’اندورن خانہ حمایت کے بغیر حملہ ممکن نہیں تھا‘
اٹک: پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پورا شادی خان گاؤں سکتہ کے عالم میں ہے۔
خانزادہ کے ذاتی عملہ کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کو صوبائی وزیر کی نقل و حرکت کی پوری معلومات تھی جبکہ پولیس نےشواہد کے حوالے سے بتایا کہ حملہ آوروں کے علاقے میں مضبوط رابطے تھے۔
خانزادہ برادری کی اکثریت پر مشتمل اس چھوٹے سے گاؤں میں ڈان سے گفتگو کرنے والے سبھی افراد اتوار کو ہونے والی دہشت گردی سے سکتہ میں دکھائی دیے۔
مقامی افراد نے ڈان کو بتایا کہ انہیں پہلے کبھی خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا اور یہ کہ انہیں ہرگز امید نہیں تھی کہ خود ان کے گاؤں میں دہشت گرد حملہ کر سکتے ہیں۔
تقریباً 250 مکانوں پر مشتمل شادی خان میں کوئی دکان یا کھانے پینے کا ہوٹل نہیں، ایسے میں مقامی مدد کے بغیر کسی اجنبی کیلئے علاقے میں رہنا اور اطراف کی معلومات حاصل کرنا آسان نہیں رہتا۔
خانزادہ کا مکان جائے وقوعہ سے پانچ منٹ کی مسافت پر ہے۔ خانزادہ کے سیکریٹری خواجہ شکیل نے دور سے نظر آنے والے مرحوم وزیر کی رہائش گاہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا ’کرنل خانزادہ صبح 10:30بجے اپنے گھر سے نکلے اور جلدی جلدی 10:35 تک اپنے ڈیرے پر پہنچے‘۔
’ ان کی علاقے کے لوگوں سے ایک ملاقات طے تھی۔ان کے پہنچنے پر لوگ ان سے ملنے لگے اور یہی وقت تھا جب 10:45 اور 10:48 کے درمیان دھماکا ہو گیا‘۔
سیکریٹری نے تسلیم کیا کہ مختلف کالعدم تنظیموں کےسربراہ خانزادہ سے ناخوش تھے اور شادی خان سے متصل علاقوں میں بہت سے مدرسوں کے مبینہ طور پر شدت پسند گروہوں سے تعلقات ہیں۔
مرکزی روڈ سے گاؤں آنے والی سڑک پر اہل سنت ولجماعت کا جھنڈاصورتحال کو اچھی طرح واضح کر دیتا ہے۔
شکیل نے بتایا کہ ’ہرزو میں خود کش جیکٹس تیار کرنے کی فیکٹری پکڑے جانے کے بعد خانزادہ نے علاقے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف سخت بیان دیے تھے‘۔
مرحوم صوبائی وزیر داخلہ کے ایک اور معتمد شیخ جاوید نے بتایا کہ کرنل خانزادہ کو کئی مرتبہ دھمکیاں ملیں، لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے ڈیرے پر آنے والوں کی سیکیورٹی بڑھانے پر اصرار نہیں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے خود کش بمبار باآسانی ان تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔’سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہاں سے دو کلومیٹر دور ویسا گاؤں میں بہت زیادہ مدرسے ہیں‘۔
ایک پولیس افسر نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے مقامی پولیس کی مدد سے پچھلے دو، تین مہینوں میں ان مدرسوں پر متعدد مرتبہ چھاپے مارے۔
حملے کی ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ ہونے والے خود کش بم دھماکے میں بال بیرنگ یا کیل استعمال نہیں کیے گئے۔
تاہم، تفتیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دھماکے میں استعمال ہونے والے بارودی مواد کی کیمیائی ساخت کی وجہ سے ہلاک و زخمی افراد کے جسم جھلس گئے۔
رنگو پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او غلام شبیر نے ڈان کو بتایا کہ ’دھماکے سے آنے والے زخموں یا پھر ملبہ گرنے سے ہڈیاں ٹوٹنے کے علاوہ لاشیں شدید جھلسی ہوئی ملیں‘۔
تبصرے (1) بند ہیں