارے بکرے کو ذبح کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میں رک گیا۔ بکروال بھوک سے مر جاتے ہیں مگر اپنے مویشی ذبح کر کے نہیں کھاتے۔ سبب معلوم کرنے کو اس کے پاس گیا تو پتہ چلا کہ یہ جانور پہاڑ سے پھسل کر گر گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی پچھلی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ ایک دن تو خانہ بدوش اسے اٹھا کر چلتے رہے مگر اب اسے اٹھا کر نہیں چل سکتے تو ذبح کر رہے ہیں۔ مجھے مشتاق احمد یوسفی کا قول یاد آ گیا "عالمِ اسلام میں ہم نے کسی بکرے کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا۔"

سفر جاری رہا۔ جگہ جگہ سڑک سے بہتے چشمے راہ میں آتے رہے۔ جیپ ان دودھیا پانیوں کو روندتی گزرتی رہی۔ ایک خانہ بدوش لڑکی ہارن کی آواز سن کر ٹھٹکی، مڑ کر دیکھا اور شرم کے مارے چہرے کا نقاب بنا لیا۔ نقاب کے اندر سبز آنکھیں پھیل گئیں۔ ہاتھ میں اس نے چائے کی کیتلی تھام رکھی تھی اور ساتھ ایک شاپر بیگ میں دو کپ اور چند خشک روٹیاں نظر آ رہی تھیں۔ میرا دل چاہنے لگا کہ اس کو کہوں اگر تم خانہ بدوش ہو تو فی الوقت میں بھی خانہ بدر ہوں۔ دونوں انسان ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں۔ جپسی کہیں پیچھے رہ گئی۔ گاڑی آگے بڑھ گئی۔ گاڑی کے شیشے سے دیکھا تو وہیں کی وہیں ساکت کھڑی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب میں نے سوچا تھا کہ ایک دن ان خانہ بدوشوں کے ساتھ کشمیر کو عبور کر کے دیوسائی کے میدان میں جا نکلوں اور وہاں سے اسکردو کی راہ لوں۔ بکروالوں کے ساتھ ساتھ، جپسی کی مہمان نوازی میں، چائے کے کپ کی بھاپ لیتا، شاید کسی دن ایسا ممکن ہو جائے۔

جام گڑھ آیا۔ ہجرت زدوں کی بستی۔ ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہندو مسلم فسادات کی آگ پھیلی تو کنٹرول لائن کے ساتھ بسنے والی ایک مسلمان بستی کے باسیوں نے گھر بار چھوڑ کر راتوں رات دریا کسی طرح پار کیا اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہوگئے۔ ان ہجرت زدوں کو ریاست کی حکومت نے جام گڑھ میں آباد کیا ہے۔ ساری بستی کی چھتوں کا ایک سا رنگ ہے: نارنجی۔ درد کی داستانیں بستی میں پھیلی ہیں۔ پیچھے چھوٹ جانے والوں کی یادیں ہیں۔ جل جانے والے مکانوں کے نوحے ہیں۔ لٹ جانے والے سامان کا ماتم ہے۔ جیپ بستی سے چپ چاپ گزر گئی۔ بستی میں خاموشی تھی۔ لوگ چپ تھے یا ان کو مستقل چپ لگ چکی تھی۔

جام گڑھ گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
جام گڑھ گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤ بٹ کے کھیت.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤ بٹ کے کھیت.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤ بٹ کے کھیت.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤ بٹ کے کھیت.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

ٹریک میں ایک گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
ٹریک میں ایک گاؤں.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

کیل سے نکل کر چار گھنٹوں کے ہچکولے کھاتے سفر کے بعد تاؤبٹ آیا۔ ایک کٹا ہوا الگ تھلگ پہاڑی گاؤں۔ لکڑی کے بنے خاص طرزِ تعمیر کے مکانات تھے۔ کھیتوں کے اطراف لکڑی کی باڑیں لگی تھیں جو شاید زمین کی حدبندی کی غرض سے لگائی گئی تھیں۔ دریائے نیلم وادی کے بیچ تیز بہے جا رہا تھا۔ کھیتوں کی تیاری میں لوگ مگن تھے۔ بچے گھروں کی کھڑکیوں سے جھانکتے اور مسافر کو دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگتے۔ بزرگ چھوٹی چھوٹی دکانوں کے باہر جمع ہو کر بیٹھے تھے۔ سرخ آنچل کھیتوں میں لہرا رہے تھے۔ شب بسری کا ٹھکانہ آج یہی گاؤں تھا۔

اگلی صبح اٹھا اور کشمیر کی آخری انسانی آبادی گگئی گاؤں کی طرف چل پڑا۔ یہ پیدل مسافت کا راستہ تھا۔ راستے میں جنگل تھے۔ کھیت تھے۔ چرند پرند تھے۔ ایک دو مارموٹ تھے۔ میرے ساتھ ساتھ گگئی نالہ جھاگ اڑاتا بہے جا رہا تھا۔ چلتے چلتے پہاڑوں کے دامن میں ایک کھلا سا مقام آیا جہاں درہ برزل کی طرف سے آتا گجر نالہ گگئی نالے میں مل جاتا ہے۔ یہ دونوں مل کر بہنے لگتے ہیں اور اپنے پانیوں کو تاؤبٹ کے مقام پر دریائے نیلم کے سپرد کر دیتے ہیں۔

