• KHI: Fajr 5:30am Sunrise 6:48am
  • LHR: Fajr 5:06am Sunrise 6:30am
  • ISB: Fajr 5:14am Sunrise 6:40am
  • KHI: Fajr 5:30am Sunrise 6:48am
  • LHR: Fajr 5:06am Sunrise 6:30am
  • ISB: Fajr 5:14am Sunrise 6:40am
شائع July 15, 2015 اپ ڈیٹ July 8, 2016

عید کارڈز کی دم توڑ چکی روایت

عون علی

ہمارے معاشرے میں عید الفطر کے کئی رنگ ہیں۔ جیسے جیسے ماہِ رمضان اپنے اختتام کو پہنچتا ہے، تو ملک بھر کے بازار عید کی اشیاء جیسے کپڑوں، چوڑیاں، مہندی، اور کھانے پینے کی چیزوں سے بھر جاتے ہیں۔ یہ سب چیزیں اس تہوار کا خاصہ ہیں اور ان کا رواج کبھی ماند پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔

لیکن ایک رواج ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے دم توڑتا جا رہا ہے، اور وہ ہے عید کارڈ بھیجنا۔

کبھی زیادہ تر گھرانوں میں عید کارڈ منتخب کرنے، خریدنے، لکھنے، اور دوستوں اور رشتے داروں کو بھیجنے پر خاصہ وقت لگانا ایک معمول ہوا کرتا تھا لیکن اب شاذ و نادر ہی ایسا دیکھنے میں آتا ہے۔

ایسٹرن کمرشل ایجنسی بمبئی کا شائع کردہ کارڈ، جو ایک چھوٹی بہن کا بڑی بہن کے نام پیغام ہے۔
ایسٹرن کمرشل ایجنسی بمبئی کا شائع کردہ کارڈ، جو ایک چھوٹی بہن کا بڑی بہن کے نام پیغام ہے۔

بچوں کے لیے شبر ٹی کارپوریشن کا شائع کردہ عید کارڈ۔
بچوں کے لیے شبر ٹی کارپوریشن کا شائع کردہ عید کارڈ۔

بچوں کے لیے شبر ٹی کارپوریشن کا شائع کردہ عید کارڈ۔
بچوں کے لیے شبر ٹی کارپوریشن کا شائع کردہ عید کارڈ۔

عید پر مبارکباد دینے کا رواج اب بھی قائم ہے، لیکن ذریعہ تبدیل ہو چکا ہے۔ نہ تو اب لوگوں کے پاس عید کارڈز کے اسٹالز پر جانے کا وقت ہے، اور نہ ہی لوگ انہیں پوسٹ کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عید کے دن موبائل فون نیٹ ورکس پر اضافی بوجھ پڑتا ہے کیونکہ سب لوگ عید کی مبارکبادیں ایس ایم ایس کے ذریعے بھیجتے ہیں۔

موبائل فون اور سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط نے اپنی افادیت کھو دی ہے، تو عید کارڈز کے رواج کی یاد تازہ کرنا اچھا رہے گا، خاص طور پر اس کے اولین دنوں سے، جب یہ رواج ہمارے خطے میں نیا نیا فروغ پا رہا تھا۔

اس مقصد کے لیے ہم نے دہلی میں رہنے والے فلمساز، مصنف، اور آرکائیوسٹ یوسف سعید، امریکی ریاست ڈلاس کے رہائشی انجینیئر، مصنف، اور پرانی چیزیں جمع کرنے کے شوقین علی عدنان، اور پرانے پوسٹ کارڈز اور تصاویر کی ویب سائٹ imagesofasia.com کے عمر خان کی کلیکشن سے استفادہ کیا ہے۔

قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ برِصغیر پاک و ہند میں عید کارڈ بھیجنے کی روایت کا آغاز انیسویں صدی کے آخری سالوں میں ہوا۔ ویسے تو کئی دولت مند مسلمان گھرانے صدیوں سے سجاوٹ والے خطاطی شدہ پیغامات بھیجا کرتے تھے، لیکن عید کارڈز کی وسیع پیمانے پر دستیابی اور ان کا ڈاک کے ذریعے بھیجا جانا انیسویں صدی کے اواخر میں ہی شروع ہوا۔

ہمیں لگتا ہے کہ اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں: پہلی ریلوے کا پھیلاؤ، اور دوسری پرنٹنگ کی نئی سہولیات کا متعارف ہونا۔

حافظ قمرالدین اینڈ سنز، لاہور کا شائع کردہ عید کارڈ۔
حافظ قمرالدین اینڈ سنز، لاہور کا شائع کردہ عید کارڈ۔

1853 میں جب ہندوستان میں ریلوے متعارف کروائی گئی تھی، تو اس کا جال صرف 34 کلومیٹر پر محیط تھا، جو بڑھتے بڑھتے 1880 میں 25,000 کلومیٹر تک پھیل گیا تھا۔ ریلوے کے پھیلاؤ کی وجہ سے لوگ اپنے کاروبار اور روزگار کے سلسلے میں گھروں سے زیادہ دور جانے لگے۔ اس سے ڈاک کا نظام بھی بہتر ہوا، جبکہ پرنٹنگ کی نئی سہولیات نے بھی عید کارڈز کا معیار اور دستیابی بڑھائی۔

اوپر دی گئی مثالوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ابتدائی عید کارڈ بنیادی طور پر یورپ کے کرسمس کارڈز تھے، جنہیں پرنٹنگ یا ہینڈ رائیٹنگ میں مطلوبہ تبدیلیوں کے بعد عید کارڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

یورپ میں کرسمس کے لیے شائع کردہ کارڈ پر عید مبارک لکھا گیا ہے۔
یورپ میں کرسمس کے لیے شائع کردہ کارڈ پر عید مبارک لکھا گیا ہے۔

ہندوستان کی مخصوص تصاویر والے کارڈ بیسویں صدی کے اوائل میں پرنٹ ہونا شروع ہوئے۔ لاہور میں حافظ قمرالدین اینڈ سنز، حافظ غلام محمد اینڈ سنز اور محمد حسین اینڈ برادرز، دہلی میں محبوب المطابع، اور بمبئی میں ایسٹرن کمرشل ایجنسی شبر ٹی کارپوریشن اور بولٹن فائن آرٹ لیتھوگرافر وہ پہلی کمپنیاں تھیں جنہوں نے ہندوستان میں عید کارڈز کی چھپائی کے کاروبار میں قدم رکھا۔ لیکن لندن کی کمپنی رافیل ٹک کے چھاپے گئے ہندوستانی مسلم طرزِ تعمیر کی تصاویر والے پوسٹ کارڈ بھی استعمال کیے جاتے تھے۔

پھولوں کے ڈیزائن والا عید کارڈ، جو حافظ قمر الدین اینڈ سنز نے لاہور سے 24 دسمبر 1935 کو شائع کیا۔
پھولوں کے ڈیزائن والا عید کارڈ، جو حافظ قمر الدین اینڈ سنز نے لاہور سے 24 دسمبر 1935 کو شائع کیا۔

ایک پوسٹ کارڈ جو سب سے پہلے رافیل ٹک، لندن نے شائع کیا۔
ایک پوسٹ کارڈ جو سب سے پہلے رافیل ٹک، لندن نے شائع کیا۔

ان قدیم عید کارڈز پر گفتگو اس مخصوص طرز کی اردو شاعری کے بغیر مکمل نہیں ہوگی، جسے خاص طور پر عید کے موقع کے لیے تحریر کیا جاتا تھا۔

