• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
شائع July 7, 2015 اپ ڈیٹ August 4, 2015

مینگورہ: جدید ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودود المعروف بادشاہ صاحب (1881ء تا 1971ء) کے حکم سے جب سنہ 1941 کو سفید محل کی تعمیر مکمل ہوئی، تو اس محل کی بدولت مرغزار کا علاقہ ایک طرح سے ریاست سوات کے موسم گرما کا دارالحکومت ٹھہرا۔

پھر گرمیوں میں یہاں سے شاہی فرمان جاری ہوا کرتے تھے۔ آج بھی سات دہائیاں گزرنے کے باوجود سفید محل مرجع خلائق ہے۔

سفید محل 1941ء
سفید محل 1941ء

’’مرغزار‘‘ ضلع سوات کا واحد پرفضا مقام ہے جو مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً بارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ سیاح صرف قدرتی حسن اور معتدل موسم کی وجہ سے مرغزار کا رخ نہیں کرتے بلکہ وہاں پر قائم ریاست سوات دور کی ایک تاریخی عمارت سفید محل (1941ء) کی سیر کرنے بھی جاتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ایک ٹکٹ میں دو مزے۔

مگر سفید محل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کا اولین نام ’’موتی محل‘‘ تھا۔

سفید محل کے بر آمدے کا منظر
سفید محل کے بر آمدے کا منظر
سفید محل کے اندر دیوار پر ٹانکی گئی میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب کی ایک نایاب تصویر۔
سفید محل کے اندر دیوار پر ٹانکی گئی میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب کی ایک نایاب تصویر۔

سفید محل کی تعمیر کے حوالے سے شاہی خاندان کے میاں گل شہر یار امیر زیب باچا (بادشاہ صاحب کا پڑپوتا) کا کہنا ہے کہ 'در اصل بادشاہ صاحب ہندوستان گئے تھے جہاں ایک دن ان کا گزر راجھستان کے علاقہ سے ہوا۔ وہاں انھوں نے سفید ماربل دیکھا۔ ان دنوں راجھستان کا علاقہ معدنیات کے لیے مشہور تھا۔ بادشاہ صاحب نے راجھستان کے اس وقت کے مہاراجا کا محل دیکھا جس میں اسی سفید ماربل کا استعمال کیا گیا تھا۔ بادشاہ صاحب اس محل سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ بعد میں جے پور سے اسی سفید ماربل کو لایا گیا'۔

سفید محل کے اندر سے صحن کا منظر
سفید محل کے اندر سے صحن کا منظر

ایک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ سفید محل میں استعمال ہونے والا ماربل دراصل وہی ماربل ہے جو تاج محل (آگرا، ہندوستان) میں استعمال ہوا ہے۔

سفید محل کے گراؤنڈ فلور پر قائم کمروں کا منظر جو ریاستی دور میں وزیروں اور مشیروں کے لیے مخصوص تھے۔
سفید محل کے گراؤنڈ فلور پر قائم کمروں کا منظر جو ریاستی دور میں وزیروں اور مشیروں کے لیے مخصوص تھے۔
سفید محل کے اندر لگے ریاستی دور کے برقی قمقمے اور پنکھے جو اَب نایاب ہیں۔
سفید محل کے اندر لگے ریاستی دور کے برقی قمقمے اور پنکھے جو اَب نایاب ہیں۔
بادشاہ صاحب کا ٹیبل لیمپ۔
بادشاہ صاحب کا ٹیبل لیمپ۔
بادشاہ صاحب کا ٹیلی فون۔
بادشاہ صاحب کا ٹیلی فون۔

سفید محل تاریخی حوالہ سے اس لیے بھی مشہور ہے کہ یہاں سے ریاستی دور میں رعایا کے مستقبل کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔

شہر یار امیر زیب باچا کے مطابق جب محل تعمیر ہوا، تو گرمیوں کے موسم میں حکومت کے امور سیدو شریف کی بجائے مرغزار میں طے ہوتے تھے۔ باالفاظ دیگر سردیوں میں ریاست سوات کا دارالخلافہ سیدو شریف اور گرمیوں میں سفید محل کی بدولت مرغزار ہوا کرتا تھا۔

