• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
شائع July 10, 2015 اپ ڈیٹ July 11, 2015

'سرکپ' کے انتہائی جنوب میں جو 'کنال اسٹوپا' بنا ہوا ہے، اس اسٹوپا کے ساتھ 'راجکمار کنال' کی ایک درد بھری کہانی وابستہ ہے کہ اس کی سوتیلی ماں نے اس کے والد کے طرف سے ایک جھوٹا حکمنامہ بھیجا کہ کنال کی آنکھیں نکال لی جائیں، تو کنال نے کہا کہ اگر میرے باپ کا یہ حکم ہے تو اس پر عمل کیا جائے۔ اس کے بعد اس کا 'آشواگھوش' نامی ماہر چشم سے علاج کروایا گیا اور جب بینائی بحال ہوئی تو اس کی یادگار کے طور پر اس اسٹوپا کی بنیاد رکھی گئی۔

یہ بھی کہتے ہیں کہ اندھیری راتوں میں ان آثاروں سے خوفناک آوازیں آتی ہیں اور مخصوص راتوں کو روشنیاں دکھائی دیتی ہیں، کبھی ایک مقام پر کبھی دوسرے مقام پر۔ 'سرکپ' کا نام اس لیے پڑا کہ یہاں کا بادشاہ ہر اس آدمی کا سر کاٹ دیتا جو اس سے چوپڑ راند میں ہار جاتا تھا۔

ایسی کئی کہانیاں اور دلچسپ باتیں ہیں جو ٹیکسلا کے آثاروں کی گلیوں، اسٹوپاؤں، گزرگاہوں، اور پاٹھ شالاؤں کے آنگنوں اور درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں آپ کو سننے کے لیے مل جائیں گی۔ اور ان باتوں کو دل کے کانوں سے سننا چاہیے، کیونکہ یہ سینہ بہ سینہ اس مٹی، ان پہاڑیوں اور ان درختوں کی خوشبودار چھاؤں میں سے اگی ہوئی ہیں۔

ٹیکسلا کی پہچان کے لیے بہت سارے نام اور حوالے ہیں۔ کوٹلیہ چانکیہ نے 'ارتھ شاستر' ان وادیوں میں تحریر کی تھی۔ 'پاننی' جو ٹیکسلا کے قریب 'سلوترا' کا باشندہ تھا، سنسکرت کی پہلی گرامر پر اس نے یہاں ان درسگاہوں میں کام کیا۔ اور یہ بھی ممکنات میں شامل ہے کہ "مہا بھارت" کی رزمیہ داستان یہاں پر نظم ہوئی۔

دھرما راجیکا
دھرما راجیکا
دھرما راجیکا
دھرما راجیکا
دھرما راجیکا
دھرما راجیکا

کچھ برس پہلے جب میں نے 'قرۃ العین حیدر' کے ناول "آگ کا دریا" میں یہ جملہ پڑھا تھا:

"تم کیسے فلسفی ہو جو الفاظ میں یقین نہیں رکھتے۔" گوتم نے جھنجلا کر جواب دیا۔ "پاننی، تمہارے تکشلا کے استاد نے کہا تھا، اپنے یا دوسروں کے خیالات کے مظاہر صرف الفاظ ہی ہو سکتے ہیں۔ ان کی ماہیت کا مطالعہ کرنا کس قدر ضروری ہے۔ الفاظ کے راستے کے بنا خالص خیال تک کس طرح پہنچ پاؤ گے؟ آواز الفاظ کا پراکرت گن ہے۔ اور مادہ ابدی ہے۔ وید زبان کی شکل میں برہما ہے اور مادہ برہما ہے۔"

