• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
شائع July 12, 2015 اپ ڈیٹ December 23, 2015

سولہویں اور سترہویں صدی میں کشمیر کے مسلمان حکمرانوں نے کئی قلعے تعمیر کروائے، جن میں سے ایک رامکوٹ قلعہ بھی ہے، جو اب منگلا جھیل سے گھرا ہوا ہے۔

قلعہ جہلم اور پونچھ دریاؤں کے سنگم پر ایک اونچی پہاڑی پر قائم ہے، جہاں سے چمکدار نیلے پانیوں کا نظارہ بہت دیدہ زیب لگتا ہے۔ اپنے غیر معمولی طور پر منفرد طرزِ تعمیر کی بناء پر رام کوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔ منگلا اور مظفرآباد قلعوں سے ملتے جلتے طرزِ تعمیر والا یہ قلعہ شاید اسی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔

قلعے تک پہنچنے کے لیے آپ کو منگلا ڈیم پر واٹر اسپورٹس کلب سے ایک کشتی میں بیٹھنا ہوگا، اور تقریباً 10 منٹ کے سفر کے بعد آپ جھیل کے شمالی حصے میں پہنچ جائیں گے۔ یہاں آپ کو ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک عظیم الشان قلعہ دکھائی دے گا۔

تھوڑی، لیکن کھڑی چڑھائی کے بعد آپ قلعے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ماضی میں اس کا یہ پیچیدہ محلِ وقوع اس کے لیے کافی فائدہ مند رہا ہوگا، لیکن آج کل یہی محلِ وقوع اس کی علیحدگی اور تنہائی کی وجہ بن گیا ہے۔ شاید اس کی دوری اور مشکل خطے کی وجہ سے منگلا جھیل کے دوسرے حصوں کی بہ نسبت کم ہی لوگ یہاں آتے ہیں۔

تھوڑی، لیکن کھڑی چڑھائی کے بعد آپ قلعے تک پہنچ جاتے ہیں۔
تھوڑی، لیکن کھڑی چڑھائی کے بعد آپ قلعے تک پہنچ جاتے ہیں۔
اپنے غیر معمولی طور پر منفرد طرزِ تعمیر کی بناء پر رامکوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔
اپنے غیر معمولی طور پر منفرد طرزِ تعمیر کی بناء پر رامکوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔

نہ ہی آزاد جموں و کشمیر حکومت، اور نہ ہی وفاقی حکومت (جو منگلا ڈیم کا انتظام سنبھالتی ہے) اس ورثے کی بحالی اور دیکھ بھال میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے۔

ویسے تو قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے، لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہیں۔

مثال کے طور پر مرکزی راستہ، جسے بہترین حکمتِ عملی کے تحت ہر زاویے پر فائرنگ کے لیے چوکیوں کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ یہ قلعہ بند حصے میں جانے اور باہر آنے کا واحد راستہ ہے۔ فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں بنائی گئی ہیں، جو یقیناً توپوں کو پوزیشن میں لانے کے لیے استعمال ہوا کرتی ہوں گی۔

پانی کے تالابوں کے بارے میں مؤرخین یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہیں کہ آخر اس نسبتاً چھوٹے قلعے میں اتنے بڑے تالاب کیوں بنائے گئے ہیں۔

قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے، لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہیں۔
قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے، لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہیں۔
فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں، توپوں کے لیے کنگرے، اور بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔
فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں، توپوں کے لیے کنگرے، اور بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔
فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں بنائی گئی ہیں، جو یقیناً توپوں کو پوزیشن میں لانے کے لیے استعمال ہوا کرتی ہوں گی۔
فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں بنائی گئی ہیں، جو یقیناً توپوں کو پوزیشن میں لانے کے لیے استعمال ہوا کرتی ہوں گی۔
کشمیر کے 1841 کے ایرو اسمتھ نقشے میں اس قلعے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
کشمیر کے 1841 کے ایرو اسمتھ نقشے میں اس قلعے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

قلعہ 90 کی دہائی کے اواخر تک بھی نظرانداز کردہ تھا، جب اسلام آباد کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر انیس الرحمان پہلی بار مچھلی پکڑنے کے لیے منگلا آئے، اور رام کوٹ تک آ پہنچے۔ ڈاکٹر انیس الرحمان نے مجھے بتایا کہ جس دن وہ پہلی بار یہاں آئے، اس دن یہ مکمل طور پر تباہ حال اور پہنچ سے باہر تھا، جبکہ مٹی کے ڈھیر اور جھاڑیوں نے قلعے کے انچ انچ کو چھپا رکھا تھا۔