ریاستی دور کی تصاویر جن میں بادشاہ صاحب اور والئی سوات کی تصویر نمایاں ہیں۔
ریاستی دور کی تصاویر جن میں بادشاہ صاحب اور والئی سوات کی تصویر نمایاں ہیں۔

شہر یار کا کہنا ہے کہ مین بلڈنگ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے، تو اس میں ایک ڈرائننگ روم، ایک ڈائننگ ہال، ایک میٹنگ روم اور ایک بادشاہ کا اپنا کمرہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کے احاطے میں دو تین درجوں میں کمرے بنائے گئے ہیں۔ جب بادشاہ صاحب گرمیوں میں مرغزار کا رخ کرتے، تو ان کے وزیر مشیر اور خان خوانین ان کے ہمراہ ہوتے۔ دوسرے درجے پر تعمیر شدہ کمروں میں یہی وزیر مشیر اور خان خوانین ہوتے اور تیسرے درجے میں تعمیر شدہ کمروں میں فیملی ممبران ہوا کرتے تھے۔

بادشاہ صاحب کے بیڈ روم کے متصل ان کے خاص مہمانوں کے لیے مخصوص شدہ کمرہ۔
بادشاہ صاحب کے بیڈ روم کے متصل ان کے خاص مہمانوں کے لیے مخصوص شدہ کمرہ۔

محل کی تعمیر کے حوالے سے سوات کے مشہور آرکیٹیکٹ شوکت شرارؔ کا نقطۂ نظر کچھ الگ ہے۔

شوکت کا کہنا ہے کہ سفید محل ایک طرح سے ’’سمر پیلس‘‘ ہے۔ سنہ 1930 سے اس کی تعمیر شروع ہوئی تھی۔ اس میں جو سفید ماربل استعمال ہوا ہے، اسے بھوپال سے لایا گیا تھا۔ یہ وکٹورین طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ اس وقت اپنی نوعیت کی پہلی عمارت تھی۔ تعمیر کے وقت اس میں جو ماہرین مصروف تھے، ان میں سے کچھ کا تعلق بھوپال اور کچھ کا اٹک سے تھا۔ اس عمارت کے تین حصے ہیں۔ محل کا حصہ بادشاہ صاحب کے لیے مخصوص تھا۔ دوسرا حصہ جس کے لیے سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں،وی آئی پی شخصیات کے لیے اور تیسرا اور آخری حصہ خواتین اور انگریزوں کے لیے مخصوص تھا جب کہ محل کا پچھواڑا باورچیوں اور دیگر خدام کے لیے تھا۔

بادشاہ صاحب کے بیڈ روم کا ایک منظر۔
بادشاہ صاحب کے بیڈ روم کا ایک منظر۔
بادشاہ صاحب کے غسل خانے کا منظر۔
بادشاہ صاحب کے غسل خانے کا منظر۔

بادشاہ چوں کہ مذہبی شخصیت تھے، اس لیے جا بجا مساجد نظر آتی ہیں۔ سفید محل کے کھلے علاقے میں جو مسجد تعمیر کی گئی ہے، اس میں بادشاہ نماز پڑھنے اور قرآن شریف کی تلاوت کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ مسجد چوں کہ قدرے بڑی ہے، اس لیے اس میں تمام وزیر مشیر اور خان بادشاہ کے ساتھ نماز باجماعت پڑھنے کو ترجیح دیتے اور روز اول سے یہ عام عوام کے لیے کھلا ہے۔

سفید محل کے صحن میں تانگے کے پہیوں سے بنی میز اور کرسیوں کا ایک فن پارہ۔
سفید محل کے صحن میں تانگے کے پہیوں سے بنی میز اور کرسیوں کا ایک فن پارہ۔

