• KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:15am Sunrise 6:40am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:50am
  • KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:15am Sunrise 6:40am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:50am
شائع June 19, 2015 اپ ڈیٹ June 21, 2015

تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے کہ ’’سوات‘‘ گندھارا تہذیب کے انتہائی اہم مراکز میں سے ایک تھا۔ نیز یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ سوات کی گود میں گندھارا تہذیب کے علاوہ بھی دیگر کئی تہذیبوں نے پرورش پائی ہے۔

ہندوؤں کی مقدس شخصیت مہاراجہ رام چندر جی نے سوات ہی کے ایلم پہاڑ میں بن باس کرکے اسے ہندومت کے پیروکاروں کے لئے مقدس بنا یا۔

کہا جاتا ہے کہ ایلم پہاڑی کی عظمت اور تقدس کی روایات زرتشتیوں ، پارسیوں اور یونانیوں کی کتب میں بھی ملتی ہیں۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب ’’رگ وید‘‘ میں یہاں بہنے والے دریا کو ’’سواستو‘‘کہا گیا ہے۔

یہ پارس کے بادشاہ دارا اول (Darius I) کا ایک صوبہ رہ چکا ہے، جسے 327 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے فتح کیا۔ 305 قبل مسیح میں یہ ہندوستان کے ماوریان خاندان کے قبضہ میں آیا۔ لگ بھگ پچپن سال بعد پارتھیا قوم نے مذکورہ علاقہ پر دست تصرف دراز کیا۔

پہلی صدی عیسوی میں گندھارا تہذیب کشانا (Kushana) کے زیر نگیں آئی جو کہ وسطی ایشیاء کے خانہ بدوش تھے۔

ساتویں صدی عیسوی میں سوات کے علاقہ سے ’’پدما سمبھاوا‘‘ (بدھا ثانی) تبت کے لیے نکل پڑے تھے۔ ان ادوار میں مشرقی ایشیائی بدھ مت کا اصل ذریعہ ہوتے ہوئے سوات کا علاقہ ایک مقدس زمین تصور کیا جاتا تھا اور اس کی زیارت کے لیے تبت، چین اور دوسری جگہوں سے زائرین باقاعدہ طور پر حاضری دینے آیا کرتے تھے۔

بٹ کدہ اسٹوپا— تصاویر امجد علی شہاب
بٹ کدہ اسٹوپا— تصاویر امجد علی شہاب

ڈاکٹر لوکا ماریا جو کہ مشہور اطالوی ماہر آثار قدیمہ ہیں۔ انھوں نے ’’اٹالین آرکیالوجکل مشن‘‘ کے لیے خدمات سرا نجام دیتے ہوئے وادیٔ سوات میں ستائیس سال گزارے ہیں۔ انھیں موجودہ دور میں اودھیانہ (سوات کا پرانا نام) کا سب سے مستند عالم اور محقق مانا جاتا ہے۔

سوات کے آثار قدیمہ کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ورثہ عظیم، وسیع اور حیرت انگیز ہے۔’’اس کی درجہ بندی مشکل ہے لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دنیا کے پچاس اہم ترین آثار قدیمہ میں سے ایک ہیں۔ قدیم کتب اور چینی ریکارڈ ان میں سے چند کی صاف وضاحت کرتے ہیں۔‘‘

آرکیالوجی اینڈ میوزیم گورنمنٹ آف خیبر پختون خوا کے سبکدوش ڈائیریکٹر پروفیسر شاہ نذر خان کا کہنا ہے کہ ’’اودھیانہ کو گندھارا کا حصہ مانا جاتا ہے۔ بعض محققین کی رائے میں اودھیانہ ایک علیحدہ سلطنت تھا۔ اس وادی کے جنت نظیر ہونے کے علاوہ اس کے بدھ مت کے قدیم آثار بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسٹوپے، خانقاہیں، رہائشی عمارات، قلعے اور بڑی تعداد میں Rock curvings وادی میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔‘‘

شموزو اسٹوپا
شموزو اسٹوپا

وادیٔ سوات میں یہ آثار آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں مگر یہاں کے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کو بھی ان کی اہمیت کا سرے سے اندازہ نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ تیزی کے ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق سوات میں اب تک دس فی صد آثار کو بھی دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ سوات میں مختلف جگہوں سے نکلنے والے قیمتی آثار جن میں بدھا کے مجسمے، سکے، اس وقت کے برتن، زیورات اوردیگراشیاء شامل ہیں، کو پہلے پہل سیدو شریف عجائب گھر میں رکھا جاتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے رکا ہوا ہے۔