دھوپ کھِلنے لگی۔ پہاڑی گلہری درخت سے اتری اور نالے کے کنارے پڑے ایک لکڑی کے ٹکڑے پر چڑھ کر دھوپ سینکنے لگی۔ ہوا میں سردی بھری ہوئی تھی۔ یہیں کہیں آس پاس مارموٹ تھے جن کی سیٹیاں فضا میں وقفے وقفے سے گونجنے لگتیں۔ پھر ایک جنگل آیا جس کو پار کر کے آبادی تک پہنچا۔ چار گھنٹوں کے ٹریک کے بعد میں گگئی گاؤں میں موجود تھا۔ چند نفوس پر مشتمل یہ آبادی کشمیر کی آخری آبادی ہے اس کے بعد تین دن کی پیدل مسافت پر ضلع استور واقع ہے۔ بیچ میں جنگلات ہیں یا ندی نالے۔ تنہائی ہے اور تنہائی کی ہیبت۔

تاؤبٹ اور گگئی کے درمیان.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ اور گگئی کے درمیان.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ اور گگئی کے درمیان.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ اور گگئی کے درمیان.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ اور گگئی کے درمیان.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ اور گگئی کے درمیان.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

تاؤبٹ اور گگئی کے درمیان.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ اور گگئی کے درمیان.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

سال کے سات ماہ برف میں دبا رہنے والا یہ گاؤں خوبصورت ہے۔ وہاں ایک آدمی سے میں نے پوچھا کہ آپ لوگ سال کے چھ سات ماہ جب برف گرتی ہے بالکل کچھ نہیں کرتے کیا؟ کچھ نہیں کرتے تو اتنا لمبا عرصہ انسان فارغ رہ کر گھر میں بند ہو کر کیسے گزار سکتا ہے؟ چچا کے لبوں پر مسکان پھیل گئی اور بولا "کرتے ہیں ناں، ہر گھر میں بارہ سے کم بچے نہیں، اور کیا کریں۔" میں نے عرض کرنا چاہا کہ چچا میرا مطلب کسی کام دھندے سے تھا مگر جواب سن کر چپ رہا۔

چلنے لگا تو گاؤں والوں میں سے ایک بندہ بولا "آگے کدھر جاتے ہو آگے تو کوئی آبادی نہیں یہاں سے واپس تاؤبٹ جاؤ۔" میں نے کہا کہ بس تھوڑا آگے تک جاتا ہوں شاید کوئی اچھا منظر مل جائے تو تصویر لے لوں پھر واپس چلا جاؤں گا۔ کچھ آگے بڑھا تو ایک بندہ کاندھے پر کلہاڑی اور پشت پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے چلا آ رہا تھا جو وہ جنگل سے کاٹ کر لا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر بولا "او بھائی! آگے نہ جاؤ ایسے ہی کوئی پکڑ کر ذبح کر دے گا تو مسئلہ خراب ہوگا۔" یہ سن کر میں سن ہو گیا۔ واپسی کی راہ لیتے میرے ذہن میں اس کا جملہ مسلسل گونج رہا تھا "کوئی پکڑ کر ذبح کر دے گا تو مسئلہ خراب ہو گا۔۔۔۔ مسئلہ خراب ہو گا۔۔۔ مسئلہ خراب ہو گا۔۔۔"

واپس مڑنے سے پہلے میں نے ہاتھ ماتھے پر رکھ کر آنکھوں کو سورج کی روشنی سے بچاتے درہ برزل کی برفوں پر آخری نگاہ ڈالی۔ دور بہت دور برف پوش چوٹیاں تھیں جو برفوں سے لدی پڑی تھیں۔ یہ درہ برزل کی چوٹیاں تھیں۔ ان کے آگے گلگت بلتستان کا ضلع استور تھا۔ میرے نامہء اعمال میں کشمیر کی آخری انسانی آبادی کے سفر کے آگے تمام شد لکھا جا چکا تھا۔ پردہ افلاک کے پار قلم مقدر کے تختہ سیاہ پر ایک اور سفر لکھ رہا تھا۔ میرے پاؤں میں ایک نیا چکر تشکیل پا رہا تھا۔ میرے ہتھیلی پر سفر کی لکیر پھیلتی جا رہی تھی۔ تھکن کے مارے میں نے سر جھکا دیا۔ یہ قدرت کے آگے سر تسلیمِ خم تھا۔ آنکھیں بند کیں تو مجھے لگا جیسے تھکن سے میرا وجود ریزہ ریزہ ہو کر ڈھ جائے گا۔ پھر میرے گھٹنوں نے کشمیر کی زمین کو چھوا۔ پیشانی کشمیر کی خاک سے مَس ہوئی۔ وہی سجدہ جو ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔

گگئی.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
گگئی.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

گگئی.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
گگئی.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

گگئی.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
گگئی.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

گگئی.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
گگئی.— فوٹو سید مہدی بخاری۔

کشمیر خوبصورت ہے۔ میں نے اتنا ہی دیکھا جتنا میرے بس میں تھا۔ کنٹرول لائن کے پار کیا ہے، میں نہیں جانتا۔ مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ ہزاروں لوگوں کی قبریں ہیں جو گولیوں سے چھلنی ہوئے۔ ہزاروں عورتیں ہیں جن کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں مائیں ہیں جن کی کوکھ اجڑ چکی۔ ہزاروں بوڑھے ہیں جن کے جوان بیٹے گولی کھا کر خاموش ہو چکے۔ ہزاروں امیدیں، آسیں دم توڑ چکیں۔ صندل کے جنگلات نذرِ آتش ہو چکے۔ جہاں جگنوؤں کے قافلے اترا کرتے تھے وہاں اب چیونٹیاں خیمہ زن ہو چکیں۔ ڈل جھیل میں چلنے والی کشتیوں کے ملاح آزادی کے گیت گاتے گاتے بوڑھے ہو چکے۔ میرا آج کا کام دکھ اٹھاتے کشمیریوں کے نام اور ادھر کی فضاؤں میں لہراتے سرخ آنچلوں کے نام۔ فیض احمد فیض کی نظم کے ساتھ کشمیر کو الوداع

