• KHI: Fajr 5:30am Sunrise 6:48am
  • LHR: Fajr 5:06am Sunrise 6:30am
  • ISB: Fajr 5:14am Sunrise 6:40am
  • KHI: Fajr 5:30am Sunrise 6:48am
  • LHR: Fajr 5:06am Sunrise 6:30am
  • ISB: Fajr 5:14am Sunrise 6:40am
شائع August 17, 2015

زبوں حال باکسرز اولمپکس کے لیے پُرامید

منال خان، ابتسام زاہد

دنیا بھر میں باکسنگ کوچ فوجی جرنیلوں کی طرح کام کرتے اور چیخ کر حکم دیتے ہیں اور اگر کھلاڑی اپنی مکمل توانائی کے مطابق کارکردگی نہ دکھا رہا ہو تو اس کا مذاق اڑانے سے بھی نہیں چوکتے۔

پاکستان میں کوچز اس سے کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں۔

سوئی اور دھاگے سے لیس تربیت کار علی بخش کو رنگ کے اطراف پرانے ساز وسامان کو سیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پنچنگ پیڈ اور دیگر سامان کہیں نظر نہیں آ رہا۔

پاکستان کے ہیوی ویٹ سمیر خان نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ میں انہیں کہتا رہتا ہوں یہ باکسنگ کوچ سے زیادہ ایک موچی لگتے ہیں۔

سمیر اور دیگر 17 پاکستانی باکسر 2016 کے ریو اولمپکس کیلئے ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں جہاں نیشنل کیمپ میں شبہات اب ایک امید میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

کمتر سہولیات، فنڈز کی کمی اور پھٹے ہوئے باکسنگ کے دستانے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ کراچی میں ٹریننگ کرنے والے سمیر اور ان کے ساتھیوں کیلئے ایشین باکسنگ چیمپیئن شپ میں ایک اور چیلنج منتظر ہے۔

ایشین باکسنگ چیمپیئن شپ، ورلڈ باکسنگ چیمپیئن شپ کا کوالیفائنگ مقابلہ ہے جو دنیا بھر کے فائٹرز کو آئندہ سال ہونے والے ریو اولمپکس میں شرکت کا موقع فراہم کرے گا۔

حسین شاہ، ایک ہیرو

اپنی پیلی پٹی کو سختی سے باندھتے ہوئے ارشد حسین نے اپنی گردن کو کچھ خم دیے جس کے ساتھ ہی ٹرینر نے انہیں دستانے پہنائے۔

ارشد حسین کو امید ہے کہ وہ حسین شاہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اولپمک میں ملک کا نام روشن کرنے کا خواب پورا کریں گے۔ تصویر ابتسام زاہد
ارشد حسین کو امید ہے کہ وہ حسین شاہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اولپمک میں ملک کا نام روشن کرنے کا خواب پورا کریں گے۔ تصویر ابتسام زاہد

پاکستان بھر سے منتخب سات باکسرز مکے بازی کا سیشن شروع کرنے کیلئے رنگ میں ان کے منتظر تھے۔

24 سالہ ارشد حسین لیاری کے رہائشی ہیں جنہوں نے کنکری گراؤنڈ سے تربیت حاصل کی۔ متعدد عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے بعد وہ اس وقت اپنے کیریئر کے عروج پر ہیں لیکن ابھی بھی ان کی نظریں ایک بڑے مقصد یعنی ریو اولمپکس کے ٹکٹ پر مرکوز ہیں۔

ارشد نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’ہم یہاں سات ماہ سے ٹریننگ کر رہے ہیں لیکن اصل بات یہ نہیں کہ ہم میں سے کون اعلیٰ سطح تک پہنچ پائے گا۔ ہم سب بھائیوں کی طرح ہیں اور ان مہینوں کے درمیان ہم ایک دوسرے کے مزید قریب آ گئے ہیں‘۔

