جس صبح میں جھیل سیف الملوک کو منجمد حالت میں دیکھنے اور برف میں آوارگی کی غرض سے نکلا، اس دن دور ہندوکش کے پہاڑوں پر جاتے جاتے پھر سے برف پڑ چکی تھی۔ میرے گھر کی چھت پر ہلکی دھوپ اتر چکی تھی، گملے میں سرخ گلاب تازه تازه کھِل چکا تھا۔ کلائی میں بندھی گھڑی 8 بجا رہی تھی۔ دور کہیں فضا میں نغمہ گونج رہا تھا "آوارہ ہوں، یا گردش میں ہوں آسمان کا تارہ ہوں۔" ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر کی شعلہ بیانی رات بھر جاری رہی تھی۔ اس گھڑی آئی ایس پی آر کا بیان ٹی وی اسکرین پر چل رہا تھا جس میں سیاسی لیڈر کی شعلہ بیانی کو بیہودہ قرار دیا گیا تھا اور مجھے ہنس ہنس کر ہچکی کا دوره پڑ چکا تھا۔ جس صبح میں گھر سے نکلا یہ سب ہو چکا تھا۔ معاشرت، سیاست، اور منافقت پر دو حرف بھیج کر سامان لپیٹا اور گھر چھوڑ دیا۔
گاڑی نے شہر کو چھوڑا تو دھوپ کی تمازت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ گندم کے مڑیل کھیت سڑک کے دونوں اطراف پھیلے ہوئے تھے۔ خوشوں کا ذکر ہی کیا، یہ تو اپنے تنوں سے مڑ چکے تھے۔ ایسی کمزور، ناتواں، مڑیل گندم کی فصل دیکھ کر دل ڈوبنے لگا۔ پنجاب میں برستی مسلسل بارشوں نے دہقانوں کے صبر کا خوب امتحان لیا ہے۔ جب خدا بستی والوں کی محنت پر پانی پھیر دے تو بستی والوں کو توبہ کا دروازہ کھٹکھانے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔ ایسی بے جان گندم کی فصل دیکھتے دیکھتے چناب کا پل آ گیا۔
گاڑی نے دریائے چناب کو عبور کیا تو نظر نیچے پانی میں چلتی ایک کشتی پر پڑی۔ ملاح اکیلا چپو چلاتا جا رہا تھا۔ شاید ساتھ ساتھ کچھ گاتا بھی ہو پر گاڑی کے اندر میں اسے سن نہیں سکتا تھا۔ چھٹی کا دن تھا اور غالباً ملاح چناب کے پانیوں پر تفریح کر رہا تھا۔ دریا کے اندر سورج کا عکس جھلک رہا تھا اور وہیں کہیں اس کے آس پاس وہ کشتی پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہتی چلی جا رہی تھی۔ کھلے پانیوں میں اکلوتی کشتی کو آزادانہ بہتا دیکھ کر لبوں پر مسکراہٹ پھیلنے لگی۔ ملاح بھی ادھر دیکھ کر شاید مسکرایا ہو۔ پانی کے مسافر اور زمین کے مسافر میں مسافتی قدریں، جذبات اور احساسات کچھ تو مشترک ہوتے ہیں۔
جی ٹی روڈ پر روشن صبح کی کھِلی دھوپ میں گاڑیاں اپنی اپنی منزل کو آتے جاتے دیکھتے ہوئے پوٹھوہار کا علاقہ آیا۔ سطحِ مرتفع پوٹھوہار۔ بھربھری مٹی کی پہاڑیاں۔ کٹی ہوئی جلی ہوئی مٹی۔ اوپر نیچے ہوتے راستے۔ اردگرد جھاڑیاں اور ان میں کِھلے کچھ جنگلی پھول۔ کیکر کے چھوٹے چھوٹے جنگل۔ اور وہیں کہیں تین چار درختوں پر سفید بگلوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ ایسا لگتا جیسے درخت کو پھل لگا ہو۔ چپ چاپ، ساکت بیٹھے بگلے۔ اڑنے کی چاہ کو ترک کیے کسی سوچ میں گم بگلے۔ چونچ نیچی کیے سر جھکائے بگلے۔ سارا جھنڈ تھکن کا شکار تھا شاید۔
گزرتے گزرتے یہیں کہیں زرد، مالٹے رنگے پھولوں کے بیچ دو نیلے جنگلی پھول نظر آئے جو اردگرد کے رنگوں کا پیٹرن توڑتے ہوئے اپنی طرف توجہ مبذول کروا رہے تھے۔ تتلی کے لمس سے بے پرواہ یہ پھول شاید مسافروں کو آتا جاتا دیکھ کر ہی کھِل اٹھتے ہوں۔ خوشبو ندارد مگر رنگت خوب است۔ ایک دھیمی مسکراہٹ ان پھولوں کے نام۔
شہر گزرتے رہے۔ چھٹی کے دن سوئے ہوئے تھکے ہوئے شہر۔ راولپنڈی آیا تو گاڑی پیر ودھائی جا رکی۔ یہیں سے مجھے گاڑی بدلنی تھی۔ یکم مئی تھا۔ یومِ مزدور و محنت کش۔ غریبوں کا دن۔ اڈے پر جا بجا پوسٹر لگے تھے۔ آج شام پی سی ہوٹل میں ایک سیمینار تھا جس میں معروف صنعتکاروں اور سیاستدانوں جن کا تعلق ہر پارٹی سے تھا، نے یومِ مزدور پر مزدوروں کے حقوق پر بات کرنا تھی۔ ہائی ٹی کے ساتھ، ہال میں لگے جرمن فانوسوں کی روشنی میں مہنگے کارپٹوں کے اوپر للی اور نرگس کے پھولوں سے سجے دیدہ زیب اسٹیج کے آگے رکھے خوشنما ڈائس کے پیچھے سے بولتے ہوئے مزدور کا دکھ درد پھوٹ پھوٹ کر بہنا تھا۔ اس بڑے سے اشتہار کے نیچے اڈے پر سے گزرتی مری ہوئی سسکتی ہوئی زندگی دیکھی جو بوجھ اٹھائے اس دن کی روزی کما رہی تھی۔ بے ساختہ ایک قہقہہ اردگرد کے بے ہنگم شور میں گم ہو گیا۔ کس نے سنا ہو گا؟ کس کے اوپر تھا؟ کس کو پتہ۔
ہزارہ آیا۔ ویسا ہی رش جیسا عام دنوں میں ہوتا ہے۔ دوڑ بھاگ میں مصروف چِلاتے لوگ، بے ہنگم ٹریفک میں پھنسی گاڑیاں، رنگین شیشوں کی عمارتیں جن میں سبز اور نیلے شیشوں کا استعمال جا بجا کیا گیا ہے۔ آبادی سے آگے نکلا تو گندم کی فصلیں جا بجا نظر آنا شروع ہوئیں۔ ہزارہ میں گندم دیکھ کر دل شاد ہو گیا۔ کھڑی ہوئی لہلہاتی ہوئی فصلیں۔ بھرے ہوئے خوشے۔ ایسی فصل جس کو دیکھ کر الہڑ دوشیزہ کی یاد آ جائے۔ یہاں گندم وافر لگی تھی بلکہ جس کسی کو ہاتھ بھر جگہ بھی میسر آئی، اس نے وہیں گندم کاشت کر دی۔ دو دکانوں کے بیچ میں چھوٹی سی جگہ پر لگی گندم، احاطوں میں گندم، نالے کے کناروں پر گندم، غضب خدا کا کہ قبرستان کے چاروں اطراف گندم اور بیچ میں قبریں۔ اتنی وافر گندم اور ایسی شاداب فصل دیکھ کر مجھے لگنے لگا جیسے لوگوں کے سر پر بھی بالوں کی جگہ گندم ہی لگی ہو۔ ایک مسکراہٹ بنام ہزارہ۔
گاڑی چکراتے ہوئے پہاڑوں پر دوڑتی رہی۔ آرمی برن ہال کالج گزرا، کاکول اکیڈمی گزری، مانسہرہ چھوٹا، نیلی چھتوں کا شہر بالاکوٹ گزرا۔ کاغان روڈ پر دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پارس آیا۔ وہیں ایک سنگِ مرمر کی تختی پر ایک عجیب و غریب تحریر کندہ پڑھی۔ صاحب قبر کی تعریف میں قبر کا کتبہ تھا "سڑک پر ڈھول بجاتے ہوئے ایکسیڈنٹ میں شہید ہو گئے۔" آنکھیں مل کر دوبارہ پڑھا مگر تحریر کے الفاظ بجائے تبدیل ہونے کے مزید واضح ہو گئے۔ ہنس ہنس کر حال برا ہونے لگا۔ دریائے کنہار مجھے الٹا بہتا محسوس ہونے لگا۔ بالاکوٹ سے ناران کی طرف۔
