بجرنگی بھائی جان کی گیتا کا مندر
کسی بھی تعطیل کا دن کراچی کے علاقے میٹھادر میں خاصا سکون کا ہوتا ہے۔ اس دن میٹھادر کے علاقے میں آپ خاصے آرام کے ساتھ جا سکتے ہیں۔ عام کاروباری دنوں میں کوئی باہر والا تو کیا جائے گا، علاقہ مکین بھی اگر 11 بجے سے پہلے کہیں جانے کو گھروں سے روانہ ہوجائیں تو گھر لوٹنے کے لیے رات 8 بجے یا اس کے بعد کا وقت مناسب سمجھتے ہیں۔
آج ہمیں میٹھادر میں ایک ایسے مندر کی تلاش تھی جو ایک مسلمان کے گھر میں ہے۔ نہ صرف مندر موجود ہے، بلکہ اس کی رکشا (حفاظت) بھی کی جاتی ہے۔ مندر میں پوجا کرنے والی صرف ایک لڑکی ہے۔ گھر کے باقی سب مکین مسلمان ہیں۔ مندر ایک کمرے میں ہے، لیکن گھر والے ہوں یا باہر والے، کوئی یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ جوتوں سمیت اندر داخل ہوجائے۔ اگر کوئی نادانستگی میں بھی ایسا کرے تو گھر کی مالکن اسے فوراً یہ کہتی ہے کہ ”بھائی جوتے اتارو، ہماری بیٹی بہت برا مانتی ہے۔“
یہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ سماجی خدمات میں اپنا آپ منوانے والے عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی ہیں۔ انہیں اگر سماجی خدمات کے حوالے سے خاتونِ اول کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بلقیس ایدھی خاتونِ اول کیسے بنیں یہ کہانی بھی آپ کو بتائیں گے۔ لیکن فی الحال ہم بات کر رہے تھے ان کے گھر میں مندر کی۔ ان کے شوہر مولانا ہیں اور انہوں نے ایدھی صاحب کے ساتھ 70 کی دہائی میں بذریعہ سڑک حج کیا تھا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ انہیں اپنے گھر میں مندر بنانا پڑا؟
بلقیس ایدھی مسکراتے ہوئے بولیں کہ ”میں نے یہ مندر گیتا کے لیے بنوایا ہے۔ گیتا جو ہے نا، وہ گیارہ سال پہلے ہمارے پاس آئی تھی، لاہور کے بارڈر سے۔ ابھی اس کی جو عمر تھی نا، وہ گیارہ سال کی تھی۔ یہ جو ہے نا ابھی گونگی ہے اور بہری بھی ہے۔ یہ جبھی آئی تھی نا تو اس کی حرکتوں سے پتہ چلا کہ یہ مسلمان نہیں ہے۔ وہ اشارے سے ماتھے پر تِلک لگاتی تھی۔ پھر آرتھی اتارنے کا اشارہ بھی کرتی تھی۔ میں سمجھ گئی یہ مسلمان نہیں ہندو ہے۔ بس میں نے ایدھی فاؤنڈیشن کی تیسری منزل پر اس کو مندر بنا کے دیا۔"
"ابھی یہ روز روز مندر میں جاتی ہے اور پوجا کرتی ہے۔ میرے ساتھ اشاروں میں بات بھی کرتی ہے۔ میں نے بہت سوچا کہ یہاں پر ہی اس کی شادی بھی ہوجائے۔ میں اس کے سامنے اشاروں میں ہاتھوں سے ماتھے پر سیندور لگانے کا اشارہ کرتی ہوں لیکن وہ اپنے بائیں ہاتھ سے ایک اشارہ کرتی ہے اور اپنے ہاتھ کو نیچے سے اوپر لے جاتی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ہوائی جہاز۔ پھر وہ اشاروں میں اپنے ماتھے پر سیندور سجاتی ہے۔ پھر شادی کے پھیرے لگانے کا بھی اشارہ کرتی ہے۔"
— فوٹو محسن سومرو |
مصنف اختر بلوچ عبدالستار ایدھی کے ساتھ. — فوٹو محسن سومرو |
بلقیس ایدھی نے کہا کہ "انڈیا والوں سے بھی ان کی بات ہوئی ہے لیکن سفارت خانے والے کہتے ہیں کہ اگر یہ لڑکی دوبارہ انڈیا گئی تو پکڑی جائے گی۔ میں ادھر رشتہ تو ڈھونڈ رہی ہوں لیکن یہ مانتی ہی نہیں۔ بس اشارہ کرتی ہے جہاز کا، پھر اپنے اندازے کے مطابق انڈیا کا رُخ کرتی ہے، سیندور بھی لگاتی ہے، اور شادی کے پھیروں کا اشارہ بھی کرتی ہے۔"
ابھی بلقیس ایدھی سے ہماری بات چیت ہو ہی رہی تھی کہ ہمارے دوست فیصل ایدھی، عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کے سب سے چھوٹے بیٹے نے ہم سے کہا کہ ”ارے اختر بھائی 2 بجے انڈیا کے پکڑے ہوئے ماہی گیروں کو واپس جانا ہے۔“ انہوں نے ایک نوجوان کو کہا بھائی وہ 5 ہزار فی کس کے لفافے جلدی بنوائے۔ ہم نے فیصل سے کہا کہ یار ابھی تو 12:30 بجے ہیں، دو بجنے میں ابھی دیر ہے۔ فیصل بولے بھائی 163 لوگ ہیں اور سب کو پیسے دینے ہیں۔ اگر ایک منٹ ایک بندے پر لگاؤ تو بھی تقریباً تین گھنٹے لگتے ہیں۔ ہم نے کہا چلو پھر آئیں گے۔
فیصل نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بتایا کہ یہ جو فلم بجرنگی بھائی جان بنی ہے، وہ اسی بچی گیتا کی کہانی ہر بنی ہے۔ ہم نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ ایک طویل عرصے سے انڈین حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں سے رابطے میں ہیں، لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا۔ میرا خیال ہے کہ یہ اسٹوری آہستہ آہستہ ان تک پہنچ گئی ہوگی۔ پھر اس پر فلم بن گئی۔ ہمارے یہاں تو یہ اصل شکل میں گیتا کی صورت میں موجود ہے۔ اب گیتا کی اسٹوری کو کیش کروانے بھی کچھ سماجی کارکن میدان میں آگئے ہیں لیکن ان کا مقصد صرف نام کمانا ہے۔