میرے یاروں کو مبارک عید ہو

غمگساروں کو مبارک عید ہو

عاشق و معشوق، رند و پارسا

آج چاروں کو مبارک عید ہو


ہماری عید تو جب ہے کہ دیکھیں تیرے آبرو کو

ہلال عید کو اے مہ جبیں دیکھا تو کیا دیکھا


سب لوگ تو دیکھتے ہیں کھڑے چاند عید کا

مشتاق ہوں میں رشک قمر تیری دید کا


یہ شام عید ہے اے میرے ناقہ محمل

چمک کے چل کہ دیار حبیب تک پہنچیں

عید کارڈز کا رواج گذشتہ صدی کے اختتام تک اپنے زوروں پر رہا، اور موبائل اور انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ دم توڑتا گیا۔ ظاہر ہے ٹیکنولاجی نے لوگوں کا اپنے پیاروں سے جذبات کا اظہار کرنا کم خرچ، آسان، اور پرکشش بھی بنا دیا ہے۔

لیکن پھر بھی ہم میں سے وہ لوگ جنہوں نے عید کارڈ منتخب کرنے، لکھنے، بھیجنے، اور وصول کرنے کا لطف لیا ہے، وہ چند بٹن دبانے اور چند کلکس میں وہ لطف کبھی نہیں پا سکتے۔

مصطفیٰ نامی شخص کا بنایا گیا کارڈ، جو حافظ غلام محمد اینڈ سنز، لاہور، نے شائع کیا۔
مصطفیٰ نامی شخص کا بنایا گیا کارڈ، جو حافظ غلام محمد اینڈ سنز، لاہور، نے شائع کیا۔

لاہور سے شائع کیے گئے ایک کارڈ پر اردو شاعری۔
لاہور سے شائع کیے گئے ایک کارڈ پر اردو شاعری۔

اٹلی میں شائع کیا گیا جنگِ عظیم اول کی یادگار کی تصویر والا کارڈ، جس پر عید مبارک اور اردو شاعری چھاپ کر حافظ قمرالدین اینڈ سنز، لاہور، نے تقسیم کیا۔
اٹلی میں شائع کیا گیا جنگِ عظیم اول کی یادگار کی تصویر والا کارڈ، جس پر عید مبارک اور اردو شاعری چھاپ کر حافظ قمرالدین اینڈ سنز، لاہور، نے تقسیم کیا۔

برِصغیر کی مشہور گلوکارہ کجن بیگم کی تصویر والا عید کارڈ، جسے سلطان حسین بک سیلر، بمبئی، نے تقسیم کیا۔
برِصغیر کی مشہور گلوکارہ کجن بیگم کی تصویر والا عید کارڈ، جسے سلطان حسین بک سیلر، بمبئی، نے تقسیم کیا۔

سلطان حسین بک سیلر، بمبئی، کا تقسیم کردہ ایک اور کارڈ جس پر ایک نامعلوم ہندوستانی اداکارہ کی تصویر موجود ہے۔
سلطان حسین بک سیلر، بمبئی، کا تقسیم کردہ ایک اور کارڈ جس پر ایک نامعلوم ہندوستانی اداکارہ کی تصویر موجود ہے۔

عید کی شاعری پر مبنی کتاب کا ٹائٹل، گلدستہء عید۔ جسے محبوب المطابع، دہلی، سے راشد الخیری نے شائع کیا۔
عید کی شاعری پر مبنی کتاب کا ٹائٹل، گلدستہء عید۔ جسے محبوب المطابع، دہلی، سے راشد الخیری نے شائع کیا۔

اودھ، اتر پردیش کے ایک خاندان کے لیے ہاتھ سے تیار کی گئی عید کی مبارکباد۔
اودھ، اتر پردیش کے ایک خاندان کے لیے ہاتھ سے تیار کی گئی عید کی مبارکباد۔

ایک زیادہ مشہور عید کارڈ۔
ایک زیادہ مشہور عید کارڈ۔

ایک زیادہ مشہور عید کارڈ۔
ایک زیادہ مشہور عید کارڈ۔

ایک زیادہ مشہور عید کارڈ۔
ایک زیادہ مشہور عید کارڈ۔


عون علی لاہور کے رہائشی فوٹو جرنلسٹ ہیں، اور خاص طور پر تاریخی اہمیت کی حامل تعمیرات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آپ ان کا کام یہاں اور فیس بک پر دیکھ سکتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

عون علی

عون علی لاہور کے رہائشی فوٹو جرنلسٹ ہیں، اور خاص طور پر تاریخی اہمیت کی حامل تعمیرات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (19) بند ہیں

armaan Jul 15, 2015 02:56pm
These are Antiques
Muhammad Ayub Khan Jul 15, 2015 03:38pm
ji haaN waqit badal giya hey-hum boorhey ho gaye heyN - yeh mobile o internet o voice calling on internet ka zamana hey :))))) Eid kard likhna bohat hi zahmet ka kaam tha
سہیل یوسف Jul 15, 2015 04:07pm
بہت عمدہ تحریر، تاریخی عیدکارڈ کی تصاویر کا شکریہ۔
Waseem Jul 15, 2015 06:00pm
بہت ہی عمدہ کاوش ہے۔ مبارکباد قبول فرمائیے۔ عید کارڈز کے علاوہ ایک اور روایت بھی دم توڑ رہی ہے اور وہ ہے عیدی۔ چھوٹے بچوں کو عیدی کے تصور سے ہی چاند رات کو نیند نہیں آتی تھی۔ بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات کی وجہ سے یہ خوبصورت روایت بھی دم توڑتی جارہی ہے۔ میری سب سے التماس ہے بچوں کو عیدی ضرور دیں۔
Fahim Ahmed Jul 15, 2015 07:00pm
bohat hi achi research he janaab aap ki......... jitni bhi tareef ki jay kam he...........aap ne aisi cheez ko samney lana pasand kia jis sy aaj ki nai nasal na waqif he....... apney is shandar kaam pr app mubarak bad ke mustahiq he.. Shukria itni achi malomat dene ke liye fahim
Muhammad Afzaal Jul 15, 2015 07:14pm
ap ka boht shukria ,kuch aesi chezen yad dilany k liey jo kay hamary maa"shry main qisa e parena ban choken hain,
Inder Kishan Jul 16, 2015 12:44am
پاکستان میں لوگوں نے مغرب کی برائیوں کو خوشی سے گلے لگایا لیکن ان کی اچھائیوں تک پاکستانیوں کی پرچھائی بھی نہ پڑی۔ یہ مغرب کی ہی ریت ہے کہ والدین رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کے ساتھ شاذ و نادر ہی رابطہ ہوتا ہے لیکن جب بھی ہوتا ہے تو بہت پرجوش اور اہتمام کے ساتھ ہوتا ہے۔ پوسٹ کارڈز بھیجنے بھجوانے کی رسم اب بھی رائج ہے اور ان لوگوں کے پوسٹ محکمے فعال ہیں۔ موبائل ٹیکنالوجی اپنی جگہ لیکن پوسٹ کارڈز کا تبادلہ ایک ایسی یادگار ہے جسے برسوں تک محفوظ رکھ کر یادیں سمیٹی جا سکتی ہیں۔
اظہر حسین جعفری Jul 16, 2015 04:46pm
برادرم مضمون پڑھا ۔ دل باغ باغ ہوگیا ۔ عمدہ کاوش ہے ۔ ہمیں ماضی سے جوڑ دیا ایک لحظہ میں ۔ مبارک باد قبول کیجئے ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔ آمین
Arshad Ali Jul 17, 2015 10:35am
