عید کارڈز کی دم توڑ چکی روایت
ہمارے معاشرے میں عید الفطر کے کئی رنگ ہیں۔ جیسے جیسے ماہِ رمضان اپنے اختتام کو پہنچتا ہے، تو ملک بھر کے بازار عید کی اشیاء جیسے کپڑوں، چوڑیاں، مہندی، اور کھانے پینے کی چیزوں سے بھر جاتے ہیں۔ یہ سب چیزیں اس تہوار کا خاصہ ہیں اور ان کا رواج کبھی ماند پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔
لیکن ایک رواج ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے دم توڑتا جا رہا ہے، اور وہ ہے عید کارڈ بھیجنا۔
کبھی زیادہ تر گھرانوں میں عید کارڈ منتخب کرنے، خریدنے، لکھنے، اور دوستوں اور رشتے داروں کو بھیجنے پر خاصہ وقت لگانا ایک معمول ہوا کرتا تھا لیکن اب شاذ و نادر ہی ایسا دیکھنے میں آتا ہے۔
عید پر مبارکباد دینے کا رواج اب بھی قائم ہے، لیکن ذریعہ تبدیل ہو چکا ہے۔ نہ تو اب لوگوں کے پاس عید کارڈز کے اسٹالز پر جانے کا وقت ہے، اور نہ ہی لوگ انہیں پوسٹ کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عید کے دن موبائل فون نیٹ ورکس پر اضافی بوجھ پڑتا ہے کیونکہ سب لوگ عید کی مبارکبادیں ایس ایم ایس کے ذریعے بھیجتے ہیں۔
موبائل فون اور سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط نے اپنی افادیت کھو دی ہے، تو عید کارڈز کے رواج کی یاد تازہ کرنا اچھا رہے گا، خاص طور پر اس کے اولین دنوں سے، جب یہ رواج ہمارے خطے میں نیا نیا فروغ پا رہا تھا۔
اس مقصد کے لیے ہم نے دہلی میں رہنے والے فلمساز، مصنف، اور آرکائیوسٹ یوسف سعید، امریکی ریاست ڈلاس کے رہائشی انجینیئر، مصنف، اور پرانی چیزیں جمع کرنے کے شوقین علی عدنان، اور پرانے پوسٹ کارڈز اور تصاویر کی ویب سائٹ imagesofasia.com کے عمر خان کی کلیکشن سے استفادہ کیا ہے۔
قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ برِصغیر پاک و ہند میں عید کارڈ بھیجنے کی روایت کا آغاز انیسویں صدی کے آخری سالوں میں ہوا۔ ویسے تو کئی دولت مند مسلمان گھرانے صدیوں سے سجاوٹ والے خطاطی شدہ پیغامات بھیجا کرتے تھے، لیکن عید کارڈز کی وسیع پیمانے پر دستیابی اور ان کا ڈاک کے ذریعے بھیجا جانا انیسویں صدی کے اواخر میں ہی شروع ہوا۔
ہمیں لگتا ہے کہ اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں: پہلی ریلوے کا پھیلاؤ، اور دوسری پرنٹنگ کی نئی سہولیات کا متعارف ہونا۔
1853 میں جب ہندوستان میں ریلوے متعارف کروائی گئی تھی، تو اس کا جال صرف 34 کلومیٹر پر محیط تھا، جو بڑھتے بڑھتے 1880 میں 25,000 کلومیٹر تک پھیل گیا تھا۔ ریلوے کے پھیلاؤ کی وجہ سے لوگ اپنے کاروبار اور روزگار کے سلسلے میں گھروں سے زیادہ دور جانے لگے۔ اس سے ڈاک کا نظام بھی بہتر ہوا، جبکہ پرنٹنگ کی نئی سہولیات نے بھی عید کارڈز کا معیار اور دستیابی بڑھائی۔
اوپر دی گئی مثالوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ابتدائی عید کارڈ بنیادی طور پر یورپ کے کرسمس کارڈز تھے، جنہیں پرنٹنگ یا ہینڈ رائیٹنگ میں مطلوبہ تبدیلیوں کے بعد عید کارڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
ہندوستان کی مخصوص تصاویر والے کارڈ بیسویں صدی کے اوائل میں پرنٹ ہونا شروع ہوئے۔ لاہور میں حافظ قمرالدین اینڈ سنز، حافظ غلام محمد اینڈ سنز اور محمد حسین اینڈ برادرز، دہلی میں محبوب المطابع، اور بمبئی میں ایسٹرن کمرشل ایجنسی شبر ٹی کارپوریشن اور بولٹن فائن آرٹ لیتھوگرافر وہ پہلی کمپنیاں تھیں جنہوں نے ہندوستان میں عید کارڈز کی چھپائی کے کاروبار میں قدم رکھا۔ لیکن لندن کی کمپنی رافیل ٹک کے چھاپے گئے ہندوستانی مسلم طرزِ تعمیر کی تصاویر والے پوسٹ کارڈ بھی استعمال کیے جاتے تھے۔
ان قدیم عید کارڈز پر گفتگو اس مخصوص طرز کی اردو شاعری کے بغیر مکمل نہیں ہوگی، جسے خاص طور پر عید کے موقع کے لیے تحریر کیا جاتا تھا۔
میرے یاروں کو مبارک عید ہو
غمگساروں کو مبارک عید ہو
عاشق و معشوق، رند و پارسا
آج چاروں کو مبارک عید ہو
ہماری عید تو جب ہے کہ دیکھیں تیرے آبرو کو
ہلال عید کو اے مہ جبیں دیکھا تو کیا دیکھا
سب لوگ تو دیکھتے ہیں کھڑے چاند عید کا
مشتاق ہوں میں رشک قمر تیری دید کا
یہ شام عید ہے اے میرے ناقہ محمل
چمک کے چل کہ دیار حبیب تک پہنچیں
عید کارڈز کا رواج گذشتہ صدی کے اختتام تک اپنے زوروں پر رہا، اور موبائل اور انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ دم توڑتا گیا۔ ظاہر ہے ٹیکنولاجی نے لوگوں کا اپنے پیاروں سے جذبات کا اظہار کرنا کم خرچ، آسان، اور پرکشش بھی بنا دیا ہے۔
لیکن پھر بھی ہم میں سے وہ لوگ جنہوں نے عید کارڈ منتخب کرنے، لکھنے، بھیجنے، اور وصول کرنے کا لطف لیا ہے، وہ چند بٹن دبانے اور چند کلکس میں وہ لطف کبھی نہیں پا سکتے۔
عون علی لاہور کے رہائشی فوٹو جرنلسٹ ہیں، اور خاص طور پر تاریخی اہمیت کی حامل تعمیرات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آپ ان کا کام یہاں اور فیس بک پر دیکھ سکتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (19) بند ہیں