"صاحب! کشمیر تو سارا ان (ہندوستان) کے پاس ہے، ہمارے پاس تو صرف مسئلہ ہے"۔ میرے ڈرائیور نے کیرن سیکٹر سے گزرتے ہوئے کنٹرول لائن کے پار اشارہ کرتے ہوئے ایسا کہا اور جیپ کی کھڑکی سے باہر منہ نکال کر پان کی پِیک پھینک دی۔
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے شمال کی جانب چہلہ بانڈی پل سے شروع ہو کر تاؤبٹ تک 240 کلومیٹر کی مسافت پر پھیلی ہوئی حسین و جمیل وادی کا نام نیلم ہے۔ یہ وادی اپنے نام کی طرح خوبصورت ہے۔ وادی نیلم کا شمار پاکستانی کشمیر کی خوبصورت ترین وادیوں میں ہوتا ہے جہاں دریا، صاف اور ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے نالے، چشمے، جنگلات اور سرسبز پہاڑ ہیں۔ جا بجا بہتے پانی اور بلند پہاڑوں سے گرتی آبشاریں ہیں جن کے تیز دھار دودھیا پانی سڑک کے اوپر سے بہے چلے جاتے ہیں اور بڑے بڑے پتھروں سے سر پٹختے آخر دریائے نیلم کے مٹیالے پانیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اگر آپ ٹھنڈے میٹھے چشموں، جھاگ اڑاتے شوریدہ پانیوں، اور بلندی سے گرتی آبشاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس وادی سے بہتر مقام شاید ہی کوئی اور ہو۔ اس وادی کا صدر مقام اٹھمقام ہے۔ وادی دو تحصیلوں اٹھمقام اور شاردا پر مشتمل ہے۔ مظفرآباد سے شاردا تک سڑک ٹھیک حالت میں موجود ہے مگر اس سے آگے ٹوٹا پھوٹا، بل کھاتا، کچا، اور کہیں سے پتھریلا جیپ روڈ ہے جو آخری گاؤں تاؤبٹ تک جاتا ہے۔
یہ علاقہ آزادی سے قبل دراوہ کہلاتا تھا۔ آزاد حکومت کے قیام کے 9 سال بعد 1956 میں قائم حکومت کی کابینہ میٹنگ میں غازیء کشمیر سید محمد امین گیلانی نے کشن گنگا دریا کا نام دریائے نیلم اور دراوہ کا نام وادی نیلم تجویز کیا اور کابینہ کے فیصلے کے مطابق یہ نام تبدیل کر دیے گئے۔ یوں کل کا دراوہ آج کی وادیء نیلم ہے۔
ہمالیہ کے دامن میں بسی دور دراز کی اس انسانی بستی کا بلاوا میرے نام آیا تو میں نے نوکری اور شہر کو خیرباد کہا، سامان سمیٹا، اور کشمیر کے سرسبز پہاڑوں میں گم ہونے کو نکل کھڑا ہوا۔ گاڑی جہلم پہنچی تو دریا کے پل پر کھڑے ہو کر میں نے جہلم کے پانیوں کو دیکھا۔ مٹی رنگے پانی سست روی سے بہہ رہے تھے۔ میں اسی دریا کو دیکھنے وہاں جا رہا تھا جہاں سے یہ پاکستان کے زیرِانتظام ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں تو یہ دھیما دھیما بہے جا رہا تھا مگر وہاں پہاڑوں میں شور مچاتا، غصیلا، جھاگ اڑاتا، تنگ دروں میں بہتا سبز پانیوں کا دریا ہے۔ جہلم عرف نیلم عرف کشن گنگا۔ گاڑی کے اندر گانے کی آواز گونج رہی تھی "کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا"۔
