سولہویں اور سترہویں صدی میں کشمیر کے مسلمان حکمرانوں نے کئی قلعے تعمیر کروائے، جن میں سے ایک رامکوٹ قلعہ بھی ہے، جو اب منگلا جھیل سے گھرا ہوا ہے۔
قلعہ جہلم اور پونچھ دریاؤں کے سنگم پر ایک اونچی پہاڑی پر قائم ہے، جہاں سے چمکدار نیلے پانیوں کا نظارہ بہت دیدہ زیب لگتا ہے۔ اپنے غیر معمولی طور پر منفرد طرزِ تعمیر کی بناء پر رام کوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔ منگلا اور مظفرآباد قلعوں سے ملتے جلتے طرزِ تعمیر والا یہ قلعہ شاید اسی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔
قلعے تک پہنچنے کے لیے آپ کو منگلا ڈیم پر واٹر اسپورٹس کلب سے ایک کشتی میں بیٹھنا ہوگا، اور تقریباً 10 منٹ کے سفر کے بعد آپ جھیل کے شمالی حصے میں پہنچ جائیں گے۔ یہاں آپ کو ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک عظیم الشان قلعہ دکھائی دے گا۔
تھوڑی، لیکن کھڑی چڑھائی کے بعد آپ قلعے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ماضی میں اس کا یہ پیچیدہ محلِ وقوع اس کے لیے کافی فائدہ مند رہا ہوگا، لیکن آج کل یہی محلِ وقوع اس کی علیحدگی اور تنہائی کی وجہ بن گیا ہے۔ شاید اس کی دوری اور مشکل خطے کی وجہ سے منگلا جھیل کے دوسرے حصوں کی بہ نسبت کم ہی لوگ یہاں آتے ہیں۔
نہ ہی آزاد جموں و کشمیر حکومت، اور نہ ہی وفاقی حکومت (جو منگلا ڈیم کا انتظام سنبھالتی ہے) اس ورثے کی بحالی اور دیکھ بھال میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے۔
ویسے تو قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے، لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہیں۔
مثال کے طور پر مرکزی راستہ، جسے بہترین حکمتِ عملی کے تحت ہر زاویے پر فائرنگ کے لیے چوکیوں کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ یہ قلعہ بند حصے میں جانے اور باہر آنے کا واحد راستہ ہے۔ فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں بنائی گئی ہیں، جو یقیناً توپوں کو پوزیشن میں لانے کے لیے استعمال ہوا کرتی ہوں گی۔
پانی کے تالابوں کے بارے میں مؤرخین یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہیں کہ آخر اس نسبتاً چھوٹے قلعے میں اتنے بڑے تالاب کیوں بنائے گئے ہیں۔
قلعہ 90 کی دہائی کے اواخر تک بھی نظرانداز کردہ تھا، جب اسلام آباد کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر انیس الرحمان پہلی بار مچھلی پکڑنے کے لیے منگلا آئے، اور رام کوٹ تک آ پہنچے۔ ڈاکٹر انیس الرحمان نے مجھے بتایا کہ جس دن وہ پہلی بار یہاں آئے، اس دن یہ مکمل طور پر تباہ حال اور پہنچ سے باہر تھا، جبکہ مٹی کے ڈھیر اور جھاڑیوں نے قلعے کے انچ انچ کو چھپا رکھا تھا۔
ڈاکٹر رحمان نے وفاقی وزارتِ آثارِ قدیمہ سے رابطہ کیا تو حیران کن طور پر پایا کہ وزارت کے پاس قلعے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر قلعے کی بحالی میں مدد کی پیشکش کی، اور سرکاری اجازت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
اس مشن میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آثارِ قدیمہ کے پروفیسر عبدالرحمان اور ماہرِینِ تعمیرات سہیل اکبر خان اور راجہ خالد نے بھی حصہ لیا، اور ایک سال کی مسلسل محنت کے بعد وہ کھنڈرات سے ایک زبردست قلعہ سامنے لانے میں کامیاب رہے۔