بلقیس ایدھی نے ہماری معلومات میں یہ بھی اضافہ کیا کہ گیتا نماز بھی پڑھتی ہے۔ ہمارا اگلا سوال یہ تھا کہ نماز اس نے کیسے سیکھی؟ تو بلقیس ایدھی کا کہنا تھا کہ چونکہ ایدھی فاؤنڈیشن میں رہائش پذیر بچیوں اور خواتین کارکن کی اکثریت مسلمان ہے، اور فاؤنڈیشن میں نماز کے اوقات میں نماز بھی ادا کرتی ہیں، تو ان کو دیکھتے دیکھتے گیتا نے بھی نماز شروع کر دی۔ لیکن نماز کے بعد وہ اپنے چھوٹے مندر میں پوجا بھی ضرور کرتی ہے۔ فاؤنڈیشن میں رہنے والی تمام بچیاں اس کے مندر کا احترام کرتی ہیں۔
گیتا پوجا کرتے ہوئے. — فوٹو اختر بلوچ |
پھر بلقیس ایدھی نے افسردہ لہجے میں کہا کہ "اب یہ جوان ہوگئی ہے۔ میں تو چاہتی ہوں ادھر ہی اس کی شادی ہوجائے، لیکن کیا کروں اس کی زبان تو صرف میں ہی سمجھتی ہوں۔ اس کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہاں انڈیا میں اس کا باپ بہت امیر ہے، اس لیے وہ اشارے سے مجھے کہتی ہے کہ وہ جہاز پر انڈیا جائے گی۔ ابھی انڈیا والوں سے بات ہورہی ہے۔ میری بچی یہاں رہے گی یا وہاں، اس کا فیصلہ کیسے ہوگا۔ میں بس یہی سوچتی رہتی ہوں۔"
ہم شکستہ دل کے ساتھ ایدھی فاؤنڈیشن کی تیسری منزل سے اتر آئے۔ مجھے گیتا کی کہانی بہت مزیدار لگی، لیکن پھر میں سوچنے لگا کہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں تو بلقیس ایدھی نے اپنے گھر میں ایک گونگی اور بہری بچی کے لیے مندر بنایا، پھر اس کے لیے اشاروں کی زبان سیکھی، ہو سکتا ہے کہ انڈیا میں بھی کچھ ایسا ہو؟ سرحد کے اس پار اور اس پار بے شمار گیتائیں اور منے ہیں جو کہ کسی بلقیس ایدھی، فیصل ایدھی اور ایسی ہی کسی اور شخصیت کا انتظار کرتی ہوں، جو ان کی اسٹوری پر فلم بنانے کے لیے نہیں، بلکہ بچھڑے ہوؤں کہ ملانے کا کام کرتے ہوں۔
ہم یہ بلاگ لکھنے سے کچھ دن پہلے بھی فیصل ایدھی سے ملنے کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن گئے تھے۔ وہیں گیتا سے ہماری ایک سرسری ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اس وقت ہم نے سوچا کہ گیتا کی کہانی لکھنے اور سمجھنے کے لیے ایک طویل وقت درکار ہے۔
خیر چند روز بعد ہم جب گیتا کا انٹرویو کرنے پہنچے تو اس نے مسکراتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کی پہلی انگلی سے ایک دائرہ سا بنایا اور پیشانی پر ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑی ایک بلوچ لڑکی کی طرف دیکھا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ میرے متعلق کچھ کہہ رہی ہے۔ میں نے اس لڑکی سے پوچھا کہ گیتا کیا کہہ رہی ہے؟ تو اس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ گیتا کہہ رہی ہے ”یہ پھر آگیا“۔
اس کے بعد گیتا نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پنڈلیاں دبا کر بھی ایک مخصوص اشارہ کیا۔ میں نے پھر لڑکی سے پوچھا اب کیا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ گیتا کہہ رہی ہے کہ وہ سیڑھیاں چڑھتے اترتے تھک گئی ہے، اور اس کے پیروں میں درد ہو رہا ہے۔ لڑکی کے مطابق جب سے گیتا کی کہانی منظرِ عام پر آئی ہے تو ٹی وی چینلز اور صحافیوں کی آمدورفت میں بہت اضافہ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے اسے بار بار تیسری منزل سے گراؤنڈ فلور پر آنا پڑتا ہے۔
اس موقع پر عبدالستار ایدھی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ خاصے ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ ہم نے ان کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے مسکرا کر کہا ”سو سال کا ہوگیا ہوں۔ بس سب ٹھیک ہے۔“ انہوں نے دھیمے سے اپنے بیٹے فیصل ایدھی کو بھی کچھ کہا۔ جب ہم نے فیصل سے دریافت کیا کہ ایدھی صاحب کیا کہہ رہے ہیں، تو فیصل نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ وہ پوچھ رہے ہیں انور مقصود کیوں آیا ہے؟ میں نے فیصل سے کہا تو تم نے کیا کہا؟ فیصل بولا میں نے کہا وہ تو گورا چٹا ہے اور یہ۔۔۔۔۔۔۔!
تبصرے (15) بند ہیں