شجاع خانزادہ کا متبادل تلاش کرنا مشکل
لاہور: پنجاب حکومت اب تک دہشت گردی کا نشانہ بننے والے وزیر داخلہ کرنل(ر) شجاع خانزادہ کا متبادل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
صوبائی حکومت میں ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں انتہائی مشکل ذمہ داری ادا کرنے کیلئے خانزادہ جیسی باصلاحیت اور پر عزم شخصیت تلاش کرنا آسان نہیں۔
ایک سرکاری افسر کے خیال میں وزیر اعلی شہباز شریف خود یہ وزارت سنبھال سکتے ہیں جبکہ بہت سے مبصرین سیاسی طور طریقوں کی وجہ سے یہ وزارت رانا ثنا اللہ کودیے جانے کا امکان مسترد کرتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ مرحوم خانزادہ بنیادی طور پر ایک فوجی ہونے کے ناطے دہشت گردی اور جرائم سے لڑنے کیلئے مناسب شخصیت تھے۔
وہ اپنے مقصد میں یکسو تھے، حتی کہ انہوں نے کبھی پولیس یا قانون نافذکرنے والی ایجنسیوں میں من پسند تعیناتیوں کیلئے مداخلت نہیں کی۔
خانزادہ ایک جنگجو تھے، جو ضرورت پڑنے پر انکار کرنا جانتے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنی ٹیم کی ناکامی دوسروں کے سر نہیں ڈالی۔
سیاسی مصلیحتوں اور تنازعات سے پاک خانزادہ ہر ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنی ناکامی سمجھتے تھے۔
انہیں انسداد دہشت گردی فورس بنانے کے اہم ہدف سونپا گیا تو انہوں نے پوری دیانت دار اور اخلاص کے ساتھ یہ ہدف پورا کیا۔
اس مقصد کیلئے لاہور میں مو جود خانزادہ مسلسل متعلقہ ترک حکام سے رابطوں میں رہے اور اس مقصد کیلئے انہیں ایک خصوصی ٹیلی فون کی سہولت بھی میسررہی۔
ایک سرکاری ذرائع کے مطابق، صوبائی حکومت کیلئے ایسا عزم اور صلاحیت رکھنے والا متبادل وزیر تلاش کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ حکومت نے ابھی تک عارضی طور پر بھی یہ وزارت کسی کے حوالے نہیں کی۔
حکام کے مطابق، لشکر جھنگوی کی قیادت ختم کرنے کا فیصلہ اکیلے خانزادہ نے نہیں بلکہ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیا تھا۔
پختون روایات کے امین خانزادہ اپنے دروزاے ہر ایک کیلئے کھلے رکھتے تھے اور ایسے میں وہ نرم ہدف ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے۔
ذرائع کے مطابق ماضی کے واقعات بتاتے ہیں عوام کیلئے اپنے نجی ڈیروں کے دروازے کھلے رکھنے والے پختون نشانہ بنتے آئے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں آفتاب شیرپاؤ، امیر مقام، میاں افتخار اور دوسری اہم شخصیات اپنے ڈیروں پر ایسے ہی حملوں میں محفوظ رہے تھے۔
مرحوم خانزادہ بہت بہادر تھے جو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنا شیڈول نہیں بدلتے تھے۔
لاہور میں ان کی رہائش گاہ کے باہر کوئی رکاوٹیں نہیں تھیں اور ان کے پاس ایلیٹ فورس کے صرف آٹھ اہلکاروں کی سیکیورٹی تھی۔
تبصرے (1) بند ہیں