آج کے نام

اور

آج کے غم کے نام

آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا

زرد پتوں کا بن

زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے

درد کی انجمن جو میرا دیس ہے

ان دکھی ماؤں کے نام

رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور

نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں

دکھ بتاتے نہیں

منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں

ان حسیناؤں کے نام

جن کی آنکھوں کے گل

چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کِھل کِھل کے

مرجھا گئے ہیں

ان بیاہتاؤں کے نام

جن کے بدن

بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں

بیواؤں کے نام

کٹڑیوں اور گلیوں، محلوں کے نام

جن کی ناپاک خاشاک سے چاند راتوں

کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو

جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا

آنچلوں کی حنا

چوڑیوں کی کھنک

کاکلوں کی مہک

آرزو مند سینوں کی اپنے پسینے میں جلنے کی بو

پڑھنے والوں کے نام

وہ جو اصحاب طبل و علم

کے دروں پر کتاب اور قلم

کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے

پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے

وہ معصوم جو بھولپن میں

وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن

لے کے پہنچے جہاں

بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے۔


یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سفرنامے کی سیریز میں گیارہواں مضمون ہے۔ گذشتہ حصے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


لکھاری پیشے کے اعتبار سے نیٹ ورک انجینیئر ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج [یہاں][51] وزٹ کریں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

سید مہدی بخاری

لکھاری یونیورسٹی آف لاہور کے کریئٹیو آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔

ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں: سید مہدی بخاری فوٹوگرافی

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (74) بند ہیں

سمیرا Aug 21, 2015 06:17pm
عمدہ تحریر اور بہت ہی خوب صورت عکاسی۔۔۔۔ جنت نظیر وادی بلاشبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sheharyar Haider Aug 21, 2015 06:53pm
Awesome....... I am Your Fan Sir...... nd Engineer Too
Fahim Ahmed Aug 21, 2015 07:04pm
very very very very very very.........nice
شہباز احمد Aug 21, 2015 07:11pm
میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے کما ل کی فوٹو گرافی کی مدد سے پاکستان کے خوبصورت علاقے کی سیر کروائی۔ اس کے علاوہ بہت اعلی لکھا ہے 0346-4074572
شہباز احمد Aug 21, 2015 07:14pm
میں آپ کا دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے کمال کی فوٹو گرافی سے پاکستان کے جنت نظیر علاقے کی سیر کروائی 0346-4074572
Imtiaz Chaudhry Aug 21, 2015 07:47pm
Beautiful photography and an splendid narration. Thanks for sharing your work.
نجیب احمد سنگھیڑہ Aug 21, 2015 07:49pm
نیلے گگن کے تلے دھرتی کا پیار پلے، ﺍﯾﺴﮯ ﮬﯽ ﺟﮓ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﮬﯿﮟ ﺻﺒﺤﯿﮟ ، ﺍﯾﺴﮯ ﮬﯽ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ۔ ﻧﯿﻠﮯ ﮔﮕﻦ ﮐﮯ ﺗﻠﮯ ، ﺷﺒﻨﻢ ﮐﮯ ﻣﻮﺗﯽ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﭘﮧ ﺑﮑﮭﺮﯾﮟ ،ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺱ ﭘﮭﻠﮯ ، ﻣﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﯿﻠﯿﮟ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ، ﻧﺪﯾﺎ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺩﺭﯾﺎ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﮯ ،ﺳﺎﮔﺮ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﻠﮯ،ﻧﯿﻠﮯ ﮔﮕﻦ ﮐﮯ ﺗﻠﮯ،،،، نغمہ بھی ہمارا نہیں ہے بلکہ اُن کا ہے اور مہندرا کپور نے بھرپور انداز میں گایا تھا۔
Abdul Aug 21, 2015 07:57pm
Very nice and too informative
Muhammad Abid Bhatti Aug 21, 2015 08:14pm
Thanks Sir Mehdi, aap ki wajah sae hum sub bhi in makamat ki sair kar leyte hain. Thanks Again
AAMIR AHMEDFARIDI Aug 21, 2015 08:36pm
BOKHARI SAB AAP NEY BOHAT SHANDAR KAAM KIA HAY
Malik Aug 21, 2015 08:52pm
buhat he aala tasweer kashi aur jaga bhi janat ki manad hy.
Anwar Amjad Aug 21, 2015 10:08pm
Thank you Dawn for putting all the beautiful articles by Syed Mehdi Bukhari on one page. Please create a separate section on sightseeing in Pakistan and provide access to all such articles published in your paper by various authors from time to time.
Ali Atshad Aug 21, 2015 11:14pm
dear sir can i join your journeys ????
Ahsan Aug 21, 2015 11:36pm
Aap ki pehly sub article read kiye han, Lekin Ye article really azad Kashmir k husan k sath sath maqboza kashmir or wahan k innocent people ki halat ki bilkul sae akasi karta hai, Kash India maqboza kashmir ko bhi utna hi beautiful rehny deta... Thanks for raise your sound for kashmiri people.
M imran humayun Aug 22, 2015 12:06am
excellent bukhary saab
Muhammad Ayub khan Aug 22, 2015 01:32am
taswwereyN bohat mazey ki heyN lekin foootoshop ney kaam khrab kardiya hey------please try to photof-graph with high resolution cameras and do not give touches with fotoshop
shafeeq Aug 22, 2015 09:45am
ye buhat khobsorat area hai magar es say ziada khobsorat ilaqa district village bilandkot khobsorat hai...kabe tou jawo waha na...you will feel really good and different.
اثمار Aug 22, 2015 09:48am
@Muhammad Ayub khan جو کام اپ نے خود کبھی کیا نہ ہو اس کے بارے میں ایسے رائے دینا مناسب نہیں__ فوٹوشاپ کا لفظ استعمال کرنا اسان ہے۔۔ کبھی جائیں نہ اتنی خواری کریں پھر پتا چلے گا۔۔
ittefaq ahmad Aug 22, 2015 10:27am
SAYED MEHDI BOKHARI SAHIB ... Janab ap ki jitni tareef bhi ki jay to pher kum hai. ap hum ko ghar baithay bthaay wo manaazer dikha daitay hain k jin ka kbi tasawar bhi nhi kiya ja sakta... ap ki choice kia baaaaaaaaaaaaaaaat hai... hamrai mohabbat bhari naik tamanaaien ap k sath hain.. shukriya...
Faisal Aug 22, 2015 10:53am
Out Class photography !!! just a request to pls put only natural images not photoshop edited
Muhammad Rafi Ullah Aug 22, 2015 11:33am
الفاظ کم پڑ جاتے ہیں اس خوبصورتی کے لیے۔ انتہائی شاندار تصویریں ہیں۔
khushnood zehra Aug 22, 2015 01:14pm
حسین مناظر ، باکمال فوٹو گرافی
azhar gulzar Aug 22, 2015 02:14pm
i have nothing to say ,speechless, again a out of thougt photografy and writing u r a genious person
Amjad Hussain Aug 22, 2015 03:23pm
Tehreer-e-tasweer ny sehar tari kar dia, Wallah..
