'ہوئے مر کے ہم جو رسوا'
حلقہء دوستاں میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہمیں شعر و شاعری سے کچھ شغف ہے اس لیے ہر روزغالب و اقبال و فیض سے منسوب بیسیوں اشعار اور غزلیات بلکہ یوں کہیے کہ مغزلیات بذریعہ ایس ایم ایس وصول ہوتے ہیں۔ ایسے محبت نامے پڑھ کر روز دل کڑھتا ہے مگر ہزاروں گزارشات کے باوجود یار لوگ اپنی شعر پردازی سے باز نہیں آتے۔ جدید مواصلاتی نظام کے نتیجے میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کی آمد اور پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔
نوجوان نسل نے خصوصاً شعر کی بے حرمتی کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل محبّت میں کامیابی محبوب کے سامنے برا شعر کہے بغیر نہیں مل سکتی۔ حسن و خوبی کے وہ تمام استعارے جو شاعروں نے شب و روز کی ریاضت کے بعد ایجاد کیے، اب اپنا اثر کھو بیٹھے ہیں۔ آج کل عارض گلنار، ابروئے سرشار، چشم پُر خمار، اور مژگان طائر شکار کی باتیں کرنے والے کو حلقہ نازنینان میں پاگل موالی سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی بات وہ کی جائے جو سننے والے کو سمجھ بھی آئے مثلاً
"کتنی تشریح کروں اس ظالم کے حسن کی
پوری ایک کتاب تو ہونٹوں پہ ختم ہوتی ہے"
زوال کی یہ داستان صرف رومانوی شاعری تک ہی محدود نہیں۔ ایک دن ہم اپنے ایک دوست محمّد اقبال سے ملنے گئے۔ وہ خاصے معقول آدمی ہیں۔ حکومت میں ملازم ہیں۔ انہیں ہماری نجات کی بہت فکر ہے۔ جب بھی ہمیں ملتے ہیں نماز کی تلقین ضرور کرتے ہیں۔ اگر خود کچھ دیر پہلے نماز پڑھ کر فارغ ہوئے ہوں تو تلقین میں مزید خلوص اور شدّت آ جاتی ہے۔ ایک دن ان کی تقریر معمول سے ذرا لمبی ہوئی تو ہم نے بھی بے اعتنائی سے ہاتھ بلند کر کے ڈرامائی انداز میں که ڈالا "خدا تو دل میں ہونا چاہیے اقبال، سجدوں میں پڑے رہنے سے جنّت نہیں مل جاتی۔"
اس پر ان کے برادر خورد جو اب تک کمپیوٹر سے سر جوڑے بیٹھے تھے جھوم اٹھے اور سر دھن کر بولے "واہ بھائی جان کیا بات کر گئے ہیں علامہ اقبال"۔ اس سے پہلے کہ ہم وضاحت کرتے کے ہم نے تو ان کے سامنے اقبال کا کوئی شعر نہیں پڑھا، انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسی موضوع پر ایک اور جگہ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے:
"بات سجدوں کی نہیں خلوص نیت کی ہوتی ہے اقبال
اکثر لوگ خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں نماز کے بعد"
اس کے بعد انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے کمپیوٹر میں دو چار لبلبیاں دبائیں اور مندرجہ بالا "شعر" کے ہم معانی بیسیوں اشعار سنا ڈالے، جن سب کے آخر میں 'اقبال' آتا تھا۔ گویا نماز سے بھاگنے والوں نے اپنے ضمیر کے اطمینان کے لیے اس طرز کے شعروں کے دیوان کے دیوان اکٹھے کیے ہوئے ہیں۔
اس ملک کا صرف خواب دیکھ کر اقبال وہ کام کر گئے ہیں جو بڑے بڑے لوگ جاگتے میں نہیں کر سکتے۔ اردو شاعری میں اقبال کی حیثیت اور مرتبے سے کون واقف نہیں۔ اس کی ایک وجہ عوام الناس میں یہ تاثر ہے کہ اقبال کا کہا کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو چیز بھی اقبال سے منسوب کر دی جائے، وہ غلط ثابت نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ آج کل یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ احباب اقبال کے اشعار کا ذخیرہ جیب میں لیے پھرتے ہیں اور اول فول کہہ کرموقع محل کے مطابق یا غیر مطابق اقبال کے ایک شعر سے اپنے کہے پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں۔
