• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:27pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:27pm
شائع July 11, 2015 اپ ڈیٹ July 12, 2015

مینا بازار کے رنگ

منال خان

جیسے ہی کراچی میں سخت گرمی کی لہر ختم ہوئی اور قدرت نے ہمیں ایک بار پھر ٹھنڈی سمندری ہوائیں عطا کیں، عید کی تیاریوں کی چہل پہل بھی بحال ہوگئی۔ مینا بازار کے دکانداروں کے لیے عید الفطر کا تہوار سال کا سب سے مصروف وقت ہوتا ہے۔

خبروں سے غائب رہنے کے باوجود مینا بازار کو آج بھی بڑی تعداد میں خریداروں کا ساتھ حاصل ہے جو کراچی کے کسی اور بازار کو مینا بازار پر ترجیح نہیں دیتے۔

مغلیہ دور میں نوروز کے جشن کے دوران خواتین کے لیے خصوصی بازار لگائے جاتے تھے۔ خواتین 5 سے 8 دنوں کے تہواروں کے لیے ان بازاروں کا رخ کرتی تھیں اور مردوں میں یہاں صرف مغل بادشاہوں اور شہزادوں کو آنے کی اجازت ہوتی تھی۔

حرم کی خواتین، راجپوتوں کی بیویوں اور بیٹیوں میں یہ مشہور تھا جو یہاں اسٹالز لگاتی تھیں اور مہنگی اشیا فروخت کرتی تھیں۔

اسی ورثے کی پیروی کرتے ہوئے کریم آباد میں واقع مینا بازار مقامی خواتین میں سب سے مشہور بازار سمجھا جاتا ہے۔ اس کا افتتاح 1974 میں کیا گیا تھا اور تب سے ہی یہ ثقافتی طور پر بھرپور اور خواتین کی توجہ کے مرکز بازاروں میں سے ایک ہے۔ زیورات، دوپٹے، چوڑیاں، میک اپ، کولہاپوری اور کھسے بازار کی کشش بڑھانے والی سب سے زیادہ مقبول اشیا ہیں۔

مینا بازار میں داخلے کا راستا
مینا بازار میں داخلے کا راستا

مغل دور کے مینا بازار کے برعکس کریم آباد کا یہ بازار خواتین کے لیے قیمتوں کے لحاظ سے معقول ہے جہاں درزیوں اور بیوٹی پارلرز کے وسیع ورائٹی موجود ہے۔ مگر یہ مہندی کے اسٹالز تھے جو مینا بازار کی مقبولیت کی وجہ بنے۔ دور دراز کے علاقوں جیسے ڈیفینس اور صدر سے بھی خواتین یہاں آتی ہیں۔ یہ تو آج بھی کہا جاتا ہے کہ شادی کی تیاریاں مینا بازار جائے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتیں۔

اپنے کیمرے کے ساتھ مینا بازار کا ایک چکر لگاتے ہوئے میں نے طرح طرح کی دکانیں دیکھیں۔ درجن بھر دکانوں سے بغیر خریداری اور مول تول کیے بغیر گزرنے پر کچھ دکاندار مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

میں نے اپنی زندگی میں ایک ساتھ اتنے سارے رنگ کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اپنی نظروں کو شوخ پیلے رنگ کا عادی بنانے میں مجھے تھوڑی دیر لگی۔

یہاں آدھی رات تک خریداروں کا رش موجود ہوتا ہے۔
یہاں آدھی رات تک خریداروں کا رش موجود ہوتا ہے۔
ینا بازار کی ایک گلی۔
ینا بازار کی ایک گلی۔

رنگ برنگے دوپٹوں، کھسوں، چنریوں، اور سپاٹ سینڈلز کی گلی۔

چنری کے رنگ برنگے ڈوپٹے۔
چنری کے رنگ برنگے ڈوپٹے۔
حجاب کی دکان۔
حجاب کی دکان۔
مینا بازار خوبصورت دوپٹوں کے لیے مشہور ہے۔ دادا، والد اور بیٹا یہاں گذشتہ 17 سالوں سے کام کر رہے ہیں۔
مینا بازار خوبصورت دوپٹوں کے لیے مشہور ہے۔ دادا، والد اور بیٹا یہاں گذشتہ 17 سالوں سے کام کر رہے ہیں۔

کونے میں ایک چھوٹی سی دکان سے گرم ہوائیں آ رہی تھیں۔ میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہاں دوپٹوں کو رنگا جا رہا تھا۔ نیچے تصویر میں موجود سرمئی قمیض میں ملبوس لڑکے نے مجھے بتایا کہ یہ دکان اس کے والد کی تھی، اور اپنے مرنے سے پہلے انہوں نے یہ دکان اپنے بھائی کے نام کردی اور اب وہ یہاں صرف ایک ملازم ہے۔