شہر، قصبے، بستیاں گزرتی رہیں۔ راولپنڈی چھوٹا اور مری کا موڑ آیا تو گاڑی نے مظفرآباد کی راہ لی۔ کوہالہ سے مظفرآباد تک کا سفر تنگ سی مگر ٹھنڈی سڑک پر جاری رہا۔ درختوں کے سایوں میں گاڑی چلتی رہی۔ اردگرد پہاڑوں پر نئی نویلی شوخ رنگی گھاس اگ آئی تھی۔ ہرے کچور منظر تھے۔ اس ہریالی میں جگہ جگہ سڑک کے اطراف لگے انار کے بوٹے نظر آتے جن پر سرخ کلیاں کھِلی ہوئی تھیں۔ ایسے سبزے میں سرخ پھول کھِلے دیکھ کر دل میں عجب سی لہر دوڑ جاتی ہے۔ میرا دل چاہنے لگا کہ انارکلی اپنے سفر میں ساتھ رکھ لوں مگر جون ایلیاء فوراً دھیان میں آ کر بولے "دیکھ لو پھول، پھول توڑو مت"۔ انارکلیاں گزرتی رہیں اور انہی مناظر کو دیکھتے دیکھتے مظفرآباد آ گیا۔ بھرپور آبادی کا شہر، مکان کے اوپر مکان، لوگوں کے اوپر لوگ۔ دریائے نیلم کا پل پار کیا تو میں نے گاڑی کو چھوڑا اور جیپ لے لی۔ میری منزل وادی نیلم تھی۔
اس دن دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ چلا تو یہ سوچتا چلا کہ دریا دو ملکوں کی سرحد بنا کیسے اطمینان سے بہے جا رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان تھا دوسری طرف ہندوستان۔ نوسیری کے مقام پر نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ شروع ہے جہاں پاکستان دریائے نیلم پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ موسمِ گرما کا آغاز ہو چکا تھا مگر پراجیکٹ پر ابھی تک موسمِ سرما چھایا ہوا معلوم پڑا۔ وادی کا صدر مقام اٹھمقام آیا تو بازار میں ہجوم تھا۔ ہجوم سے گاڑی نکلی تو کیرن آ گیا۔ دریا پر بنے پل کے پار جو کشمیر تھا اس پر ہندوستان کی حکومت قائم تھی۔
ڈرائیور نے ٹیپ ریکارڈر کی آواز آہستہ کی اور بولا "صاحب! کشمیر تو سارا ان (ہندوستان) کے پاس ہے، ہمارے پاس تو صرف مسئلہ ہے"۔ کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ چلتے مجھے محسوس ہوا کہ دونوں طرف ایک بات تو کم سے کم مشترک ہے اور وہ ہے موسیقی۔ دونوں طرف چلنے والی گاڑیوں میں انڈین موسیقی چلتی ہے۔ ثقافت میں بھی کوئی فرق نہیں۔ خوراک بھی ایک سی ہے۔ رنگ و نسل بھی ایک۔ بیچ میں بہتا دریا بھی ایک۔ اوپر سے گزرتا بادل بھی ایک۔ بس پرچم بدل جاتا ہے۔ سرکار بدل جاتی ہے۔ دل بدل جاتے ہیں۔ ڈرائیور اپنی بات کہہ چکا تو اس نے ٹیپ ریکارڈر کی آواز پھر اونچی کر دی۔ گاڑی میں گانا گونج رہا تھا "غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے۔"
دواریاں کا قصبہ آیا۔ یہیں سے رتی گلی جھیل کو راستہ نکلتا ہے۔ رتی گلی جہاں قدرت نے سبز گھاس کا مخملی قالین بچھا کر اس پر پیلے، نیلے اور نارنجی رنگوں سے گلکاری کر کے جھیل کے نیلے پانیوں کے اطراف میں ایسے منظر سجا دیے ہیں جن کو ایک نظر دیکھنے کے واسطے سیاح اور کوہ نورد ہمالیہ کے پہاڑوں سے سر ٹکراتے، نالے عبور کرتے، چڑھائی چڑھتے پیدل چلتے جاتے ہیں۔ رتی گلی، ایک جھیل جس کو دیکھنے کی چاہ میں انسان سب کچھ لٹا دے تو بھی خسارے کا احساس نہ ہو۔