بالاکوٹ کہیں نیچے رہ گیا۔ گاڑی بل کھاتی سڑک پر بلند ہوتی گئی۔ شوگراں کا اسٹاپ آیا تو ڈرائیور نے چائے کے لیے بریک لگا لی۔ بوسیدہ سے ہوٹل کے باہر سورج مکھی کے دو پھول گملے میں کھِلے تھے۔ مجھے یاد آنے لگا یہیں سے کئی بار میں شوگراں اور اس سے اوپر سری پائے کے مقام تک گیا ہوں۔ شوگراں تو سیاحتی سرگرمیوں کا ایسا مرکز بنا کہ ہوٹلوں کے رش کی وجہ سے اس کی خوبصورتی وقت کے ساتھ مانند پڑتی گئی البتہ ہندوکش کے پہاڑوں کی ٹاپ پر کھلا ہوا سرسبز پائے کا وسیع اور قدرے ہموار میدان اپنے اندر سیاحوں کو کھینچنے کی زبردست کشش رکھتا ہے۔
اکثر اوقات دھند اور بادلوں میں گھِرا یہ مقام مجھے ساری دنیا سے کٹا ہوا الگ تھلگ ایسا مقام لگتا ہے جہاں بیٹھ کر قدرت کی آنکھ مچولی کا نظارہ سکون سے کیا جا سکتا ہو۔ جگہ جگہ بنے پانی بھرے چھوٹے چھوٹے گڑھے، جا بجا پھرتے گھڑ سوار، ہر قدم کھِلتے جنگلی چھوٹے پیلے پھول، عقب میں مکڑا پِیک کی سرسبز چوٹی مل ملا کر پائے کے حسن کو دوام بخشتے ہیں۔
سفر شروع ہوا۔ کاغان چپ چاپ گزر گیا۔ وادی کاغان کا نام کاغان نامی قصبے سے پڑا۔ دریائے کنہار اس وادی کے قلب میں بہتا ہے۔ یہ وادی 2134 میٹر سے درۂ بابوسر تک سطح سمندر سے 4173 میٹر تک بلند ہے اور 155 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ علاقہ جنگلات اور چراگاہوں سے اٹا ہوا ہے اور خوبصورت نظارے اس کو زمین پر جنت بناتے ہیں۔ یہاں 17 ہزار فٹ تک بلند چوٹیاں بھی واقع ہیں۔ جن میں مکڑا چوٹی اور ملکہ پربت شہرت کی حامل ہیں۔
گاڑی نے ناران کا پل عبور کیا تو سامنے ویسا ہی منظر کھلا جیسا کسی بھی پہاڑی تفریحی مقام کا ہو سکتا ہے۔ شام پھیلنے کے ساتھ ناران کی بتیاں جگمگا رہی تھیں۔ بازار میں میری توقع سے کہیں زیادہ رش تھا۔ ناران ویسا ہی تھا جیسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مجھے یہ اپنے ہجوم کی وجہ سے کبھی پسند نہیں رہا۔ جابجا دریا کے ساتھ ساتھ گند، سجی ہوئی دکانیں، فضول کی بحثیں، بے ہنگم شور، اونچے قہقہے، فیشن شو یا لائف اسٹائل کی نمائش، میک اوور، شوخی، کھوکھلا پن، مہنگے ہوٹلز۔ ناران میں جو ہوٹلز کھلے تھے وہ سب رش کی وجہ سے بک تھے۔ سڑک پر جینز پہنے بال کھولے ایک دبلی سی لڑکی میرے آگے آگے کیٹ واک کے انداز میں چلی جا رہی تھی۔ میں نے اسے کراس کیا تو معلوم ہوا کہ لڑکا ہے اور محض فیشن کے لیے بال لمبے اور کھلے رکھ چھوڑے ہیں۔ ناران کی پہلی خوشی اور پہلی ہنسی یہی تھی۔
