• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
شائع July 2, 2015 اپ ڈیٹ July 3, 2015

جس طرح گھر کا آنگن ہوتا ہے، بالکل اسی طرح شہروں کے بھی آنگن ہوتے ہیں، سمندر کا بھی آنگن ہوتا ہے، اور خطوں کے بھی آنگن ہوتے ہیں۔ میں سورج ڈوبنے سے کچھ گھنٹے پہلے جب 'نوکوٹ' کے قلعے کی طرف جا رہا تھا تو راستے کے دونوں طرف دودھ جیسی سفید زمین بچھی ہوئی تھی۔ کیونکہ میں شمال سے جنوب کی طرف جا رہا تھا تو مشرق کی طرف دور سے مجھے ریت کے ٹیلے نظر آئے جس کو مقامی زبان میں (واری جوں بھٹوں) کہتے ہیں، اور یہ نام سن کر تصور میں 'تھر' کا صحرا اگ آتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جب ساون بھادوں جی کھول کر برسیں تو یہ صحرا صحرا نہیں رہتا، بلکہ حدِ نگاہ تک ہریالی کی چادر سی بچھ جاتی ہے، نخلِستان سا بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ تھر کو دیکھنا ہو تو تب دیکھو، لیکن اب تک بادل نہیں برسے ہیں اور میں سوکھے تھر کو دیکھ رہا تھا۔

راستے کے مغرب میں پہلے ویرانی آئی، اور پھر اچانک آموں کے ایک وسیع باغات کی ہریالی چھا گئی اور ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ اس کے بعد پھر سفید مٹی اور ویرانی آگئی۔ کہیں کہیں کوئی بچہ بکریاں چرا رہا تھا، پھر ایک جگہ ایک گھاس پھوس کی جھگی بنی ہوئی تھی۔ میں نے ایک مقامی باشندے سے پوچھا: "یہ تھر ہے!؟"

"جی یہ تھر ہے"، محمد ابراہیم نے آدھی سفید اور آدھی سیاہ مونچھوں کو انگلیوں سے مروڑ کر جواب دیا۔

"یہ تھر کیسے ہے؟ یہاں ریت تو ہے نہیں، بس سفید مٹی ہے، تو تھر کیسے ہے!؟

"اس کو ہم 'مہرانو' کہتے ہیں، جس طرح سندھ میں 'لاڑ' (لوئر)، 'وچولو' (سینٹرل) اور 'اتر' (اَپر) کہتے ہیں، اس طرح ہمارے تھر کے علاقوں کے بھی مختلف نام ہیں، اور یہ ہمارے تھر کا جیسے آنگن ہے۔" اس بات کی آخر میں محمد ابراہیم نے موچھیں نہیں مروڑیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور چل پڑا۔

نوکوٹ کا قلعہ، جسے سندھی میں نئوں کوٹ کہتے ہیں، میرپور خاص سے 60 کلومیٹر کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں تک بدین جھڈو روڈ سے بھی جایا جا سکتا ہے، اور یہاں سے بھی اتنا ہی فاصلہ ہوگا۔ میں نے جب نوکوٹ قلعے کو دیکھا تو حیرت کی کئی فاختائیں تھیں جو میرے دل و ذہن کے امبر پر اڑتی تھیں۔ ایک شاندار اور خوبصورت قلعہ کافی اچھی حالت میں میرے سامنے تھا۔

قلعے کی فصیل
قلعے کی فصیل
قلعے کی فصیل
قلعے کی فصیل
داخلی برج
داخلی برج

یہ قلعہ 1814 میں میر کرم علی خان تالپور نے تعمیر کروایا تھا۔ اس قلعے کی تعمیر کے حوالے سے بہت ساری کہانیاں اور وجوہات تھیں۔ اس قلعہ کے متعلق بہت ساری پراسرار باتیں ہیں جو کتابوں کی تحریریں بھی کرتی ہیں اور مقامی لوگ بھی۔

کلہوڑا حکمرانوں سے 1783 میں میر فتح علی خان نے سندھ کی حکومت حاصل کی اور خود تخت پر بیٹھا، اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے اس نے اپنے تین بھائی، میر کرم علی، میر غلام علی اور میر مراد علی کو حکومت میں شامل کیا، اور ان چاروں بھائیوں کی حکومت پہلی 'چئو یاری' (چار یار) کے نام سے مشہور ہوئی۔

