• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

شان مسعود کی کہانی، انہی کی زبانی

شائع July 9, 2015
شان مسعود۔ فائل فوٹو اے ایف پی
شان مسعود۔ فائل فوٹو اے ایف پی

سری لنکا کے خلاف پالے کیلے میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی فتح میں اہم کردار ادا کرنے والے نوجوان اوپنر شان مسعود ایک ابھرتا ہوا ٹیلنٹ ہیں جنہوں نے یہ آرٹیکل 2012 میں برطانیہ میں لائسیسٹر کی لوبورو یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے ڈان ڈاٹ کام کے لیے لکھا۔ بائیں ہاتھ کے اوپننگ بلے باز کا شمار پاکستان کے ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ وہ انڈر 15 اور انڈر 19 سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور 14 اکتوبر 2013 کو جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کھیلے کر اپنے کریئر کے آغاز سے قبل وہ پاکستان اے ٹیم کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔

السلام و علیکم قارئین

میرے یونیورسٹی اور ڈومیسٹک فرسٹ کلاس کریئر کا آغاز ساتھ ساتھ ہوا، مجھے اپنے تعلیمی اوقات کے ساتھ ساتھ اپنے کھیل پر بھی کام کرنے کے لیے دونوں میں توازن برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش تھا۔

اس موقع پر میرے پہلی مرتبہ لکھے گئے آرٹیکل ’ڈائری آف فرسٹ کلاس کرکٹر‘ نے دوسری مرتبہ لکھنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔

2012 کے انڈر 19 ورلڈ کپ میں ناکامی کے بعد ہماری شکست خوردہ نوجوان ٹیم نے اپنی پوری توجہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی پر مرکوز کر لی تھی کیونکہ پوری قوم کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہو چکی تھی۔

یہاں بہت عرصے سے پاکستان کرکٹ میں نوجوانوں اور ان کی قومی ٹیم میں شمولیت کے لیے تربیت کے حوالے سے گفتگو جاری ہے۔

اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ کس طرح ایک نوجوان کرکٹر نے انڈر 19 سے انٹرنیشنل کرکٹ کا سفر طے کیا۔ بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کھلاڑی انڈر 19 سطح پر ملے پلیٹ فارم کے بغیر یوتھ سطح سے قومی ٹیم میں جگہ بنا پائے، حتیٰ کہ کھیل کے بڑے بڑے ستارے جیسے ایلسٹر کک، ہاشم آملا اور مائیکل کلارک نے بھی انڈر19 ورلڈ کپ میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔

ہمارے ملک میں بھی اس فہرست میں ناصر جمشید، عمران نذیر، کامران اکمل، عمر اکمل، عبدالرزاق، عمر گل اور شعیب ملک جیسے نام شامل ہیں۔ تاہم انڈر19 ٹیم میں شمولیت کو قومی ٹیم میں شمولیت یا ٹیم میں براہ راست رسائی کی گارنٹی سمجھنا ایک غلطی ہوگی۔ اس سے آگے بھی مزید سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔

حقیقتاً حالیہ دور میں براہ راست انڈر 19 سے قومی ٹیم میں جگہ بنانے والے واحد کھلاڑی کے طور پر صرف حماد اعظم کا نام ذہن میں آتا ہے۔ کرکٹ شائقین یقیناً حیران ہوں گے کہ آخر اس سال کے ورلڈ کپ کے بعد اس طرح کے باصلاحیت کھلاڑیوں کا مستقبل کیا ہو گا۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کا مجھے 2008 کے انڈر 19 ورلڈ کپ کے اختتام کے بعد سامنا کرنا پڑا۔

مجھے اور میری ٹیم کے ساتھی کھلاڑیوں کو سی طرح کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم کس کے لیے فرسٹ کلاس کھیلیں گے؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ سینئر ٹیم میں جگہ بنا پائیں؟

اب ہمارا مقابلہ صرف اپنی عمر کے کھلاڑیوں سے نہیں تھا بلکہ ہمیں پاکستان کے بہترین کھلاڑیوں سے بھی مقابلہ کرنا تھا۔

لیکن یہاں میں ایک مختلف راستہ چنتے ہوئے اپنے اے لیول کی تکمیل کے لیے انگلینڈ کے بورڈنگ اسکول چلا گیا، میرے ساتھی کھلاڑی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے لگے اور آج ان میں سے چھ کھلاڑی عمر اکمل، احمد شہزاد، عمر امین، محمد عامر اور عثمان صلاح الدین اب تک قومی ٹیم کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

انڈر19 سطح سے ملنے والا شاندار آغاز کھو دینے کے باوجود مجھے وہ سال گنوانے پر کوئی افسوس نہیں۔ ممکنہ طور پر میری منزل بھی بالآخر یہی ہو گی۔

یہ سال میرے لیے بہت قیمتی ثابت ہوا جہاں میں اے لیول میں لگاتار اے گریڈ لینے کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی صف اول کی یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب رہا اور غیر ملکی حالات میں کھیلنے کے لیے میں نے اپنے کھیل کو بہت بہتر کیا جس کا امید ہے کہ مستقبل میں مجھے فائدہ ہو گا۔

