گندم کا نیا بیج خشک سالی اور بیماریوں کا حل؟
دریائے سندھ کے آس پاس کے علاقوں میں پانی کی کمی جیسے مسائل سے نمٹنے اور غذائی تحفظ کو بڑھانے کے لیے پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے حال ہی میں گندم کی ایسی نئی اقسام تیار کی ہیں جو کم پانی استعمال کرتی ہیں اور مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی رکھتی ہیں۔
دریائے سندھ کے آس پاس کے زیرِ کاشت علاقوں میں زیر زمین پانی کی کمی کی خبریں آنے کے بعد گندم کی چار نئی اقسام تیار کی گئی ہیں تاکہ پانی کی کمی کے باوجود بھی کسان فصلوں کی اچھی پیداوار حاصل کر سکیں۔
پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کی تشخیصی کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں بڑھتی ہوئی غذائی طلب کو پورا کرنے اور گندم میں غذائیت کے عنصر کو بڑھانے کے لیے نئے بیج کی اقسام میں زنک کی مقدار بھی بڑھائی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گندم میں زنک کی اضافی مقدار بچوں اور حاملہ خواتین میں غذائی قلت کو کم کرنے میں بھی مدد دے گی، جبکہ کم پانی استعمال کرنے والی گندم کی قسم بارانی اور نیم بارانی علاقوں کے کسانوں کے لیے مددگار ثابت ہوگی کیونکہ اس سے زیر زمین پانی اور نہروں سے آبپاشی کے لیے آنے والے پانی پر دباؤ بڑی حد تک کم ہوگا۔
مسعود کا کہنا ہے کہ گندم کی نئی اقسام رسٹ کی مختلف بیماریوں کے خلاف بھی قوت مدافعت رکھتی ہیں۔ انڈس بیسن میں رسٹ ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جس سے گندم کی پیداوار بڑی حد تک کم ہو جاتی ہے۔
واپڈا کے ایک ذیلی ادارے "تحقیقاتی ادارہ برائے سیم و تھور" کے مطابق صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں دریائے سندھ کے زیر کاشت علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح ہر سال 16 سے 55 سینٹی میٹر کم ہو رہی ہے۔ اس تحقیقاتی مقالے کا مزید کہنا ہے کہ بڑے ذخائر میں پانی کی کمی کی وجہ سے ربیع کی فصلوں جن میں گندم، سرسوں، جوار اور باجرہ شامل ہیں، ان کی پیداوار میں 30 فیصد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔
پاکستان واٹر پارٹنرشپ کے کنٹری ڈائریکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ نئے بیج کی اقسام کے ساتھ ساتھ حکومت کسانوں کو مختلف النوع فصلیں کاشت کرنے کی بھی ترغیب دے، اور غذائی تحفظ کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ کسانوں کو مختلف فصلیں جیسا کہ باجرہ، مکئی اور جوار، کاشت کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
پاکستان میں 90 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے، اور اگر اس مقدار کو کم نہ کیا گیا تو اگلے 5 سے 10 سالوں میں انڈس بیسن کے اردگرد کسان زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلیں جیسے گنا، چاول اور کپاس، کاشت نہیں کر سکیں گے۔ امیر کا کہنا ہے کہ انڈس بیسن کے کچھ علاقوں میں پانی کی کمی اور ژالہ باری کی وجہ سے اس سال گندم کی پیداوار 15 لاکھ ٹن کم ہوئی ہے اور اس کم پیداوار سے کسانوں کی آمدن براہ راست متاثر ہوئی ہے۔
امیر کا کہنا ہے کہ بیج کی صرف نئی اقسام تیار کرنا کافی نہیں ہے بلکہ پاکستان کو پانی کے نئے ذخائر بھی تعمیر کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ورنہ پانی کی کمی کی وجہ سے غذائی قلت جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
ادارہ برائے ماحول دوست ترقی (Sustainable Development Policy Institute) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً آدھی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، اس کے مطابق پنجاب، سندھ، اور خیبر پختونخواہ کے کئی اضلاع میں غذائی قلت تیزی سے بڑھ رہی ہے، جبکہ بلوچستان، جو ملک کا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے، کے 90 فیصد اضلاع غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یہ رپورٹ حکومت کوتجویز دیتی ہے کہ وہ بارش کے پانی کو جمع کرنے اور زیر زمین پانی کو ریچارج کرنے کے لیے نئے چھوٹے ڈیم تعمیر کرے، اس کے ساتھ ساتھ رپورٹ حکومت کو یہ بھی تجویزدیتی ہے کہ آبپاشی کے طریقہ کار کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دی جائے کیونکہ 40 فیصد زرعی پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
قومی زرعی تحقیقاتی سینٹر کے ایک سابق زرعی سائنسدان ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا ہے کہ نئے بیج اکثر چھوٹے کسانوں تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ پاکستان میں بیجوں کی تقسیم کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے اور بیج کی نئی اقسام ہمیشہ بڑے اور بااثر جاگیردار ہی لے اڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غذائی قلت اور پانی کی کمی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے حکومت یقینی بنائے کہ بیج کی نئی اقسام چھوٹے کسانوں تک بروقت پہنچیں۔
احمد نے حکومت کو یہ تجویز بھی دی ہے کہ زیر کاشت علاقوں میں پانی کی سطح بہتر بنانے کے لیے بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ پر دوبارہ بات کرے تاکہ انڈس بیسن میں پانی کے ضروری بہاؤ کو برقرار رکھا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کے مطابق پاکستان دریائے ستلج اور بیاس سے پانی حاصل نہیں کر سکتا اور اس کی وجہ سے پنجاب کے انڈس بیسن میں پانی کا بہاؤ بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
پانی کی تقسیم کے لیے سندھ طاس معاہدہ 1960 میں طے پایا تھا اور اس کے مطابق دریائے سندھ کو پاکستان اور بھارت میں برابر تقسیم کر دیا گیا ہے۔
احمد نے تجویز دی کہ انڈس بیسن میں زیرِ زمین پانی کی سطح کو ریچارج کرنے میں اگر دونوں ملک ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں تو اس سے دونوں کو فائدہ ہوگا، اور پورے بیسن میں پانی کے بہاؤ کو برقرار رکھنے اور غذائی تحفظ کو بہتر بنانے میں پاکستان اور بھارت دونوں کو زرعی تحقیق بھی ایک دوسرے کو دینی چاہیے۔
بشکریہ دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ
تبصرے (2) بند ہیں