تالپور عہد نے 60 سردیاں اور 60 ساون دیکھے، 1783 سے 1843 تک، اور یہ 60 برس کا مختصر عہد سیاسی ریشہ دوانیوں کا زمانہ رہا۔ سازشیں تھیں کہ روز نیا روپ لے لیتیں، کبھی شجاع الملک کی پریشانی کبھی سردار محمد عظیم کی حملے کی دھمکیاں اور ہر بات آ کر نقد اور تحائف پر ختم ہوتی۔ 'عمرکوٹ' پر 'جودھپور' کے مہاراجہ کا قبضہ تھا، جبکہ جنوب کی طرف "سوڈھے سردار" تھر والی اراضی پر قابض تھے۔ وہ 'کلہوڑوں' کو تو خراج دیتے تھے مگر جیسے ہی میروں نے حکومت قائم کی انہوں نے خراج دینے سے انکار کردیا۔

ان حالات کے مدنظر میر فتح علی خان نے فیصلہ کیا کہ سختی کیے بنا خراج موصول نہیں ہوگا، اس لیے تھر کی مختلف جگہوں پر قلعے تعمیر کیے گئے اور ان قلعوں میں حکومتی مشینری کے کارندوں کو بٹھایا گیا کہ 'سوڈھوں' سے لگان لیں اور تالپور اس میں کامیاب بھی رہے۔

میر کرم علی خان 1812 میں تخت پر بیٹھا، 1813 میں جودھپور کے راجہ سے 'عمرکوٹ' واپس لیا، اور تھر میں کچھ قلعے بھی تعمیر کروائے۔

اندرونی دروازے سے دمدمہ
اندرونی دروازے سے دمدمہ

اعجازالحق قدوسی 'تاریخِ سندھ' میں تحریر کرتے ہیں: "میر کرم علی خان بڑا سخن سنج، صاحبِ فضل، اور شاعر اور علماء کا قدردان تھا، اس کی قدر افزائیوں کی بدولت ایران اور خراسان کے بہت سے علماء نے حیدرآباد میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ٹھٹھہ کے علمی زوال کے بعد حیدرآباد علوم و فنون کا مرکز بنا۔"

نوکوٹ کے اس قلعہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میر کرم علی کو تھر سے خاص لگاؤ تھا اور یہاں اکثر آتا رہتا تھا، اس نے اپنے رہنے کے لیے ایک خاص قلعہ نوکوٹ 1814 میں بنوایا۔ یہ قلعہ تھر کے دوسرے قلعوں جیسے فتح گڑھ، سینگاریو، چیلہار، اور اسلام کوٹ سے بڑا ہے۔ اس قلعہ کے بنانے پر 8 لاکھ روپے سے زیادہ کی لاگت آئی ہوگی۔ یہاں میروں کے سپاہی رہتے تھے اور ساتھ میں بارود، بندوقیں اور توپیں بھی تھیں۔

اشتیاق انصاری اپنی کتاب "سندھ جا کوٹ ائیں قلعا" میں تحریر کرتے ہیں: "یہ ایک ریگستانی اور چوکور قلعہ ہے۔ اس قلعے کے سامنے والے حصے کی لمبائی 366 فٹ اور چوڑائی 310 فٹ ہے، پکی اینٹوں کو جوڑنے کے لیے مٹی کا گارا اور چونا استعمال کیا گیا ہے۔

"اس قلعے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلا حصہ فوجی اور انتظامی حوالہ سے بہت ہی اہم ہے، یہ ایک دمدمہ کی حیثیت رکھتا ہے، شاہی دروازے سے داخل ہونے کے بعد آپ 48x40 کے دمدمہ میں پہنچ جاتے ہیں، یہاں پر قلعے کی مشرقی اور شمالی دیواروں کے نیچے کمانی دار چھت والی بیرک نما کوٹھڑیاں ہیں۔ ان میں نہ کوئی کھڑکی ہے نہ ہوا اور نہ روشنی کا انتظام۔

"ان اندھیرے میں ڈوبی ہوئی بیرکس کے متعلق مقامی روایات بہت ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ بارود رکھا جاتا تھا، کسی کا خیال ہے کہ خطرناک قیدی رکھے جاتے تھے اور بات یہ بھی سننے میں آتی ہے کہ یہاں پھانسی گھاٹ تھا اور لوگوں کو پھانسیاں دی جاتی تھیں، کیونکہ ان کی چھتوں پر ٹانگنے کے لیے کچھ لوہی کڑے لگے ہوئے ہیں اور کچھ اینٹوں سے بیٹھنے کی نشستیں بھی بنی ہوئی ہیں۔ کسی زمانہ میں ان کوٹھیوں کے لیے دروازے بھی تھے لیکن اب فقط ان کے نشانات رہ گئے ہیں۔"

