• KHI: Asr 5:05pm Maghrib 6:58pm
  • LHR: Asr 4:42pm Maghrib 6:37pm
  • ISB: Asr 4:49pm Maghrib 6:45pm
  • KHI: Asr 5:05pm Maghrib 6:58pm
  • LHR: Asr 4:42pm Maghrib 6:37pm
  • ISB: Asr 4:49pm Maghrib 6:45pm

فساد کی جڑ: زن، زر، اور زمین؟

شائع August 12, 2015
عورت کو کمتر سمجھنا اور ان کو ملکیت قرار دینا دراصل ایک سوچ ہے جسے عام طور پر جاگیردارانہ نظام کی پیداوار سمجھا جاتا ہے۔ — خاکہ خدا بخش ابڑو۔
عورت کو کمتر سمجھنا اور ان کو ملکیت قرار دینا دراصل ایک سوچ ہے جسے عام طور پر جاگیردارانہ نظام کی پیداوار سمجھا جاتا ہے۔ — خاکہ خدا بخش ابڑو۔

”زن، زر، اور زمین فساد کی جڑیں ہیں"۔ خواتین سے متعلق یہ ان دقیانوسی خیالات (stereotypes) میں سے ایک ہے جو ہمارے معاشرے میں آج بھی عموماً عام گفتگو کے دوران سنا جاتا ہے یا سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔ سٹیریو ٹائپس کسی معاشرہ میں ایسے منجمد تصورات یا دقیانوسی خیالات ہوتے ہیں جو معاشرے میں کسی فرد، گروہ یا طبقے سے منسوب کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات انہیں حرفِ آخر مان لیا جاتا ہے، حالانکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

یوں تو خواتین سے متعلق (یا ان کے خلاف) سٹیریو ٹائپس دنیا کے اکثر معاشروں یا زبانوں میں پائے جاتے ہیں، لیکن آج بہت سے معاشروں میں ایسے خیالات پر سوال اٹھایا جاتا ہے اور ان کے بے جا استعمال کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

سٹیریو ٹائپس عموماً کسی معاشرے میں کسی گروہ یا طبقے کے بارے میں سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کا تجزیہ کرنے سے دلچسپ نکات سامنے آتے ہیں۔ آئیے ذرا اس اسٹیریو ٹائپ ”زن، زر، اور زمین فساد کی جڑیں ہیں" پر غور کرتے ہیں اور اس کی تاریخی اور نفسیاتی بنیاد سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس جملے میں تین عناصر کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے۔ زن یعنی عورت، زر یعنی پیسہ، اور زمین، جن میں سے دو، زر اور زمین، بے جان چیزیں ہیں اور یہ عموماً کسی کی ملکیت ہوتے ہیں۔ لیکن اس جملے میں عورت کو بھی ان کے ساتھ شامل کر کے ان کی خاصیت کو ایک جیسا قرار دیا ہے، یعنی فسادی۔ (اگر غور کریں تو زمین اور زر کا بھی فساد پیدا کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی لالچ اور طمع ہے جو ان کی حصول کے لیے فساد پیدا کرتے ہیں۔)

پڑھیے: دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے خواتین کمانڈوز تیار

عورت کو کمتر سمجھنا یا ان کو ملکیت قرار دینا دراصل ایک سوچ یا ذہنی کیفیت کا نام ہے جسے عام طور پر جاگیردارانہ یا پدرسری نظام کی پیداوار سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سوچ نے انسانی تاریخ میں اس وقت جنم لینا شروع کیا جب انسان نے زراعت یا کھیتی باڑی اپنا کر جائیداد بنانی شروع کی اور یوں آہستہ آہستہ طاقت کا ارتکاز عمل میں آنے لگا۔

وقت کے ساتھ ساتھ معاشرہ کو دو دائروں، نجی دائرہ (private life) اور عوامی دائرہ (public life) میں تقسیم کیا گیا۔ نجی دائرہ یعنی گھر کے اندر انجام پانے والے امور خواتین کی ذمہ داری سمجھے جانے لگے اور عوامی دائرہ، جو کہ وسیع اور پر اثر ہے، مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جانے لگا۔ چونکہ معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں اور فیصلہ سازی زیادہ تر عوامی دائرے میں عمل میں آتی ہے اس لیے مرد معاشی اور معاشرتی طور پر مضبوط ہوتے گئے اور عورت نجی دائرے میں ہونے کے وجہ سے معاشی اور معاشرتی طور پر کمزور ہونے لگی۔ یوں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی کہ مرد طاقتور ہے اور عورت کمزور، اور یہ سوچ ہزاروں سال تک انسانی معاشرے میں مضبوطی سے قائم رہی۔

لیکن مغرب میں جب صنعتی انقلاب نے جاگیردارانہ نظام کی بنیادوں کو کمزور کیا، تو عورت کو دوبارہ عوامی دائرے میں قدم رکھنے کا موقع ملا۔ لیکن یہ سفر آسان نہیں تھا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد مغرب کی عورتیں معاشرے میں ایک حد تک مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں مگر مکمل متوازی حقوق اور اختیارات کے لیے جدوجہد آج بھی جاری ہے۔

پڑھیے: کیا سائنس خواتین کے لیے نہیں ہے؟

عورتوں کو کمزور اور کمتر سمجھنا ایک ایسی سوچ ہے جو کہ کہیں اور کسی بھی وقت پائی جاسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ سوچ آج بھی کافی حد تک موجود ہے۔ یہ سوچ ہر اس قدم کی مخالفت کرتی ہے جو خواتین کو بااختیار بنانے میں مددگار ثابت ہو۔