ارشد اپنے ساتھی باکسر کے ساتھ پاکستان باکسنگ فیڈریشن(پی بی ایف) کے ہاسٹل میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں جہاں ان کا پورا دن مشقت سے بھرپور ہوتا ہے۔ ان کا دن سورج طلوع ہونے سے کافی پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔

کھجور، سیب اور دودھ کے ناشتے کے بعد تمام باکسرز اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اور ہر دو دو گھنٹے کے وقفے سے اس عمل کو جاری رکھتے ہیں۔

’ہم فائٹ کرتے ہیں، جدوجہد کرتے اور ساتھ کھاتے ہیں۔ ہم اپنے کوچ کے ساتھ پاکستانی فلم ’شاہ‘ دیکھنے بھی جائیں گے‘۔

فلم شاہ کی کہانی 60 کی دہائی میں کراچی کے علاقے لیاری میں آنکھ کھولنے والے والے باکسر ھسین شاہ کی زندگی پر مبنی ہے جو ایک مشقت بھری زندگی کی تمام مشکلات کو جھیلتا ہوا پاکستانی باکسنگ کا عظیم ترین کھلاڑی بنا۔

حسین کی زندگی بدل دینے والا لمحہ وہ تھا جب انہوں نے 1988 کے اولمپکس میں پاکستان کیلئے سونے کا تمغہ جیتا جو آج تک اولمپک کے باکسنگ مقابلوں میں پاکستان کا واحد میڈل ہے۔

جذبے سے وسائل کی کمی کی تلافی کرنے والے'

' تحریک یا جذبہ' وہ چیز ہے جو پاکستانی باکسنگ کوچ علی بخش زیرتربیت جوانوں میں ڈھونڈتے ہیں جن کو وہ کم وسائل کے باوجود تربیت فراہم کررہے ہیں۔

سابقہ کک باکسنگ چیمپیئن اور موجودہ باکسر سمیر حسن خان کراچی میں منعقدہ نیشنل کیمپ میں ٹریننگ کرتے ہوئے۔ فوٹو ابتسام زاہد
سابقہ کک باکسنگ چیمپیئن اور موجودہ باکسر سمیر حسن خان کراچی میں منعقدہ نیشنل کیمپ میں ٹریننگ کرتے ہوئے۔ فوٹو ابتسام زاہد

علی بخش نے پاکستان کی جانب سے 1980 میں ایشین امیچور چیمپئن شپ میں سونے کا تمغہ جیتا جبکہ 1978 اور 1982 کے ایشین گیمز میں دو کانسی کے تمغے اپنے نام کیے، وہ جانتے ہیں کہ کیسے تمام تر مشکلات پر قابو پاکر ابھرا جاتا ہے۔

ان کا کیرئیر کامیاب رہا حالانکہ انہیں بھی مشکل حالات کا سامنا تھا پھر بھی وہ قومی سطح پر 14 برسوں تک ناقابل شکست رہے۔

پاکستان کے ہاکی سے باہر ہونے کے بعد پاکستان کو باکسنگ سے اولمپک میڈل کی خاصی توقعات ہیں۔ فوٹو ابتسام زاہد
پاکستان کے ہاکی سے باہر ہونے کے بعد پاکستان کو باکسنگ سے اولمپک میڈل کی خاصی توقعات ہیں۔ فوٹو ابتسام زاہد
ریو اولمپکس میں شرکت کے حوالے سے نیشنل کیمپ میں شبہات اب ایک امید میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ فوٹو ابتسام زاہد
ریو اولمپکس میں شرکت کے حوالے سے نیشنل کیمپ میں شبہات اب ایک امید میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ فوٹو ابتسام زاہد

علی بخش کے خیال میں حکومت سے باکسنگ کے کھیل پر توجہ دینے کی توقع کرنا فضول ہے۔ وہ اپنے فائٹرز کو سیکھاتے ہیں کہ کس طرح منفی چیزوں کو مثبت میں تبدیل کیا جانا چاہئے۔