میں کہیں گمنام رات بسر کرنا چاہتا تھا۔ میری منزل ناران نہیں بلکہ برف میں ڈھکی جھیل سیف الملوک تھی کہ جس کی برف ابھی تک نہیں پگھلی تھی، اور آدم زاد بڑی محنت اور تپسیا کے بعد ہی پہنچ سکتا تھا، برف سے نبرد آزما ہو کر اپنی قوتِ ارادی کے طفیل۔ جیپ روڈ تو برف کی وجہ سے بند تھا۔ کٹھنائیوں اور تپسیا کے بعد ہی دیوی درشن دیتی تھی اور ایسا درشن کہ جس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کرنے لگے۔ میں ناران میں کہیں گمنام رات بسر کرنا چاہتا تھا لیکن رش کی وجہ سے مجھے اپنا تعارف دینا پڑ گیا، اپنی فنکاری کا شو پیس دکھانا پڑ گیا، اور قومی اثاثوں کا واسطہ دینا پڑ گیا، پھر کہیں جا کر رات بسر کرنے کا سبب بنا۔
رات کو ایک بوسیدہ سے کمرے میں پڑے مجھے پچھلے سفروں کے خیال آتے رہے۔ موسمِ گرما میں یہ ساری وادی سرسبز و شاداب نظر آتی ہے۔ ناران بازار سے گزر کر تھوڑا آگے ایک راستہ بلندی پر واقع دیدہ ور مقام لالہ زار کی طرف مڑ جاتا ہے۔ یہ تنگ اور خطرناک جیپ ٹریک ہے مگر منزل پر پہنچ کر مسافر کی خوشی کا ٹھکانہ بھی نہیں رہتا۔ چیڑ کے لمبے درختوں میں گھِرا قدرے ہموار میدان سا جس میں سرسبز فصلیں کھڑی ہوتی ہیں۔ یہاں آلو اور لوبیا کی فصل زیادہ کاشت ہوتی ہے۔
لالہ زار کو مڑنے کے بجائے سیدھا چلتے جائیں تو جل کھڈ راہ میں پڑتا ہے جہاں دریائے کنہار کھلا اور پھیلا ہوا ملتا ہے۔ آگے بیسل واقع ہے۔ بیسل سے ہی پہاڑوں میں گھری اور جنگلی پھولوں سے ڈھکی دودی پت سر جھیل کو پیدل کا راستہ نکلتا ہے۔ ایک دن کا مشقت بھرا ٹریک کر کے مسافر جھیل پر پہنچ سکتا ہے۔ دودی پت سر بالکل الگ تھلگ اور خالص قدرتی حالت میں سرسبز پہاڑوں کی بیچ شفاف سبز پانیوں کی سحر انگیز جھیل ہے۔ سارا ٹریک سرسبز اور جنگلی پھولوں، اور بہتے نالوں سے بھرا ہوا ہے۔
بیسل سے آگے چلیں تو لولوسر کی جھیل مسافر کا استقبال کرتی ہے۔ ڈھائی کلومیٹر لمبی اس کالے پانیوں کی جھیل میں عجب طرح کی وحشت ہے کہ دن کی روشنی میں بھی اس کو دیکھ کر دل گھبرانے لگتا ہے۔ اس وحشت بھری جھیل کے ساتھ ساتھ سڑک پر سفر کرتے درہ بابوسر آ جاتا ہے۔ بابوسر کے مقام سے نیچے دیکھیں تو گیتی داس کا ہموار میدان اور پولو گراؤنڈ نظر آتے ہیں۔ یہاں سال میں ایک بار پولو کا مقابلہ بھی منعقد ہوتا ہے جس میں چلاس کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ ان پہاڑی لوگوں کی دشوار زندگی کی واحد خوشی پولو کا کھیل ہے جس کو بچے سے بزرگ تک سب انہماک اور معصومیت سے دیکھتے ہیں۔ بابوسر کو پار کر کے سڑک ٹھک نالے سے ہوتی ہوئے چلاس اور قراقرم ہائی وے کو جا ملتی ہے۔
بیتے دنوں اور بِسرے سفروں کی یادوں میں رات گزار کر علی الصبح میں نے چھڑی پکڑی اور جھیل سیف الملوک کی طرف چل دیا۔ راستے میں ناران بازار سے ایک کلومیٹر دور ایک چھوٹی سی بستی سے پورٹر لیا جو میرا گائیڈ بھی تھا۔ اس سے آگے برف کا راج تھا۔ میرا گائیڈ ہکلا تھا۔ پہلی بار جب میں نے اسے پوچھا کہ کتنے پیسے لو گے تو بولا "جج ج ج ج جتنے مم مرضی ددددے دینا صص صاحب"۔ بس اس پر اسی لمحے پیار آ گیا اور میں نے اسے ساتھ لے لیا۔ پھر دونوں برف کے جہان میں گم ہوتے گئے۔ پہاڑوں پر چڑھائی چڑھتے گئے۔ برف تھی ہر سو برف۔ چڑھائی تھی تیکھی چڑھائی۔ صبح کی ہلکی روشنی برف پر پڑتی تو چمک آنکھوں کو اندھا کرنے لگتی۔ رکتے، سانس بحال کرتے، چلتے، گرتے، اٹھتے ٹریک ہوتا رہا۔
جھیل تک کا یہ ٹریک اتنا عمودی اور مشکل ہو گا، سوچا نہ تھا۔ چڑھائی تھی کہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ میرا گائیڈ بار بار بولنے کی کوشش کرتا "چچ چ چ چ چ چ چلیں صص صاحب۔" پھر مجھے عادت پڑ گئی کہ اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی میں بول دیتا "ہاں چلو، چلتے ہیں"۔ اس برف کے جہان میں، سفیدی میں، تنہائی میں، صرف دو ہی رنگ تھے۔ ایک میری جِلد کا اور ایک میرے گائیڈ کی جِلد کا کیونکہ لباس بھی دونوں کا سفید ہی تھا۔
چار گھنٹوں کی مشقت کے بعد جھیل نے اپنی جھلک دکھائی اور یوں دکھائی کہ میں ساکت ہو کر رہ گیا۔ ہر سو سفیدی تھی۔ جھیل نہ تھی بلکہ برف کا میدان تھا۔ جھیل تو کہیں برفوں کی تہہ کے نیچے تھی، پردہ کیے ہوئے۔ عقب میں اور اردگرد جو پہاڑ تھے وہ بھی سفید چادر اوڑھے کھڑے تھے۔ ایک ہوٹل کی سرخ چھت سارے منظر میں واحد رنگ تھا، باقی سارا جہان برف کے نیچے تھا۔
سیف الملوک کے برفانی میدان کو دیکھتے دیکھتے اس کے کناروں پر پہنچا اور وہیں اپنا کیمپ لگا کر لیٹ گیا۔ تھکاوٹ سے برا حال تھا اور دھوپ کی شدت ایسی تھی کہ برف سے بھی تپش نکلتی جو جِلد کو جلانے لگتی۔ سانس بھی کم کم آتا تھا۔ کیمپ میں لیٹ کر وقت گزارتا رہا کہ مجھے جھیل کو شام کی ہلکی روشنی میں دیکھنا تھا اور ہو سکے تو پورے چاند کی رات میں ایک جھلک دیکھنا چاہتا تھا۔ گائیڈ ہر گھنٹے بعد آ کر بولنے کی کوشش کرتا "چچ چچ چ چ چ چ چلیں صاحب" تو میں جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی آنکھیں موندے کیمپ میں پڑے کہہ دیتا ہاں چلتے ہیں کچھ دیر بعد۔
سارا دن کیمپ میں لیٹا اسی جھیل کی یادوں میں گزار دیا کہ جب گرما میں آنا ہوتا تو کیسی رونق اس کے کناروں پر ہوتی، لوگوں کی چہل پہل، ٹھیلے والوں کی آوازیں، کشتی بانوں کی تانیں، بدرالجمال کی کہانی سنانے والوں کی سرگوشیاں۔ جھیل کے کناروں پر موجود گندگی، جوس کے خالی ڈبے، کافی اور چائے کے خالی کپ، آئس کریموں کے ریپرز، بچوں کے پیمپرز۔ اب سب گندگی برف کی تہہ کے نیچے تھی۔ جھیل سیف الملوک کے ساتھ لوگوں نے ایسا سلوک کیا ہے کہ کوئی دشمن سے بھی نہ کرے۔ گندگی کی وجہ سے اس جھیل کی رفتہ رفتہ موت واقع ہو رہی ہے اور اس کا حسن گہنا رہا ہے۔
گائیڈ بار بار آ کر کہتا رہا "چچ چ چ چ" اور میرا جواب فوراً یہی ہوتا "ہاں کچھ دیر بعد"، تو وہ پھر سے معصوم سی شکل بنا کر بیٹھ جاتا۔ ایک بار کیمپ سے نکل کر سارے منظر کا پینوراما لیا تو ہکلا کر بولا کہ "فلم بناتے ہو صاحب؟"۔ میں نے جواب میں نہ جانے کیوں اتنی تفصیل میں بتا دیا کہ نہیں اسے پینوراما کہتے ہیں اور وہ سن کر پھر سے چپ کر کے دیکھنے لگا۔
شام ڈھلنے لگی اور میرے ہمسفر کی چچ چچ چچ چ چ چ چ تیز ہونے لگی۔ ایک بار مجھے لگا کہ اب کی بار اس کا جملہ پورا تو ہونے دوں، کہیں یہ صبح سے اب تک تنگ آ کر مجھے "چ" سے کچھ اور تو نہیں کہنا چاہ رہا؟ جانے "چ" سے شروع ہونے والے کتنے ہی معیوب لفظ میرے ذہن سے گزرنے لگے، چنانچہ دو منٹ صبر کر کے اس کی پوری چچ چ سنی تو وہی تھی کہ "چلیں صاحب"۔ مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ میں کھل کر ہنسنے لگا تو وہ بھی ہنس دیا۔ ہنسی رکی تو میں نے اسے کہا کہ تم نے اب سے "چ" کے ساتھ شروع ہونے والا کوئی لفظ نہیں بولنا بس۔ اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
شام ڈھلی اور چاند نکلا۔ جھیل مکمل منجمد تھی۔ سیف الملوک پر چاند ٹِکا تھا۔ پورا چاند۔ چاندنی نے برف پوش پہاڑوں اور جھیل جو کہ ایک کھلا برفانی میدان ہی لگتی تھی، کو ایسے اجال دیا تھا کہ منظر کی چکاچوند آنکھوں کو خیره کرتی تھی۔ میرے پیروں کے نیچے سے لے کر چاند تک بس سفیدی ہی سفیدی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ جھیل اور اردگرد کے پہاڑوں نے ایک ہی سفید چادر اوڑھ رکھی ہو۔ ایک جادوئی داستان۔ بدر الجمال کی کتھا میری آنکھوں کے سامنے جاری تھی مگر پری ناپید تھی صرف دیو تھا۔ دیو بھی حیرت زده۔ گنگ۔ خاموش۔ چٹکی ہوئی چاندنی میں ستارے دھیمے دھیمے ٹمٹما رہے تھے۔
احمد مشتاق کا شعر ذہن میں مسلسل گونج رہا تھا:
چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شبِ غم کے مقدر نکلے
سیف الملوک کی برفانی اور اداس تنہائی میں دو آدم زادوں کے علاوه کوئی نہ تھا۔ بس اسی منظر کی چاه میں چار گھنٹے برف سے نبرد آزما ہوتے اور چڑھائی چڑھتے، رکتے، گرتے، پڑتے، سارا سفر کیا تھا جو اب آنکھوں کے سامنے تھا۔ ناران بازار سے جھیل تک کا ٹریک اتنا چڑھائی والا ہوگا سوچا نہ تھا مگر اسی منظر کی دھن مجھے آگے بڑھنے پر اکساتی رہی تھی۔ میں منجمد جھیل دیکھ کر ساکت رہ گیا.