Mubashar Hassan Aug 22, 2015 05:38pm
تصویر کے ساتھ تحریر واہ پوری جنت کی سیر کرادی خدا کرے میری ارض پاک کے اترے وہ فصل گل کہ جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Syed Ali Yazdan Naqvi Aug 22, 2015 06:46pm
It is a very good and beautiful Article which I have never been seen in my whole life. Kashmir Is a very beautiful Place but unfortunately I did not visit this place. But I want to visit this place " The Heaven of Pakistan" as soon as possible. And Thank you Sir Mr. Syed Mahdi Bukhari to give information about Kashmir and other places of Kashmir. And your Photos are very baeutiful. Pakistan Zindabad Qaid e Aazam Paindabad. In Last one thing That I want to say that we should never forget those people who severs their lives to defend against the Enemies Of Kashmir And Pakistan. Especially "The Soldiers of Pakistan army " Thank you once again..... Syed Ali Yazdan Naqvi......
Syed Mehdi Bukhari Aug 22, 2015 06:59pm
بصدِ احترام عرض ہے کہ جن لوگوں کو فوٹوگرافی کی سمجھ نہیں وہ صرف تحریر پر اکتفا کیا کریں فوٹوگرافی پر تبصرہ نہ کریں ۔۔۔ یہ لانگ ایکسپوژر فوٹوگرافی ہے جس میں کیمرے کا شٹر کافی سیکنڈز یا منٹس کے لیئے اوپن رکھا جاتا ہے تا کہ پانی اور بادل میں موومنٹ کی تصویر کشی کی جا سکے جس کی وجہ سے پانی اور بادل سموتھ یا ہِلے ہوئے کیپچر ہوتے ہیں ۔۔۔ لانگ ایکسپوژر میں کیمرے کا مینول کنٹرول فوٹوگرافر کے پاس ہوتا ہے اور ایک سیکنڈ کی تاخیر یا جلدی سے تصویر کا ایکسپوژر خراب ہو سکتا ہے اس کے لیئے ہائی اسکلز چاہیئے ہوتی ہیں ۔۔۔ پوری دنیا خاص کر مغرب میں تو زیادہ تر کام ہی لانگ ایکسپوژر فوٹوگرافی پر ہو رہا ہے ہمارے ہاں نہ سینس ڈیویلپ ہوئی اس کی نہ اس کو سراہا جا رہا ہے ۔۔۔ فائیو ڈی مارک تھری سے زیادہ ہائی ریزولوشن کوئی کیمرہ ہے تو بتا دیں آپ ۔۔ یہ فائیو ڈی مارک تھری کا کام ہے ۔۔ فوٹوگرافی پر بہتر تبصرہ فوٹوگرافر کر سکتا ہے جس کو سمجھ بوجھ ہوتی ہے کہ یہ کیا کام ہے ۔۔۔ آپ لوگ ساری محنت کو ایک لفظ فوٹوشاپ لکھ کر دھو دیتے ہیں گھر بیٹھے سکون سے ۔۔۔ شکریہ سید مہدی بخاری فوٹوگرافر ، رائیٹر
Huma Aug 22, 2015 07:55pm
light and shades in pictures and writing both..beautifully written, excellently captured.. keep it up
فیصل بیگ Aug 22, 2015 08:27pm
بہت اعلیٰ تصویریں ۔۔ اچھا کیا آپ نے بتا دیا کہ یہ کمیرے کی حرکت ہے نہیں تو میں بھی اسے فوٹو شاپ کی حرکت ہی سمجھتا ۔۔ لیکن ایسے ہائی فائی کمیرے کا کیا فائدہ جو حقیقت سے دور تصویر دے ۔۔۔ میرا اعتراض صرف آبشاروں اور دریاوں سے ہے ۔۔۔ جن کی اصل پانی کی روانی ۔۔۔ اُچھلنا ۔۔۔ خوبصورتی کی بجائے صرف ایک برش ورک نظر آئے ۔۔۔
Adil Aug 22, 2015 09:13pm
@Faisal Baig that may called artistic touch and requires an aesthetic sense to admire great work @Syed Mehdi Bukhari
فیصل بیگ Aug 22, 2015 11:22pm
@Adil i'm talking about nature beauty you are talking about artistic work ... people go to northern areas to watch nature not art work ... کبھی آپ ان آبشاروں ،چشموں کے پانی کی حقیقی چمک، اُس کا پتھروں سے ٹکرانا، اُن میک کے سینکڑوں رنگ دیکھو تو اُسکے مقابلے میں برش ورک بالکل بے رنگ لگے گا ۔۔ میک اپ زدہ چیزوں کو انجوائے کرنے والی ’’آرٹسٹک سینس’’ کے لئے نیچرل بیوٹی شاید ’’ ٹو مچ ’’ ہو جاتی ہے ۔ نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی ۔۔۔
Syed Mehdi Bukhari Aug 23, 2015 12:32am
@فیصل بیگ صاحب مجھ سے غلطی ہو گئی ہے کہ باہر کے لوگوں کو دکھانے کے لیئے کام کر رہا ہوں تا کہ وہ ہمارے ملک میں آ سکیں ۔۔۔ مغرب کے لوگ سمجھتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں آرٹ ورک کو ۔۔ آپ اسے معافی دی دیجیئے تحریر پر گزارا کر لیجیئے ۔ شکریہ
سکندر ذوالقرنین چیمہ Aug 23, 2015 12:50am
سبحان اللہ پاکستان کتنا خوبصورت ہے جنّت کا ٹکڑا ہے - اور فوٹوگرافی میں بھی آپ کا جواب نہیں آپ نے اس آرٹیکل پر بہت محنت کی ہے جو واقعی ہی تعریف کے قابل ہے . اللہ پاک پاکستان کو رہتی دنیا تک سلامت رکھے ... آمین
Muhammad Ayub khan Aug 23, 2015 01:41am
@Syed Mehdi Bukhari Apney bohat mehnat kiy- shukriya--humeyN khubsurati batayi-meyN sirf itna arz kaooN ga ba sed ehtiram-aapney jo likha-khoob likha - kuch tajweez karoon ga-yeh akhbar meyN sab chalta hey chapta hey-aapki tasweereyn bohat khoob honey key bawajood kam resolution ki wajah sey ta asar naheyin dey raheyin-kontrast foto khenchtey waqat ya baad meyN-yeh tasweereyN Tiff meyN hotiyN to aor maza aata-Aap ki saariy tasweereyN JPEG format meyN heyN- ziyada tar tasweeren din key taqrıban 11 -12 bajey khenchiy gayi heyN--zara sa barhey kaney par phat jaatiy heyN--harekat kartiy huviy cheez key liye long exposure ka istiamaal naheyin kiya jata--kiyon ki is sey khenchi huvi tasweer paint brush ka tasawar deyti heyN- taweeroN meyN khasoosan 11-12 bajey waliy ka kontrast dekhiye gaتاؤبٹ کا جھولتا پل sey taqabil kijiye ga-is tasweer meyN masnoyi effect ya long exposure naheyin-aapki ziyada tar tasweeroN mey hedef ziyada saaf hey aor ird gird ka dhundla-Nice time to you & ur effort
