کراچی: دھماکوں اور گولیوں کے بعد اب گرمی
تقریباً ایک ماہ پہلے ہی میں اور میرے ساتھی آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اس دفعہ روزے کیسے رکھے جائیں گے۔ اپریل ختم ہو رہا تھا اور گرمی بڑھ چکی تھی۔ ہم لوگ 30 روزے مکمل کرنے کے حوالے سے تشویش کا شکار تھے۔ لیکن پھر بھی پہلا روزہ آیا، اور گزر گیا۔ یہ اتنا مشکل نہیں تھا، لیکن پھر گرمی کی شدید لہر نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔
شروعات میں صرف 6 لوگوں کی موت واقع ہوئی۔ اگلی صبح تک یہ تعداد 80، پھر 150، اور اب سرکاری اعداد و شمار صرف 3 دن میں 830 افراد کے ہیں۔
کراچی کے شہری گولیوں اور بم دھماکوں سے مرتے رہے ہیں، لیکن اب کی بار گرمی ان کی تاک میں تھی۔
ٹی وی دیکھتے ہوئے جب ایدھی سرد خانے کے نمائندے کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے پاس لاشیں رکھنے کی جگہ ختم ہوچکی ہے، تو میرا دل ٹوٹ گیا۔
پڑھیے: لوڈ شیڈنگ ہلاکتیں: وزراء سے استعفی کا مطالبہ
اب مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ حالت کتنی خراب ہوچکی ہے۔ اس وسیع و عریض شہر میں لاشیں رکھنے کے لیے جگہیں باقی نہیں بچی تھیں۔ یہ مردہ افراد آج زندہ ہوتے صرف اگر کسی نے انہیں خبردار کیا ہوتا، کسی نے ان کے لیے بنیادی حفاظتی تدابیر یقینی بنائی ہوتیں۔
ہمیشہ ٹھنڈے مزاج کی شہرت رکھنے والے ہمارے وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے اس گرمی اور اموات کی بڑی تعداد پر بھی اپنا ٹھنڈا مزاج برقرار رکھا۔ اور جب وہ 3 دن بعد وہ نظر آئے، تو انہوں نے اسمبلی اجلاس میں ایک بیان دیا۔
جب وہ مرنے والوں کے اہلِ خانہ کے ساتھ 'اظہارِ یکجہتی' کر رہے تھے، تو وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکے۔
"دیکھیں پہلے بھی دوسرے لوگوں کے ادوار میں اموات ہوئی ہیں۔ میں کس کے نام لوں؟ میں تنازع میں نہیں پڑنا چاہتا۔"
اس سے پہلے کہ وزیرِ اعلیٰ اسمبلی میں معاملہ اٹھاتے، کراچی کے مختلف کونوں سے لوگوں نے سرکاری ہسپتالوں تک ٹھنڈا پانی تقسیم کرنے کے لیے پہنچنا شروع کر دیا تھا۔ اب ہمیشہ کی طرح ان کے اتحاد کی تعریف کی جائے گی۔ رینجرز کو بھی گرمی سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے عارضی کیمپوں کے قیام پر خراجِ تحسین پیش کیا جائے گا۔
مزید پڑھیے: گرمی سے ہلاکتیں، اپوزیشن کا یوم سوگ کا اعلان
ہم یہ سب کچھ کتنی دفعہ دیکھیں گے؟ نہ ہی یہ سول سوسائٹی کا کام تھا، اور نہ ہی رینجرز کا کہ وہ لوگوں کو زندہ رہنے میں مدد کرتے۔ یہ تو ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے شہریوں کی دیکھ بھال کرتی، یا کم از کم روزانہ بڑھتی ہوئی اموات کی تعداد پر ہی قابو پاتی۔
اس ماہ کے آغاز میں ہی سہون میں 18 لوگ گرمی سے ہلاک ہوگئے۔ کراچی میں گرمی کی لہر کو حکام نے پھر کیسے نظر انداز کردیا؟
نئی دہلی میں جب شدید گرمی سے سڑکیں تک پگھل گئیں، اور 1000 لوگ جان کی بازی ہار گئے، تو ابتدائی وارننگز جاری ہوتے ہی سڑکیں سنسان ہوچکی تھیں۔ لیکن کراچی میں تب تک کاروبارِ زندگی جاری رہا، جب تک اس میں جاری رہنے کی ہمت تھی۔
ہر وقت ٹی وی پر حکومتی اشتہارات کو دیکھ کر اب مجھے اچھی طرح یاد ہوگیا ہے کہ وزیرِ اعظم کی قوم کے لیے کس قدر خدمات ہیں۔ لیکن اچھا ہوتا کہ ٹی وی پر اس حوالے سے وارننگ کے پیغامات بھی چلائے جاتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے بھی ہیٹ اسٹروک یا لو لگنے کے نقصانات کا ہفتے کے دن تک معلوم نہیں تھا، کیونکہ کراچی میں رہنے والے دیگر لوگوں کی طرح مجھے بھی یقین تھا کہ اس شہر کا موسم زیادہ گرم نہیں ہوگا۔ ہم بھول گئے تھے کہ اس شہر میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
جانیے: کیا کراچی میں گرمی کا علاج مصنوعی بارش ہے؟
اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ بات نہیں سمجھ آ رہی تھی کہ کیوں اموات شہر کے ہر کونے میں نہیں بلکہ صرف چند مخصوص طبقوں اور علاقوں میں ہورہی ہیں، جہاں گرمی کا مقابلہ اے سی، پانی کی ٹھنڈی بوتلوں، اور ٹھنڈے شاور سے نہیں کیا جا سکتا۔
اور ہاں، میں اس بات سے انکار نہیں کروں گی، کہ اس شدید گرمی میں روزہ رکھنا کوئی فائدہ مند بات نہیں۔ اس گرم موسم میں خود کو پانی کی کمی کا شکار کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، لیکن کتنے علماء کرام نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ کوئی بھی مذہبی عبادت زندگی کی قیمت پر کرنا فرض نہیں ہے؟ جو علماء ہر مسئلے پر اپنی آوازیں اٹھاتے ہیں، وہ کیوں سامنے آ کر یہ نہیں کہتے کہ مر جانے سے اچھا ہے کہ چند روزے چھوڑ دیے جائیں؟
جلد یا بدیر مجھے کہا جائے گا کہ حکومت، کے الیکٹرک، یا علماء کو الزام دینا کسی چیز کا حل نہیں ہے، اور اس کے بجائے مجھے گرمی سے متاثرہ افراد کی مدد کرنی چاہیے۔ ہاں صحیح بات ہے۔ ہم کراچی والے ویسے بھی اپنے کندھوں پر خاموشی سے لاشیں اٹھا کر خود کو مضبوط ثابت کرتے رہنا چاہتے ہیں، اس حد تک کہ ہم اپنے قاتلوں پر الزام عائد کرنا بھی بھول چکے ہیں۔
پڑھیے: شدید گرمی سے بچنے کے لیے اپنا علاج خود کریں
یہ سانحہ ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے ہے۔ چاہے دہشتگردی ہو یا قدرتی آفات، ایک بات تو طے ہے کہ ہماری حکومتوں نے ہمیں ہمیشہ مشکلات میں ڈالا اور دھوکہ دیا ہے۔
کراچی والو، امید کا دامن تھامنے کے بجائے صرف وہی کام کرو جو تم لوگ بہتر طور پر کر سکتے ہو: لاشیں اٹھاؤ، اور بس۔
تبصرے (4) بند ہیں