اس ذہنیت کو یہ معلوم ہے کہ تعلیم خواتین کو معاشی اور معاشرتی طور پر با اختیار بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے، لہٰذا یہ پہلے زبان سے خواتین کی تعلیم کی مخالفت کرے گی۔ اگر اس سے کام نہ چلے تو اسکولوں کو بارود سے اڑانے سے بھی اجتناب نہیں کرے گی اور بس چلے تو بندوق کے ذریعے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکنے کی بھی بھر پور کوشش کرے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر یہی لوگ اپنی بیویوں کے علاج کے لیے لیڈی ڈاکٹر ڈھونڈتے پھرتے ہیں، مگر لیڈیز کے ڈاکٹر بننے کے مخالف نظر آتے ہیں۔

ایسی سوچ بعض دفعہ جرگے کی صورت میں بھی نمودار ہوتی ہے۔ مردوں کا یہ جرگہ ملکی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر یہ فیصلہ صادر فرماتا ہے کہ خواتین انتخابات میں ووٹ نہیں ڈال سکتیں۔ اس ذہنی کیفیت کو دراصل یہ گوارہ نہیں کہ خواتین اس انتخابات میں حصہ لیں جس میں ایک خاتون کا ووٹ ایک مرد کے ووٹ کے برابر ہے۔

مزید پڑھیے: کھانا پکاؤ، گھر کا کام کرو اور مردوں کو ووٹ دو!

اس قبائلی سوچ کو دراصل اس بات کا ڈر ہے کہ اگر خواتین بااختیار ہوگئیں تو یہ پبلک دائرے میں آکر ان کے ساتھ حصہ دار بن جائے گی اور فیصلہ سازی میں شرکت کرے گی۔ اور یہ تو بالکل گوارہ نہیں کہ عورت ان سے اوپر عہدے پر فائز ہو، کیونکہ اس سے ان کی مردانگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ایسی ذہنیت گھر کے اندر کچن میں جانا اور بیوی کا ہاتھ بٹانا اپنی مردانگی کی توہین تصور کرتی ہے، لیکن باہر ہوٹل کے کچن میں کام کرنا اپنے لیے فخر محسوس کرتی ہے۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں جن خواتین کو اپنی صلاحیت کے اظہار کا موقع ملا انہوں نے ہر شعبے میں اپنے کردار کو بخوبی نبھایا اور خوب نام کمایا۔ آرٹ ہو یا شاعری، کاروبار ہو یا سیاست، ہوا پیمائی ہو یا کوہ پیمائی، ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا، اور یہ ثابت کیا کہ وہ کسی بھی شعبے میں مردوں سے کم نہیں۔

لیکن یہ سفر آسان نہیں بلکہ آگ کا دریا ہے۔ اس مہم جوئی میں جب بعض سرپھروں نے اس مائینڈ سیٹ کو چلینج کیا کہ وہ زر اور زمین کی طرح کسی کی ملکیت نہیں، بلکہ مردوں کی طرح انسان ہیں، تو سبین محمود اور پروین رحمان جیسے مہم جوؤں کو اپنی جان بھی دینی پڑی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک میں خواتین نے اپنا مقام اور حقوق ویسے ہی حاصل نہیں کیے، بلکہ ان کی مسلسل جدوجہد اور قربانی کی عوض ان کو کچھ ملا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ کٹھن سفر خواتین کو خود ہی طے کرنا ہوگا۔

محمد علی مسافر

محمد علی مسافر ٹیچر ایجوکیٹر رہ چکے ہیں، تاریخ اور ثقافت میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور ان موصوعات پر کالم بھی لکھتے ہیں۔

muhammad.ali075@yahoo.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (5) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Aug 12, 2015 10:44pm
مشہور کہاوت ہے کہ زمین لہو مانگتی ہے۔ اب اس کہاوت کا یہ معنی نہیں ہے کہ زمین کو بیج، کھاد، روڑی اور پانی کی نہیں بلکہ لہو دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح زن، زر اور زمین فساد کی جڑ ہوتی ہے، بھی کہاوت ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ زن کے ساتھ ہمدردی کر کے انسانی حقوق کا دعوی دار بنا جائے اور زن سے واہ واہ سمیٹی جائے۔ بلکہ اس کہاوت کا مطلب ہے کہ زیادہ تر جرائم انہی تینوں کی وجہ سےہوتے ہیں اور یہ بجا ہے۔ زمین کے تنازعات پیدا ہو جائیں تو نسل در نسل چلتے ہیں۔ پیسہ وجہ ہے لوٹ مار، تاوان،گاڑیاں چوری کرنا، ڈاکے، جیب کترے،۔۔۔ زن کے آگے مرد کُکڑی ہو جاتا ہے، زن کو خوبصورتی اور بھرپور خدوخال قدرت نے عنائت کیے ہیں۔ان خصوصیات کی وجہ سے مرد بہت جلد بہک جاتا ہے اور پتھر دل ہونے کے باوجود گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ قلوپطرہ کی مثال سامنے ہے۔زراعتی دور میں بھی زن کام کرتی تھی،کھیتوں میں کام کرتی تھی، منجیاں، پیڑھیاں بنتی تھی،کھتیوں میں مردوں کے لیے کھانا لیکر جاتی تھیں۔آج زن کام کم اور سُرخی پاؤڈر زیادہ استعمال کرتی ہےکیونکہ یہ زراعتی نہیں بلکہ نمودونمائش صعنتی دور ہے۔ متن کے لحاظ سے بلاگ کا عنوان زن مریدی ہونا چاہیے تھا۔
Muhammad Ayub Khan Aug 13, 2015 08:17am
@Imran jo mesafir bhi heyN
khan Aug 13, 2015 11:44am
Women (not men) hurt the women most. The famous phrase. . .women and watches never agree.
Read All Comments

کارٹون

کارٹون : 23 اپریل 2025
کارٹون : 22 اپریل 2025