تھر کے سدابہار 'روزے داروں' کے نام
تھر کے ریگستان کلاسیکل حسن رکھتے ہیں۔ خوراک لدی جیپ میں یہاں گھومنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ گاگریں لادے بچے اور گھاگریں گھسیٹتی عورتیں کچے جھونپڑوں کے باہر قطار اندر قطار دکھائی دیں تو من گنگناتا ہے:
آیو رے آیو رے ساون آیو رے
ہوئے سچ محنت کے سپنے
کہ دکھ دے دور ہوئے اپنے
محنت چمکی کھیت میں
کہ چاندی چمکی ریت میں
آیو رے آیو رے ساون آیو رے
لیکن یہ منظر سامنے کا سچ ہے۔ وقتی اور یک جہت! جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی قدیم سے صحرائے تھر میں زندگی کا انحصار بارش کے پانی پر رہا ہے۔
پڑھیے: تھر: موت بھرا پانی
تھر میں دریا یا نہر کا کوئی وجود نہیں۔ وہاں پانی کا حصول کنوؤں سے ہوتا ہے۔ جس سال صحرائے تھر میں بارشیں ہوتی ہیں، تو کنوؤں کے پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے جو نئے سال کی بارشیں ہونے سے قبل بہت نیچے چلی جاتی ہیں۔ بعض کنویں تو خشک ہوجاتے ہیں۔ بے آب وگیاہ۔ بارش ہو جائے تو تھری عوام جشن مناتے ہیں۔ تھری عوام کے مویشی جن میں گائے، بکریاں، اونٹ وغیرہ شامل ہیں، بارش سے اگنے والے سبزے کو چارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
بارش نازل ہونے کے بعد تھری عوام کچھ مخصوص قابلِ کاشت زمین پر اناج اگا لیتے ہیں۔ اناج کے تیار ہونے تک اسے دور دراز کے پانی سے سینچا جاتا ہے۔ اناج تیار ہو جاتا ہے تو اسے اتار کر جمع کر لیا جاتا ہے۔ کنویں کا پانی جو اونٹوں اور گائے کے ذریعے رسی سے کھینچا جاتا ہے، اسے مویشی اور تھری عوام پینے اور دیگر کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سو یہاں رنگین گاگروں اور گھاگروں میں زندگی رنگین نہیں، سنگین ہے!
سچ تو یہ ہے کہ انہیں یہ گھڑے اٹھائے میلوں پیدل چل کر کسی جوہڑ، تالاب، یا کنویں تک جانا ہوتا ہے کہ جس کے لبوں پہ اکثر پپڑی ہی جمی رہتی ہے۔ یہاں قحط سالی تو کوئی خبر نہیں کہ سارا سال اس خشک، بنجر، اور دور افتادہ ریگستان میں انسان روٹی اور پانی تلاش کرتا ہے۔ ریاست کی مصروفیات ہزار! مگر جب قدرت بھی مصروف ہو اور بارشیں مسلسل روٹھ جائیں، تو قحط سالی سے لوگ بیمار پڑنے کے بجائے ڈائریکٹ مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
پھر میڈیا میں ریٹنگ شروع ہوتی ہے۔ آج مرنے والوں کی تعداد اتنی ہو گئی۔۔۔ آج اتنی ہو گئی۔۔۔ کنوؤں، تالابوں کے بعد جب جوہڑ بھی خشک ہوتے جائیں تو لوگ خود کشیاں کرنے لگتے ہیں سو خبر عالمی بن جاتی ہے۔ (صرف پچھلے برس والی قحط کی لہر میں پچاس سے زیادہ افراد نے خودکشی کی جن میں نوے فیصد ہندو تھے)۔ عالمی طاقتیں دو چار فلٹر پلانٹس کا اعلان کرتی ہیں۔ فوجی جوان اور چند رجعتی و جدید سماجی فلاحی ادارے لوگوں کو خودکشی اور ’طبعی‘ موت سے بچانے پہنچ جاتے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد کم ہوتے ہی کیمرے یہاں سے ہٹ جاتے ہیں اور ہم اس ریگستان سے کٹ جاتے ہیں۔ یاد آتے ہیں تو وہ راجھستانی غرارے یا گیت، کہ جہاں کھلے آسمان تلے ایک قطار میں بچے اور عورتیں گاگریں اٹھائے پانی کی تلاش میں گا رہی ہیں۔
آیو رے آیو رے ساون آیو رے!