اس ناول کے بعد 'تکشلا' سے ایک رشتہ سا جڑ گیا تھا۔

ہم جب ٹیکسلا کے اجڑے ہوئے شہروں اور یونیورسٹیوں میں اکیلے گھومتے پھرتے ہیں، تو دل و دماغ میں کہیں یہ سارے آثار جاگ جاتے ہیں، معلم اپنے شاگردوں کو کائنات کے راز سمجھا رہے ہیں، دور کہیں بھیڑوں کے گلے چر رہے ہیں، کسی شاخ پر کوئل کوک رہی ہے، پانی کے ٹھنڈے نالے بہہ رہے ہیں، جنگل میں ہرنوں کی ڈاریں بے خوف و خطر گھوم رہی ہیں، بازاروں میں چہل پہل ہے، کسی گھر کے آنگن میں خوبصورت آنکھوں کو کاجل کی لہر دے کر اور خوبصورت بنایا جا رہا ہے۔ یہ تھا پر امن، تہذیب یافتہ اور سحر انگیز ٹیکسلا۔ لیکن اب ان سارے منظروں کے رنگ ہمارے ذہنوں میں رہ گئے ہیں۔ یہ ہی جیون کا چلن ہے۔ کیا کیا جائے۔ چلیے ٹیکسلا کے مختصر سے سفر پر چلتے ہیں۔

ٹیکسلا جس کو ہم پتھروں کا شہر کہتے ہیں، ماضی میں وہ سینٹرل ایشیا جانے کے لیے ایک شاندار گزرگاہ تھی، یہ ایک ایسا شہر تھا جہاں سکون، امن اور زندگی کے فلسفے اگتے تھے، اس لیے یہ شہر ایسی جگہ بنا ہوا تھا جہاں حملہ آوروں کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی تھی، اور وہ بڑی آسانی سے قبضہ کر لیتے تھے۔

یہ سب شاید اس لیے تھا کہ جہاں زندگی علم اور فلسفوں کی گھنی چھاؤں میں گذرتی ہو وہاں ہتھیاروں کو بنانے اور دھار دینے کی نہ سوچ ہوتی ہے نہ وقت۔ سلمان رشید لکھتے ہیں: "موئن جو دڑو اور ہڑپہ جنہوں نے قدیم عراق کے شہر 'ار' اور 'نینوا' کو آج سے 6 ہزار برس پہلے بہت کچھ سکھایا، ان کو اگر چھوڑ بھی دیں اور صرف ٹیکسلا کی بات کریں تو اس کے متعلق سکندر کے تاریخ دانوں سے بہت کچھ پتہ چلتا ہے۔ ان میں کچھ تو وہ تھے جو سکندر کے ساتھ آئے تھے، جنہوں نے بہت کچھ لکھا، اور جس کو بنیاد بنا کر بعد میں ماخذ تواریخ قلم بند کیں۔

جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات
جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات
جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات
جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات
جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات
جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات

ان میں اول تو سکندر کا جرنیل 'نیارکس' (Nearchus) تھے جس کی تصنیف کے کچھ حصے ہم تک پہنچے، اس کے علاوہ یونانی سفارتکار 'میگاستھینیز' (Megasthenes) تھے جو سکندر سے محض 25 برس بعد 'چندرگپت موریا' کے دربار میں سفیر بن کر آیا اور یہاں 15 برس تعینات رہا۔ اس طویل عرصے میں اس شخص نے یہ ملک گھوم پھر کر خوب دیکھا اور اپنے ملک واپسی پر Indika نامی کتاب لکھی جو ٹیکسلا کے بارے میں ایک خزانہ ہے۔۔"

ٹیکسلا کے نام کے حوالے سے بہت ساری روایات ہیں جو ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ کہتے ہیں 'ٹیکسلا' کا پرانا نام 'ٹکسا شیلا' ہے۔ "ٹکسا" سنسکرت میں 'کالے ناگ' کو کہتے ہیں. ناگ کی پوجا یہاں کے قدیم لوگوں کی روایت ہے، آریائی روایت نہیں۔ ناگ کو دیوتا مان کر پوجا کرنے والی قومیں کسی زمانے میں ٹیکسلا کے آس پاس موجود تھیں۔ قیاس کہتا ہے کہ ٹیکسلا آریوں کے ورود کے پیشتر 'ناگاؤں' کی بستی رہی ہوگی جس پر آریوں نے قبضہ کیا۔ بلکہ آریوں نے بعد میں جو شہر بسائے ان میں سب سے بڑا مرکز 'ٹیکسلا' تھا، اور ٹیکسلا کو تجارتی مرکز بنانے کے لیے جو اہم سبب تھا وہ موجود تھا۔