مرکزی دروازے سے بیرکس
مرکزی دروازے سے بیرکس
بیرکس کا دروازہ
بیرکس کا دروازہ
بیرکس کا اندرونی منظر
بیرکس کا اندرونی منظر
بیرکس کے دروازے سے مرکزی دروازے کا منظر
بیرکس کے دروازے سے مرکزی دروازے کا منظر
مغربی دیوار کے کونے سے دمدمہ کا منظر
مغربی دیوار کے کونے سے دمدمہ کا منظر

اگر دشمن یہاں تک یعنی دمدمہ تک پہنچ بھی جائے تب بھی قلعہ کو فتح نہیں کرسکتا، کیونکہ رہائشی حصہ میں جانے کے لیے مغرب کی طرف 12 فٹ کا ایک اور مضبوط دروازہ ہے۔

اب اس وقت اس دروازہ کا نام و نشان نہیں ہے، البتہ اس جگہ کی نشانیاں بتاتی ہیں کہ یہاں ایک بڑا مضبوط اور خوبصورت چوبی دروازہ نصب رہا ہوگا۔ دروازے کے دونوں طرف 10x6.9 فٹ کی چوکیداروں کے بیٹھنے کی جگہیں ہیں جو چوکیداری کرنے کے ساتھ دروازہ کھولتے اور بند کرتے ہوں گے۔

آپ اس دروازے سے جیسے ہی رہائشی حصے میں داخل ہوتے ہیں، ایک وسیع، شاندار، اور خوبصورت منظر آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ پیلو اور جھڑبیری کے ہرے بھرے درخت آپ کو 'آداب' کرتے ہیں۔ قلعے کی وسیع اراضی میں پھیلی مضبوط دیواریں، کھلا نیلا آسمان، اگر دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو یہ سب بہت خوبصورت ہے۔

آپ کے بائیں ہاتھ کی طرف قلعے پر اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں ہیں، اور جنوبی دیوار کے ساتھ دو کمانیدار چھتوں والی کوٹھیاں ہیں جن میں سے مغربی کوٹھی کی چھت گر چکی ہے، ان کے شمال میں ایک اور گنبد نما کمرہ ہے جس میں کوئی کھڑکی نہیں ہے بس ایک دروازہ ہے۔ محترم اشتیاق انصاری ان کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ ان تینوں کمروں میں بارود رکھا جاتا تھا۔

مرکزی دروازہ
مرکزی دروازہ
بارود رکھنے کے لیے کوٹھی
بارود رکھنے کے لیے کوٹھی
بارود رکھنے کے لیے کوٹھی
بارود رکھنے کے لیے کوٹھی

پھر اس گنبدی کمرے سے آپ اگر شمال کی طرف دیکھیں تو آپ کو کسی چھوٹے سے محل کے خستہ سے آثار نظر آئیں گے۔ نزدیک جا کر معلوم پڑتا ہے کہ ان رہائشی کمروں کو کچھ اونچائی پر بنایا گیا ہے۔

ایک زمانے میں یہ بڑی خوبصورت رہائش رہی ہوگی کیونکہ میر کرم علی اکثر یہاں آیا کرتا تھا، اور تالپوروں کے دور حکومت کے آخر میں میر شیر محمد خان جسے 'شیرِ سندھ' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، اکثر یہاں آکر رہتا تھا۔

ہر ایک کمرہ تقریباَ 20X16 فٹ کا ہے، اور فرش سے چھت تک دیوار پندرہ فٹ اونچی ہے۔ اشتیاق صاحب تحریر کرتے ہیں کہ: ہر ایک کمرے میں دیواروں میں سامان رکھنے کے لیے دو دو کباٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان کو خوبصورت بنانے کے لیے ان پر نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔

رہائشی حصہ کے سارے کمرے دروازوں کے ذریعے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، بلکہ ہر کمرہ کا ایک دروازہ باہر کی طرف بھی ہے۔ یہ سارا بندوبست اور احتیاط دفاع کے خیال سے کیا گیا تھا کہ اگر حالات اتنے کشیدہ ہو جائیں تو نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ہو، مگر یہ ایک ایسا مضبوط اور فن تعمیر کا شاہکار قلعہ ہے، جسے زیر کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ اسے مضبوط بنانے میں، شاید کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔

رہائشی حصہ
رہائشی حصہ
رہائشی حصہ
رہائشی حصہ
رہائشی حصہ
رہائشی حصہ
رہائشی حصہ
رہائشی حصہ

نوکوٹ کے اس خوبصورت قلعہ کو نو برجوں نے سنبھال کر رکھا ہے۔ اشتیاق انصاری لکھتے ہیں:"دستور مطابق یہ برج قلعے کے چاروں کونوں کو سنبھال کر کھڑے ہیں۔ دو مرکزی دروازے اور دمدمہ کی نگرانی کرتے ہیں، اور تین برج شمال، جنوب، اور مغربی دیوار کے بیچ میں اس کی مضبوطی میں مدد کر رہے ہیں۔ ان نو برجوں میں سب سے مضبوط برج کچھ اس طرح چھپا ہے کہ اسے ڈھونڈنا بھی مشکل ہے۔ اس کا قطر 44.6 فٹ اور اس کا گھیراؤ 139 فٹ ہے۔ اس قلعے کے برج اتنے مضبوط ہیں جس کا ہم شاید جلدی سے اندازہ بھی نہ کر سکیں۔ یہ پہاڑ جیسے مضبوط ہیں۔ ان پر چھوٹے چھوٹے حملے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔"

مرکزی مشرقی برج
مرکزی مشرقی برج
مرکزی برج اور جنوبی دیوار
مرکزی برج اور جنوبی دیوار
دیوار اب بھی تقریباً اصل حالت میں برقرار ہے۔
دیوار اب بھی تقریباً اصل حالت میں برقرار ہے۔
دیوار اب بھی تقریباً اصل حالت میں برقرار ہے۔
دیوار اب بھی تقریباً اصل حالت میں برقرار ہے۔
دیوار اب بھی تقریباً اصل حالت میں برقرار ہے۔
دیوار اب بھی تقریباً اصل حالت میں برقرار ہے۔

تالپوروں کی حکومت ختم ہوئی تو 'فرنگی' ان علاقوں کے مالک بنے۔ ان قلعوں کے متعلق 'کیپٹن ایس این ریئکس اپنی کتاب "تھر ائیں پارکر جو احوال" میں لکھتے ہیں: "اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے تالپوروں نے بڑا خرچ کر کے قلعے تعمیر کروائے، جہاں سے ان کے فوجی عملدار زمینوں سے لگان وصول کرتے تھے، اور جو لگان نہیں دیتے تھے ان کو ان قلعوں میں قید کر کے سزائیں دی جاتی تھیں۔ ان قلعوں میں 'سوڈھا سرداروں' کو قلعدار بناکر رکھا گیا، یہ جو زمینیں کرتے تھے، اس آبادی سے لگان معاف تھی۔"

کیپٹن ریئکس نے ان قلعوں کی مخالفت میں بہت کچھ لکھا ہے، یہاں تک کہ، 'ان قلعوں کو گرا دیا جائے'، اور کچھ قلعوں کو انہوں نے زمین دوز بھی کیا۔ لیکن جب وقت کے آسمان نے رنگ بدلا، اور 1843 میں برٹش راج کی حکومت قائم ہوئی، تو 'کیپٹن ریئکس' لکھتے ہیں: "سندھ کو فتح کرنے کے بعد فوراً 'مٹھی' کے دو سوڈھا سرداروں کو پندرہ روپیہ ماہانہ کی تنخواہ پر 'مٹھی' اور 'نوکوٹ' کے لیے 'قلعدار' مقرر کیا گیا، ہر ایک قلعہ میں 25 سپاہی پانچ روپیہ ماہوار تنخواہ پر مقرر کیے گئے اور قلعدار جو زمین آباد کرے گا اس پر سے لگان معاف ہوگی۔"

میں سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر گیا۔ سورج مٹی کی دھند میں چھپا ہوا جیسے بے نور سا ہو گیا تھا، حد نگاہ تک 'مہرانو' کی دودھ جیسی سفید مٹی بچھی ہوئی تھی، ہزاروں برس 'ہاکڑو' ان زمینوں سے بہہ کر جنوب میں 'کوری نار' میں جا کر اپنا سفر ختم کرتا تھا، لیکن اپنے ساتھ لائی ہوئے ریت اور مٹی سے جو زرخیز زمین بنی وہ میرے سامنے پھیلی ہوئی تھی۔