بلاشبہ جہاں بہت سی روایات بدلتے ہوئے سماجی حالات کے پیش نظر اب دم توڈ چکی ہیں ، ان میں سے ایک روایت عید کے موقع پر عید کارڈ کے زریعے مبارک باد کا حصول اور مبارک بھیجنے کا عمل بھی تھا ، یہ ایک ایسا عمل تھا جس میں تمام تر اہل خانہ پوری دلجمی سے اپنا کردار ادا کرتے تھے اور موصول کنندہ کی عمر رشتے کہ لحاظ سے مناسب ترین کارڈ کی خرید کسی طور بھی عید کی دوسری خریداریوں سے کم درجہ اہمیت کا عمل قرار نہیں دیا جاسکتا تھا ، لیکن جہاں بہت سی دیگر خوبصورت چیزیں ہم کھو چکے ہیں پچھلی دو سے تین دہائیوں‌ میں ان میں یہ روایت بھی شامل ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اب اس کے دوبارہ زندہ ہونے کہ امکانات تقریبا معدوم ہیں اور کچھ وقت کی بات ہے جب عید کارڈز کا تذکرہ صرف اسی طور فیچرز تبصروں اور کتابوں میں ملے گا ۔۔ مگریہ بھی کب تک زندہ رہے گا۔ بہرحال عون علی کے لیے بہت داد کہ بہت سی گمشدہ یادیں زندہ ہوکر آنکھوں کے سامنے دھڑکنے لگی ہیں۔
bushra khalid Jul 17, 2015 11:26am
آپ کا بلاگ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔عیدکارڈز کو دیکھ کر دل کرتا ہے ۔ یہ پرانی روایت پھر سے لوٹ آئے تو کیا بات ہے ۔۔
beenish Jul 17, 2015 02:07pm
Aala
abid ali Jul 17, 2015 06:54pm
nice yar
Nadeem Jul 19, 2015 02:32am
Amazing article. Thank you
Amin Ahmed Jul 08, 2016 06:16pm
Another tradition of the past was sending Eid Greetings through telegram. It was the quickest way of sending greeting messages. Messengers of telephone and telegraph department used to deliver eid telegrams on the night before eid and on eid day. Yeh tradition bhi dum toar gye.
یمین الاسلام زبیری Jul 08, 2016 06:31pm
عید کارڈ دیکھ کر ایک لطف آگیا۔ یہ غزل بہ عنوان چاند عید کا عون علی اور ان کے پڑھنے والوں کی نذر: آیا جو آسماں پہ نظر چاند عید کا لایا لو سب پہ اچھا اثر چاند عید کا چوڑی ، دوپٹہ، ہاتھ پہ مہندی لگی ہوئی یہ دیکھ بن گیا ہے شرر چاند عید کا تم کو جو ہم نے دیکھا فضا گنگنا اٹھی مستی میں ہو گیا تھا قمر چاند عید کا روزے کو ہم نے توڑ دیا تم کو دیکھ کر سمجھے یہی کہ آیا نظر چاند عید کا جو لوگ مبتلا ہیں الم و اضطراب میں واں پہ بھی آیا ہے گا نظر چاند عید کا اپنی دعا ہے اب یہی ہر قوم کے لیے بن جائے بس نجات اثر چاند عید کا اٹھا ہو جیسے دست دعا آسمان پر تم کو یمین آیا نظر چاند عید ک
AHMAQ Jul 08, 2016 10:39pm
LAGTA HEY BHAIYA BOHAT HI PURANEY HEYN-İTNEY BHADDEY EID KARD
Muhammad kashif munir bhatti Jul 09, 2016 06:54am
ohh hoo what a past !!! thanks Ali, good job boss
SHAZIA ANDLEEB Jul 09, 2016 03:08pm
Mash allah bohot acha article hai .yeh sahi hai pakistan mai yeh rwayet khatm ho chuki hai lekin hmarey han norway jesey traqi yafta molk ai aj bhi dokano par id cards dastyab hain magar norwegian mai or schools mai bachai cards bnatai hain . ap k articla ka boht shukriya Shazia Andleeb
mohammad sharfuddin Jul 10, 2016 11:50am
wo pahle wala eid card se khuloos jhalkta tha zada aur uski khosoosiyat o ahmiyat bahut hai aaj bhi