'ہندوستان سے ایم کیو ایم کو مالی مدد ملتی رہی'
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے دو رہنماؤں نے برطانوی حکام کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ انہیں ہندوستان حکومت کی جانب سے مالی مدد ملتی رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہندوستان سے مالی مدد لینے کا اعتراف لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے 2 سینیر رہنماؤں نے 2012 میں پولیس کو ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں کیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والے برطانوی حکام کو ایم کیو ایم کے ایک رہنما کے گھر پر 2013 میں ایک چھاپے کے دوران ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد کی ایک فہرست بھی ملی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ چھاپے کے دوران ملنے والی فہرست میں خریدا گیا اسلحہ اور رقم ممکنہ طور پر کراچی میں استعمال ہونا تھا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہندوستان نے گزشتہ دس سالوں کے دوران ایم کیو ایم کے سیکڑوں عسکریت پسندوں کو تربیت فراہم بھی کی۔
ایم کیو ایم کا ردعمل
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں رپورٹ اور اس میں لگائے گئے الزامات کا بغور جائزہ لیا گیا۔
متحدہ قومی موومنٹ نے بی بی سی کی نیوز رپورٹ میں لگائے گئے تمام ترالزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے من گھڑت قرار اور ایم کیو ایم کے خلاف میڈیا ٹرائل کا حصہ قرار دیا ہے۔
ایک اعلامیہ میں رابطہ کمیٹی نے کہاکہ ایم کیوایم کے خلاف لگائے جانے والے الزامات نئے نہیں ہیں، اس سے قبل بھی ہم کئی جناح پور سمیت کئی الزامات عائد کیے گئے جو بعد میں جھوٹے ثابت ہوئے۔
بیان میں کہا گیا کہ بی بی سی کیلئے رپورٹ تیار کرنے والے نمائندے نے ماضی میں بھی ایم کیو ایم کے خلاف متعدد رپورٹس نشر کی ہیں جنہیں ایم کیوایم کے مخالفین نے ایم کیوایم کے خلاف سیاسی حربے اور میڈیا ٹرائل کیلئے استعمال کیا اور اس نمائندہ کی یہ رپورٹ بھی ایم کیوایم کے خلاف گزشتہ کئی برسوں سے جاری میڈیا ٹرائل کا حصہ ہے۔
رابطہ کمیٹی نے کہا کہ ہم اس رپورٹ میں لگائے گئے تمام ترالزامات کوقطعی طورپرمستردکرتے ہیں، ایم کیوایم کے خلاف اس قسم کی گمراہ کن رپورٹ نشر کرنا ملک بھر کے مظلوم عوام کو ایم کیوایم سے بدظن کرنے کی سازش ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ ملک بھرکے عوام اس قسم کی جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹس کو ماضی کی طرح اس بار بھی مسترد کر دیں گے۔
رپورٹ کے مطابق ہندوستانی حکام نے ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا ہے جب کہ ایم کیو ایم نے ان پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
یہ دعویٰ اپریل میں کراچی کے ایک سینئر پولیس افسر کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ہندوستان میں ٹریننگ کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
اپریل میں کراچی پولیس کے سینئر افسر راؤ انوار نے میڈیا کے سامنے دو افراد کو پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کس طرح دونوں افراد تھائی لینڈ کے ذریعے ہندوستان پہنچے جہاں انہوں نے انڈین انٹیلی جنس ایجنسی 'را' سے تربیت حاصل کی تھی۔
پڑھیں : 'را' کے تربیت یافتہ ایم کیو ایم کے 2 کارکن گرفتار
یاد رہے کہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے خلاف تحقیقات کا آغاز 2010 میں اس وقت کیا گیا جب سینئر پارٹی رہنما عمران فاروق کو ان کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔
اسی تحقیقات کے دوران تحقیقاتی حکام کو ایم کیو ایم کے لندن آفس اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے گھر سے 5 لاکھ پاؤنڈ بھی ملے تھے۔ اس کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف ممکنہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کی گئی ہیں جو کہ ابھی بھی جاری ہیں۔
اپریل میں منی لانڈرنگ کے الزام کے سلسلے میں الطاف حسین کی ضمانت میں 9 جولائی بھی کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں : الطاف حسین کی ضمانت میں جولائی تک توسیع
ایم کیو ایم کے رہنما واسع جلیل نے ٹوئٹر پر اس رپورٹ پر ردعمل کااظہار کرتے ہوئے اسے 'ٹیبل اسٹوری' قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایم کیو ایم 1992 سے اس قسم کے الزامات کا سامنا کررہی ہے۔
|
تبصرے (5) بند ہیں