دور مشرق کی طرف ریت کے ٹیلے تھے۔ میں دیوار پر چلتا گیا۔ میں نے توپوں کی جگہیں دیکھیں۔ کہتے ہیں کہ میر کرم علی، جس کے نصیب میں اولاد کا سکھ نہیں تھا، وہ جب اس قلعہ میں آتا تھا تو اس کو توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ میں نے شمال کی طرف دیکھا، سامنے کچھ کچی جھونپڑیاں تھیں۔ کچھ 'چونرے' (تھر میں رہائش کے لیے مخصوص قسم کی کٹیا) تھے، جن کے آنگن میں لوگ ہم سے بے نیاز شام کی چائے پیتے تھے اور آپس میں اپنے دردوں اور امیدوں کی باتیں کرتے تھے۔

اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں
اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں
سیڑھیوں سے نیچے کا منظر
سیڑھیوں سے نیچے کا منظر
اوپر سے رہائشی حصہ
اوپر سے رہائشی حصہ
اوپر سے رہائشی حصہ
اوپر سے رہائشی حصہ
روایتی جھونپڑے
روایتی جھونپڑے

اس قلعہ کے لیے کہا جاتا تھا کہ یہ ایک مضبوط قلعہ ہے اور چھوٹا موٹا حملہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ بات صحیح تھی۔ پر وقت کسی سے رشتہ نہیں رکھتا، وقت کے بے رحم تھپیڑوں نے اس قلعے کی مضبوطی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

محکمہ آثارِ قدیمہ نے شاید اس قلعے کو بچانے کا سوچا ہے، اس لیے اس قلعے کی بحالی کا کام چل رہا ہے۔ اگر اس قلعے کو تحفظ دینا ہے تو کام، دل، جنون، دیکھ بھال اور سچائی سے ہونا چاہیے، کیونکہ میں نے کچھ نئی لگائی ہوئی سرخ اینٹوں کو دیکھا جو ابھی سے گلنا شروع ہوگئی ہیں، اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

سورج ڈوب چکا تھا۔ ہلکی روشنی ابھی تک تھی۔ میں نے باہر سے اس وسیع اور شاندار قلعے کی شان کو دیکھا۔ قلعے کی دیواروں اور آسمان نے یہاں بہت کچھ دیکھا ہوگا، لیکن تاریخ کے اوراق اور ہمارے ذہن ان حقائق سے ناواقف ہیں۔ ایک تشنگی کا احساس تھا جو میرے اندر میں آکاس بیل کی طرح اگتا تھا۔ میں اس قلعے کے پاس رہنا چاہتا تھا، بہت کچھ جاننا چاہتا تھا، لیکن بہت کچھ ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔ میں نے تصور میں احترام اور تشنگی کے پھول قلعے کے برجوں کے قدموں میں رکھے اور واپسی کی راہ لی۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (16) بند ہیں