شہریار امیر زیب باچا کے مطابق 'جب ہم چھوٹے بچے تھے (غالباً سنہ ستر عیسوی)اور مرغزار جایا کرتے تھے ، تو بادشاہ صاحب کے ساتھ ملنے والوں کی ایک پراٹھے اور آدھے مرغ سے تواضع کی جاتی تھی'۔

سفید محل کے صحن میں اسٹولوں اور میز کا دوسرا منظر۔
سفید محل کے صحن میں اسٹولوں اور میز کا دوسرا منظر۔

پھر جب سنہ 1971 میں بادشاہ وفات پاگئے، اس کے بعد سفید محل کو گویا قفل لگ گیا ۔پائپ لائن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اس میں پانی کھڑا ہوگیا۔ بجلی کے تار، قمقمے، پنکھے، قالین اور فرنیچر سب کچھ ناقابل استعمال ہوگیا۔ سنہ 73-1972 میں مرغزار شہر یار امیر زیب باچا کے حصے میں آیا۔

شہریار کا کہنا ہے کہ ’’مجھے آج بھی یاد ہے۔ جب ہم نے ان دنوں اس کا دروازہ کھولا، تو پانی سیلاب کی طرح ہمیں گھٹنوں تک گیلا کرتا ہوا گزر گیا۔ خراب قالین، فرنیچر سب کچھ یہاں سے نکالا گیا۔ ان دنوں میرے والد کے ایک دوست امریکہ سے آئے تھے، انہی کے مشورے سے سفید محل کی بہتر دیکھ بھال کی خاطر اس کو ہوٹل میں کنورٹ کرنے کی رائے سامنے آئی اور یوں سفید محل ایک ہوٹل کا روپ دھار گیا۔‘‘

سفید محل کے صحن میں سفید ماربل سے تعمیر شدہ میز اور کرسیوں کا منظر۔
سفید محل کے صحن میں سفید ماربل سے تعمیر شدہ میز اور کرسیوں کا منظر۔

یوں تو سیاح سوات آکر ہر اس پرفضا مقام تک پہنچنے کی سعی کرتے ہیں جہاں تک سڑک بچھی ہو یا جیپ ایبل ٹریک ہو، مگر تاریخی سفید محل کی وجہ سے بیشتر سیاح مرغزار کا رخ کرنے کو سب سے پہلے ترجیح دیتے ہیں۔

سفید محل میں دوسری منزل پر تعمیر شدہ میزاور کرسیوں کا منظر
سفید محل میں دوسری منزل پر تعمیر شدہ میزاور کرسیوں کا منظر

کشور علی جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں، مہینہ میں ایک بار مرغزار کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے بقول ’’پہاڑوں کے درمیان گھری اس خوبصورت وادی کے ملکوتی حسن نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کیا ہے۔ سفید محل اس حسن کو چار چاند لگاتا ہے۔ میرے پاس اس کی نایاب تصاویر ہیں۔ میں نے اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ اس کے اوپر ایک ٹریک تھا، جس پر بادشاہ اپنے مقربین کے ساتھ ہائیکنگ کیا کرتے تھے۔ آج صرف اس کے اثر آثار باقی ہیں۔ اگر وہ ٹریک کسی طرح ڈھونڈ لیا جائے، تو سفید محل کے ارد گرد پھیلے اس چھوٹے سے جنگل میں سیاحوں کی دل چسپی بڑھ جائے گی۔ نتیجتاً اس کا سوات کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔‘‘

سفید محل کے صحن میں تعمیر شدہ مسجد کی تصویر جہاں بادشاہ صاحب نماز باجماعت ادا کرنے کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے۔
سفید محل کے صحن میں تعمیر شدہ مسجد کی تصویر جہاں بادشاہ صاحب نماز باجماعت ادا کرنے کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے۔