علی بخش کے مطابق " حکومت سے کسی بھی چیز کی توقع کرنا بیکار ہے، جو پہلے ہی ہمارے مطالبات پر ہاتھ اٹھا چکی ہے"۔

پاکستان باکسنگ فیڈریشن نے حکومت سے فنڈز کی درخواست کی تھی تاکہ ایک کیوبن کوچ کی خدمات حاصل کی جاسکے مگر پاکستان اسپورٹس بورڈ محض تین ہزار ڈالرز دینے پر رضامند ہوئی۔

علی بخش کہتے ہیں " اس وقت جب ہمیں برانڈز قیمتی ملبوسات پہننے کے چاہیے تاکہ ہمارا اعتماد بڑھ سکے۔ ایسے ہی ایک کیوبن کوچ ہماری ٹیم کے لیے ہونا بھی کافی اہمیت رکھتا ہے"۔

وہ جمنازیم جہاں پاکستانی ٹیم تربیت میں مصروف ہے تباہ حالی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ورزش کے آلات جیسے گلووز انتہائی بوسیدہ ہیں مگر باکسنگ فیڈریشن کے سیکرٹری اقبال حسین کا کہنا ہے کہ کوچز باکسرز کے جذبے کو ابھار رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا " ہمیں ترتیب کے لیے حکومت سے کسی قسم کے فنڈز کی ضرورت نہیں، ہمیں بس سفر اور رجسٹریشن کے اخراجات کے لیے اسپانسر شپ چاہئے"۔

انہوں نے مزید کہا " جب سے محمد وسیم نے گزشتہ برس ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا ہے، ان لڑکوں کے اندر اپنی تربیت پر مزید اعتماد پیدا ہوا ہے اور وہ خود سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے لگے ہیں"۔

باکسنگ کوچز کی ٹیم میں سابق پاکستانی کرکٹر معین العتیق بھی شامل ہوچکے ہیں. "معین باکسنگ اسکواڈ میں ماہر نفسیات اور عزم بڑھانے کے لیے شامل ہوئے ہیں، وہ یہ کام کرکٹ ٹیم کے لیے بھی کر چکے ہیں"۔

ان کا مزید کہنا تھا " کھیل کو ہمیشہ طاقت سے نہیں جیتا جاسکتا، اس کے لیے مضبوط خیالات کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے اندر موجود شخصیت کو متاثر کرسکے کیونکہ یہ سب مختلف پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم ان سب کو ایک صف میں لانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ٹیم مورال بلند ہوسکے اور وہ ملک کے لیے کچھ کرسکیں"۔

باکسنگ اولمپک گیمز میں تمغوں کے حصول کے حوالے سے پاکستان کی باقی ماندہ امیدوں میں سے ایک ہے. پاکستان ہاکی ٹیم پہلے ہی ریو میں کوالیفائی کرنے میں ناکام ہوچکی ہے جس کے بعد حکومت کی جانب سے باکسنگ ٹیم پر توجہ نہ دینا ایک حیران کن امر ہے۔

انگلینڈ میں رہنے والے پاکستانی نژاد برطانوی باکسر جبران بلال قومی ٹیم کا حصہ بننے کے لیے آئے مگر ٹرائلز سے قبل بیمار ہوگئے.

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی وطن میں ایسا جوش و جذبہ نہیں دیکھا. "میں نے اس سے پہلے جن حالات میں تربیت لی وہاں مجھے کبھی لڑکوں میں ایسی آگ نظر نہیں آئی۔ اگرچہ یہاں آلات جدید نہیں مگر پاکستانی باکسرز کی کوششیں اس کی تلافی کردیتی ہیں، ان کے اندر بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں."

تبصرے (1) بند ہیں

Muhammad Ayub khan Aug 17, 2015 11:30pm
bhai jab wapis aaogey na to haarney ki tehqeeqat keliye JIT ya judicial commission baney gaa ----us waqit key liye dua karo