"پاکستان میں تہذیب کا ارتقا" کے مصنف سبط حسن لکھتے ہیں:"ڈھائی سے تین ہزار برس پیشتر یہ جگہ تین اہم تجارتی راستوں کا مقام اتصال تھی۔ ایک راستہ یورپ سے آتا تھا جو موریہ عہد سے آج تک بنگال سے پشاور جانے والی شاہراہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ دوسرا راستہ مغربی ایشیا سے باختر اور پشکلاوتی (چارسدہ) سے گذرتا اور دریائے سندھ کو عبور کرتا ٹیکسلا کے مقام پر ختم ہوتا تھا، اور تیسرا راستہ سری نگر، بارہ ملا، اور ہری پور سے ہوتا ہوا ٹیکسلا پہنچ کر دوسرے راستوں سے مل جاتا تھا۔"

جس طرح انسان کی خوش قسمتی اور بدقسمتی ہوتی ہے، اس طرح زمینوں، خطوں، اور وادیوں کے بھی اپنے نصیب اور بدنصیبیاں ہوتی ہیں۔ یہ راستے ٹیکسلا کے لیے جیسے آبیاری کی نہریں بن گئیں، اور ٹیکسلا کے بھاگ جاگ اٹھے۔

'ہخامنشی' خاندان کے 'داریوش' (486-522) ق۔م میں پہلے گندھارا پر قبضہ کیا اور پھر وادیء سندھ کے پورے علاقے کو اپنی قلمرو میں شامل کرلیا۔ رومی سلطنت کے بعد یہ دوسری بڑی سلطنت تھی جو 7.5 ملین کلومیٹر میں پھیلی ہوئی سلطنت تھی۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ 'ہندوش' (پنجاب اور سندھ) اس سلطنت کا ایک تہائی خراج 'سپت سندھو' سے وصول ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے ہندوش ہخامنشی سلطنت کا سب سے دولت مند صوبہ تھا۔ وادی سندھ کا علاقہ تقریباً 200 سال تک ایران کا باجگذار رہا۔

جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات
جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات
جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات
جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات
جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات
جولیان یونیورسٹی کے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے نوادرات

ٹیکسلا نے فروغ اسی زمانہ میں پایا۔ سبط حسن لکھتے ہیں: "سلطنت کے سب سے دولت مند صوبے کے صدر مقام کی حیثیت سے ٹیکسلا کو تین تہذیبوں، ہندوستانی، ایرانی، اور یونانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔

ڈاکٹر بدھا پرشاد لکھتے ہیں: "یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیکسلا کی شہرت تمام شمالی ہند میں پھیل چکی تھی۔ 'مگدھ' (بِہار) تک کے طلباء طویل فاصلہ طے کرکے یہاں کی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے۔ کاشی کے راجہ کے پروہت کے بیٹے 'جوتی پال' نے ٹیکسلا ہی میں حربیات کا علم سیکھا اور پھر راجہ کا سپہ سالار مقرر ہوا۔ اسی جگہ مگدھ کے راجہ 'بمبسار' اور 'گوتم بدھ' کے مشہور طبیب 'جیوکا' نے ٹیکسلا کے بیدوں سے حکمت سیکھی اور واپس جا کر مگدھ راج کا درباری طبیب مقرر ہوا۔ 'کوشل' کے روشن خیال راجہ 'پراسینہ جیت' نے یہاں کی درسگاہوں میں تعلیم پائی۔

ہخا منشی، فرمانرواؤں نے آرامی زبان کو اپنی سلطنت کی سرکاری زبان قرار دیا جس کی وجہ سے اس نے یہاں بھی رواج پایا۔ سکوں کا رواج بھی ان ہی کے زمانے میں یہاں متعارف ہوا۔ ان ٹھپے دار سکوں کو پاننی 'قرش پان' لکھتا ہے۔ قرش قدیم پہلوی زبان کا لفظ ہے جو مخصوص وزن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قسم کے ٹھپے دار سکے نند راجاؤں نے اور پھر موریوں نے سارے ملک میں رائج کیے۔ ان سکوں کی سب سے بڑی ٹکسال یہاں ٹیکسلا میں تھی۔