گاڑی آگے بڑھتی گئی۔ تھوڑا آگے ایک سڑک پہاڑ کے اوپر چڑھتی جاتی ہے جو اپر نیلم گاؤں میں جا نکلتی ہے۔ شاید اس گاؤں کے نام کی وجہ سے ساری وادی کا نام نیلم رکھا گیا ۔ شاردا آیا تو جیپ بازار میں رک گئی۔ نگاہوں نے دیکھا کہ مکانوں اور دکانوں کی چھتوں پر اگی گھاس کو گدھے چر رہے تھے۔ ایسا منظر دیکھ کر ہنسی لبوں پر پھیل گئی۔ شاردا جہاں مکانوں کی چھتوں پر گدھے چرتے ہیں۔ پہاڑی ڈھلوانوں کے ساتھ بسے مکانوں کے چھتیں پہاڑ سے ملتی ہیں، وہیں سے جانور آسانی سے چھتوں پر چڑھ سکتے ہیں۔ چھتوں پر پڑی مٹی میں گھاس اور جڑی بوٹیاں اگ آتی ہیں جن کی خوشبو کے پیچھے گدھے بھی آ جاتے ہیں۔
شاردا تک قدرے شہری ماحول وادی پر چھایا رہتا ہے اور اشیائے ضرورت فراوانی اور آسانی سے مل جاتی ہیں۔ شاردا کے آگے کے مقامات دیہی علاقے ہیں۔ سڑک بھی شاردا تک ہی ٹھیک ہے اس سے آگے بہت خستہ حالت میں ہے۔ دریائے نیلم اس مقام پر قدرے چوڑا بہتا رہتا ہے۔ شاردا ضلع نیلم کا دوسرا سب ڈویژن ہے۔ یہ خطہ زمانہ قدیم میں علم و دانش کا مرکز رہا ہے۔ دریا کے پل کو پار کر کے دوسری طرف جائیں تو وہاں کھنڈر نما قلعے کے آثار ملتے ہیں۔ یہ قلعہ نہیں بلکہ دانش گاہ تھی۔
بعض مؤرخین کے مطابق شاردا ہندو مندر کا نام تھا۔ کیا شاردا مندر تھا یا دانش گاہ تھی؟ اس پر اب بھی تحقیق ہو رہی ہے۔ ریاست کے نامور محقق ڈاکٹر احمد دین صابر آفاقی کی تحقیق کے مطابق شاردا اور سرسوتی ہندو عقیدہ میں برہما کی اہلیہ کے دو نام ہیں جنہیں علم و دانش کی دیوی مانا گیا ہے۔ زمانہ قدیم میں مندر گیہاں دھان (عبادت) اور تعلیم کے مرکز تھے۔ البیرونی نے اس مندر کا جغرافیہ اور کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ "ملتان کے سورج دیوتا تھامنیر کے چکر سوامی اور سومنات کے مندر کے بعد شاردا بھی بہت بڑا مندر ہے۔ یہ مندر سرینگر سے کوئی دو تین روز کی مسافت پہ کوہستان بلور کی سمت ایک مشہور صنم کدہ ہے۔" اکیسویں صدی میں دریائے نیلم کے کنارے آباد یہ گاؤں شاردا اب صرف سیاحت کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے۔ دریائے نیلم اس گاؤں کے چرنوں کو چھوتا ہوا خاموشی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔
سفر پھر سے شروع ہوا۔ سڑک ختم ہوئی اور کچا راستہ شروع ہوا جس پر سے جگہ جگہ کوئی پہاڑی چشمہ تیز بہتا راہ میں پڑ جاتا۔ جیپ پانیوں کو عبور کرتی اور پھر ہچکولے لیتی اپنی منزل کو گامزن رہتی۔ اندر بیٹھے یوں لگتا جیسے میں اونٹ پر سوار ہوں۔ پہاڑوں سے دھوپ ڈھل رہی تھی۔ چیڑ کے لمبے سائے مزید لمبے ہو چلے تھے۔ جیپ جب کیل میں داخل ہوئی تو نمزدہ مٹی سے معطر ہوا نے استقبال کیا جو سارے علاقے میں پھیلی تھی۔
محکمہء سیاحت کے موٹل میں چیک اِن کروا کر میں اپنے کمرے سے ملحقہ بالکونی میں شام کی ماند پڑتی ہلکی دھوپ میں بیٹھ کر وادی کی چہل پہل دیکھنے لگا۔ دائیں جانب ایک مکان کی چھت پر دو کمسن بچے سبز رنگ پلاسٹک کی چھوٹی سی گیند کے ساتھ ٹینس کھیل رہے تھے۔ ان کے برابر والے مکان کی چھت پر چار لڑکے کسی اور کھیل میں مشغول تھے غالباً اسٹاپو قسم کا کوئی کھیل تھا۔
نیچے ایک پہاڑی ڈھلوان، جس کے اطراف لکڑی کے شہتیروں کا حاشیہ لگا ہوا تھا، کے بیچ کچے نم راستے پر عورتیں اپنے سروں پر پیتل اور سلور کے مٹکے اٹھائے وقفے وقفے سے گزرتیں۔ ان گھڑوں میں پانی ہوتا۔ راستے کے آغاز پر ایک صاف شفاف پانی کی نالی تھی جس کے اوپر لکڑی کا شہتیر ڈالا ہوا تھا، اسی نالی کے کنارے اور شہتیر کے اوپر چند عورتیں کپڑے دھونے میں مصروف تھیں۔ وہیں برابر سے دو دو کر کے عورتیں پانی سے گھڑے بھرتیں اور کچے راستے پر چڑھائی چڑھتے اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتیں۔
اسی گھاٹ کے ساتھ ایک کھیت، جس کی حاشیہ بندی لکڑی کے چوپٹوں سے کی گئی تھی، میں دو بچیاں گول گول گھومتیں اور کچھ دیر میں چکر کھا کر مٹی پر گر جاتیں، پھر دیر تک کھِلکھِلا کر ہنستی رہتیں۔ ان کی ہنسی کی آواز ٹینس کھیلتے بچوں کی ہنسی کے ساتھ گڈمڈ ہو کر مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد دونوں بچیاں اٹھتیں اور گول گول گھومنے کا کھیل پھر سے شروع ہو جاتا چکر کھا کر گرنے تک جاری رہتا۔
میری بالکونی کے بالکل نیچے ایک کھیت میں بے شمار ڈینڈلائن اگے تھے جن کے بیچ بھورے رنگ کی بلی نہ جانے کیا سونگھتی پھر رہی تھی۔ ڈینڈلائن پر ڈھلتے سورج کی کرنیں پڑ رہیں تھیں جن کی وجہ سے ان کے ریشے کناروں سے جگمگاتے نظر آ رہے تھے۔ دائیں ہاتھ وادی میں گھروں کی چمنیوں سے دھواں نکل رہا تھا۔ ڈھلوانی چھتوں پر سرخ، سفید اور مالٹا رنگ کیا گیا تھا۔ جیپ روڈ سے کبھی کبھار کوئی جیپ یا موٹر سائیکل گزرتی۔
کچھ دیر میں غروب ہوتے سورج کی آخری آخری کرنیں بادل کے ان دو ٹکروں کے چہروں پر گلال ملنے لگیں جو روئی کے بڑے سے گالے جیسے محسوس ہوتے کب سے آسمان پر ٹھہرے تھے۔ سرخی نے آسمان کو رنگا تو وادی میں سردی بڑھنے لگی۔ بادلوں کی سرخی کے ماند پڑنے تک پانی کی گھاٹ خالی ہو چکی تھی، بچوں کے کھیل ختم ہو چکے تھے، بھوری بلی بھی اب اپنے گھر کو نکل گئی تھی۔ چمنیوں سے دھواں مزید اٹھنے لگا۔ رات کے کھانے کی تیاری ہو رہی تھی۔ سردی بڑھتی گئی۔ اندھیرا پھیلنے لگا۔ وادی ٹمٹمانے لگی۔ میں جو ان منظروں سے چکنا چور ہو چکا تھا، خود کو سمیٹ کر اٹھا اور کمرے میں چلا گیا۔