سنگدرہ اسٹوپا
سنگدرہ اسٹوپا

موضع جہان آباد منگلور سوات میں چٹان میں کندہ کیا ہوا دنیا کا دوسرا بڑا مجسمہ ہے جسے طالبان دور میں ناتلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ گیارہ اور 23 ستمبر دو ہزار سات کو اس کے سر کو بارودی مواد سے اڑانے کی کوشش کی گئی جسے بعد میں اٹالین مشن نے مزید خراب ہونے سے بچانے کی خاطر کوششیں کیں۔ اس کے علاوہ جہاں بھی سوات کے طول و عرض میں بدھ مت دور کے آثار بکھرے پڑے ہیں، ان میں چند ایک اٹالین مشن کی نگرانی میں ہیں اور باقی کو حالات کی ستم ظریفی کا سامنا ہے۔ زیادہ تر میں اسمگلروں کی غیر قانونی کھدائیاں جاری ہیں، جب کہ باقی ماندہ کو بچے، بوڑھے اور جوان ’’ثواب‘‘ حاصل کرنے کی غرض سے پتھر مارتے ہیں اور اس پر گندگی ڈالتے ہیں۔

جہان آباد میں بدھا کا مجسمہ
جہان آباد میں بدھا کا مجسمہ

اس حوالہ سے سوات کے نوجوان محقق فضل خالق جنھوں نے سوات کے آثار قدیمہ پر اپنے ایک تحقیقی مقالہ "The Uddiyana Kingdom: the forgotten Holy Land Of Swat"کو کتابی شکل دی ہے، کہتے ہیں کہ سوات کے آثار قدیمہ کو نہ صرف عام عوام سے خطرہ ہے بلکہ ان کی زبوں حالی اور انھیں اس حالت تک پہنچانے میں محکمۂ آثار قدیمہ برابر کا شریک ہے۔

’’عوام کی غلط سمت میں رہنمائی کی گئی ہے۔ اس لیے وہ ان آثار کو پتھر وغیرہ مارتے ہیں۔ حالاں کہ قرآن شریف کے پارہ نمبر چھ میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے لیے برے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں۔‘‘

فضل خالق کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ یہاں پر دو ڈھائی سو اسمگلر گروپ ان آثار کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی خاطر ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان کے ساتھ حکومتی اور عوامی دونوں طرح کی مدد بھی حاصل ہےجب تک حکومتی اہل کار اس عمل کا سختی سے نوٹس نہیں لیتے، اسمگلروں کو پکڑا نہیں جاتا، ان کے معاون عناصر کو سزا نہیں دی جاتی، تب تک ان آثار کو تباہ ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔‘‘

سیدو شریف اسٹوپا
سیدو شریف اسٹوپا

ان آثارکا ایک عرصہ سے مطالعہ کرنے والے ماہر منہاج الدین المعروف بابا اس حوالے سے کافی تشویش میں ہیں۔ ان کے مطابق’’سوات کے کئی علاقوں بریکوٹ، پنجی گرام، کنجر کوٹو، ننگریال، پانڑ، کوکاریٔ،بالی گرام، کبل، خوازہ خیلہ، مٹہ، شوخ دڑہ حتی کہ گل کدہ (جوکہ حکومتی تحویل میں لیا گیا علاقہ ہے) میں غیر قانونی کھدائیاں آج بھی جاری ہیں۔اس کے علاوہ بڑے بڑے آثارقدیمہ کے مراکزجن میں کوٹہ ابوہا، شموزو، جلالہ، گاڑوڈاگئی، بنجوٹ اور تلیگرام کے علاقے شامل ہیں، میں بھی بڑے پیمانہ پر غیرقانونی کھدائیاں ہو رہی ہیں۔ ان جگہوں سے قیمتی اشیاء نکالی جاتی ہیں جو کہ تھائی لینڈ، جاپان ، امریکہ اوریوروپی ممالک اسمگل کی جاتی ہیں۔ اس غیر قانونی کام میں محکمۂ آثار قدیمہ، مقامی پولیس اور بہت سے حکومتی ادارے اور مقامی بااثر سیاسی شخصیات تک شامل ہیں۔‘‘

گندھارا نوادرات
گندھارا نوادرات

منہاج کا مزید کہنا ہے کہ ’’یہ آثار سوات کا قیمتی اثاثہ ہیں مگر بدقسمتی سے اس طرف حکومتی ادارے مسلسل غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‘‘

اس ضمن میں سواستو آرٹ اینڈ کلچر ایسوسی ایشن کے روح رواں عثمان اولس یارؔ بھی کافی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ عثمان اولس یارؔ پشتون بیلٹ پر جہاں بھی تہذیبی وثقافتی کام ہوتا ہے، وہاں پیش پیش ہوتے ہیں۔