ہم سکندر اعظم کے حملے سے پہلے اگر مڑ کر تھوڑا سا پیچھے دیکھ لیں تو شاید بہتر ہوگا، کیونکہ تواریخ میں پیدا ہونے اور مرنے، حکومتوں کے قائم ہونے اور ختم ہونے کے سن اپنے آپ میں ایسے گتھم گتھا ہیں کہ تصور کے میدان میں بس دھول ہی اڑتی ہے۔ کچھ مستند تاریخ کے کتابوں کو چھوڑ کر ہر کسی نے اپنے مطالعے اور مشاہدے سے بات لکھی ہے۔ بہرحال سفر بڑا ہے اور ہم جلدی میں بھی ہیں۔ میں آپ کو فقط یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ویدک زمانے (جس کو دو زمانوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک 'رگویدک دور' (1000-1500) اور جو اب ویدک دور ہے (600-1000) قبل مسیح) میں 'سپت سندھو دیش' میں سات آٹھ بڑی ریاستوں کے نشان ملتے ہیں جن میں ایک سندھ اور جہلم کے درمیان گندھارا تھا۔

آریوں نے بعد میں جو شہر بسائے ان میں سب سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔ سبط حسن لکھتے ہیں: "مہا بھارت کے ساتھ وادیء سندھ میں آریائی تہذیب کا دور ختم ہوا جو رِگ وید سے شروع ہوا تھا، لیکن یہ ضرور تھا کہ جو بھی نئے فاتح آئے اور جو روایتیں آریوں نے قائم کی تھیں، ان کو دوسرے مٹا نہ سکے، خاص کر آریوں کی مذہبی زبان سنسکرت اور ان کی پراکرتوں بالخصوص 'خروشٹی' اور 'شورسینی' کو حاصل ہے۔ آگے چل کر یہی پراکرتیں ہماری زبانوں کی اساس بنیں۔"

موہڑہ مرادو اسٹوپا
موہڑہ مرادو اسٹوپا
موہڑہ مرادو اسٹوپا
موہڑہ مرادو اسٹوپا
موہڑہ مرادو اسٹوپا
موہڑہ مرادو اسٹوپا

یہ وہ ہی زمانہ تھا جب مگدھ سلطنت جنوبی ہند کی ایک تہذیبی یافتہ سلطنت تھی۔ مہاویر (527-599) ق۔م میں جین مت، اور سدھارتھ (483-563) ق۔م میں بدھ مت کی داغ بیل ڈال چکے تھے۔

فارس کے حاکموں کا ذکر مختصراً پہلے ہو چکا ہے۔ 327 قبل مسیح میں 'ہخامنشی' سلطنت چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئی تھی۔ اسی زمانے میں سکندرِ اعظم نے اپنی طاقت کے بل پر اپنی حکومت قائم کی۔ ٹیکسلا کے راجہ امبی نے سکندر کی اطاعت کی، البتہ جو پنڈت تھے وہ اس اطاعت کے حق میں نہیں تھے۔

آریان (Arrian) (دوسری صدی کا یونانی موّرخ) نے لکھا کہ دریائے جہلم اور سندھ کے درمیان واقع ٹیکسلا بہت بڑا شہر ہے۔ سلمان رشید لکھتے ہیں: "چوتھی صدی قبل مسیح میں ٹیکسلا میں تین مذہب رائج تھے: 'بدھ مت'، ہندومت' اور 'زرتشت'، یہ ایک پرسکون شہر تھا۔ یہاں بیوپار کے سودے کے لیے کوئی ایگریمنٹ نہیں تھا، بس زبان ہی سب کچھ تھی، اس کا احترام سب کچھ تھا۔"

