شوٹ آؤٹ ایٹ بی ایم سی
15 جون بروز ہفتہ کوئٹہ ایک بار پھر خون میں نہا گیا۔ ہواؤں میں ایک بار پھر بارود اور خون کی بو پھیل گئی اور کچھ ہفتوں سے طاری شہر کی پرسکون خاموشی میں ایک بار پھر دہشت کا زہر بھر دیا گیا۔
ٹیلی ویژن اسکرین پر بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی جل کر راکھ ہونے والی بس اور ہلاک ہونے والی طالبات کی سفید کفن میں لپٹی لاشوں کو دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے یہ مناظرمیں پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا ہوں۔
مجھے یاد آیا کہ جون 2012 میں جب بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بس پر بم حملہ ہوا تھا تو بھی یہی مناظر تھے۔
پھر اسی سال دسمبر میں جب ایران جانے والے مسافروں کی بس کو بم سے اُڑایا گیا تو تب بھی یہی ماحول تھا۔ وہی سوختہ اورٹکڑوں میں بٹی لاشیں اورزخمیوں کی وہی چیخ و پکار۔
میں انہی سوچوں میں گم تھا جب ٹیلی ویژن پر ایک اور دھماکے کی خبر نشر ہوئی۔ یہ دھماکہ بولان میڈیکل کمپلکس کے ایمرجنسی وارڈ میں ہوا تھا جہاں پہلے دھماکے میں زخمی ہونے والی طالبات کا علاج کیا جارہا تھا۔ اس خود کش دھماکے کے نتیجے میں کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر، ایک ڈاکٹر اور تین نرسوں سمیت کئی لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔
مجھے یاد آیا کہ ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے جب اپریل 2010 میں کوئٹہ کے سول ہسپتال کے ایمرجنسی وارڑ کے باہر ایسا ہی ایک خود کش دھماکہ ہوا تھا جس میں رکن قومی اسمبلی سید ناصر شاہ بال بال بچے تھے لیکن ایک نیوز چینل کے کیمرہ مین اور چار پولیس اہلکاروں سمیت ایک درجن سے زائد افراد ان کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہو سکے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اپنے شکار کو گھیر کر مطلوبہ جگہ تک لانے کے لئے اس دن بھی ایک ایسا ہی جال بُنا گیا تھا اور کچھ گھنٹے قبل ہی ایک بینکار کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
میری سوچوں کا سلسلہ ایک بار پھر تب ٹوٹا جب میں نے ٹی وی اسکرین پر لوگوں کو سراسیمگی کی حالت میں ادھر اُدھر بھاگتے دیکھا۔ پتہ چلا کہ ہسپتال کی چھت پر کئی دہشت گرد مورچہ لگائے بیٹھے ہیں جوہسپتال میں موجود ہر شخص پر اندھادھند گولیاں برسارہے ہیں اور دستی بم پھینک رہے ہیں۔
یہ منظر بھی میرے لئے کوئی نیا نہیں تھا۔ ایسا ہی ایک واقعہ مارچ 2004 میں ہوا تھا جب کوئٹہ کے لیاقت بازار میں عاشورہ کے جلوس پر اسی انداز میں ایک حملہ کیا گیا تھا۔
سڑک کے دونوں اطراف چھتوں پر چھپے دہشت گردوں نے پہلے تو جدید ہتھیاروں اور دستی بموں سے جلوس کے شرکاء پر حملہ کیا پھر جب ان کے پاس اسلحے کا ذخیرہ ختم ہوا تو انہوں نے نیچے کود کر اپنے آپ کو بھی دھماکے سے اُڑا لیا۔
اس سانحے میں چالیس سے زیادہ افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ ستمبر 2010 میں بھی پیش آیا تھا جب کوئٹہ ہی کے میزان چوک پر یوم القدس نامی ایک ریلی پر خود کش حملہ ہوا۔
ابھی لوگ اس حملے سے سنبھلنے ہی نہ پائے تھے جب چاروں اطراف کی چھتوں پر چھپے نامعلوم افراد نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ اس واقعے میں بھی ایک نیوز چینل کے کیمرہ مین سمیت اسّی سے زیادہ افراد ہلاک اور تین سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔
میں نے ایک بار پھر ٹی وی پر نظریں جمائیں تو دیکھا کہ اسکرین پر ایک ہسپتال کا منظر ابھر آیا تھا جہاں قطار میں لیٹی اور سفید کفن میں لپٹی کچھ لاشیں نظر آئیں۔
لاشوں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔ ڈھکے نہ بھی ہوتے تو انہیں کون پہچانتاکیوں کہ موت کی بے رحم آگ نے ان سے زندگی کے علاوہ ان کی شناخت بھی چھین لی تھی۔