منگلا اور مظفرآباد قلعوں سے ملتے جلتے طرزِ تعمیر والا یہ قلعہ شاید سولہویں صدی کے دوسرے نصف میں تعمیر کیا گیا تھا۔
منگلا اور مظفرآباد قلعوں سے ملتے جلتے طرزِ تعمیر والا یہ قلعہ شاید سولہویں صدی کے دوسرے نصف میں تعمیر کیا گیا تھا۔
بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔
بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔
مؤرخین یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہیں کہ آخر اس نسبتاً چھوٹے قلعے میں اتنے بڑے تالاب کیوں بنائے گئے ہیں۔
مؤرخین یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہیں کہ آخر اس نسبتاً چھوٹے قلعے میں اتنے بڑے تالاب کیوں بنائے گئے ہیں۔
قلعہ 90 کی دہائی کے اواخر تک بھی نظرانداز کردہ تھا۔
قلعہ 90 کی دہائی کے اواخر تک بھی نظرانداز کردہ تھا۔

ڈاکٹر رحمان نے وفاقی وزارتِ آثارِ قدیمہ سے رابطہ کیا تو حیران کن طور پر پایا کہ وزارت کے پاس قلعے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر قلعے کی بحالی میں مدد کی پیشکش کی، اور سرکاری اجازت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

اس مشن میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آثارِ قدیمہ کے پروفیسر عبدالرحمان اور ماہرِینِ تعمیرات سہیل اکبر خان اور راجہ خالد نے بھی حصہ لیا، اور ایک سال کی مسلسل محنت کے بعد وہ کھنڈرات سے ایک زبردست قلعہ سامنے لانے میں کامیاب رہے۔

اکٹر انیس الرحمان جس دن پہلی بار یہاں آئے، اس دن یہ مکمل طور پر تباہ حال اور پہنچ سے باہر تھا۔
اکٹر انیس الرحمان جس دن پہلی بار یہاں آئے، اس دن یہ مکمل طور پر تباہ حال اور پہنچ سے باہر تھا۔

مرکزی داخلی دروازے پر چھت اور دروازہ لگائے گئے، پانی کے تالابوں سے مٹی صاف کی گئی، جھاڑیاں، جن میں بڑی تعداد میں سانپ جمع تھے، صاف کی گئیں، اور پرانی توپوں کو کنگروں پر نصب کیا گیا۔ ڈاکٹر انیس الرحمان نے بتایا کہ انہوں نے پاک فوج سے رابطہ کیا، جس نے کوئٹہ سے منگوائی گئی پرانی طرز کی دو توپیں فراہم کیں، تاکہ انہیں قلعے پر (نمائشی طور پر) نصب کیا جا سکے۔

پاک فوج کی فراہم کردہ توپیں اب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گئی ہیں۔
پاک فوج کی فراہم کردہ توپیں اب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گئی ہیں۔

دیگر کئی تاریخی ورثوں کی طرح رامکوٹ کی تعمیر کے حوالے سے بھی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ ایک قدیم ہندو شیو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا، لیکن اس کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے اس بات میں شک کرنا مشکل ہے کہ یہ سولہویں صدی کی تعمیر ہے۔

ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر سیف الرحمان ڈار کے مطابق یہ قلعہ کیونکہ مظفر آباد قلعے جیسا ہی ہے، اس لیے اس بات کا کافی امکان موجود ہے کہ یہ سولہویں صدی کے پہلے نصف میں تعمیر کیا گیا ہوگا، جبکہ فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں، توپوں کے لیے کنگرے، اور بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔

آزاد کشمیر کے دیگر قلعوں (جیسے منگلا، مظفر آباد، بڑجن، اور تھروچھی) کی طرح رام کوٹ قلعہ تاریخی ریکارڈز میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ کشمیر کے 1841 کے ایرو اسمتھ نقشے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن مشہور سفری مصنف سلمان رشید کے مطابق مہاراجہ کشمیر کے مقرر کردہ ماہرِ ارضیات فریڈریک ڈریو 1875 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Jummoo and Kashmir Territories: A Geographical Account میں رامکوٹ قلعہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ڈریو کے مطابق توگلو نامی ایک گکھر نے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا، جبکہ گکھروں کے بعد یہ ڈوگروں کے زیرِ تسلط چلا گیا۔