ہنر مند کاریگر دوپٹوں کو مختلف رنگوں میں رنگ رہے ہیں۔
ہنر مند کاریگر دوپٹوں کو مختلف رنگوں میں رنگ رہے ہیں۔
کچھ نہایت زبردست ڈیزائن کی روایتی چوڑیاں مینا بازار سے خریدی جا سکتی ہیں۔
کچھ نہایت زبردست ڈیزائن کی روایتی چوڑیاں مینا بازار سے خریدی جا سکتی ہیں۔

اور ایسے مقام پر جہاں کراچی والے صبح سے رات تک کام کرتے ہوں، وہاں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ چائے والا موجود نہ ہو؟

شبران ابراہیم مینا بازار میں پچھلے تین سالوں سے چائے فروخت کر رہا ہے۔ اسے چائے کے 22 کپ فروخت کرنے پر 100 روپے کمیشن ملتا ہے۔ جیسے ہی میں نے اس سے بات مکمل کی، اس نے خیرسگالی کے طور پر مجھے چائے کی پیشکش کی اور کہا ’باجی آپ تھک گئی ہوں گی کیمرا پکڑے ہوئے۔‘

شبرن ابراہیم اپنے کام کے دوران۔
شبرن ابراہیم اپنے کام کے دوران۔

میں اس جگہ پر کتابوں کی دکان دیکھ کر حیران رہ گئی۔ دکان کے اندر موجود سفید ٹی شرٹ پہنے ہوئے ایک شخص نے دکان سے باہر سر نکال کر مجھ سے پوچھا کہ میں کس قسم کی کتابوں میں دلچسپی رکھتی ہوں؟ صدیقی بک اسٹور میں ظہیر اپنے بھائی کے ساتھ کام کرتا ہے اور اس کی یہ دکان مینا بازار کی واحد کتابوں اور میگزین کی دکان ہے۔ ان کی دکان 20 سالوں سے مینا بازار میں موجود ہے، البتہ انہوں نے افسردگی سے بتایا کہ اب کوئی پڑھنے کا شوق نہیں رکھتا۔

آپ کو ہر کتاب منگوا کر دے سکتے ہیں پبلشر سے، ظہیر
آپ کو ہر کتاب منگوا کر دے سکتے ہیں پبلشر سے، ظہیر

کتابوں کی دکان سے باہر آتے ہی میں نے اسٹالز کی قطار دیکھی۔ یہاں سے لڑکیاں خالی ہاتھ واپس نہیں جاتیں۔ ان اسٹالز کے درمیان لمبے قد کا ایک لڑکا فہد اپنے اسٹال پر کھڑا تھا اور وہ اس جگہ پر 5 سالوں سے کام کر رہا ہے۔ اس نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ بے انتہا خوش ہے کہ ’تھوڑی حلال کمائی زیادہ حرام کمانے سے بہتر ہے۔‘ اس کا مزید کہنا تھا کہ عید کی وجہ سے اس کی فروخت عروج پر پہنچ گئی ہے۔

فہد
فہد

مینا بازار میں میرے سب سے پسندیدہ شخص امرود والے صابر چاچا رہے۔ صابر اور میں نے بازار کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ان کے یہاں گزارے ہوئے وقت کے بارے میں ایک لمبی گفتگو کی۔ وہ اس جگہ پر گزشتہ 35 سالوں سے موجود ہیں، اور یہاں کے نئے دکانداروں کے درمیان انہیں گھر جیسا احساس ہوتا ہے۔ دکاندار اکثر ان سے مشورہ کرتے ہیں، اور ان کی امرود کی ٹوکری بھی اٹھاتے ہیں۔

صابر چاچا ایک لڑکے کو ہدایت دیتے ہوئے
صابر چاچا ایک لڑکے کو ہدایت دیتے ہوئے

اس پرانے اور خستہ حال مینا بازار کو دیکھ کر مجھے کافی اداسی ہوئی۔ کراچی کے مہنگے اور ایئر کنڈیشنڈ شاپنگ مالز کے سامنے یہ مینا بازار اب خراب حال میں موجود ہے۔ برانڈز نے ہمیں چیزوں کی تاریخ اور روح سے ناواقف کر دیا ہے۔

مینا بازار کا اوپری منظر
مینا بازار کا اوپری منظر

منال خان فوٹوگرافر ہیں، اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ میں جرنلزم کی طالبہ ہیں۔ انہیں ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر فالو کریں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

منال خان

منال خان فوٹوگرافر ہیں، اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ میں جرنلزم کی طالبہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ManalKhan07@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

Muhammad Ayub Khan Jul 11, 2015 07:21pm
چنری کے رنگ برنگے ڈوپٹے۔
shaima imran Jul 12, 2015 04:03am
Awsome report . excellent
حسین بادشاہ Jul 12, 2015 11:28am
بک شاپ کی موجودگی خوش کن ہے۔
Mukhtar Jul 12, 2015 01:16pm
I know this bazaar .
Hidayat Ullah Jul 14, 2015 08:42am
well done Manal Khan.Good work.
imran Jul 14, 2015 02:32pm
zabardast