رات 11 بجے بالکونی پر دوبارہ آیا۔ اب آسمان پر تارے تھے۔ چاند کی آخری تاریخیں تھیں۔ کالی سیاہ رات تھی۔ خاموشی وادی میں گونج رہی تھی۔ صرف نالی میں بہتے پانی کی آواز تھی یا اپنی دھڑکن کی۔ چمنیاں ٹھنڈی پڑ چکیں تھیں۔ بستی پر نیند اتر چکی تھی۔ کیل میں اوس پڑنے لگی تو تارے بھی مدھم ہونے لگے۔ دور کہیں سے کتوں کے بھونکنے کی آواز آئی اور پھر آتی ہی چلی گئی۔ چپ وادی میں بھونکتے کتے ماحول کو پراسرار بناتے جا رہے تھے۔ کمرے میں آ کر بستر پر لیٹا تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی مگر آنکھیں بند کیں تو کیل کی ساری وادی آنکھوں کے پردے پر گھومنے لگی۔ میں چکرا کر وہیں سو گیا۔ نیند کی دیوی نے ساری وادی کو آغوش میں بھر لیا تھا۔ صبح تک تمام کائنات منجمد ہو چکی تھی۔
اگلی صبح کی پہلی کرنوں کے ساتھ میں نے کیل کو چھوڑا۔ جیپ دشوار گزار کچے راستے پر ہچکولے کھاتی رہی۔ فوجی چوکیوں میں اندراج ہوتا رہا۔ دریائے نیلم ایک مقام پر سڑک کے پہلو کے ساتھ آ لگا۔ دریا سے محض ایک فٹ اونچے راستے پر جیپ فراٹے بھرتی گزر رہی تھی۔ پھر ایک آبشار کا سامنا ہوا جس کے پانی سڑک پر گر رہے تھے۔ پھوار سے اردگرد کا سارا راستہ کیچڑ بنا ہوا تھا۔ جیپ نے آبشار کو پار کیا تو ٹھنڈی پھوار چہرے کو بھگو گئی۔
دریائے نیلم کے کنارے کنارے چلتی سڑک نے پھر اونچائی بھرنا شروع کی اور جیپ اوپر کو اٹھتی چلی گئی۔ دریا کہیں نیچے رہ گیا۔ آگے سرداری، پھلوائی، اور ہلمت کی بستیاں تھیں، اور کہیں آخر میں تاؤبٹ تھا جہاں گاڑی نے رک جانا تھا، جو سفر کا آخری پڑاؤ تھا، جس کے آگے سڑک ختم تھی۔ اس دن میں کیل سے چلا تو ایک بات نوٹ کرتا چلا کہ وادی کے ان علاقوں میں عورتیں محنت کش ہیں، کھیتوں میں کام کرتی ہیں، مال مویشی سنبھالتی ہیں اور ایک خاص بات کہ سرخ رنگ کے کپڑے پہنتی ہیں۔ شاید سرخ رنگ یہاں کی عورتوں کو کافی پسند ہے۔ میں نے دس میں سے آٹھ عورتوں کو سرخ رنگوں میں ہی دیکھا۔
راستے میں جگہ جگہ خانہ بدوشوں کے قافلے ملے۔ بکروالوں کے قبیلے اپنے مال مویشیوں اور خاندان کے ساتھ مسلسل سفر میں تھے۔ جیپ کا شور سن کر بھڑ بکریاں راستہ چھوڑ دیتیں۔ بکروال کشمیر سے چلتے ہیں اور ہمالیہ کے بلند دروں کو عبور کرتے دیوسائی کے میدان میں جا نکلتے ہیں۔ وہاں سے اسکردو کی راہ لیتے ہیں یا کچھ استور کی طرف گامزن رہتے ہیں۔ ابھی دیوسائی کی برفیں نہیں پگھلی تھیں اس لیے بکروالوں کے قافلے سست روی سے چل رہے تھے۔ جگہ جگہ قیام کرتے۔ بستی بستی پڑاؤ ڈالتے۔ کوچہ کوچہ خیمہ زن ہوتے۔ ان خانہ بدوشوں کی زندگی بھی عجب معمہ ہے۔ چلتے چلتے جس کو جہاں موت آ جائے وہیں دفن کر دیا جاتا ہے۔ ان کی قبریں کشمیر کی بستیوں سے لے کر اسکردو اور استور کے بیچ جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔
ایک بکروال نے بتایا کہ صدیوں سے آباء و اجداد یہی پیشہ اور راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ چلنا اور چلتے رہنا، یہی ان کی زندگی ہے۔ گزرتے گزرتے نگاہ پڑی تو ایک بکروال دریا کے کنارے بکرے کو ذبح کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میں رک گیا۔ بکروال بھوک سے مر جاتے ہیں مگر اپنے مویشی ذبح کر کے نہیں کھاتے۔ سبب معلوم کرنے کو اس کے پاس گیا تو پتہ چلا کہ یہ جانور پہاڑ سے پھسل کر گر گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی پچھلی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ ایک دن تو خانہ بدوش اسے اٹھا کر چلتے رہے مگر اب اسے اٹھا کر نہیں چل سکتے تو ذبح کر رہے ہیں۔ مجھے مشتاق احمد یوسفی کا قول یاد آ گیا "عالمِ اسلام میں ہم نے کسی بکرے کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا۔"
سفر جاری رہا۔ جگہ جگہ سڑک سے بہتے چشمے راہ میں آتے رہے۔ جیپ ان دودھیا پانیوں کو روندتی گزرتی رہی۔ ایک خانہ بدوش لڑکی ہارن کی آواز سن کر ٹھٹکی، مڑ کر دیکھا اور شرم کے مارے چہرے کا نقاب بنا لیا۔ نقاب کے اندر سبز آنکھیں پھیل گئیں۔ ہاتھ میں اس نے چائے کی کیتلی تھام رکھی تھی اور ساتھ ایک شاپر بیگ میں دو کپ اور چند خشک روٹیاں نظر آ رہی تھیں۔ میرا دل چاہنے لگا کہ اس کو کہوں اگر تم خانہ بدوش ہو تو فی الوقت میں بھی خانہ بدر ہوں۔ دونوں انسان ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں۔ جپسی کہیں پیچھے رہ گئی۔ گاڑی آگے بڑھ گئی۔ گاڑی کے شیشے سے دیکھا تو وہیں کی وہیں ساکت کھڑی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب میں نے سوچا تھا کہ ایک دن ان خانہ بدوشوں کے ساتھ کشمیر کو عبور کر کے دیوسائی کے میدان میں جا نکلوں اور وہاں سے اسکردو کی راہ لوں۔ بکروالوں کے ساتھ ساتھ، جپسی کی مہمان نوازی میں، چائے کے کپ کی بھاپ لیتا، شاید کسی دن ایسا ممکن ہو جائے۔
جام گڑھ آیا۔ ہجرت زدوں کی بستی۔ ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہندو مسلم فسادات کی آگ پھیلی تو کنٹرول لائن کے ساتھ بسنے والی ایک مسلمان بستی کے باسیوں نے گھر بار چھوڑ کر راتوں رات دریا کسی طرح پار کیا اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہوگئے۔ ان ہجرت زدوں کو ریاست کی حکومت نے جام گڑھ میں آباد کیا ہے۔ ساری بستی کی چھتوں کا ایک سا رنگ ہے: نارنجی۔ درد کی داستانیں بستی میں پھیلی ہیں۔ پیچھے چھوٹ جانے والوں کی یادیں ہیں۔ جل جانے والے مکانوں کے نوحے ہیں۔ لٹ جانے والے سامان کا ماتم ہے۔ جیپ بستی سے چپ چاپ گزر گئی۔ بستی میں خاموشی تھی۔ لوگ چپ تھے یا ان کو مستقل چپ لگ چکی تھی۔
کیل سے نکل کر چار گھنٹوں کے ہچکولے کھاتے سفر کے بعد تاؤبٹ آیا۔ ایک کٹا ہوا الگ تھلگ پہاڑی گاؤں۔ لکڑی کے بنے خاص طرزِ تعمیر کے مکانات تھے۔ کھیتوں کے اطراف لکڑی کی باڑیں لگی تھیں جو شاید زمین کی حدبندی کی غرض سے لگائی گئی تھیں۔ دریائے نیلم وادی کے بیچ تیز بہے جا رہا تھا۔ کھیتوں کی تیاری میں لوگ مگن تھے۔ بچے گھروں کی کھڑکیوں سے جھانکتے اور مسافر کو دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگتے۔ بزرگ چھوٹی چھوٹی دکانوں کے باہر جمع ہو کر بیٹھے تھے۔ سرخ آنچل کھیتوں میں لہرا رہے تھے۔ شب بسری کا ٹھکانہ آج یہی گاؤں تھا۔
اگلی صبح اٹھا اور کشمیر کی آخری انسانی آبادی گگئی گاؤں کی طرف چل پڑا۔ یہ پیدل مسافت کا راستہ تھا۔ راستے میں جنگل تھے۔ کھیت تھے۔ چرند پرند تھے۔ ایک دو مارموٹ تھے۔ میرے ساتھ ساتھ گگئی نالہ جھاگ اڑاتا بہے جا رہا تھا۔ چلتے چلتے پہاڑوں کے دامن میں ایک کھلا سا مقام آیا جہاں درہ برزل کی طرف سے آتا گجر نالہ گگئی نالے میں مل جاتا ہے۔ یہ دونوں مل کر بہنے لگتے ہیں اور اپنے پانیوں کو تاؤبٹ کے مقام پر دریائے نیلم کے سپرد کر دیتے ہیں۔
دھوپ کھِلنے لگی۔ پہاڑی گلہری درخت سے اتری اور نالے کے کنارے پڑے ایک لکڑی کے ٹکڑے پر چڑھ کر دھوپ سینکنے لگی۔ ہوا میں سردی بھری ہوئی تھی۔ یہیں کہیں آس پاس مارموٹ تھے جن کی سیٹیاں فضا میں وقفے وقفے سے گونجنے لگتیں۔ پھر ایک جنگل آیا جس کو پار کر کے آبادی تک پہنچا۔ چار گھنٹوں کے ٹریک کے بعد میں گگئی گاؤں میں موجود تھا۔ چند نفوس پر مشتمل یہ آبادی کشمیر کی آخری آبادی ہے اس کے بعد تین دن کی پیدل مسافت پر ضلع استور واقع ہے۔ بیچ میں جنگلات ہیں یا ندی نالے۔ تنہائی ہے اور تنہائی کی ہیبت۔
سال کے سات ماہ برف میں دبا رہنے والا یہ گاؤں خوبصورت ہے۔ وہاں ایک آدمی سے میں نے پوچھا کہ آپ لوگ سال کے چھ سات ماہ جب برف گرتی ہے بالکل کچھ نہیں کرتے کیا؟ کچھ نہیں کرتے تو اتنا لمبا عرصہ انسان فارغ رہ کر گھر میں بند ہو کر کیسے گزار سکتا ہے؟ چچا کے لبوں پر مسکان پھیل گئی اور بولا "کرتے ہیں ناں، ہر گھر میں بارہ سے کم بچے نہیں، اور کیا کریں۔" میں نے عرض کرنا چاہا کہ چچا میرا مطلب کسی کام دھندے سے تھا مگر جواب سن کر چپ رہا۔
چلنے لگا تو گاؤں والوں میں سے ایک بندہ بولا "آگے کدھر جاتے ہو آگے تو کوئی آبادی نہیں یہاں سے واپس تاؤبٹ جاؤ۔" میں نے کہا کہ بس تھوڑا آگے تک جاتا ہوں شاید کوئی اچھا منظر مل جائے تو تصویر لے لوں پھر واپس چلا جاؤں گا۔ کچھ آگے بڑھا تو ایک بندہ کاندھے پر کلہاڑی اور پشت پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے چلا آ رہا تھا جو وہ جنگل سے کاٹ کر لا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر بولا "او بھائی! آگے نہ جاؤ ایسے ہی کوئی پکڑ کر ذبح کر دے گا تو مسئلہ خراب ہوگا۔" یہ سن کر میں سن ہو گیا۔ واپسی کی راہ لیتے میرے ذہن میں اس کا جملہ مسلسل گونج رہا تھا "کوئی پکڑ کر ذبح کر دے گا تو مسئلہ خراب ہو گا۔۔۔۔ مسئلہ خراب ہو گا۔۔۔ مسئلہ خراب ہو گا۔۔۔"
