• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:49pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:49pm

غلط نہیں، تو پریشانی کیسی

شائع June 20, 2015
ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلائے جس کے نتیجے میں دوبارہ سے انتخابات ہوں۔ — اے ایف پی
ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلائے جس کے نتیجے میں دوبارہ سے انتخابات ہوں۔ — اے ایف پی

ابھی کراچی آپریشن مکمل ہوا نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے عسکری قیادت پر تنقیدی تیر برسانے شروع کر دیے، جس کے بعد پارٹی کے باقی رہنماؤں نے بھی اپنے لیڈر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سندھ رینجرز کی کارروائیوں کو اختیارات سے تجاوز اور صوبائی انتظامی امور میں مداخلت گردانا شروع کردیا۔

سابق صدر کی جانب سے فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب آپریشن ضربِ عضب کو ایک سال مکمل ہوا ہے، اور تمام سیاسی جماعتیں (ماسوائے پی پی پی) پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور پاک فوج کے جوانوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کر رہی ہیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری دراصل کراچی آپریشن کے شروع ہونے سے ہی اپنے اندر لاوا پال رہے تھے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کراچی آپریشن کو پی پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی، جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی سابق صدر خاموش تھے۔

پڑھیے: زرداری کی سیاسی حریفوں اور اسٹیبلشمنٹ پر شدید تنقید

بنیادی طور پر سابق صدر کو کراچی آپریشن اس وقت ناگوار لگنا شروع ہوا جب وہ اپنی حمایتی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو اس آپریشن سے بچانے میں ناکام رہے اور اب جبکہ دہشتگردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے بعد کراچی آپریشن صوبائی حکومت میں چھپے کرپٹ افسروں اور بیوروکریٹس کے خلاف ہونے جارہا ہے، تو سابق صدر کو خطرہ نظر آرہا ہے کہ کہیں ایسے جرائم پیشہ افراد سامنے نا آجائیں جنہیں پی پی کی آشیرواد حاصل ہے۔

سابق صدر نے مزید پیچ و تاب کھانا تب شروع کیا، جب کور کمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل نوید مختار نے ایک سیمینار میں کہا کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال غلطیوں اور ناکامیوں کے باعث خراب ہوئی، جن میں انتظامی ناکامی اور ناکارہ سیاست شامل ہے۔

اس بیان کے بعد ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے سندھ ایپکس کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں غیرقانونی طریقے سے حاصل کردہ 230 ارب روپے کی رقم سندھ کی اعلیٰ شخصیات میں تقسیم کی جاتی ہے۔

سابق صدر کے لیے تمام حدیں اس وقت پار ہوگئیں جب سندھ رینجرز نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر چھاپہ مارا، اور غیر قانونی تعمیرات، متنازع نقشوں کی منظوری، اور پلاٹوں کی چائنہ کٹنگ سے متعلق شواہد اکٹھے کیے گئے۔

پیر کے روز اس ریڈ کے بعد سابق صدر اپنے غصّے کی تاب نہ لاتے ہوئے پھٹ پڑے اور سیاسی حریفوں اور اسٹیبلشمنٹ کو خوب لتاڑااور کہا کہ فوج کے جنرل ہر تین سال بعد تبدیل ہوتے رہتے ہیں، جبکہ سیاستدانوں نے ہمیشہ یہیں رہنا ہے۔

مزید پڑھیے: آصف زرداری نے فوج پر تنقید نہیں کی

صدر زرداری نے مزید کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے سندھ کے کرپٹ اور جرائم پیشہ عناصر کی لسٹ بنائی تو وہ بھی کرپٹ جرنیلوں کی لسٹ فراہم کریں گے۔

سابق صدر کے بارودی بیان کے بعد حکومت کی جانب سے اس بیان کی شدید مذمت کی گئی اور وزیر اعظم نے آصف علی زرداری کے ساتھ طے شدہ ملاقات کو بھی مؤخر کردیا۔

سندھ میں بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے لگتا ہے کہ اسلام آباد تک بھی پہنچیں گے، اور میڈیا میں خبریں آرہی ہیں کہ قائم علی شاہ کو ہٹا کر خورشید شاہ کو وزیر اعلیٰ سندھ بنایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی پارلیمنٹ میں بھجوانے کی تیاریاں شروع کردی گئیں ہیں۔

بنیادی طور پر صدر زرداری، وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کراچی آپریشن میں چھوٹ نہ ملنے پر وفاقی حکومت کو ایک تگڑا ٹاکرا دینے کا ارادہ کر بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر عزیر بلوچ رینجرز کی حراست میں کچھ گنگناتا ہے تو ممکن ہے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ اس امکان کو ہی ذہن میں رکھتے ہوئے صدر زرداری بذریعہ بلاول پارلیمنٹ میں شور مچائیں گے۔

اس کے علاوہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مل کر نواز حکومت کے خلاف تحریک چلائے، جس کے نتیجے میں دوبارہ سے انتخابات کا میدان سجے۔

دیکھیے: فوج مخالف بیانات کے بعد زرداری کی افطار پارٹی

کراچی آپریشن کے بارے میں جو بھی کہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں حالات دن بدن بہتری کی طرف جارہے ہیں اور ایسے حالات میں ایسے بیانات دینا پاک فوج کے ساتھ سراسر نا انصافی ہوگی۔ سابق صدر نے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنی ہی تھی تو اپنے دور میں کرتے، جب انہوں نے تاریخ میں پہلی بار فوجی سپہ سالار کو مدتِ ملازمت میں توسیع دی اور طالبان کے خلاف آپریشن شروع کرنے میں ناکام رہے۔

آصف زرداری کی جانب سے یہ تنقید بالکل اردو کے اسی محاورے کی مصداق ہے، کہ "چور کی داڑھی میں تنکا"۔ اگر تو پیپلز پارٹی میں کوئی سماج دشمن اور کرپٹ عناصر موجود نہیں ہیں، تو پھر زرداری صاحب کو ایسے پھٹ پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس طرح شور مچا کر اور فوج کے خلاف بیانات جاری کر کے وہ صرف خود کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ زرداری صاحب کو چاہیے کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اپنا کام کرنے دیں، اور اگر ان کی جماعت میں واقعی ایسے عناصر موجود ہیں، تو بلند ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں خود نکال باہر کر دیں۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 اپریل 2025
کارٹون : 22 اپریل 2025