ان کے بقول سوات میں آثار قدیمہ کی تباہی کا ذمہ دار محکمۂ آثار قدیمہ ہے۔’’آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے جتنے ادارے سوات میں کام کرتے ہیں، اُن سب سے اِن آثار کو خطرہ ہے۔ سوات میں جتنے آثار ہیں، چاہے وہ کھنڈرات ہوں، سوات کا اکلوتا عجائب گھر ہو یا مجسمے وغیرہ ہوں، ان کی حفاظت اور بحالی کے لیے مذکورہ ادارے اٹالین مشن کے رحم و کرم پر ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آج تک محکمۂ آثار قدیمہ نے سوات میں ایک پیسے کا کام بھی نہیں کیا ہے۔ سوات عجائب گھر کو ہی لے لیں۔ اٹالین مشن نے اسے کتنے زبردست طریقے سے تیار کیا ہے، مگر محکمۂ آثار قدیمہ نے اس پر جو گیٹ لگایا ہے وہ کسی طویلے پر بھی نہیں لگایا جاسکتا۔‘‘

سوات کے آثارِقدیمہ کے بچاؤ اور ان کی مسلسل تباہی کے بارے میں جب مقامی محکمۂ آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر فیض الرحمان سے بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ’’سال دو ہزار بارہ کو املوک درہ سائٹ (تحصیل بریکوٹ سوات) میں غیر قانونی کھدائی کے دوران میں چند اسمگلروں کو پکڑا گیا تھا، ان سے ’’بدھ ستوا‘‘ تک برآمد کیا گیا تھا جسے بعد میں سوات میوزیم کا حصہ بنایا گیا۔ ان اسمگلروں کو بعد میں معمولی سزا اور جرمانہ کے بعد چھوڑا گیا۔

املوک درہ اسٹوپا
املوک درہ اسٹوپا

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اسمگلروں اور ان کے معاونین کے لیے ٹھیک ٹھاک قانون سازی کرے۔


تصاویر : امجد علی شہاب

تبصرے (13) بند ہیں

Muslim Bacha Jun 19, 2015 06:48pm
Najigram stupa nahi dia..aur o main stupa hain.. Sir Amjad g
Fazal Khaliq Jun 19, 2015 07:25pm
great write-up. Swat has rich history which must be preserved for multiple benefits.
Javid Ahmad Jun 19, 2015 08:22pm
MashaAllah very well written and informative piece.This has attracted me to visit Swat Valley. I am diffinitly going to see all these places from UK. Thanks Amjad Ali Sahaab for sharing the Positive aspect of Pakistan.
Waseem Jun 19, 2015 08:27pm
پارس کے بادشاہ دارا اول کا ذکر بائبل کے عہد نامہء قدیم میں دارا مادی کےنام سے کیا گیا ہے جس کا زمانہ لگ بھگ ایک ہزار سال قبل مسیح تھا۔
Javid Ahmad Jun 19, 2015 08:28pm
MashaAllah very well rewritten and informative piece.This has attracted me to visit Swat Valley and explore its beauty. I'm definitely going to visit Swat from UK. Thanks Amjad Ali Sahaab and Dawn news to share the Positive image of Pakistan.
Dr. Abdullah Jun 19, 2015 10:27pm
Enlightening piece, hope the people of Swat would take some message from it Good job Sahaab Sab, keep it up Looking forward for many more on this topic
Mahnoor Jun 20, 2015 01:42am
Commendable effort, love to visit Swat for these archeological sites.
mmj Jun 20, 2015 10:25am
Swat ke ye tarekhi warse KA ye ha dekar dil khon ke Anson roraha hai...,
kishwar Jun 20, 2015 02:06pm
mashallah
ali baqer Jun 20, 2015 03:02pm
great report, government should pay attention on this this is the assest of pakistan which worth millions.
niaza khan Jun 20, 2015 03:16pm
سوات کئی حوالوں سے دنیابھر میں منفرف مقام رکھتاہے ، امجد علی نے بہت اچھی کوشش کی ہے اور بہترین معلوماتی فیچر لکھاہے امید ہے لکھنے کا یہ سفر جاری رہیگا
dosh khan Jun 22, 2015 04:12pm
bhot achi post hai our kmmal ki tehqeeq hai agar is post ko bghor prha jay to is sa hmein bhot kuch aysay malumat hasil hongay ka jinhein ek mohqiq kbhi nzar andaz ni krega isi trah ki ek tehqiq meinay likhi hai inshallah bhot jldi post kroo ga our kafi ilmi post ho gi dost tarif kiea bgher ni rhi gay
dosh khan Jun 22, 2015 04:14pm
@Waseem sir bhot achi our ghri infom hai