اور پھر منظر ناقابل برداشت ہوتا گیا۔ دیوانگی بڑھنے لگی اور سردی بھی۔ غرق ہونے یا ڈوب مرنے کو کہیں پانی بھی نہیں تھا۔ میرے گائیڈ کی چ چ چچ چچ کی فریکوئنسی بھی تیز ہو چکی تھی۔ اب کی بار وہ "چ" کے ساتھ چلیں نہیں بلکہ "چیتا" کہتا رہا تھا۔ اسے ڈر تھا یا مجھے ڈرا کر واپس لے جانا چاہتا تھا کہ یہاں چیتا بھی آ سکتا ہے اور میں کسی بھی ڈر کے زیرِ اثر نہیں آ رہا تھا۔ میں اپنے آپ میں نہیں تھا۔ شعور سے مبرا ہو کر میرا جسم کہیں اور تھا اور میں کہیں اور، جہاں ڈر، وہم، اور شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی، مگر پھر دھیان ٹوٹا تو میں نے اسے کہا "چلو اب چلیں، سردی بڑھنے لگی ہے۔" اس کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔ چلنے لگے تو شرارتاً رک کر بولا "ر ر ر ر ر رکتے ہیں نن نن نن ناں صاحب"۔ اور ایسا کہتے ہی اس کا قہقہہ خاموش فضا کو تار تار کرتا ملکہ پربت کی چوٹی کے اوپر سے گزر گیا۔ دیر تک ہنسی تھی جو ٹھہر گئی تھی، وادی میں گونجتی تھی۔
واپسی کا سفر اختیار کیا تو ایک مصیبت آن کھڑی ہوئی۔ چڑھائی تو جیسے تیسے کر کے چڑھ آیا تھا، اب ان عمودی پہاڑی ڈھلوانوں پر انسان اترے کیسے؟ پاؤں برف پر پھسلتے تھے۔ چاندنی رات میں ہر جگہ دن کی مانند روشن تو تھی مگر ڈر اب سرایت کرنے لگا، اور مجھے اب سمجھ آیا کہ سیانے ٹھیک کہتے تھے کہ چڑھنا مشکل کام نہیں چڑھ کر اترنا مشکل ہوتا ہے!
جون ایلیا کا شعر یاد آنے لگا
میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اتارے کون اب دیوار پر سے
مجھے بھی ان برفانی دیواروں سے اب کون اتارتا۔ ہکلا تو مقامی تھا، وہ پھسلتا اور برف پر سلائیڈ بناتا جاتا۔ پھر نیچے پہنچ کر مجھے اشارے کرنے لگتا کہ میں بھی سلائیڈ لیتا نیچے آؤں۔ پہلے پہل تو میں شرمایا بھی، گھبرایا بھی، لیکن اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا، اور ویسے بھی آس پاس کون دیکھنے والا تھا کہ فنکار صاحب بچوں کی طرح کھلے میں برف پر سلائیڈ لے رہے ہیں، چنانچہ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
ہکلا میری سست روی سے غصے میں لگ رہا تھا، اس کے چہرے کے تاثرات بتاتے تھے کہ اسے مجھ پر غصہ ہے کہ میں سلائیڈ بھی سوچ سمجھ کر وقت لگا کر لیتا ہوں۔ ایک بار اس نے اونچی آواز میں "پین پین پین پین" کہنا شروع کر دیا تو میں ڈر کر رک گیا۔ مجھے لگا جیسے مجھے یہ اب تنگ آ کر گالی بکنے لگا ہے۔ میں انہی قدموں پر جما حیرت سے اسے دیکھتا اور سنتا رہا۔ ایک منٹ کے "پین پین پین" کے بعد اچانک پورا جملہ بول پڑا "پینوراما نہیں لو گے اس جگہ کا صاحب" اور ساتھ مسکرانے لگا۔ میری جان میں جان آئی اور ہنسی پھر سے گونجنے لگی کہ میں بھی کیا سوچنے لگ پڑا تھا، اور ہکلے کو پینوراما کا بتایا ہی کیوں، یا پھر "چ" کہنے سے منع کیا تھا تو "پین" کہنے سے بھی ٹوک دیتا۔