مرکزی داخلی دروازے پر چھت اور دروازہ لگائے گئے، پانی کے تالابوں سے مٹی صاف کی گئی، جھاڑیاں، جن میں بڑی تعداد میں سانپ جمع تھے، صاف کی گئیں، اور پرانی توپوں کو کنگروں پر نصب کیا گیا۔ ڈاکٹر انیس الرحمان نے بتایا کہ انہوں نے پاک فوج سے رابطہ کیا، جس نے کوئٹہ سے منگوائی گئی پرانی طرز کی دو توپیں فراہم کیں، تاکہ انہیں قلعے پر (نمائشی طور پر) نصب کیا جا سکے۔
دیگر کئی تاریخی ورثوں کی طرح رامکوٹ کی تعمیر کے حوالے سے بھی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ ایک قدیم ہندو شیو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا، لیکن اس کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے اس بات میں شک کرنا مشکل ہے کہ یہ سولہویں صدی کی تعمیر ہے۔
ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر سیف الرحمان ڈار کے مطابق یہ قلعہ کیونکہ مظفر آباد قلعے جیسا ہی ہے، اس لیے اس بات کا کافی امکان موجود ہے کہ یہ سولہویں صدی کے پہلے نصف میں تعمیر کیا گیا ہوگا، جبکہ فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں، توپوں کے لیے کنگرے، اور بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔
آزاد کشمیر کے دیگر قلعوں (جیسے منگلا، مظفر آباد، بڑجن، اور تھروچھی) کی طرح رام کوٹ قلعہ تاریخی ریکارڈز میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ کشمیر کے 1841 کے ایرو اسمتھ نقشے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن مشہور سفری مصنف سلمان رشید کے مطابق مہاراجہ کشمیر کے مقرر کردہ ماہرِ ارضیات فریڈریک ڈریو 1875 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Jummoo and Kashmir Territories: A Geographical Account میں رامکوٹ قلعہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ڈریو کے مطابق توگلو نامی ایک گکھر نے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا، جبکہ گکھروں کے بعد یہ ڈوگروں کے زیرِ تسلط چلا گیا۔
گذشتہ دہائی سے رامکوٹ قلعہ تباہی کے راستے پر تیزی سے گامزن ہے۔ ڈاکٹر انیس الرحمان نے جو بحالی کا کام کیا تھا، وہ روز مرہ کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اپنا زیادہ تر اثر کھو چکا ہے۔ اس کے علاوہ 2005 کے زلزلے میں بھی اس قلعے کو شدید نقصان پہنچا، جبکہ آزاد جموں و کشمیر حکام کی غفلت بھی اس کی ذمہ دار ہے۔
اگر اسے مکمل طور پر بحال کر کے یہاں ضروری سہولیات دستیاب کردی جائیں، تو رام کوٹ قلعہ سیاحوں کی پسندیدہ جگہ بن سکتا ہے جس سے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو خاصی آمدنی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کشمیر کی زمین اور عوام کی تاریخ، ورثے، اور ثقافت میں بھی چار چاند لگا دے گا۔
لیکن اگر بڑجن قلعے کی مثال دیکھی جائے تو تحفظ کی امیدیں رکھنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔
آزاد جموں و کشمیر کے وزیرِ اعظم چوہدری عبدالمجید رام کوٹ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع بڑجن قلعے کی حفاظت نہیں کر سکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیرِ اعظم کے رشتے داروں اور ووٹروں نے اس قلعے کو گرا کر اس کی اینٹیں تک بیچ ڈالیں۔ حکومت کسی قسم کا ایکشن تو کیا لیتی، الٹا صدیوں پرانی پتھر کی اینٹیں سینیئر وزیر اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیرِ اعظم کے گھروں کی تعمیر میں کام آئیں۔
عون علی لاہور کے رہائشی فوٹو جرنلسٹ ہیں، اور خاص طور پر تاریخی اہمیت کی حامل تعمیرات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
آپ ان کا کام یہاں اور فیس بک پر دیکھ سکتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (12) بند ہیں