پھر مجھے یاد آیا کہ دہشت گردی کے واقعات میں جل کر کوئلہ بنی لاشوں کی کہانیاں بھی تو نئی نہیں ایسا کتنی بار ہوا ہے جب ان کے پیارے ایک ایک کرکے لاشوں کے چہرے سے کفن اُٹھا کے انہیں پہچاننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن مسخ شدہ چہرہ دیکھ کر دوبارہ ڈھانپ دیتے ہیں۔
اسی دوران سکرین پر ایک بوڑھی عورت کاچہرہ نظر آیا جو بلند آواز سے بین کررہی تھی۔ شاید کسی مرنے والی کی ماں تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ آہ وبکاہ بھی میں پہلے متعدد بار سن چکا ہوں اور شاید یہ وہی ماں ہیں جو ہر بار اپنی کسی اولاد کی لاش پرایسے ہی سینہ کوبی کر کے روتی ہیں۔
اس ماں کو میں نے تب بھی اسی طرح ماتم کرتے ہوئے دیکھا تھا جب مستونگ کے علاقے میں ان کے بچوں کو بس سے اتار کر اور شناخت کر کر کے قتل کیا گیا تھا۔
اس وقت بھی دیکھا تھا جب ان کے بچوں کے سروں میں تب گولیاں اتاری گئی تھیں جب وہ محنت مزدوری میں مشغول تھے۔
اس وقت بھی میں نے اس ماں کی دلخراش چیخیں سنی تھیں جب ان کے بچّوں پر نماز کے دوران گولیاں برسائی گئی تھیں، تب بھی جب ان کی بچیوں کا اس وقت قتل عام کیا گیا تھا جب وہ سوزوکی وین میں بیٹھ کر اپنی خالہ کے گھر جارہی تھیں۔
اس وقت بھی میں نے اس ماں کو زاروقطار روتے ہوئے دیکھا تھا جب ایک بم دھماکے کے بعد اس کے بچوں کے اجسام ہوا میں تحلیل ہو گئے تھے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ وہی ماں ہے جس نے اپنی چیخوں سے تب بھی آسمان سر پہ اُٹھا لیا تھا جب علمدار روڈ پر اسنوکر کلب کے سامنے دھماکہ ہوا تھا۔
انہیں میں نے تب بھی سینہ کوبی کرتے دیکھا تھا جب ہزارہ ٹاون میں ایک ٹن بارود کے دھماکے سے اس کے بچّوں کے جسم کے چیتھڑے اُڑائے گئے تھے۔
پھر جیسے ایک دم سے مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی ماں ہیں جو ایک عرصے سے پورے پاکستان میں روتی پھر رہی ہیں۔
یہ اس وقت بھی رو رو کر دہائی دے رہی تھیں جب مارچ میں لاہور کے بادامی باغ کے سینکڑوں مکینوں کے گھروں کو آگ لگا کر انہیں بے آسرا کردیا گیا تھا۔ اس سانحے میں ان کے بچوں کی کتابیں، کھلونے اور کھانے بھی آگ میں بھسم ہو گئے تھے۔
اس ماں کو تب بھی میں نے دیواروں سے سر ٹکراتے ہوئے دیکھا تھا جب کراچی کے عباس ٹاون میں دھماکہ کرکے درجنوں افراد کی زندگیوں کا چراغ گل کر دیا گیا تھا۔
یہ ماں مجھے بارہا خیبر پختونخوا میں بھی سسکیاں بھرتی نظر آئیں جہاں آئے دن اس کے بچوں کو بم دھماکوں میں مارا جا رہا تھا۔ انہیں میں نے گلگت میں بھی فریاد کرتے سنا تھا جب ان کے بچوں کو بسوں سے اُتار کر قتل کیا گیا تھا۔
انہیں میں نے تب بھی پرنم آنکھوں سے آسمان کو تکتے اور اپنی چادر پھیلائے کسی سے فریاد کرتے سنا تھا جب داتا دربار بم دھماکے میں اس کے بچے قتل ہو گئے تھے۔
انہیں میں نے تب بھی پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تھا جب ان کے بچے فرائض کی ادائیگی کے دوران دہشت گردی کا شکار ہوئے تھے اور وہ اس وقت بھی پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھیں جب ان کے بچے سکول، دفتر اور بازار جاتے وقت تاک میں بیٹھے کسی سفاک کی گولی کا نشانہ بنے تھے۔
میں نے غور سے دیکھنے کی کوشش کی تاکہ جان سکوں کہ اس ماں کے چہرے کے خدوخال کیسے ہیں؟ وہ دکھتی کیسی ہیں؟ کس علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اورکونسی زبان بولتی ہیں؟
میں نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ ان کا عقیدہ کیا ہے؟ وہ سنی ہے یا شیعہ؟ نماز کس طریقے سے پڑھتی ہیں یا پھرشاید چرچ یا مندر جاتی ہوگی۔ لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود میں صرف اتنا ہی دیکھ پایا کہ وہ بس ایک ماں تھیں اور ایک بار پھر قتل ہونے والے اپنے بچّوں کی لاشوں پر ماتم کررہی تھیں۔
تبصرے (4) بند ہیں