کراچی میں اتنی شدید گرمی کیوں
شہرِ کراچی میں گرمی سے 800 سے زائد اموات کے بعد اب بحیرہء عرب سے اٹھنے والی مون سون کی ٹھنڈی ہواؤں نے گرمی کی شدت کو کم کر دیا ہے، لیکن ماہرِ آب و ہوا قمر الزمان چوہدری کے مطابق یہ شدید گرمی urban heat island effect کی وجہ سے تھی، جس میں درجہ حرارت ہوتا تو 45 ڈگری ہے، لیکن محسوس 50 ڈگری ہوتا ہے، کیونکہ شہر میں پھنس چکی گرم ہوا باہر نہیں نکل پاتی۔
ان کے مطابق "شہر ایک بھٹی کی طرح ہے، جو گرمی کو روک لیتا ہے، اور اسے باہر نکلنے نہیں دیتا۔" ان کے مطابق یہی درجہ حرارت، بلکہ اس سے بھی زیادہ سندھ کے دوسرے شہروں سے بھی رپورٹ ہوا ہے، لیکن اس نے لوگوں کی جانیں اس طرح نہیں لیں جس طرح کراچی میں، کیونکہ وہاں پر گرم ہوا کے پھیلنے اور باہر نکلنے کے لیے جگہ موجود ہے۔
تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے محکمہ موسمیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل غلام رسول کا کہنا تھا کہ حالات میں مزید خرابی کی وجہ بحیرہ عرب کے اوپر ہوا کا کم دباؤ تھا، جس کی وجہ سے گرم ہوا زمین سے سمندر کی جانب چل رہی تھی۔
"گرمیوں میں ٹھنڈی ہوا سمندر سے زمین کی جانب چلتی ہے، جبکہ سردیوں میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے سردیوں اور گرمیوں میں کراچی کا درجہ حرارت 15 ڈگری کم رہتا ہے۔ سمندری ہوائیں درجہ حرارت قابو میں رکھتی ہیں، لیکن اس جون میں یہ ہوائیں موجود نہیں تھیں۔
پڑھیے: کراچی میں شدید گرمی کی وجہ کیا ہے؟
یوں تو اس سے پہلے بھی کراچی میں گرمی کی لہر دیکھی گئی ہے، لیکن یہ زیادہ سے زیادہ دو دن برقرار رہتی ہیں، جبکہ اس دفعہ یہ پانچ سے چھ دن برقرار رہی۔"
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شدید گرمی سے 750 لوگوں کی اموات ہوچکی ہیں، جبکہ ہزاروں افراد اب بھی سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ 2 کروڑ کے شہر میں مردہ خانے بھر چکے ہیں، جبکہ قبریں کھودنے والے کم پڑ گئے ہیں۔
جب قمر الزمان چوہدری، جو کہ عالمی ادارہ موسمیات اور ایشیائی ترقیاتی بینک میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مشیرِ خصوصی برائے ایشیا ہیں، اور موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے ماہر ہیں، سے پوچھا گیا کہ کیا یہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے، تو ان کا جواب ہاں میں تھا، اور ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس حوالے سے بالکل بھی شک نہیں کہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں بڑھیں گے، اور بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی میں سائنسدانوں نے یہی پیشگوئی کی تھی۔
پڑھیے: سندھ میں گرمی کی شدت، ہلاکتیں 1000 سے متجاوز
لیکن وزارتِ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے سیکریٹری عارف احمد خان اس حوالے سے زیادہ محتاط ہیں۔ تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "شاید اس طرح کے واقعات کو زمین پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلی سے فوراً جوڑ دینا بہت جلد بازی ہوگی، لیکن کراچی میں گرمی کی شدید لہر، اور ممبئی میں شدید بارش اس بات کی علامات ہوسکتی ہیں کہ کس طرح مقامی موسمیاتی سسٹم دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں پر ردِ عمل دے رہے ہیں۔
ہیٹ آئلینڈ افیکٹ پر قمرالزمان چوہدری سے اتفاق کرتے ہوئے عارف احمد خان کا کہنا تھا کہ جب ایک بڑا شہر طویل دورانیے کے لیے اونچے درجہ حرارت کی زد میں ہو، تو ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن ان کے مطابق کراچی کی گرمی میں بنیادی کردار مرطوب موسم کا بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ دیگر لوگوں کے مطابق رمضان المبارک میں طویل لوڈ شیڈنگ (نتیجتاً پانی کی شدید کمی) نے بھی مسئلے کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔
گرمی کی لہر کیسے برداشت کریں
اگر گرمی کی لہریں اب بار بار آیا کریں گی، تو انہیں برداشت کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ ماحولیات اور شہری منصوبہ بندی کے ماہر فرحان انور کا کہنا ہے کہ اس کے کئی طریقے ہیں۔ "اب وقت آگیا ہے کہ عمارات کے ڈیزائنز اور ان میں استعمال ہونے والے مٹیریل پر دوبارہ غور کیا جائے۔"
مزید پڑھیے: لو سے حفاظت اور اس کا علاج کیسے؟
اونچی عمارتوں نے ہوا کے قدرتی راستے روک دیے ہیں، جبکہ ٹریفک کی گرمی نے بھی مسئلے کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ انور کے مطابق ہندوستان کے گرین بلڈنگ اسٹینڈرڈز اور مقامی تعمیراتی روایات کو فروغ دے کر اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