Mohammad Usman Jul 02, 2015 05:51pm
sir your story is consist on historical facts and figures, and heart touching knowledge as well, I personally appreciate your struggle for such kind of great work. Usman Rahookro Tando Bago
usman Jul 02, 2015 07:06pm
this story is a knowledgeable and historical for me.... I appreciate your your job
khalid kumbhar Jul 02, 2015 07:22pm
Dear Sheikh Sb i have read your, really very impressive i hope my dear you will continue your diction and imagination style so readers easily read
Abdullah Jul 02, 2015 07:25pm
Naoon kote Forte, buht bar dekha hay, pehlee bar shayad 1992-93, tab wo nisbatn behtr Condition mn tha, last time 2007 mn dekha , tab qila toot Phoot k tez mrahil man tha. Mera ya dekhna bs aesy he tha k Mithee / Thar Ghoomney Ja rahey hain tu Chalo , Razi Shah ki Mazar (jo Qiley k qareeb west side pr hay) aur ya Qila bhee dekhtey Janeen. Ishtiyaq Ansari k Kitab ( Sindh Ja kote Aeen Qila 1,2) perhney k baad Ishtiyaq hua k aik bar phr usy dekha jaey.. pr ab Mithee ko janey ka Rasta waya Naoon kote sey bhtr waya Kaloee hay.. tu ya Ishtyaq poora na ho saka . Shaikh k article perhney k baad Dil ney phr Shaikhee brhaee ay k ab usy phr dekhngy aik naey Anaz se.. Shayad Hameen bhee koee bat samjh mn Ajaey.. Thanks Abu Baker . ap ney Buht dil se likha hay.
Ghulam Shabir Laghari Jul 02, 2015 08:05pm
Abu Bakar Shaikh sahib ki ye story tamam pyari aur historycal hai.shaikh sahib ap ko salam ho ho ap ka likhni ka andaz behat pyara hai ...Ghulam Shabir Laghari tando bago
hina Jul 02, 2015 09:26pm
superb
Usman Mallah Jul 02, 2015 10:33pm
Sain AbuBaker Sheikh I appreciate to you this story is a knowledgeable and historical for me.... Sir good job
sardar bhayo Jul 02, 2015 10:49pm
Appreciated research based approach towards the history of fort. Writer nor only assess, analyze, search, look, capture but present history with depth of hidden incidents and stories of lost people. He unveil the untouched segments of history and writes with romance of real writings. Words are waved the readers' interest to read stories. Abu Bakar is contributing a portion of literature to readers. This story about the Naukot fort adding information. Great work dear
lagharisanakareem Jul 02, 2015 11:37pm
This is my neighbor city n i love that beautiful n historical place i wanted to write some thing about it but still i cant am thankfull to you dear as you write these beautiful lines about that qilla .........
latif Jul 03, 2015 01:19am
I visited many times this historical fort… but maybe I can,t realize the beauty of such historical site... im more graceful to Mr. shaikh about read that article and know more about history.. keep it up
Muhammad Ayub Khan Jul 03, 2015 11:01am
puraney badshahoN key bhi ajeeb shoq huva kartey they- jab koyi kam naheyin hota tha to q'la q'la khelthey aor q'ley banana shuru' kar detey they----kiya baat thi humarey badshahoN ki ----ajeeb badisha log they yeh
Fida Soomro Jul 03, 2015 11:16am
The article not only dates back to the Talpur dynasty but also highlights the glorious interior structure in accordance with strategic situation and related setup of that time. First time traveled along this fort and was keen to know about it but did not succeed as the friends around me were also unaware of the factual grounds of it. Since then this fort was tantalizing me to visit me. Till to-date I have not visited it from inside despite of traveling beside it a lot times. Having gone through your article my curiosity has been compelling strongly to undertaken interior tour of this monument. If I had been part of your this entourage, certainly would have quenched this Inquisitiveness and learnt things which were, hitherto, unknown to me. No doubt, the Thar is a land of trouble and treasures with typical peculiarity and flair. This article also solved my confusion that I often come across with how very small part of desert area is calculated as barrage area. It is Muhrano.
Aleem Qamar Jul 03, 2015 02:57pm
Excellent Dear....
saeeda sager Jul 04, 2015 11:12am
@ایک تشنگی کا احساس تھا جو میرے اندر میں آکاس بیل کی طرح اگتا تھا۔ میں اس قلعے کے پاس رہنا چاہتا تھا، بہت کچھ جاننا چاہتا تھا، لیکن بہت کچھ ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔ میں نے تصور میں احترام اور تشنگی کے پھول قلعے کے برجوں کے قدموں میں رکھے اور واپسی کی راہ لی۔@ ان محسوسات اور احساسات کو پڑہنے کیلئے آپ کی تحریر کا انتظار ہوتا ہے،،،،آپ بے جان چیزوں میں جان ڈال دیتے ہیں، اللہ تبارک و تعالی آپ کے قلم اور مشاہدے کی تیسری آنکھ کو اور زیادہ طاقت عطا فرمائے،،،،،،،،،آمین،،،،،،،، شیخ صاحب لکھتے رہئے آپ کی اآنے والی تحریر کا انتظار رہے گا
shah Yasmen Jul 04, 2015 05:00pm
excellent write up an nice pictures. good.
Kaka Sher Bano Jul 04, 2015 06:23pm
Ada salam and thanks for your precious article about Naukot fort.otherwise i would have missed it .I have read it felt it ,again read it and watched photos carefully and indulged in beauty of that magnificent fort,especially the Dakhili burj and Damdama which are really amazing.The language you have used to describe is awesome and no doubt you have given feelings to the bricks and walls of the fort.thanks again i hope you will continue this gesture of kindness in the future.