ماہرِ ارضیات فریڈرک ڈریو نے اپنی کتاب میں رامکوٹ قلعے پر روشنی ڈالی ہے۔
ماہرِ ارضیات فریڈرک ڈریو نے اپنی کتاب میں رامکوٹ قلعے پر روشنی ڈالی ہے۔
ڈریو کے مطابق توگلو نامی ایک گکھر نے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا، جبکہ گکھروں کے بعد یہ ڈوگروں کے زیرِ تسلط چلا گیا۔
ڈریو کے مطابق توگلو نامی ایک گکھر نے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا، جبکہ گکھروں کے بعد یہ ڈوگروں کے زیرِ تسلط چلا گیا۔
اونچے برجوں نے قلعے کی تسخیر تقریباً ناممکن بنا دی تھی۔
اونچے برجوں نے قلعے کی تسخیر تقریباً ناممکن بنا دی تھی۔

گذشتہ دہائی سے رامکوٹ قلعہ تباہی کے راستے پر تیزی سے گامزن ہے۔ ڈاکٹر انیس الرحمان نے جو بحالی کا کام کیا تھا، وہ روز مرہ کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اپنا زیادہ تر اثر کھو چکا ہے۔ اس کے علاوہ 2005 کے زلزلے میں بھی اس قلعے کو شدید نقصان پہنچا، جبکہ آزاد جموں و کشمیر حکام کی غفلت بھی اس کی ذمہ دار ہے۔

اگر اسے مکمل طور پر بحال کر کے یہاں ضروری سہولیات دستیاب کردی جائیں، تو رام کوٹ قلعہ سیاحوں کی پسندیدہ جگہ بن سکتا ہے جس سے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو خاصی آمدنی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کشمیر کی زمین اور عوام کی تاریخ، ورثے، اور ثقافت میں بھی چار چاند لگا دے گا۔

2005 کے زلزلے میں بھی اس قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔
2005 کے زلزلے میں بھی اس قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔
کہتے ہیں کہ یہ قلعہ ایک قدیم ہندو شیو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا، لیکن موجودہ تعمیر سولہویں صدی کی ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ قلعہ ایک قدیم ہندو شیو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا، لیکن موجودہ تعمیر سولہویں صدی کی ہے۔
منگلا جھیل کے اوپر قائم یہ قلعہ اگر بحال کیا جائے، تو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ سکتا ہے۔
منگلا جھیل کے اوپر قائم یہ قلعہ اگر بحال کیا جائے، تو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ سکتا ہے۔
اگر قلعے کو بحال کیا جائے، تو آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو کافی آمدنی حاصل ہوسکتی ہے۔
اگر قلعے کو بحال کیا جائے، تو آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو کافی آمدنی حاصل ہوسکتی ہے۔
بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔
بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔

لیکن اگر بڑجن قلعے کی مثال دیکھی جائے تو تحفظ کی امیدیں رکھنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔

آزاد جموں و کشمیر کے وزیرِ اعظم چوہدری عبدالمجید رام کوٹ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع بڑجن قلعے کی حفاظت نہیں کر سکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیرِ اعظم کے رشتے داروں اور ووٹروں نے اس قلعے کو گرا کر اس کی اینٹیں تک بیچ ڈالیں۔ حکومت کسی قسم کا ایکشن تو کیا لیتی، الٹا صدیوں پرانی پتھر کی اینٹیں سینیئر وزیر اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیرِ اعظم کے گھروں کی تعمیر میں کام آئیں۔

قلعے سے منگلا جھیل کا نظارہ۔
قلعے سے منگلا جھیل کا نظارہ۔

عون علی لاہور کے رہائشی فوٹو جرنلسٹ ہیں، اور خاص طور پر تاریخی اہمیت کی حامل تعمیرات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

آپ ان کا کام یہاں اور فیس بک پر دیکھ سکتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