waqar butt Aug 23, 2015 06:57am
Great.
Abdul MAjeed Bukhari Aug 23, 2015 09:49am
Kash Mery Watan k Log apnay Es watan sey Itna Piar kartay Jitnay Haseen Manazer ALLAH TAALA ney Esay Ata kiay hin, Her Tarah ki Naymtun sey Mala Mall ALLAH ki Es Ata jitna Shukar karin ,kam hay,Es watan ka Kudara Khial rakhin, Esi sey hum hin , ye nahe to hum bhe nahe,Zara sochiay!!! Shukria S.Mehdi Bukhari Sb,love you & your Pakistan Abdul Majeed Bukhari
فیصل بیگ Aug 23, 2015 10:39am
@Syed Mehdi Bukhari مہدی بھائی میں آپ کے کام کے جذبے کی بہت تعریف کرتا ہوں واقعی میں آپ نے بہت محنت کی ہے ۔۔۔اور لوگوں کو اُن علاقوں کا حسن دکھایا جو شاید بہت سے لوگوں نے نہیں دیکھا تھا۔۔۔ اگر ہماری حکومت بھی اس سوچ کے ساتھ چلے تو سیاحت ہی سے بہت ریونیو مل جائے ۔۔۔ لیکن یہ سب ایک تعمیری تنیقد تھی اسکا مقصد کسی کی دل آزاری ہر گز نہیں ۔۔۔ آپ سے پہلے بھی تصویروں میں آبشاروں کو اس شکل میں دیکھ کر مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ اسلئے یہ بات یہاں پر کہہ دی ۔۔ اُس سے یہ پتہ چلا کہ یہ کمیرے کی وجہ سے ہے ۔۔۔ ہوسکتا ہے لوگوں کو یہ اچھا لگتا ہو۔۔۔ آپ ہی کی تصویروں میں جیسے آخری اور نیچے سے گیارہ نمبر یہ چشمے نسبتا اصل شکل میں ہیں اور بہت خوبصورت لگ رہے ہیں جب کہ شروع کی تصویروں میں وہ ایفکٹ اتنا زیادہ ہے کہ منظر حقیقت سے دور لگتا ہے ایک آخری تعمیری تنقید ۔۔۔ان خوبصورت اور وسیع وعریض مناظر سے پیار کرنے اور تصویریں لینے والے کا اندر بھی ایسا ہی وسیع ہونا چاہئے ۔۔ کچھ لوگوں کی تنقید پر آپ نے کہہ دیا کہ جن کو فوٹوگرافی کی سمجھ نہیں وہ بس پڑھ لے۔۔یہاں دس ہزار لوگ وزٹ کرتے ہیں تو پچاس کو صرف اتنی تفصیل
Kamran Khan Aug 23, 2015 10:48am
Very Very Nice ...Please keep it up.............................................Thanks for Introduced our Pakistan for others countries.... You are great Man........... Regards,
Muhammad Ayub khan Aug 23, 2015 10:52am
@سمیرا saariy tasweereyN dikhlaa rahiy heyN ki zindagi bohat mushkil hey belki sisak rahiy hey- kiya aap yahaan in haalat meyN rehna pasand kareyN gi? tasweeer meyN dekey janey waley sarey ghar lakrhee key heyN aor tootey huvey heyN/murammat key qabil heyN. 2015 meyN bhi gharon ka janey key liey saarey key sarey pul aarzi heyN-jo kabhiy bhi gir saktey heyN- Darya/nadi ka paani tez hey gehra hey-- larhkiyaN bali ghar ka chullha jalaney key liye lakhrhiyaN akathee karkey ghar ko leyjatiy heyn---- تاؤبٹ کا جھولتا پل--- tasweeron meyN dekhey janey waley bachoN key munh sey anparh hona mahsoos hota hey--mujhey to taswwereYn dekh kar maza nehiyn aaya- kiya hi acha hota in tasweeroN mey in masail ko ujagar na kiya jaata:(((((((
Muhammad Ayub khan Aug 23, 2015 10:57am
@اثمار I do photoshop frequently, I know, I can judge, when a . photograph is photshoped. I criticised it in positive sense not negatively.
Muhammad Ayub khan Aug 23, 2015 11:00am
@نجیب احمد سنگھیڑہ kiya yeh geyr zarooriy cheezeyn yeh sabkuch likhna zarooriy tha
taj Aug 23, 2015 03:11pm
very nice
akhtar awan Aug 23, 2015 04:24pm
subhan allah waqaie aghar zameen ki janat itni haseen ha to asman ki janat allah o akbar{ ya allah ham sub ko janatul firdaus min jamman karna ammeen}
Saud Aug 23, 2015 05:49pm
Why do I feel an air of jealousy here :) Keep up the good work Sir (y) jawab e jahilan khamshi bashud
Adil Aug 23, 2015 06:01pm
Faisal Baig Natural beauty is enjoyed with naked eyes . But through brush or lense its artist's prerogative to show the world as he/she sees it. There are no hard rules in art and that's the good thing about it. (and this is called artistic photography, not the simple capture what you and I take) We don't have many people in Pakistan who are working in this field, acknowledge them, admire them, encourage them. They are trying to show our real and beautiful face to the world. Be thankful to them. whatever you may call it , but it was and is negative criticism. same piece of advice for Mr. Ayub. both of you don't seem to be professional photographers, so like me , avoid commenting on the technical aspects. :) and yes, life is hard there and for almost 98% of the population here, you can't hide the dirt under the carpet.
