لاہور کنزیومر کورٹ کا تاریخی فیصلہ
لاہور: لاہور کنزیومر کورٹ نے ہرجانے کے ایک مقدمہ کا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ایک ڈاکٹر کو تین کروڑ چالیس روپے ادا کر نے کا حکم دے دیا۔
کنزیومر عدالت میں چلڈرن ہسپتال کے سابق ڈین ڈاکٹر طاہر مسعود پر سرکاری ملازم سید علی مرتضی کی نومولود بیٹی سیدہ در زہرہ کے علاج میں مجرمانہ غفلت کا جرم ثابت ہوا ہے۔
علاج میں غفلت کی وجہ سے زہرہ کے جگر کومستقل نقصان پہنچا تھا ۔تاہم برطانیہ میں جگر ٹرانسپلانٹ کی وجہ سے ان کی زندگی بچ گئی۔
مدعی علی مرتضی نے اپنی درخواست میں بتایا تھا کہ زہرہ31، مئی 2007 میں پیدا ہوئی ۔ جون میں ڈاکٹر مسعود نے زہرہ میں یرقان کی تشخیص کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا تھا کہ دو مہینے علاج کے بعد یہ مرض ختم ہو جائے گا۔
درخواست کے مطابق، زہرہ کی بیماری ٹھیک نہ ہوئی اور ڈاکٹر مسعود اس دوران مہنگے پیتھولوجیکل ٹیسٹ تجویز کرتے رہے۔
مرتضی نے الزام لگایا کہ ان کی بیٹی کے مہنگے ٹیسٹ اور ڈاکٹر کے علاج میں کوتاہی کی بنا پر ان کی بچی کے جگر کو مستقل نقصان پہنچا۔
مرتضی نے بتایا کہ وہ بعد میں اپنی بچی کو لندن لے گئے جہاں کنگز کالج ہسپتال میں جگر ٹرانسپلانٹ پر 206625 پاؤنڈز لاگت آئی۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے انہیں ٹرانسپلانٹ کیلئے 155000 پاؤنڈز فراہم کیے۔
ڈاکٹر مسعود نے کیس کی سماعت کے دوران ان الزامات کو چیلنج کیا لیکن وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں ناکام رہے، جس کے بعد جج سید خورشید انور رضوی نے انہیں پنجاب حکومت کو 155000 پاؤنڈز اور متاثرہ باپ کوعلاج اور سفری اخراجات کی مد میں بالترتیب 57267 اور 13.07ملین روپے ادا کرنے کا حکم دیا۔
جج نے ڈاکٹر مسعود کو حکم دیا کہ وہ مرتضی کو عدالتی کارروائی پر اٹھنے والے اخراجات کی مد میں ایک لاکھ روپے بھی ادا کریں۔
جج نے صوبائی سیکریٹری صحت کو حکم دیا کہ وہ ڈاکٹر مسعود سے حکومتی رقم لینا یقینی بنائیں۔
انہوں نے پنجاب صحت عامہ کمیشن کو حکم دیا کہ وہ دیکھیں کہ آیا ڈاکٹر مسعود کے کام جاری رکھنے سے ان کے مریضوں کی جان کو خطرہ تو لاحق نہیں ہو گا۔
تبصرے (3) بند ہیں