مینگورہ: جدید ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودود المعروف بادشاہ صاحب (1881ء تا 1971ء) کے حکم سے جب سنہ 1941 کو سفید محل کی تعمیر مکمل ہوئی، تو اس محل کی بدولت مرغزار کا علاقہ ایک طرح سے ریاست سوات کے موسم گرما کا دارالحکومت ٹھہرا۔
پھر گرمیوں میں یہاں سے شاہی فرمان جاری ہوا کرتے تھے۔ آج بھی سات دہائیاں گزرنے کے باوجود سفید محل مرجع خلائق ہے۔
سفید محل 1941ء |
’’مرغزار‘‘ ضلع سوات کا واحد پرفضا مقام ہے جو مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً بارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ سیاح صرف قدرتی حسن اور معتدل موسم کی وجہ سے مرغزار کا رخ نہیں کرتے بلکہ وہاں پر قائم ریاست سوات دور کی ایک تاریخی عمارت سفید محل (1941ء) کی سیر کرنے بھی جاتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ایک ٹکٹ میں دو مزے۔
مگر سفید محل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کا اولین نام ’’موتی محل‘‘ تھا۔
سفید محل کے بر آمدے کا منظر |
سفید محل کے اندر دیوار پر ٹانکی گئی میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب کی ایک نایاب تصویر۔ |
سفید محل کی تعمیر کے حوالے سے شاہی خاندان کے میاں گل شہر یار امیر زیب باچا (بادشاہ صاحب کا پڑپوتا) کا کہنا ہے کہ 'در اصل بادشاہ صاحب ہندوستان گئے تھے جہاں ایک دن ان کا گزر راجھستان کے علاقہ سے ہوا۔ وہاں انھوں نے سفید ماربل دیکھا۔ ان دنوں راجھستان کا علاقہ معدنیات کے لیے مشہور تھا۔ بادشاہ صاحب نے راجھستان کے اس وقت کے مہاراجا کا محل دیکھا جس میں اسی سفید ماربل کا استعمال کیا گیا تھا۔ بادشاہ صاحب اس محل سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ بعد میں جے پور سے اسی سفید ماربل کو لایا گیا'۔
سفید محل کے اندر سے صحن کا منظر |
ایک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ سفید محل میں استعمال ہونے والا ماربل دراصل وہی ماربل ہے جو تاج محل (آگرا، ہندوستان) میں استعمال ہوا ہے۔
سفید محل کے گراؤنڈ فلور پر قائم کمروں کا منظر جو ریاستی دور میں وزیروں اور مشیروں کے لیے مخصوص تھے۔ |
سفید محل کے اندر لگے ریاستی دور کے برقی قمقمے اور پنکھے جو اَب نایاب ہیں۔ |
بادشاہ صاحب کا ٹیبل لیمپ۔ |
بادشاہ صاحب کا ٹیلی فون۔ |
سفید محل تاریخی حوالہ سے اس لیے بھی مشہور ہے کہ یہاں سے ریاستی دور میں رعایا کے مستقبل کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔
شہر یار امیر زیب باچا کے مطابق جب محل تعمیر ہوا، تو گرمیوں کے موسم میں حکومت کے امور سیدو شریف کی بجائے مرغزار میں طے ہوتے تھے۔ باالفاظ دیگر سردیوں میں ریاست سوات کا دارالخلافہ سیدو شریف اور گرمیوں میں سفید محل کی بدولت مرغزار ہوا کرتا تھا۔
ریاستی دور کی تصاویر جن میں بادشاہ صاحب اور والئی سوات کی تصویر نمایاں ہیں۔ |
شہر یار کا کہنا ہے کہ مین بلڈنگ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے، تو اس میں ایک ڈرائننگ روم، ایک ڈائننگ ہال، ایک میٹنگ روم اور ایک بادشاہ کا اپنا کمرہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کے احاطے میں دو تین درجوں میں کمرے بنائے گئے ہیں۔ جب بادشاہ صاحب گرمیوں میں مرغزار کا رخ کرتے، تو ان کے وزیر مشیر اور خان خوانین ان کے ہمراہ ہوتے۔ دوسرے درجے پر تعمیر شدہ کمروں میں یہی وزیر مشیر اور خان خوانین ہوتے اور تیسرے درجے میں تعمیر شدہ کمروں میں فیملی ممبران ہوا کرتے تھے۔
بادشاہ صاحب کے بیڈ روم کے متصل ان کے خاص مہمانوں کے لیے مخصوص شدہ کمرہ۔ |
محل کی تعمیر کے حوالے سے سوات کے مشہور آرکیٹیکٹ شوکت شرارؔ کا نقطۂ نظر کچھ الگ ہے۔