'چندرگپت موریا' (298-322 ق۔م) کے لیے بہت ساری کہانیاں ہیں، جو کبھی اس کے لیے مثبت رائے قائم کرتی ہیں کبھی منفی۔ کچھ بھی ہو وہ ایک تیز دماغ اور مضبوط قوت ارادی کا مالک بادشاہ تھا۔ نند خاندان، جو مگدھ پر حاکم تھا، نے کبھی اس کو سکھ کا سانس لینے نہیں دیا۔ ایسا شاید انہوں نے 'کوٹلیہ چانکیہ' سے بھی کیا تھا جو ایک برہمن تھا اور اس نے اپنے بال کھول کر قسم کھائی تھی کہ جب تک مگدھ سلطنت کو برباد نہیں کرے گا، تب تک اپنے بال نہیں باندھے گا۔

چندر گپت نے مگدھ سے ہزاروں میل دور ٹیکسلا میں تعلیم حاصل کی۔ یہاں بیٹھ کر کوٹلیہ جو ٹیکسلا میں سیاست اور معاشیات کا ایک ماہر استاد تھا، وہ چندر گپت کا صلاحکار بنا اور کم فوج کے باوجود کوٹلیہ کی حکمت عملی کے نتیجے میں مگدھ سلطنت کو پاش پاش کردیا گیا۔

ڈاکٹر معین الدین 'قدیم مشرق' میں لکھتے ہیں: 'موریاؤں نے تمام برہمنی رسومات ختم کردیں۔ وہ برہمنوں کی بالادستی کو نہیں مانتے تھے۔ وہ ہندو مذہب کے روایتی، سماجی، مذہبی اور سیاسی نظریات کی مخالفت کرتے اور ذات پات کو نہیں مانتے تھے، اگر 265 ق۔م کا نقشہ دیکھیں تو پاٹلی پتر سے افغانستان، افغانستان سے ٹیکسلا تک، ٹیکسلا سے لے کر بلوچستان، حیدرآباد سندھ اور کچھ تک موریا سلطنت پھیلی ہوئی نظر آئے گی۔"

چندر گپت نے آخری وقت میں جین مت قبول کر لیا اور حکومت اپنے بیٹے بندوسار (273-298 ق۔م) کو دی جس نے پچیس برس تک حکومت کی، پھر زمانہ آیا اس کے بیٹے اشوک (232-273 ق۔م) کا۔ کلنگا کی جنگ میں مرے ہوئے لاکھوں انسانوں کے خون کے چھینٹے اس کے دامن پر آج بھی نظر آتے ہیں، لیکن یہ بھی ہے کہ اس جنگ نے اسے بدل کر رکھ دیا، اور اس نے اپنی وسیع حکومت میں بدھ مت جاری کیا۔ اشوک نے مشہور بھکشو دھرما راجیکا کو ٹیکسلا میں یونانی نوآبادیوں میں تبلیغ کے لیے بھیجا۔

سر کپ
سر کپ
سر کپ
سر کپ
سر کپ
سر کپ
سر کپ
سر کپ

بدھ مت وادی سندھ سے افغانستان اور وسطی ایشیا میں داخل ہوا، پھر چین کی راہ سے جاپان اور کوریا تک پہنچا۔ رفتہ رفتہ بھکشوؤں کے لیے وہار اور اسٹوپا تعمیر ہونے لگے، اور یہ جگہیں تعلیم اور عبادت کا مرکز بن گئیں۔ ان میں سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔ ٹیکسلا کی وہ پاٹھ شالائیں جو ویر کے بھجنوں اور اپنشدھ کے اشلوکوں سے گونجتی تھیں، اب وہ بدھ مت کی درسگاہوں میں تبدیل ہوگئیں۔

