آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 18ویں اور 21ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا
21 ویں آئینی ترامیم کے ساتھ ساتھ فوجی عدالتوں کے خلاف کیس پر فیصلہ محفوظ کیا گیاہے۔
عدالت تین قانونی نکات پر فیصلہ سنائے گی۔
کیا آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہے یا نہیں۔
کیا سپریم کورٹ کسی آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
کیا 18ویں اور 21ویں آئینی ترامیم آئین سے متصادم تو نہیں۔
مزید پڑھیں : 21ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کا قیام سپریم کورٹ میں چیلنج
چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے 18 ویں، 21 ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63-اے پارلیمانی جمہوریت کے لیے موزوں ہے یا نہیں اس کی تشریح سپریم کورٹ کرے گی، آئین کا کوئی بنیادی خاصہ ہوسکتا ہے تو وہ پارلیمانی جمہوریت ہے۔
یہ بھی پڑھیں : 21ویں ترمیم اورفوجی عدالتیں: درخواستیں سماعت کیلئے منظور
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل نہیں رہا، آمروں نے سیاسی جماعتوں کو تقسیم کر کے کنگ پارٹیاں بنائیں، مشرف کے دور میں رکن پارلیمنٹ کے لیے بی اے کی شرط لگا دی گئی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قیام پاکستان کے وقت بی اے کی شرط ہوتی تو قائد اعظم بھی نا اہل ہو جاتے، قائد اعظم کے پاس بی اے کی نہیں بیرسٹر کی ڈگری تھی، بی اے کی شرط کے باعث بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ بھی نا اہل ہو گئے تھے۔
مزید پڑھیں : 'سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت نہیں کرسکتی'
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ بھی بتایا کہ بابائے جمہوریت نے ہمیشہ سیاسی بحرانوں کے حل میں کردار ادا کیا، پرویز مشرف کے دور میں 3 بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ جلا وطن تھے، موجودہ وزیر اعظم بھی سعودی عرب یا لندن میں جلا وطن تھے، پرویز مشرف کے دور میں بڑی سیاسی جماعتیں توڑ کر گروپ بنائے گئے، اس عمل کے سدباب کے لیے آئین میں 63 اے کو متعارف کروایا گیا، ہوسکتا ہے جمہوریت مضبوط ہونے کے ساتھ اس آرٹیکل کو تبدیل کر دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں : سپریم کورٹ پھانسیاں روکنے کا حکم واپس لے، حکومتی استدعا
اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ پارٹی سربراہ کا انتخاب جمہوری عمل سے ہوتا ہے، انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے سیاسی جماعتیں اپنے سربراہ کا انتخاب کرتی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پوری قوم چاہتی ہے کہ دہشت گردی کا جلد از جلد خاتمہ ہو، وفاقی حکومت نے دہشت گردوں کے ٹرائل کا جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس سے مزید تاخیر ہوگی، فوجی عدالتوں میں عسکریت پسندوں کے مقدمات بھجوانے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے، فوجی عدالتوں میں کون سے مقدمات بھجوانے ہیں اس کا فیصلہ وفاقی حکومت کرے گی۔
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر وفاق اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز نے اٹارنی جنرل کے دلائل کی تائید کی جس کے بعد درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
مزید پڑھیں : فوجی عدالتوں کی سزاء پر عملدر آمد روک دیا گیا
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے عاصمہ جہانگیر کی درخواست پر فوجی عدالتوں سے دی جانے والی سزاوں پر عملدر آمد کے خلاف حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ 21ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ آنے تک فوجی عدالتوں کی سزاؤں پر عملدر آمد روکا جائے۔