افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کا پہلا دور ختم
اسلام آباد: پاکستان کی ثالثی میں افغان حکومت اور تحریک طالبان افغانستان (ٹی ٹی اے) کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور مری میں ختم ہوگیا ہے، جہاں دونوں فریقین نے دوبارہ ملاقات پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے بدھ کو اپنے ایک مختصر پیغام میں کہا "افغانستان میں قیام امن اور بحالی کی کوششوں کے لیے پاکستان ، افغان حکومت اور تحریک طالبان کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے"۔
قاضی خلیل اللہ نے اس سے قبل بتایا کہ امریکا اور چین کے نمائندے بھی بطور مبصر مذاکرات میں شریک ہوئے۔
مذاکرات کے دوران دونوں فریقین نے افغانستان کی موجودہ صورتحال اور ترقی کی طرف قدم بڑھانے کے معاملے پر اپنا موقف پیش کیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق شرکاء نے افغانستان میں قیام امن اور بحالی لانے سے متعلق اپنے نظریات اور تجاویز پیش کیں۔
دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خطے میں پائیدار قیام امن کے لیے ہر پارٹی کو خلوص اور پورے عہد کے ساتھ اس عمل کا حصہ بننا ہوگا۔
قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ شرکاء نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات شروع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
شرکاء نے افغانستان اور خطے میں امن لانے کی مشترکہ خواہش کا اظہار کیا اور امن اور بحالی کی فضا قائم کرنے کے لیے مذاکرات کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے حوالے سے کام کرنے کی خواہش پر افغان حکومت اور تحریک طالبان افغانستان کا شکریہ ادا کیا۔
قاضی خلیل اللہ نے کہا "ہم نے افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی کے لیے خدمات پراقوام متحدہ سمیت اپنے تمام پارٹنرز کا شکریہ ادا کیا"۔
باہمی اتفاق سے مذاکرات کا اگلا دور اب رمضان المبارک کے بعد منعقد کیا جائے گا۔
منگل کو آفیشلز کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کا ایک وفد افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کی کوششوں کے لیے اسلام آباد پہنچا ہے، اگرچہ طالبان وفد کے شرکاء کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی تاہم ایک ذریعے نے بتایا کہ اسے طالبان کے تمام حلقوں کی نمائندگی حاصل ہے۔
افغان صدر اشرف غنی کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ’اعلی سطحی افغان امن کونسل کا ایک وفد طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے پاکستان پہنچا ہے‘۔
اس کونسل کو طالبان جنگجوؤں کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
اشرف غنی کے نائب ترجمان سید ظفر ہاشمی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وفد کی سربراہی نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی کر رہے ہیں۔
تاہم ہاشمی نے بات چیت کے عمل کی طوالت، زیر بحث موضوعات اور مذاکرات میں طالبان کی شمولیت کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا۔
مذاکرات میں پاکستان، امریکا اور چین کے حکام بھی شریک ہوئے جنہوں نے ان کے انعقاد میں مدد کی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی قوتیں بھی ان مذاکرات کی حمایت کررہی ہیں۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حصے لینے والے ممالک کی حیثیت صرف سہولت کاروں ہی کی نہیں، اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی ڈیل ہوجاتی ہے تو یہ ضامن کا کردار بھی ادا کریں گے۔
افغان وفد کی سربراہی ڈپٹی وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے کی جبکہ دیگر اہم رہنماؤں میں صدر اشرف غنی کے مشیر حاجی دین محمد اور افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے نمائندے محمد نطیقی شامل تھے۔
دوسری جانب افغان گروپ کی سربراہی افغان دور میں اٹارنی جنرل رہنے والے ملا عباس نےکی، جو طالبان سربراہ ملا عمر اور طالبان شوریٰ کے اراکین کے کافی قریب خیال کیے جاتے ہیں۔
حالیہ کچھ مہینوں میں طالبان اور افغان حکام کے درمیان ملک سے باہر کچھ غیر رسمی ملاقاتیں ہوئی ہیں ، تاہم اس مذاکراتی عمل سے کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نظر نہیں آئی۔
طالبان نے گزشتہ مہینے تسلیم کیا تھا کہ وہ ایک افغان وفد کے ساتھ ناروے میں غیر رسمی بات چیت کر رہے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ مئی میں قطر میں ہونے والی ایسی ہی غیر رسمی ملاقاتوں میں طالبان وفد نے عہد کیا تھا کہ وہ خواتین کی تعلیم اور ان کے کام کرنے کے حق کی حمایت کریں گے۔
خیال رہے کہ طالبان نے حکومت کے ساتھ بھرپور مذاکرات شروع کرنے سے پہلے غیر ملکی فوجوں کے افغانستان سے مکمل انخلاء کی شرط عائد کی تھی۔
امریکی اتحادی فورسز نیٹو نے دسمبر میں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگی مشن ختم کر دیا تھا، تاہم مقامی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کے لیے کچھ غیر ملکی فوجی دستے اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں