یوں تو پاکستان میں کھجور کی صنعت ابھی ترقی کے مراحل میں ہے، لیکن پاکستان کا شمار کھجور پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ اور جب بات کھجور کی پیداوار کی ہو، تو ذہن میں پہلا نام سندھ کے ضلع خیرپور کا آتا ہے، جسے اس حوالے سے مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
خیرپور کی دیہی معیشت کھجور کی پیداوار، پراسیسنگ، اور ایکسپورٹ پر منحصر ہے۔ اس سے نہ صرف خیرپور کے دیہاتیوں کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، بلکہ دوسرے شہروں کے لوگوں کے لیے بھی، جو کھجور کی فصل اترنے کے موسم میں اس ضلع آتے ہیں۔ زیادہ تر مزدور مرد ہوتے ہیں، لیکن بہت تھوڑی تعداد میں خواتین بھی موجود ہوتی ہیں، اور وہ بھی عمر رسیدہ ہوتی ہیں۔
خیرپور کی کھجوریں زیادہ تر ہندوستان، سری لنکا، اور بنگلہ دیش برآمد کی جاتی ہیں۔ |
پاکستان میں کھجوروں کی سالانہ پیداوار 5 لاکھ 40 ہزار ٹن ہے، جس میں سے سندھ کی پیداوار 2 لاکھ 80 ہزار ٹن ہے۔ |
خیرپور میں پائی جانے والی کھجوروں کو اصیل کہا جاتا ہے۔ ان میں سے 85 فیصد کھجوروں کو سکھا کر چھوہارے بنا دیے جاتے ہیں۔ |
کھجوروں کو پیلے رنگ ملے پانی میں ابالا جاتا ہے، اور پھر باہر نکال کر سکھایا جاتا ہے۔ |
ان دیہاتوں میں زیادہ تر لوگوں کے پاس باقاعدہ ملازمت نہیں ہے، اس لیے انہیں کھجوروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ |
خیرپور میں پائی جانے والی کھجوروں کو اصیل کہا جاتا ہے۔ ان میں سے 85 فیصد کھجوروں کو سکھا کر چھوہارے بنا دیے جاتے ہیں۔ |
پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح اس علاقے میں بھی نوجوان خواتین کی معاشی آزادی مردانہ حاکمیت پر منحصر ہے۔ ان کے عام باہر نکلنے پر پابندی ہے جبکہ انہیں زیادہ تر گھروں تک محدود رکھا جاتا ہے۔ اس لیے نوجوان خواتین کھیتوں میں کام کر کے گھر کی آمدنی میں حصہ نہیں ڈال سکتیں۔ ان کے باہر نکلنے کو غیرت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
لیکن پھر بھی خیرپور کی خواتین فارغ بیٹھنے کے بجائے بالواسطہ اس کاروبار میں حصہ لیتی ہیں۔
وہ کھجور کے پتوں سے تڈے (فرش پر بچھانے کے لیے روایتی چٹائیاں)، ٹوکریاں، پنڈیاں (برتن)، اور ہاتھ کے پنکھے بناتی ہیں۔ کھجور کے پتوں سے ہاتھ کے پنکھے بنائے جاتے ہیں، جبکہ تڈوں کو پھل دھوپ میں سکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تڈے بنانے کا کام انتہائی مشکل ہوتا ہے، کیونکہ اس میں بہت باریکی درکار ہوتی ہے، اور اس کے تنکے ہاتھوں کو زخمی کر سکتے ہیں۔
آدھا بنا ہوا تڈا۔ |
تڈا بنانے میں ہاتھ زخمی بھی ہوسکتے ہیں۔ |
تڈوں پر کھجوریں سکھائی جاتی ہیں۔ |
خیرپور میں کھجور کا کاروبار ان خواتین پر بہت حد تک منحصر ہے، جو باہر نکلنے پر پابندی کی وجہ سے صنعت میں براہ راست حصہ نہیں لے سکتیں، اور گھروں سے کام کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ کیونکہ یہ چیزیں فراہم کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ صنعت موجود نہیں ہے، اس لیے خواتین کا غیر رسمی کام اس کاروبار کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جنوبی ایشیائی معاشرے بنیادی طور پر مردوں کے معاشرے ہوتے ہیں، جن میں خواتین کو عدم مساوی تنخواہوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے، اور خیرپور کا کیس بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ مارکیٹ میں مواقع کی عدم موجودگی، اور وسائل کے نہ ہونے کے سبب خواتین کے لیے اپنی تیار کردہ اشیاء فروخت کرنا مشکل ہوجاتا ہے، اور اس سب کے علاوہ معاشرتی پابندیاں ان کے لیے اپنی محنت کا پھل تلاش کرنا تقریباً ناممکن بنا دیتی ہیں۔
کھجوروں کو دھوپ میں کم از کم ایک ہفتے کے لیے سکھایا جاتا ہے۔ |
سوکھ جانے کے بعد انہیں فروخت کرنے کے لیے بوریوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ |
آخری حل کے طور پر انہیں درمیان کے آدمیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جو ان کے پاس آ کر ان کی چیزیں خریدتے ہیں، اور انہیں دوسرے مارکیٹس میں فروخت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ان عورتوں سے ان کی دستکاری معمولی رقم کے عوض خرید کر مارکیٹ میں انہیں 2 سے 3 گنا زیادہ قیمت پر بیچ کر خاصہ منافع کماتے ہیں۔
ایک پنڈی ان سے 10 روپے میں خرید کر آگے 25 سے 30 روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ خیرپور کے دیہاتوں کی یہ خواتین اس استحصال سے بخوبی واقف ہیں، لیکن اس لیے بے یار و مددگار ہیں کیونکہ اگر بیچ کے شخص نے ان کی اشیاء نہ خریدیں، تو پھر انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
خیرپور کی سنہری فصل۔ |
خیرپور کی سنہری فصل۔ |
سوکھ جانے کے بعد انہیں فروخت کرنے کے لیے بوریوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ |
خیرپور کی سنہری فصل۔ |
ان خواتین کی تیار کردہ اشیاء ان کے خاندان کے لیے بچت کی حیثیت رکھتی ہیں، کیونکہ دوسری صورت میں انہیں ان اشیاء پر پیسے خرچ کرنے ہوں گے، اس لیے کم آمدنی بھی بہت معنیٰ رکھتی ہے۔ ان دیہاتوں میں زیادہ تر مردوں کے پاس باقاعدہ روزگار نہیں ہے، اور وہ کھیتی باڑی یا کھجوروں کے عارضی کاروبار پر انحصار کرتے ہیں۔ خواتین کی اکثریت یہ پیسے اپنے بچوں کے کپڑوں اور صحت پر خرچ کرتی ہے، اور ضرورت کے وقت اپنے شوہروں کو دے دیتی ہے۔
18 سالہ آسیہ کا کہنا تھا، "میں برتن اور چٹائیاں بنا کر پیسے کماتی ہوں۔ میرے اور میرے خاندان کے لیے یہ پیسہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ میرے شوہر کو کوئی کام نہیں کرتے اس لیے میرے گھرانے کا گزر اسی پیسے پر ہے جو میں کماتی ہوں۔"
افسوس کی بات ہے کہ جو ہاتھ گھر کی دال روٹی چلانے کے لیے دن رات کام کرتے ہیں، ہمیشہ گمنامی کے پردے میں رہتے ہیں۔
مقامی روایات کی بناء پر فوٹوگرافر کو تمام خواتین کی تصاویر لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تمام تصاویر بشکریہ لکھاری۔
تبصرے (5) بند ہیں