تبصرے (33) بند ہیں

Anwar Amjad Jul 07, 2015 09:33pm
Simply beautiful. Thank you for a very nice article.
نعیم خان Jul 07, 2015 10:26pm
بہت معلوماتی اور دلچسپ مضمون ہے۔ تصاویر بھی بہت اعلی ہیں۔ مرغزار سوات کا واحد پرفضاء مقام نہیں بلکہ وادی کے کئی پرفضاء مقامات میں سے ایک ہے جوکہ مینگورہ شہر سے سب سے زیادہ قریب ترین ہے۔ یہ مضمون سوات کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے ایک ماسٹر پیس ہے۔ مصنف نے نہ صرف عمدہ تصاویر پیش کیں ہیں بلکہ بہترین تحقیق اور عام قاری کیلئے آسان اور دلچسپ انداز میں خوبصورت الفاظ کے ساتھ تحریر پیش کی ہے۔ بیت اعلی
Babar Ali Jul 07, 2015 10:29pm
Loved this article, I wish there were more articles like this.
Fazal Maula Zahid Jul 07, 2015 10:58pm
very interesting read with quality photographs. Welldone Sahab Sab
Adil ahmad Jul 07, 2015 11:59pm
The great white palace and tanks for the information about that histotical place
Shahzad Khan Yousafzai Jul 08, 2015 12:18am
thanks Sir jee @amjad_ali_sahab
Gulaley Jul 08, 2015 12:37am
Last time In 20013, I visited the Palace, One of the calm and serene places of swat. Waiting for more like this piece. Thanks to Dawn media Group for Highlighting Our Swat.
Malik USA Jul 08, 2015 12:41am
When I read these articles, wish that when peace will come to our country. We have so many things to attract tourist. I still remember that 20 years back I visited these places. Now we can not think to go there. We do not know that where we are going.
محمد وقاص Jul 08, 2015 12:45am
آپ نے بے پناہ قیمتی معلومات فراہم کئے۔ کچھ پرانی یادیں بھی تازہ ہو گئی۔ سفید محل پہنچ کر جو سحر طاری ہوتا ہے الفاظ میں اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ کاش حکومت وقت نہ صرف مرغزار بلکہ سوات کے دیگر تفریحی مقامات کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی لے تو یہاں سیاحت کا شعبہ نہ صرف سوات بلکہ پورے ملک کے اکانومی کو سپورٹ کرے گا۔ امجد علی سحاب صاحب بہت شکریہ جنّت نظیر سوات کے خدمت کا۔
IHsaan Ali Khaan Jul 08, 2015 02:09am
بہت خوب،سوات میں سیاحت کے فروغ کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک یہاں کے سیاحتی مقامات کے لیے حکومت کی توجہ اور دوسرا یہ کہ سوات کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کی جاۓ تاکہ وہ قدرت کے ان حسین نظاروں سے لطف اٹھاسکے۔حکومت تو اپنا کام کرنے سے رہی البتہ لوگوں کو سوات کا یہ چہرہ دکھانے کے لیے بہت شکریہ رائٹر صاحب Amjad ali sahaab
Dr. Abdullah Jul 08, 2015 03:33am
Splendid one with history, photographs and opinions of architect Keep it up buddy!
حسین علی Jul 08, 2015 03:46am
بہت اچھی کاوش ہےـ مرغزار میں سیاحوں کیلے سہولیات کا فقدان،حکومت کی عدم توجہی اور خراب سڑک کا ذکر ہو جاتا تو میرے خیال میں مذید بہتر ہو جاتاـ
Faraz Jul 08, 2015 04:29am
Interesting info with good photography, A worth reading article.
Muddasir Irshad Jul 08, 2015 09:05am
Pakistan is the most beautiful country.
ریاض مسعود Jul 08, 2015 10:01am
@نعیم خان متفق میرا خیال ہے کہ سحاب اس فقرے ‘‘ ’’مرغزار‘‘ ضلع سوات کا واحد پرفضا مقام ہے جو مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً بارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے‘‘ میں یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ منگورہ سے نزدیک ترین سیاحتی مقام ہے ۔ واللہ اعلم