واپس مڑنے سے پہلے میں نے ہاتھ ماتھے پر رکھ کر آنکھوں کو سورج کی روشنی سے بچاتے درہ برزل کی برفوں پر آخری نگاہ ڈالی۔ دور بہت دور برف پوش چوٹیاں تھیں جو برفوں سے لدی پڑی تھیں۔ یہ درہ برزل کی چوٹیاں تھیں۔ ان کے آگے گلگت بلتستان کا ضلع استور تھا۔ میرے نامہء اعمال میں کشمیر کی آخری انسانی آبادی کے سفر کے آگے تمام شد لکھا جا چکا تھا۔ پردہ افلاک کے پار قلم مقدر کے تختہ سیاہ پر ایک اور سفر لکھ رہا تھا۔ میرے پاؤں میں ایک نیا چکر تشکیل پا رہا تھا۔ میرے ہتھیلی پر سفر کی لکیر پھیلتی جا رہی تھی۔ تھکن کے مارے میں نے سر جھکا دیا۔ یہ قدرت کے آگے سر تسلیمِ خم تھا۔ آنکھیں بند کیں تو مجھے لگا جیسے تھکن سے میرا وجود ریزہ ریزہ ہو کر ڈھ جائے گا۔ پھر میرے گھٹنوں نے کشمیر کی زمین کو چھوا۔ پیشانی کشمیر کی خاک سے مَس ہوئی۔ وہی سجدہ جو ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔
کشمیر خوبصورت ہے۔ میں نے اتنا ہی دیکھا جتنا میرے بس میں تھا۔ کنٹرول لائن کے پار کیا ہے، میں نہیں جانتا۔ مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ ہزاروں لوگوں کی قبریں ہیں جو گولیوں سے چھلنی ہوئے۔ ہزاروں عورتیں ہیں جن کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں مائیں ہیں جن کی کوکھ اجڑ چکی۔ ہزاروں بوڑھے ہیں جن کے جوان بیٹے گولی کھا کر خاموش ہو چکے۔ ہزاروں امیدیں، آسیں دم توڑ چکیں۔ صندل کے جنگلات نذرِ آتش ہو چکے۔ جہاں جگنوؤں کے قافلے اترا کرتے تھے وہاں اب چیونٹیاں خیمہ زن ہو چکیں۔ ڈل جھیل میں چلنے والی کشتیوں کے ملاح آزادی کے گیت گاتے گاتے بوڑھے ہو چکے۔ میرا آج کا کام دکھ اٹھاتے کشمیریوں کے نام اور ادھر کی فضاؤں میں لہراتے سرخ آنچلوں کے نام۔ فیض احمد فیض کی نظم کے ساتھ کشمیر کو الوداع
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کِھل کِھل کے
مرجھا گئے ہیں
ان بیاہتاؤں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹڑیوں اور گلیوں، محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشاک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینے میں جلنے کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے۔
یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سفرنامے کی سیریز میں گیارہواں مضمون ہے۔ گذشتہ حصے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے نیٹ ورک انجینیئر ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج [یہاں][51] وزٹ کریں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (74) بند ہیں