مثلاً ہمارے ایک شناسا اقبال کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا اردو رومانوی شاعر مانتے ہیں۔ ایک اور عزیز ہمہ وقت اقبال کی مے پسندی کے تاریخی شواہد پر لیکچر دیتے ہیں اور اس کے اشعار سے اپنی بلا توقف شراب نوشی کا جواز پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوست اشتراکیت، دوسرے مشرقیت، تیسرے اسلامی عالمگیریت، چوتھے جہاد فی سبیل الله، پانچویں مذہب کی حقانیت، چھٹے عبادات کی اہمیت، اور ساتویں حب الوطنی اور وطنیت کے حق میں دلائل اقبال کی شاعری سے بہم فراہم کرتے ہیں۔
ہمارے ایک ہم جماعت خاصے خوش گفتار ہیں۔ ہم ذاتی طور پر ان سے بہت بیزار ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان سے حسد بھی ہے۔ ہماری واضح علمی برتری اور فکری فوقیت کے باوجود صنفِ نازک میں وہ زیادہ مقبول ہیں۔ جہاں جائیں جانِ محفل بن جاتے ہیں۔ مگر فقط ہنسنے ہنسانے سے محفل تھوڑا ہی جیتی جاتی ہے، حسبِ ضرورت سنجیدہ گفتگو بھی کرنی پڑتی ہے، چنانچہ سیاست، معاشیات، ادب، مذہب، طب، فلسفے اور سندھ کے کوئلے کے ذخائر پر مفید علم کا ایک سیلِ بے کراں ان کے سیل فون میں بند ہے۔
ایک روز کہیں بات اقبال کی شاعری کی چل نکلی۔ موصوف نے جھٹ سے فون نکالا اور ایک ہی سانس میں تین چار شعر پڑھ ڈالے اور پھر انتہائی سنجیدگی سے ان کی وضاحت کرنے لگے۔ ہم نے یہ منظر دیکھا تو رہا نہ گیا۔ فورا انہیں ٹوکا:
"میاں، یہ شعر اقبال کے نہیں ہیں"
انہوں نے پوچھا "آپ نے کیا اقبال کی تمام کتابیں پڑھی ہیں؟"
"کم و بیش "
"یہ اقبال کے آخری ایام کے اشعار ہیں جو بوجوہ چھپ نہیں سکے۔ یقیناً آپ نے یہ اشعار نہیں پڑھے ہوں گے "
"مگر یہ سب بے وزن ہیں "
"ہمیں آپ کے دماغ میں نصب فرضی پیمانے پر اعتبار نہیں۔ اور خدارا اب وہ فاعل فاعل کی گردان مت شروع کیجیے گا۔"
یہ سن کر ہجوم میں ایک شخص ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بلند آواز میں ہنسا۔ ہم نے لمحہ بھر کے لیے ہنسنے والے کی طرف دیکھا اور ٹھانی کہ یہ کرائے پر ہنسنے والے کم از کم آج تو ہمیں سچ کہنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے بھی انتہائی مضبوط لہجے میں کہا:
"یہ شعر اقبال کے ہو ہی نہیں سکتے ، اقبال ایسی زبان استمال کر ہی نہیں سکتا۔"
اس پر وہ اطمینان سے مسکرائے اور پوچھا،
"خودی، قومی غیرت، اور شاہین کون سے شاعر کے موضوعات ہیں؟"
ہم نے جواب دیا: "اقبال"
"تو پس ثابت ہوا کہ یہ شعر اقبال کے علاوہ کسی اور کے ہو ہی نہیں سکتے"
ان کی یہ بات سب کو بہت پسند آئی۔ سچ پوچھیے تو ہمیں بھی ان کا استدلال خاصا موزوں معلوم ہوا اور ہم سے کوشش کے باوجود بھی جواب بن نہ پایا۔
بعض اوقات تو ایسے مواقع پر سنائے جانے والے شعر واقعی اقبال کے زرخیز دماغ کی پیداوار معلوم ہوتے ہیں، مگر ان کا ماخذ نامعلوم ہوتا ہے۔ یہ ظلم صرف اقبال تک ہی محدود نہیں۔ فراز یقیناً اپنی زندگی میں خود سے منسوب شعر پڑھ پڑھ کرعلیل ہوئے اور غالب مرنے کے 150 سال بعد اپنی شاعری سمیت بے آبرو ہوئے۔ انہوں نے شاید اسی دورِ پر ہنگام کی بابت کہا تھا:
"ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا"
تبصرے (17) بند ہیں