Hidayat Ullah Jul 08, 2015 10:09am
Beautiful place and very informative article.
Luqman Hakim Jul 08, 2015 11:41am
سحاب صیب آپ کا تو ہر مضمون لاجواب ہوتا ہے اسلئے مجھے بہت پسند آیا۔
Dr Adnan Qayum Jul 08, 2015 12:06pm
Excellent feature Sahab Saib.. Informative piece.. it just drew me back to my visits to white palace.. a very cool and calm place where one can search for his soul..
Faisal Ayaz Jul 08, 2015 01:03pm
بہت خوب،سوات میں سیاحت کے فروغ کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک یہاں کے سیاحتی مقامات کے لیے حکومت کی توجہ اور دوسرا یہ کہ سوات کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کی جاۓ تاکہ وہ قدرت کے ان حسین نظاروں سے لطف اٹھاسکے۔حکومت تو اپنا کام کرنے سے رہی البتہ لوگوں کو سوات کا یہ چہرہ دکھانے کے لیے بہت شکریہ رائٹر صاحب Faisal Ayaz
Mujahid Torwali Jul 08, 2015 04:51pm
Really Sahab Bahi it is interesting and informative for both the locals and non-locals along with the quality photography a
khawar baig Jul 08, 2015 05:31pm
i like so much and i wish to see white palace
KISHWAR ALI Jul 08, 2015 07:03pm
کشور علی جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں، مہینہ میں ایک بار مرغزار کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے بقول ’’پہاڑوں کے درمیان گھری اس خوبصورت وادی کے ملکوتی حسن نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کیا ہے۔ سفید محل اس حسن کو چار چاند لگاتا ہے۔ میرے پاس اس کی نایاب تصاویر ہیں۔ میں نے اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ اس کے اوپر ایک ٹریک تھا، جس پر بادشاہ اپنے مقربین کے ساتھ ہائیکنگ کیا کرتے تھے۔ آج صرف اس کے اثر آثار باقی ہیں۔ اگر وہ ٹریک کسی طرح ڈھونڈ لیا جائے، تو سفید محل کے ارد گرد پھیلے اس چھوٹے سے جنگل میں سیاحوں کی دل چسپی بڑھ جائے گی۔ نتیجتاً اس کا سوات کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔‘‘ ZABAR DAST
Anam muzaffar chaudhary Jul 08, 2015 10:36pm
love this place
hina Jul 08, 2015 11:03pm
zbrdst
Muhammad Ayub Khan Jul 08, 2015 11:40pm
@ریاض مسعود yeh makaan jo mahal/palace bhi kehlaata tha jangal meyN akeyla kharha hey---us zamaney meyN nawab is meyN keysey rehta ho ga???*? ---------------------Yah sirf chuttiyaN mananey keyliey do char din aa jaata tha-ajeeb darvesh hotey they puraney zamaney key nawab
Javid Ahmad Jul 09, 2015 04:17am
MashaAllah. What a beautiful place ,no doubt Swat is the Switzerland of Asia. The write has done a great job with magnificent photography and detailed feature
Salman Jul 09, 2015 02:04pm
@نعیم خان right
MUHAMMAD Adnan Jul 09, 2015 02:41pm
hmm classic badshah slamat kia behtareen life guzarty thy
Nawaz Rasool Jul 09, 2015 11:59pm
A marvelous peace of Architecture and heridity, Sir aap na hamari purani yadein taza kar dein
انجم سلطان شہباز Jul 10, 2015 09:41am
بہت معلومات افزا اور چشم کشا تحریر ہے ۔اس طرح کے بے شمار آثار وطن عزیز میں موجود ہیں ۔
Imran Jul 10, 2015 10:22am
amazing views.
hina Jul 10, 2015 12:55pm
lagta hy badsha gareeb thais liya is thran ka bnaya hy ya to ak noraml house lg raha hy
Samiullah Khatir Sep 29, 2015 11:53am
NICELY written, Great Work by Amjad Ali Sahaab sai,b Regards Samiullah khatir