عون علی

عون علی لاہور کے رہائشی فوٹو جرنلسٹ ہیں، اور خاص طور پر تاریخی اہمیت کی حامل تعمیرات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (12) بند ہیں

tariq masood kazmi Jul 12, 2015 03:12pm
ڈان نیوز کے زبردست تحقیقی کاموں میں سے ایک مضمون یہ بھی ھے۔ جناب عون علی صاحب نے اپنے قارئین کو زبردست معلومات باھم پہنچائی ھے۔زبردست معلومات کا بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طارق کاظمی۔۔۔۔۔ میانوالی
Prof Fazal Haque Qureshi Jul 12, 2015 09:57pm
Great work of unveiling the hidden historical buildings. t is mentioned in the text that Ram fort was on the temple of Shiv Ji, and also that it is different from other similar forts of the era. In that case I suppose it was built by some Hindu and not Muslim notable. Will some one clarify?
faisal sulehria Jul 13, 2015 12:17am
عون علی صاحب کی یہ کاوش دلچسپ،معلوماتی اور قابل تحسین ہے۔
adil Jul 13, 2015 12:31am
indeed awesome work by mr ali
LORAY CHAUDHRY AHSAN PREMEE Jul 13, 2015 04:01am
جب پونچھ ریاست کا نام کنگ ڈم سیٹیٹ آف لوراں تھا محمود غزنوی نے آٹھواں حملہ کنگڈم سیٹٹ آف لوراں {اب پونچھ} پر کیا تو محمود غزنوی کو بری طرح شکست ہوءی تھی جس کی وجہ لوکوٹ کا قلعہ جو پہاڑی کے اوپر بنایا گیا تھا تاہم اس بات کا جاءزہ لینا ابھی باقی ہے کہ یہی قلعہ تھا یا وہ قلعہ کوءی اور ہے تاہم وہ قلعہ بھی پہاڑی کی چوٹی پر تھا اس حوالے سے کءی ایک حوالہ جات ہیں KINGDOM STATE OF LORAN (1346)NOW-PUNCH Cambridge History of India has given a clear description of it. It has recorded that in India it was the first defeat of Mohd. Gaznavi from Lohra's king Sangramraj. The Loharas ruled for many generations. Lohara King of Kings,The Kingdom of Lohara Now(PUNCH),Kashmir.Lohara Dynasty ruled Kashmir until in 1346 AD the last Hindu king, Udiana Deva. Kalhana's Rajatarangini: A Chronicle of the Kings of Kashmir: Vol 1 & 2 By M.A. Stein History of the Panjab hill states, Volume 1 By John Hutchison, Jean Philippe Vogel The New Encyclopaedia Britannica, Volume 9
LORAY CHAUDHRY AHSAN PREMEE Jul 13, 2015 04:11am
کشمیرکی پرانی تاریخ میں ایک حوالہ ملتا ہے جب پونچھ ریاست کا نام کنگ ڈم سیٹیٹ آف لوراں تھا جب محمود غزنوی نے آٹھواں حملہ کنگڈم سیٹٹ آف لوراں {اب پونچھ} پر کیا تو محمود غزنوی کو بری طرح شکست ہوءی تھی جس کی وجہ لوکوٹ کا قلعہ جو پہاڑی کے اوپر بنایا گیا تھا تاہم اس بات کا جاءزہ لینا ابھی باقی ہے کہ یہی قلعہ تھا یا وہ قلعہ کوءی اور ہے تاہم وہ قلعہ بھی پہاڑی کی چوٹی پر تھا اس حوالے سے کءی ایک حوالہ جات ہیں -The New Encyclopaedia Britannica, Volume 9 14-History of the Panjab hill states, Volume 1 By John Hutchison, Jean Philippe Vogel Imperial gazetteer of India, Volume 25 Kalhana's Rajatarangini: A Chronicle of the Kings of Kashmir By Kalhaṇa Encyclopaedia of Kashmir: Nehru and Kashmir, Volume 6 By Suresh K. Sharma Eminent personalities of Kashmir By Krishan Lal Kalia Glimpses of History of Jammu & Kashmir By Jyoteeshwar Pathik Encyclopaedia Of Untouchables : Ancient Medieval And Modern By Raj Kumar Al-Hind: Early medieval India and the expansion of Islam, 7th-11th centuries By André nk
Farhan Rao Jul 13, 2015 10:10am
bht hi khoobsorat hy ye
M NAZIM Jul 13, 2015 07:45pm
REALLY GREAT WORK. it has urged me to visit this fort
عمر Jul 13, 2015 08:10pm
کیمرہ کون سا ہے؟
انجم سلطان شہباز Jul 15, 2015 09:37am
بہت خوبصورت تحریر ہے تصاویر بہت عمدہ ہیں اس تحریر کےلئے عون علی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
khurram Jul 16, 2015 12:36am
good luck sir and great work you have done. Would love to come and see this historical fort. thanks for sharing your hard work. khurram
atiq Dec 24, 2015 02:34pm
Nice work