"اگر وہ ایسا کر سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟ اس حوالے سے ہماری تمام بات چیت صرف ورکشاپس اور سیمینارز تک ہی کیوں محدود رہتی ہے؟"
فرحان انور کے مطابق گرمی کم کرنے کا ایک اور طریقہ شہروں میں ندیوں کا ہونا ہے۔ "کراچی میں نہرِ خیام موجود ہے، جبکہ قدرتی سیلابی نالے (جن کا کام اب سیوریج منتقلی ہے) بحال کیے جا سکتے ہیں اور پانی ٹریٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مصنوعی نالے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔"
انہوں نے چھتوں پر کیاریاں بنانے کے کم خرچ حل کی بھی تجویز دی، جس سے گرمیوں میں عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے اور سردیوں میں گرم رکھنے کے لیے کم توانائی خرچ ہوتی ہے۔ ان کے مطابق "فرانس میں چھت پر باغ یا سولر پینلز کا ہونا قانونی طور لازم ہے۔"
یہ طریقہ جرمنی اور آسٹریلیا میں بھی مقبول ہے۔ ٹورانٹو کینیڈا میں بھی 2009 میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس کے تحت صنعتی اور رہائشی عمارتوں کی چھتوں پر کیاریاں اور باغ بنانے لازم قرار دیے گئے تھے۔ لیکن انور کے مطابق اس طرح کے اقدامات صرف تب کارآمد ہوتے ہیں، جب انہیں وسیع پیمانے پر نافذ کیا جائے۔
تصاویر: کراچی گرمی سے نڈھال
انہوں نے تجویز دی کہ شہر کے درجہ حرارت کی نقشہ کشی کی جانی چاہیے۔ "سطحی درجہ حرارت کی نقشہ کشی سے آپ فوراً ہی گرم ترین مقامات کی نشاندہی کر سکتے ہیں، اور کثیر السطحی جیوگرافک انفارمیشن سسٹم کے ذریعے یہ جانا جا سکتا ہے کہ آیا گرمی گنجان آبادی کی وجہ سے ہے، ٹریفک کی وجہ سے، یا پھر کسی اور وجہ سے۔ ان معلومات کے ہوتے ہوئے شہری منصوبہ ساز گرمی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے زیادہ بہتر طریقے سے نمٹ سکتے ہیں۔"
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے رفیع الحق مانتے ہیں کہ درخت لگانے سے اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ وہ درختوں کو شہر کے پھیپھڑے قرار دیتے ہیں۔
"کنکریٹ کی عمارتوں نے شہر کا دم گھونٹ دیا ہے، اور ہمیں درخت لگا کر اسے بحال کرنا چاہیے۔"
رفیع الحق کے مطابق درخت قدرتی ایئر کنڈیشنر ہوتے ہیں، جب پتوں سے آبی بخارات خارج ہوتے ہیں، تو ان سے ماحول ٹھنڈا ہوتا ہے۔ لیکن ان کے مطابق یہ جاننا ضروری ہے کہ کون سے پودے اگانے چاہیئں، کیونکہ غلط پودے اگانا نقصاندہ ہوسکتا ہے۔
جانیے: دھماکوں اور گولیوں کے بعد اب گرمی
تقریباً ایک دہائی قبل شہری حکومت نے شہر کی آلودگی ختم کرنے کے لیے 25 لاکھ ایسے درخت لگائے تھے، جو آلودگی تو کیا ختم کرتے، الٹا لوگوں میں الرجی کا سبب بننے لگے۔ رفیع الحق کے مطابق پودوں کا یہ انتخاب تحقیق کی کمی کی وجہ سے تھا۔ ان کے مطابق اگر آپ کسی شہر کے لیے بہترین درخت کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے اس شہر کے موسمی نظام کو سمجھنا پڑے گا۔
"کراچی کو نیم کے درختوں کی ضرورت ہے، جو اس سخت آب و ہوا کو جھیل سکیں جس نے 1980 کی دہائی کے بعد سے کراچی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہ درخت لگانے کا بہترین وقت مون سون کا شجرکاری موسم ہوگا جو اگلے ماہ شروع ہورہا ہے، اور 15 جولائی سے 15 ستمبر تک جاری رہے گا۔" لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ نیم کا درخت کافی دھیمی رفتار سے بڑھتا ہے، اور اسے اپنا کام دکھانے میں تین سال تک لگ سکتے ہیں۔
24 جون کو محکمہء موسمیات نے پیشگوئی کی کہ کراچی میں گرمی کی لہر اختتام پذیر ہے، اور جلد ہی بارش ہوگی۔ درجہء حرارت میں کمی سکون کا سبب تو ہوگی، لیکن بارشیں ہلکی ہوں گی۔
مصنوعی بارش
گرمی کی لہر اور اس کے نتیجے میں اموات نے حکومت کو مصنوعی بارش پر غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ویڈیو: کیا کراچی میں گرمی کا علاج مصنوعی بارش ہے؟
چوہدری کے مطابق مصنوعی بارش ماضی میں آزمائی جا چکی ہے، "ایسا تھرپارکر میں 2000 میں کیا گیا تھا جب شدید قحط سالی تھی۔ لیکن بارش کروانے کے لیے مخصوص بادلوں کا ہونا ضروری ہے۔"
مشہور سائنسدان اور پاکستان کے سابق وزیرِ سائنس و ٹیکنولاجی ڈاکٹر عطاالرحمان کا کہنا ہے کہ بادلوں پر ہوائی جہاز کے ذریعے سلور آئیوڈائڈ، پوٹاشیم آئیوڈائڈ، یا خشک برف چھڑک کر مصنوعی بارش کروانے پر کافی تحقیق ہوچکی ہے۔ "کچھ کامیابی کے ساتھ یہ طریقہ کئی دہائیوں سے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ کوئی سنگین طبی یا ماحولیاتی خطرات وابستہ نہیں ہیں۔"
بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ
تبصرے (2) بند ہیں