Adil Aug 23, 2015 06:04pm
میک اپ زدہ چیزوں کو انجوائے کرنے والی ’’آرٹسٹک سینس’’ کے لئے نیچرل بیوٹی شاید ’’ ٹو مچ ’’ ہو جاتی ہے ۔ and you call it positive criticism :) and you are comparing makeup with technique, wrong argument sir
Syed Kashif Shah Aug 23, 2015 10:26pm
nice puctures.
Amjad Ali Aug 23, 2015 11:45pm
اگر ہم پاکستان کو بخاری صاحب آپ کی نظر سے لو گو ں کو دکھائیں تو انہیں پتہ چلے کہ ملک واقعی سیا حوں کیلئے ایک جنت ہے آپ کی کا وش لا ئق تحسین ہے پلیز دو سروں کی بھی حوصلہ افزائی کریں۔
Muhammad Ayub Khan Aug 24, 2015 12:41am
@Amjad Ali yaqeenan achee kawish hey lekin seyah ko khenchney key liye kuch aor cheezon ki zaroorat hotiy hey jin meyN sab sey pehley achee araamdeh rahaesh gah hey phir doosariy cheezeyn bhi heyN
Humaira Ahmed Aug 24, 2015 12:51pm
excellent article with mesmerizing pictures Missing my land
Irfan Ahmed Aug 24, 2015 01:16pm
Assalam-o-Alikum sir ap ka work buht bahtreen hai is key ley ap ne buhat mehnat ki hai or hum ko gher bethy yeh sary haseen or khobsoorat nazary dekhny ko mily hain. ap ki jitni bhi tareef ki jay woh kum hai. apka agla article kab ay ga plz bata dejey ga.
nighat aman Aug 24, 2015 02:15pm
بہت عمدہ۔۔۔۔۔۔اپ کے سارے ارٹیکلز پڑھے ہیں۔۔۔۔فوٹوگرافی اور تحریر دونوں بہت خوب ہیں۔۔
Adnan Rauf Aug 24, 2015 05:20pm
Dear Syed Mehdi Bukhari , its pleasure for us that we have been seeing Pakistan northeren area and now kashmir through your eyes thanks a lot for detail coverage of atmosphere and felling at every stage here just alittle conflict with you on this travel you destroyed river picture through digital animation because we want to see actual real scene kindly next time try to make only real picture and best of luck for new journey because no one lucky as you who complete his dream .
arslan Aug 24, 2015 05:58pm
Very amazing article , indeed kashmir is heaven on earth I will must visit kashmir :)
Rashid Shabbir Aug 24, 2015 10:26pm
Admirable piece of work Bukhari Sahib... keep it up..
Shahbaz Ahmed Aug 25, 2015 11:54am
سید مہدی بخاری بھائی اۤپ کا بہت بہت شکریہ کہ اۤپ نے اۤزاد کشمیر کی وادیء نیلم کا تعارف لوگوں تک پہنچایا۔ تصاویر اور الفاظ دونوں ہی بہت زبردست ہیں، اور اۤپکے کے لکھنے کا انداز بھی بہت عمدہ ہے میں بھی کشمیر کا ہی رہنے والا ہوں اور اۤپ سے قبل ایسی کاوشیں کر چُکا ہوں مگر میرے پاس اۤپ جیسی لکھنے کی طاقت نہیں تھی اللہ اۤپ کے علم میں اور زیادہ وُسعت دے۔ اپنے تخلیقی کام کو جاری رکھیں ۔اور تنقیدی نقطئہ نظر سے لکھنے والوں کی باتوں کو محسوس نہ کریں۔ اس سے سیکھنےاور سکھانے کا عمل بڑھتا ہے۔ کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ اس علاقے سے بھی خوبصورت علاقے ہیں۔ کوئی شک نہیں پاکستان سارے کا سارا ہی خوبصورت ہے مگر جب بات کسی مخصوص علاقے کی ہورہی ہو تو ظاہر ہے لکھنے والا اُسی کا ذکر کرئے گا۔ میں اس ٹریک پر تاو بٹ سے دیوسائی تک پیدل گیا ہوں واقعی یہ علاقہ جنت نظیر ہے۔ کوشش کریں کشمیر کے زیادہ سے زیادہ علاقے منظرِ عام پر اۤئیں کیونکہ شمالی علاقہ جات پر بہت لوگوں نے لکھا ہے مگر کشمیر کے سیاحتی مقامات پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ ایک دفعہ پھر اۤپ کے اۤرٹیکل کا بہت بہت شکریہ
Zahid Khan Aug 25, 2015 03:49pm
Sir, Zabardast ha gee kia baat ha lajwab
Zahid Khan Aug 25, 2015 03:53pm
@Syed Mehdi Bukhari
شاہد احمد خان Aug 25, 2015 06:34pm
کیا لکھوں کہ وادی جنت نظیر کے سحر سے نکلوں تو الفاظ کو تحریر کا جامہ پہناؤں۔ کشمیر خوبصورت ہے پڑھا تھا فلموں تصویروں میں دیکھا بھی تھا لیکن اتنا خوبصورت ہے اس کا تو تصور بھی نہیں کیا تھا۔ مہدی بخاری نے کیمرے کی آنکھ سے جس طرح کشمیر کا حسن اجاگر کیا ہے اس کو سراہنے کے لئے شاید نئے لفظ تراشنے ہوں گے۔ میں ابھی تک اس تحریر اور تصویروں کے اثر میں ہوں اس لئے مزید کچھ لکھنا ممکن نہیں۔۔۔ شکریہ مہدی بخاری اور شکریہ ڈان نیوز
Aftab Hussain Aug 26, 2015 12:14am
مہدی صاحب ماشا اللہ بہت ہی خوب صورت مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں بڑی مہارت سے محفوظ کیا ہے ۔ جناب میں بھی کشمیر کا رہنے والا ہوں اور روزگار کے سلسلے میں اپنی دنیاوی جنت سے دور ہوں۔ جب سے یہ تصاویر دیکھیں ہیں تو دل خوش ہو گیا اور ساتھ ہی اداس بھی کیونکہ کافی عرصے سے وادی کو دیکھنے سے محروم ہوں۔ سر آپ کی بہت اچھی کاوش ہے دور کئی بیٹھے شخص کو آپ ایسے سیر کروا دیکھتے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے وہ آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہو اور خود ان سب مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ اور محسوس کررہا ہو۔مہدی صاحب آزاد کشمیر میں ایسے اور بھی کئی خوبصورت مقاماتہیں جو اپنی مثال آپ ہیں ۔چترا ٹوپی ‘ بنجوسہ ‘ کنگا چوٹی جیسے علاقے ماشا اللہ بہت خوبصورت ہیں یہ علاقے ضلع باغ سے چند کلو میٹر کے فیصلے پر یقین جانیئے آپ مایوس نہیں ہوں گے ۔