میرے اسکول نے مجھے ایک تعلیم یافتہ پاکستانی کرکٹر ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔

انگلینڈ میں اسکول کرکٹ بہت اہم ہے اور میری کارکردگی کی بدولت 2009 کی وژڈن کی بک میں مجھے بہترین ’اسکول بوائے بیٹسمین‘ کا خطاب دلایا جہاں یہ اعزاز ناصر حسین اور ایلسٹر کک جیسے کھلاڑیوں کو بھی حاصل تھا۔

میری پاکستان واپسی اس تلخ حقیقت کے ساتھ ہوئی کہ ایک سال کرکٹ کھیلنے کے کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میں انڈر سطح پر ملنے والی پذیرائی اور کارکردگی گنوا چکا تھا اور اب مجھے کوئی نہ جانتا تھا۔

مجھے خود کو اس صورتحال سے نکالنا تھا اور حبیب بینک لمیٹیڈ کے لیے ڈیبیو سے قبل مجھے سات میچ بینچ پر بیٹھ کر گزارنا پڑے اور سوئی ناردرن گیس کے خلاف بحرانی صورتحال میں کھیلی گئی 70 رنز کی میچ بچانے والی اننگ نے ناصرف دیگر لوگوں بلکہ خود مجھے بھی یہ باور کرایا کہ میں اب بھی کھیل سکتا ہوں۔

اس کے بعد بھی پاکستان اے کی نمائندگی کے لیے مجھے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین سیزن گزارنے پڑے اور پھر قائد اعظم ٹرافی کے فائنل اور ایک روزہ کپ میں متاثر کن کارکردگی نے مجھے اے ٹیم کی مزید نمائندگی اور پذیرائی کا موقع فراہم کیا۔

حال ہی میں ایک اور سیزن میں تقریباً ۱ ہزار رنز اسکور کرنے کے بعد میں سلیکٹرز کی نظروں میں آ گیا۔

یہ سفر بہت مشکل تھا لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ انتہائی مشکل بن جاتا ہے۔ کچھ کھلاڑی انڈر19 سطح پر کھیلنے کے بعد مزید میچز نہیں کھیل پاتے اور اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں۔

یہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ کرکٹ کھیلنے والے تمام ہی ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

انڈر19 کھلاڑیوں کی زیادہ تعداد کو مواقع فراہم نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنانا غلط ہے۔ لوگ اکثر ہندوستان کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ دیکھیں کس طرح انہوں نے ویرات کوہلی جیسے نوجوان کو مواقع دیے۔

میں ہر کسی کو یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ کوہلی اور میں ایک ہی ورلڈ کپ میں کھیلے تھے اور ان کی ٹیم میں سے صرف دو کھلاڑی ہندوستانی ٹیم میں کھیلے جبکہ ہمارے ہاں چھ کھلاڑی اس اعلیٰ مقام تک پہنچے۔

حقیقتاً آخری پانچ ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان انڈر 19 ٹیم کے 31 کھلاڑی قومی ٹیم کے لیے کھیلے اور یہ تعداد دنیا کے کسی دوسرے ٹیسٹ کھیلنے والے ملک سے زیادہ ہے۔

انڈر 19 ورلڈ کپ کی ٹیلی ویژن کوریج اور اے ٹیم کے لیے زیادہ کرکٹ کی وجہ سے حال ہی میں انڈر 19 ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں نے اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔

اے ٹیم کے ذریعے انڈر 19 ٹیم سے سینئر ٹیم تک بہتر کھلاڑی میں تبدیل ہو کر ٹیم میں پہنچتے ہیں۔ امید ہے کہ پی سی بی مستقل بنیادوں پر مزید اے ٹیموں کے دوروں کا انعقاد کرے گا جس سے عالمی سطح پر ٹیلنٹ کو منظر عام پر لانے میں مدد ملے گی۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انڈر 19 ایک کرکٹر کے لیے مضبوط ستون ہے لیکن یہاں سے براہ راست سینئر ٹیم میں رسائی نہیں ہو سکتی۔

اس سے آگے راستے میں مختلف پیچیدگیاں اور رکاوٹیں آتی ہیں اور کھلاڑیوں کے سمندر میں کھونے سے بچنے کے لیے سخت محنت اور فرسٹ کلاس میں کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ پاکستانی ٹیم میں جگہ بنائی جا سکے۔

لیکن انڈر 19 کرکٹ کے فوائد بہت واضح ہیں کیونکہ ہم مختلف ملکوں کا دورہ کرتے ہیں، مختلف کنڈیشنز میں کھیلتے ہیں اور اگر سخت محنت کریں تو قومی ٹیم کی نمائندگی کا مزہ بھی چکھ لیتے ہیں۔

آگے ایک طویل فرسٹ کلاس سیزن میرا منتظر ہے اور میں اسے اپنے کیریئر کا اہم ترین سیزن تصور کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ کچھ اچھی پرفارمنس مجھے میرے خواب کے قریب کر دیں گی۔

میں دوروں کے دوران بھی لکھنے کی کوشش کروں گا لیکن تب تک اپنا خیال رکھیں اور اللہ حافظ۔

تبصرے (1) بند ہیں

abid ali Jul 10, 2015 09:23pm
nice yar shan i like your batting

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024