اشوک کے بعد موریا سلطنت پر زوال آیا تو باختر کے یونانی نژاد بادشاہوں نے وادیء سندھ پر قبضہ کرلیا لیکن پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یونانیوں کے اقتدار کا سورج پہلی صدی میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ 'ساکاؤں' کی آخری یلغار میں انہوں نے یونانیوں کو شکست دے کر گندھارا پر قبضہ کرلیا اور رفتہ رفتہ ان کی سلطنت پنجاب، اور سندھ سے متھرا تک پھیل گئی (90 ق-م سے 25ع)۔ ان کا جھکاؤ بدھ مت کی طرف تھا، مگر دوسرے مذاہب سے بھی ان کا برتاؤ بڑی رواداری اور نرمی کا رہا۔ ساکاؤں کو ٹیکسلا میں راج کرتے 100 سال گذرے تھے کہ 'پارتھیوں' کا ریلہ آیا اور ساکاؤں کے اقتدار کو بہا کر لے گیا۔

سبط حسن لکھتے ہیں: "پارتھین ایرانی نژاد نہایت مہذب لوگ تھے، چنانچہ گندھارا آرٹ کی ابتدا انہی کے دور میں ہوئی۔ پارتھیوں نے یہاں 53 برس تک حکومت کی۔ اس کے بعد 'کشن' قوم نے سر اٹھایا اور وادیء سندھ پر قبضہ کرلیا۔ کشنوں نے 200 برس تک حکومت کی۔ سلطنت کا مرکز چونکہ گندھارا کا علاقہ تھا، اس لیے گندھارا کو ترقی کے خوب مواقع ملے۔ گندھارا آرٹ اس تہذیبی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔"

آرین، یونانی، ساکا، پارتھین، اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے 'گندھارا آرٹ'۔ اس آرٹ کا مرکز یوں تو ٹیکسلا تھا، لیکن اس کے سحر کی جڑیں دور پشاور، مردان، سوات، افغانستان، حتیٰ کہ وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔

ابتدا، کمال، خوبصورتیوں، دکھ سکھ، شکست و ریخت کے ذائقے کی کیفیتوں کو محسوس کرتے ہوئے ہم آخر وہاں آکر پہنچے جہاں کمال کا اختتام ہوتا ہے اور زوال کے زینوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ ہر کمال کی کوکھ میں زوال کا بیج ہوتا ہے۔ بس اس کے اگنے کا وقت، حالات اور واقعات مقرر کرتے ہیں۔

ٹیکسلا میوزیم
ٹیکسلا میوزیم
ٹیکسلا میوزیم
ٹیکسلا میوزیم

یہاں بھی یہ وقت آ پہنچا۔

460ع میں ظالم، وحشی اور بے رحم 'حنوں' نے اپنی وحشتوں سے شہروں اور بستیوں کو مسمار کردیا، اسٹوپاؤں اور وہاروں میں آگ لگا دی، ہزاروں بے گناہ جان سے مارے گئے، اور گندھارا کا فن ایسا مٹا کہ پھر کبھی زندگی کی سانس اس میں پھونکی نہ جاسکی۔

مشہور چینی سیاح ہوانگ سانگ حنوں کے آخری دنوں میں 629ع میں یہاں آیا۔ سوات کا ذکر کرتے وہ لکھتا ہے: "یہاں کسی زمانے میں 18 ہزار بھکشو رہتے تھے لیکن اب وہار اور اسٹوپا ویران پڑے ہوئے ہیں۔ البتہ یہاں ہندوؤں کے دس مندر بن گئے ہیں۔" ٹیکسلا کا حال بھی کچھ اس طرح کا بیان کیا گیا ہے۔

سبط حسن لکھتے ہیں: "حقیقت یہ ہے کہ پانچویں، چھٹیں اور ساتویں صدی کا زمانہ اس تہذیب کا تاریک ترین دور ہے۔ ان تینوں صدیوں میں علم و فن نے کوئی ترقی نہیں کی۔" دسویں صدی میں کتاب الہند کے مصنف ابو ریحان البیرونی (1048-973ع) نے ٹیکسلا کو دیکھا تھا تو یہ شہر ویران ہوگیا تھا۔ یہ ایک کمال اور اس کے زوال کی کہانی تھی مگر یہ ضرور ہے کہ ایسا کمال بہت ہی کم علاقوں کے نصیب میں ہوتا ہے، یہ تہذیبوں کو جوان کرنے کا یادگار زمانہ تھا۔

— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (17) بند ہیں

Waseem Jul 10, 2015 11:44pm
روایت ہے کہ عیسیِ ابن مریم سلامہ علینا کے ایک حواری حضرت توماس دین عیسوی کی تبلیغ کے لئے ٹیکسلا تشریف لائے تھے۔ کوئی صاحب علم اس پر روشنی ڈال سکیں تو نوازش ہوگی۔
Waseem Jul 11, 2015 12:13am
'ہخامنشی' خاندان کے 'داریوش' (486-522) ق۔م میں پہلے گندھارا پر قبضہ کیا اور پھر وادیء سندھ کے پورے علاقے کو اپنی قلمرو میں شامل کرلیا۔ رومی سلطنت کے بعد یہ دوسری بڑی سلطنت تھی جو 7.5 ملین کلومیٹر میں پھیلی ہوئی سلطنت تھی۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ 'ہندوش' (پنجاب اور سندھ) اس سلطنت کا ایک تہائی خراج 'سپت سندھو' سے وصول ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے ہندوش ہخامنشی سلطنت کا سب سے دولت مند صوبہ تھا۔ وادی سندھ کا علاقہ تقریباً 200 سال تک ایران کا باجگذار رہا. Abu bakar Sheikh sahab, I wonder if you can please provide reference for above quoted paragraph.
Jul 11, 2015 08:19am
The old is so old that you cannot make out any thing from it. Mere conjectures are available. What we can get out of it is that the by gone time is now by gone. We have to become civilized and cultured, not like the people of the past but as the requirements of our own time. To be cultured and morally good is the only criterion for man.
Arshad Ali Jul 11, 2015 10:34am
مصنف نے بہت خوبصورتی اور اختصار کے ساتھ ٹیکسلا کی تاریخ کاجائزہ لیا ، جیسے ٹیکسلا کے عروج کا دور مسلسل تھا اور مختلف ادوار اس کی تعمیر و ترقی میں اضافے کا باعث بنے ، اسی طرح "حنوں" سے شروع ہونے والا زوال کا دور بھی مسلسل ہے جو کسی طور روکنے میں‌نہیں آرہا سرکپ یا ٹیکسلامیوزیم کے بائیں جانب کلومیٹروں میں‌پھیلے شہر کا ایک چکر اس بات کے لیے کافی و شافی ثبوت فراہم کرتا ہے کہ آج کے ٹیکسلا باسیوں کا ان تہذیبی ورثے اور اس کی امانت داری سے دور کا بھی واسطہ نہیں ، حد تو یہ کہ شاید ہزاروں‌ میں بھی ایک نہ ملے جو ٹیکسلا کی اس تاریخ سے واقف بھی ،، ہاں ایک ٹپ ان لوگوں کے لیے جو ٹیکسلا آنے کے خواہش مند ہوں ، موہڑہ مرادوں والے لنک روڈ‌ پر موڈنے سے پہلے میں روڈ پر ایک چائے کے کھوکھے سے آپ کو مٹی کے پیالے میں ایسی کمال چائے ملے گی کہ سفر کی تھکان کے آثار باقی نہ رہیں‌ گے سو اس کا لطف ضرور لیں ، :)
Waseem Jul 11, 2015 12:33pm
@Arshad Ali ارشد بھائی پنڈی سے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کیسے ٹیکسلا میوزیم تک پہنچا جاسکتا ہے؟؟ اگر کوئی آرام دہ سروس ہو جس میں بچے بھی ساتھ جا سکیں تو ضرور بتائیے۔
Anwer Abbasi Jul 11, 2015 05:05pm
Itni bari kobsorat tarekhi story parh kar bahout maza aaya. or dukh b howa k jab men islamabad dostoon k sath gaya tha to sab dost ttaxilla dekhny gay thy par men kisi majbori ke waja sy na ja saka.
shah Yasmen Jul 11, 2015 05:24pm
TAREKH K HAWALY SY INTAHAE KHOOBSORAT TAHRIR HY. TASWEREN BHI AALA HEN..KHOOBSORAT.
abdullah Jul 11, 2015 06:06pm