ایاز رفیق Aug 26, 2015 07:38pm
@Syed Mehdi Bukhari صاحب کیا میں ان تصاویر کو اپنے فیس بک اکاونٹ پر اپلوڈ کر سکتا ہوں کیا۔۔۔۔۔ََََ؟؟؟؟؟؟
haji umer Aug 28, 2015 12:23pm
Sir Mehdi Bukhari, You have done a great job. Because of your efforts, we have seen our Pakistan's beautiful and graceful regions. Your photography is seen by our heart's eyes. It is so naturally done by you. Thank you very much.
Asmat abbasi Aug 29, 2015 11:21am
کمال فوٹو گرافی
Mashhood Ahmed Sep 02, 2015 10:26am
Dear Mehdi Bukhari, I would like to thanks you for your superb article about kashmir specially Neelam Valley. Really i feel fresh after seeing these classic pictures. Thanks GOD Bless you.
Raja Muzaffar Sep 20, 2015 11:52am
بخاری صاحب سب سے پہلے میں آپ کو دل کی گہرایوں سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ نے ریاست جموں کشمیر کے اس دور دراز مشکل علاقے کا سفر کیا آپ نے اس کے قدرتی حسن کو جانا اور پھر اس کی بابت ڈان جیسے اخبار کی وساطت سے دنیا کو آگاہ کیا۔ میرا تعلق بھی ریاست جموں کشمیر سے ہے اور میں اس وقت امریکہ میں خود اختیار کردہ جلاوطنی یعنی ’’ خانہ بدری ‘‘ کی زندگی گذار رہا ہوں۔ فیس بک پر بہت سے دوستوں نے اس علاقے کی تصویریں پوسٹ کی ہیں مگر آپ نے اس علاقے کی جو منظر کشی کی ہے وہ میں دعوی سے کہہ سکتا ہوں اس سے قبل شاید کسی نے کی ہو گی ۔ اگر کسی نے کی ہو تومیں کم ازکم لا علم رہا ہوں۔ کشمیر کے اس دور افتادہ اور سیکورٹی نکتہ نظر سے بند و ممنوعہ علاقے کے حسن کی بابت جیسا آپ کے کیمرے کی آنکھ نے دیکھا اور آپ کے قلم نے منظر کشی کی وہ لایق تحسین اور مثالی ہے۔میں ذاتی طور آپ کی اس بدقسمت علاقے کیلیے محبت کے جذبات کے اظہار پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یقین مانیے ایسا کام سیاحت کے فروغ کیلیے وافر فنڈز ہونے کے باوجود نام نہاد حکومت آزاد کشمیر بھی نہ کر سکی ہو گی میں آپ کے آرٹیکل پر مزید کچھ لکھنے سے پہلے ایک چھوٹ..bm
Hajjrah Sep 21, 2015 01:53pm
I am feeling really lucky that i have found this stuff. I wish to see your more work and i hope you will travel more to the new places and would share your precious moments. In love with your photography and the way you describe. Seems we are right there along with you and enjoying as much as you do...!!! HAVE A GREAT JOURNEY AHEAD..!!! (Y)
S M Ali Imran Sep 26, 2015 11:51am
اسلام علیکم جناب .. مجھے بھی فوٹوگرافی کا شوق ہے مگر ٹھیک سے سیکھنے کا ٹائم نہی ملتا ابھی کل فیملی ٹور سے واپس آیا ہوں کیرن تک گیا تھا اپنی سوزوکی مہران پر مگر بارش کی وجہ سے آگے تاؤ بٹ جانے کا ارادہ کینسل کیا اور اگلے روز واپس آ گیا پھر مظفر آباد رُکا رہا .. ایک بات پوچھنی تھی کہ اتنی روشنی میں آپ لانگ ایکسپوزر کیسے لیتے ہیں کیا کوئی فلٹر استعمال کرتے ہیں ؟؟؟
محمد شفیق کوٹلی نکیال آزاد کشمیر Dec 24, 2015 08:37am
اسلام و علیکم جناب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔اور عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہمارے ملک کا خوبصورت ہنا بھی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وادئ کشمیر جنت نظیر ہے
Muhammad Abdullah Feb 25, 2016 06:53pm
No doubt You r the best part of Explorers of Nature...The colors of nature demands to be observed,it has been already explored
Samina umar Mar 19, 2016 09:58pm
Aap ko Allah ne Basarat k saath Baseerat bhi ata farmai hay bohut kam log aisay likh saktay hain k jaisay perhnay wala khud ko wahan mehsoos karay
Abid Jul 08, 2016 08:00pm
Really amazing!
Hassan Aug 26, 2016 09:01am
Bukhari saab, excellent travelogue, you are another "Mustansir Hussain Tarar" of todays generation. I read Tarar saab a lot, when I read yours, it remind of of another Tarar sahib in making. May Allah bless you
khalid Mar 23, 2018 01:44pm
Stunning photos
Tanveer Mar 23, 2018 05:39pm
One of the best article I ever read. An excellent narration of one the most beautiful places on earth. Neelum and neelum valley is the heaven on earth. This also explain how discriminatory this country was misused and mislead by “a few” and totally ignored its true potential and strength to achieve higher grounds. Peace and harmony at its best. May God lead this country to be one of the best states. I admire you and thank you for exploring, writing and exposing the true Pakistan. You’re the hero’s.