دو گھنٹے سلائیڈ لیتے لیتے سفر طے کیا۔ واپس پہنچنے تک میں آگے پیچھے، اوپر نیچے ہر جانب سے سن ہو چکا تھا۔ برف پتہ نہیں کہاں کہاں گھس چکی تھی۔ مجھے اپنے اعضاء کا احساس نہیں ہو پا رہا تھا، مگر قدم اٹھتے جا رہے تھے، سو اس وقت یہی غنیمت تھا۔ اس وقت میرا دل کرنے لگا کہ ناران پولیس تھانے میں جا کر خود کو ایس ایچ او کے حوالے کر دوں کہ وہ مجھ سے مجرموں والا سلوک اختیار کرتے ہوئے چمڑے کے چھتر سے میری کٹائی کر دے تا کہ کچھ احساس تو ہو کہ میرے بدن کا ہر جزو ٹھیک ٹھاک ہے۔ یقین مانیں نیچے اتر کر جب میں سستانے کو ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھا تو مجھے لگا جیسے میں بیٹھا ہی نہیں، بلکہ ہوا میں معلق ہوں۔ سب کچھ سن پڑ چکا تھا۔ اور پھر اپنی حالت پر قہقہہ لگانے لگا۔ آواز دور تک گونجتی گئی۔
بستی میں پہنچنے تک رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ ہکلے کی اماں پریشان تھیں اور دروازے پر لالٹین لے کر کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ہکلا ماں سے مل کر ایسا ہو گیا جیسے دودھ پیتا معصوم بچہ ہو۔ اس کی ماں کی پریشانی مجھ سے دیکھی نہ جا سکی۔ وہ اسے گلے لگا کر چومنے لگی تو میری آنکھوں میں نمی در آئی۔ وہاں سے رخصت ہو کر نکلا تو اکیلا رہ گیا تھا۔ ہونٹ دانتوں میں دبائے چلنے لگا۔ ہکلے کی ماں کو دیکھ کر مجھے اپنی مرحومہ ماں کی یاد ستانے لگی۔
جھیل سیف الملوک سے بہہ کر آتے نالے کے ساتھ ساتھ چلتے ایک سرد آہ نکلی اور پانی کے کناروں پر بہتی نمزدہ ہَوا میں جذب ہو گئی۔ آنکھیں جلنے لگی تھیں۔ برف کے سفر اور تھکن کا اثر ہو گا شاید۔ واپسی کے سفر کی اداسی شاملِ حال بھی ہونے لگی۔ گزر چکے اپنوں کی یاد بھی ستانے لگی تھی۔ ایسا لگنے لگا جیسے صبح سے اب تک صرف ایک ہی کیفیت رہی ہو۔ اداسی۔
ناران بازار آنے لگا تو ایک پتھر پر تحریکِ انصاف کے کسی متوالے نے لکھا تھا
آگے بڑھ کر عمران کو چھو لو
پاپی چو لو، پاپی چو لو۔
آنکھوں میں نمی کے ساتھ ہنسی لبوں پر آ ہی گئی۔ اس متوالے کے نام ایک مسکراہٹ۔ ایک سیاسی پارٹی سے دوسری سیاسی پارٹی تک کا سفر تمام ہو رہا تھا۔
میں جب بھی دور دراز کے سفر سے تھکا اپنے بستر پر پڑا اپنے بدن کو سہلاتا ہوں کہ جس میں جگہ جگہ سے ٹیسیں اٹھ رہی ہوتیں ہیں، اور ٹانگوں کے پٹھے کھنچے جا چکے ہوتے ہیں، تو جھیل سیف الملوک کا چاندنی نہایا منظر یاد کر کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلنے لگتی ہے۔ ساری تکلیف بھول جاتی ہے۔ اگلے کئی ماه تک یہ نظارہ میرے ذہن کے پردے پر ٹنگا رہے گا کسی دیوار پر ٹنگی تصویر کی مانند، اور اسے دیکھ دیکھ کر وقت گزرتا رہے گا۔ اور ایک دن پھر کسی اور وادی کا بلاوا میرے نام آ جائے گا۔
یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سفرنامے کی سیریز میں دسواں مضمون ہے۔ گذشتہ حصے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے نیٹ ورک انجینیئر ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (97) بند ہیں