Jis tarah Mohan/ Moen jo Daro ki aik apnee shnakht hay wesy he Taxila bhe mazee ka aik aisa Nishan hay jis se andaza hota hay k Wadeeay Sindh apny andr kitney tareekhy Shawahid Sanbhaley rakhey Hoey hay.. Abu Baker Shaikh ney un Pathroon aur eentoon ki zubanee kehanee sunaee hay .. aur buht eemandarey sey wo bat perhney waloon tak Punchaee hay..
Saeed Ahmed Jul 11, 2015 08:09pm
روایت ہے جب شیطان کی بیدخلی کی گی اور شیطان جب زمین پر اُترا تو اسکے پاؤں جس سرزمین پڑے وہ ٹیکسلا کی سرزمین تھی ۔ اور روایت ہے حضرت اماں ہوا نے جس درخت کا پھل کھا کر جنت سے بے دخل یا نکالی گئی اس پھل کا بیج ٹیکسلا میں بویا گیا تھا
shahidlatif Jul 11, 2015 10:31pm
آپ نے محنت سے لکھا ۔ کارآمد ڈاکو منٹ ہے۔ ویسے یہ ہن لوگ ابھی پاکستان میں ہی ہیں اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی نسل ختم نہیں ہوئی ۔ یہ آخری فاتحین تھے۔
latif Jul 12, 2015 02:28am
a beauty of taxila i was wondering to read this article... express the feelings which described... well done for your awesome words.. stay blessed
Saleem Raza Khan Jul 12, 2015 01:11pm
you have done very nice work I am really impressed keep on doing we need to promote our tourism .I remember my school days when we use to visit these places .And a lot of tourists were found from other countries.They use to pass smiles we use to interview them what a lovely days. People use to call me to guide and talk with these tourists.
Muhammad Ashfaq Sidhu-Brar Jul 12, 2015 02:30pm
Romans came much later. Roman don't precede Achaemenid Empire. Achaemenid Empire was followed by Greeks conquest (Alexander the Great). Greeks were followed by Roman Empire!
Saeeda Sager Jul 12, 2015 03:59pm
ابتدا، کمال، خوبصورتیوں، دکھ سکھ، شکست و ریخت کے ذائقے کی کیفیتوں کو محسوس کرتے ہوئے ہم آخر وہاں آکر پہنچے جہاں کمال کا اختتام ہوتا ہے اور زوال کے زینوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ ہر کمال کی کوکھ میں زوال کا بیج ہوتا ہے۔ بس اس کے اگنے کا وقت، حالات اور واقعات مقرر کرتے ہیں@ یہ ایک ریسرچ پیپر ہے میری نظروں میں،،،،اور ساتھ میں کمال یہ ہے کہ آپ نے تاریخ کے خشک موضوع کو جس طرز پر بیان کیا ہے اصل میں وہ ہی اہم ہے،،،،میں سمجھتی ہوں کہ ہم ماضی کو اس طرز تحریر سے زیادہ اچھے طریقہ سے یاد رکھ سکتے ہیں،،،،،،آپ نے ٹیکسیلا جو جس نگاہ اور گہرائی سے دیکھا ہے وہ آپ کی تحریر سے عیاں ہے،،،،،لکھتے رہئے شیخ صاحب،،،،،ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں،،،
Mohammad Usman Jul 12, 2015 04:46pm
hamari history ko khobsoorat lafzoon ka anokhy rang men pesh karne par likhak Abu bakar Aur dawn ko mubarkh ho
sardar bhayo Jul 12, 2015 08:03pm
This article is proven that history not only hard subject but it can be present with interesting travelogue which let the readers visiting historical ancient place. Abu Bakar Shaikh is one of those writers who bring innovative ideas in writing and charm the subject. I did not only read article but I visited past era. You have creativity, is appreciated.
Safeer Kabir Jul 13, 2015 05:09am
شکریہ شیخ صاحب.. ایسی خوبصورت تاریخ اور تحریر ہم تک پہنچانے کے لئے.. :-)