پڑھیے: ایزی لوڈ ہے، مگر پانی نہیں
ایسے میں ایک خبر تو یہ اچھی رہی کہ اس بار کے قحط اور اس سے دو چار سو ہلاکتوں اور سو پچاس خودکشیوں کے بعد ایک ملٹی نیشنل ادارے نے شمسی توانائی کا چھوٹا فلٹر پلانٹ لگانے کا اعلان کیا ہے جس سے اموات کچھ تو کم ہوں گی اور دوسری خبر پانچ سو روپے والا ایک خط ہے۔ یہی خط ہمارا آج کا موضوع ہے۔
جیو نیوز سے متعلقہ ادارے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ اس خط کی تصویر کو کافی پسند کیا گیا کہ جو سوات کے ایک ’معمولی‘ دکاندار نے چیف سیکرٹری سندھ کو لکھا تھا۔ اسی میڈیا نے جب تھر میں مرنے والوں کی امداد کی مہم چلائی تو سوات کے اس دکاندار کے گھر میں بھی بچوں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ لوگ کیوں مر رہے ہیں، باپ کے تفصیل بتانے پر بچوں کا جواب کیا تھا، یہ اسی خط میں پڑھیے!
چیف سیکرٹری سندھ
اسلام وعلیکم
میرا نام مجید اللہ ہے۔ سر جی میں نے اپنے گھر میں بچوں اور بڑوں کو تھر کے بارے میں بتایا ہے۔ ساروں کو بہت افسوس ہوا ہے اور اللہ سے دعا کی ہے کہ ہمارے حال پہ رحم فرمائے۔ اور خصوصاً تھر والوں پر۔ میری سارے گھر والوں نے خصوصاٌ چھوٹے بچوں نے چندا (پانچ سو روپے) اکٹھا کیا ہے اور اب میں یہ آپ کو بھیج رہا ہوں۔ روپے تو بہت کم ہے لیکن صحرا والوں کے لیے ہماری محبت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ترقی دے اور ساری دنیا میں تعلیم یافتہ بنا دے۔ آمین
مجید اللہ
پاک کریانہ سٹور، سوات مینگورہ
ہوسکتا ہے فکری تنقید نگار اس انفرادی واقعہ پر ہماری معاشرتی تحسین کو خوش فہمی تعبیر کریں اور ادبی تنقید نگار خط میں املا کی فحش اغلاط پر راوی لکھاری کو کوسیں کہ کم از کم اسے تو درست کر کے لکھنا چاہیے تھا لیکن ہمیں اس خط نے بہت حوصلہ دیا ہے۔
اس دیس میں بہت کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے۔ یہاں رہنے والے اگر بسوں میں چڑھ کر پچاس سو کو بلاوجہ بھون دیتے ہیں تو یہاں پر ہی ایسے معصوم بھی ہیں جو گھر میں بچوں کے جیب خرچ اور اپنی دیہاڑ میں سے پانچ سات سو روپے خط میں ڈال کے بھیج دیتے ہیں۔ اس خط میں انتہائی معمولی انداز میں انتہائی غیر معمولی پیغام دیا گیا ہے۔ نسل نو جس نے اس نظام کو آگے لے کے جانا ہے، ایسی بھی بے حس نہیں ہے۔ خط دوبارہ پڑھیے۔ تحریر میں رقم کے ساتھ ’مدد‘ نہیں ’محبت‘ کا لفظ ہے، جو ایک مثالی سماج کی پہلی کڑی ہے۔ خط کا لہجہ تنقیدی نہیں، خود ستائشی بھی نہیں، بلکہ ذمہ دارانہ ہے، اور اپنے اس عمل سے بے نیازانہ ہے!
مزید پڑھیے: تھر میں اموات: ہم سب ذمہ دار ہیں
خط کے اختتامی حصے میں جو الوداعیہ کلمات میں دعا ہے، شاید یہی کامیابی کا واحد نسخہ بھی ہے۔
"دنیا میں تعلیم یافتہ بنا دے"
28 مئی یومِ تکبیر پر یہ کلمات دہراتے ہوئے امید ہے کہ اس ایٹمی طاقت میں کوئی فاقے کاٹ کاٹ کر خود کشی نہیں کرے گا۔ اگلی نسلیں ایسی ہی حساس اور ذمہ دار ہوں گی، قحط کے دنوں والی نسل جیسی نہیں ہوں گی کہ جیسے تھر کی اس ماسی لگنے والی جوان عورت سے ایک ٹی وی رپورٹر نے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی کہ چالیس سال، شاید پچاس سال یا ساٹھ سال۔
"بچے کتنے مرگئے؟"
"جی۔ چھ مر گئے"
"اور اب کتنے ہیں"
"جی، اب پانچ رہ گئے"
ہم بائیس ہزار کلومیٹر پر پھیلے ان 15 لاکھ پُر امن، جفاکش صحرائیوں کے اچھے مستقبل کے لیے اچھی خواہشات کرتے ہیں کہ جن کے پاس سردست صرف 22 ہیلتھ ورکرز ہیں۔
ماہ جون کا پیاس بھڑکاتا ماہ رمضان ان صابر اور محنت کش صحرائیوں کے نام اور ان سے محبت کرنے والے ان معصوم بچوں کے نام۔