شوکت کا کہنا ہے کہ سفید محل ایک طرح سے ’’سمر پیلس‘‘ ہے۔ سنہ 1930 سے اس کی تعمیر شروع ہوئی تھی۔ اس میں جو سفید ماربل استعمال ہوا ہے، اسے بھوپال سے لایا گیا تھا۔ یہ وکٹورین طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ اس وقت اپنی نوعیت کی پہلی عمارت تھی۔ تعمیر کے وقت اس میں جو ماہرین مصروف تھے، ان میں سے کچھ کا تعلق بھوپال اور کچھ کا اٹک سے تھا۔ اس عمارت کے تین حصے ہیں۔ محل کا حصہ بادشاہ صاحب کے لیے مخصوص تھا۔ دوسرا حصہ جس کے لیے سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں،وی آئی پی شخصیات کے لیے اور تیسرا اور آخری حصہ خواتین اور انگریزوں کے لیے مخصوص تھا جب کہ محل کا پچھواڑا باورچیوں اور دیگر خدام کے لیے تھا۔
بادشاہ صاحب کے بیڈ روم کا ایک منظر۔ |
بادشاہ صاحب کے غسل خانے کا منظر۔ |
بادشاہ چوں کہ مذہبی شخصیت تھے، اس لیے جا بجا مساجد نظر آتی ہیں۔ سفید محل کے کھلے علاقے میں جو مسجد تعمیر کی گئی ہے، اس میں بادشاہ نماز پڑھنے اور قرآن شریف کی تلاوت کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ مسجد چوں کہ قدرے بڑی ہے، اس لیے اس میں تمام وزیر مشیر اور خان بادشاہ کے ساتھ نماز باجماعت پڑھنے کو ترجیح دیتے اور روز اول سے یہ عام عوام کے لیے کھلا ہے۔
سفید محل کے صحن میں تانگے کے پہیوں سے بنی میز اور کرسیوں کا ایک فن پارہ۔ |
شہریار امیر زیب باچا کے مطابق 'جب ہم چھوٹے بچے تھے (غالباً سنہ ستر عیسوی)اور مرغزار جایا کرتے تھے ، تو بادشاہ صاحب کے ساتھ ملنے والوں کی ایک پراٹھے اور آدھے مرغ سے تواضع کی جاتی تھی'۔
سفید محل کے صحن میں اسٹولوں اور میز کا دوسرا منظر۔ |
پھر جب سنہ 1971 میں بادشاہ وفات پاگئے، اس کے بعد سفید محل کو گویا قفل لگ گیا ۔پائپ لائن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اس میں پانی کھڑا ہوگیا۔ بجلی کے تار، قمقمے، پنکھے، قالین اور فرنیچر سب کچھ ناقابل استعمال ہوگیا۔ سنہ 73-1972 میں مرغزار شہر یار امیر زیب باچا کے حصے میں آیا۔
شہریار کا کہنا ہے کہ ’’مجھے آج بھی یاد ہے۔ جب ہم نے ان دنوں اس کا دروازہ کھولا، تو پانی سیلاب کی طرح ہمیں گھٹنوں تک گیلا کرتا ہوا گزر گیا۔ خراب قالین، فرنیچر سب کچھ یہاں سے نکالا گیا۔ ان دنوں میرے والد کے ایک دوست امریکہ سے آئے تھے، انہی کے مشورے سے سفید محل کی بہتر دیکھ بھال کی خاطر اس کو ہوٹل میں کنورٹ کرنے کی رائے سامنے آئی اور یوں سفید محل ایک ہوٹل کا روپ دھار گیا۔‘‘
سفید محل کے صحن میں سفید ماربل سے تعمیر شدہ میز اور کرسیوں کا منظر۔ |
یوں تو سیاح سوات آکر ہر اس پرفضا مقام تک پہنچنے کی سعی کرتے ہیں جہاں تک سڑک بچھی ہو یا جیپ ایبل ٹریک ہو، مگر تاریخی سفید محل کی وجہ سے بیشتر سیاح مرغزار کا رخ کرنے کو سب سے پہلے ترجیح دیتے ہیں۔
سفید محل میں دوسری منزل پر تعمیر شدہ میزاور کرسیوں کا منظر |
کشور علی جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں، مہینہ میں ایک بار مرغزار کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے بقول ’’پہاڑوں کے درمیان گھری اس خوبصورت وادی کے ملکوتی حسن نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کیا ہے۔ سفید محل اس حسن کو چار چاند لگاتا ہے۔ میرے پاس اس کی نایاب تصاویر ہیں۔ میں نے اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ اس کے اوپر ایک ٹریک تھا، جس پر بادشاہ اپنے مقربین کے ساتھ ہائیکنگ کیا کرتے تھے۔ آج صرف اس کے اثر آثار باقی ہیں۔ اگر وہ ٹریک کسی طرح ڈھونڈ لیا جائے، تو سفید محل کے ارد گرد پھیلے اس چھوٹے سے جنگل میں سیاحوں کی دل چسپی بڑھ جائے گی۔ نتیجتاً اس کا سوات کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔‘‘
سفید محل کے صحن میں تعمیر شدہ مسجد کی تصویر جہاں بادشاہ صاحب نماز باجماعت ادا کرنے کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے۔ |
تبصرے (33) بند ہیں