• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
یونس خان سیریز میں متعدد اعزازات اپنے نام کر سکتے ہیں۔
یونس خان سیریز میں متعدد اعزازات اپنے نام کر سکتے ہیں۔
شائع June 16, 2015

پاک سری لنکا سیریز، کئی ریکارڈ ٹوٹنے کو تیار

کرکٹ شائقین کے لیے پاکستان اور سری لنکا کے مقابلے کافی جانے پہنچانے ہیں۔ یہ گزشتہ چار سالوں میں پاکستان کا تیسرا مکمل دورہ سری لنکا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان نے اس عرصے کے دوران آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ یا ویسٹ انڈیز کا مکمل سیریز کیلئے کوئی دورہ نہیں کیا۔

اس دوران پاکستان نے دو مرتبہ سری لنکا سے متحدہ عرب امارات میں سیریز کھیلی جو اکتوبر 2012 کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پانچویں مکمل سیریز تھی۔

اس دورانیے میں کھیلے گئے گیارہ میچوں میں چار فتوحات کے ساتھ سری لنکا کو معمولی سبقت حاصل ہے جہاں پاکستان صرف دو ٹیسٹ میچ ہی فتح اپنے نام کر سکا۔ پاکستان کو دونوں فتوحات متحدہ عرب امارات میں حاصل ہوئیں۔ حقیقتاً پاکستان کو سری لنکا میں ٹیسٹ میچ جیتے ہوئے نو سال بیت چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ آخری موقع تھا جب پاکستان نے سری لنکا میں ٹیسٹ سیریز میں فتح اپنے نام کی۔

جہاں ایک طرف سری لنکا میں کھلاڑیوں کی نگاہیں بہتر کارکردگی دکھانے پر مرکوز ہوں گی، وہیں سیریز کے دوران کچھ کھلاڑی اپنا انفرادی اعزازات اور کارنامے سرانجام دینے کی کوشش کریں گے۔

یونس خان

پاکستان کے ٹیسٹ لیجنڈری بلے باز سیریز کے دوران اپنا 100واں میچ کھیلیں گے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پانچویں پاکستانی بلے باز بن جائیں گے جہاں صرف جاوید میانداد، انضمام الحق، وسیم اکرم اور سلیم ملک کو یہ اعزاز حاصل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یونس کی نظریں ذاتی ریکارڈ کی تکمیل پر بھی ٹکی ہوئی ہیں جہاں وہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے سب سے کامیاب بلے باز بننے اور میانداد کا ریکارڈ توڑنے سے صرف 286 رنز دور ہیں جبکہ انہیں پاکستان کی تاریخ میں نو ہزار رنز بنانے والے پہلا بلے باز بننے کیلئے صرف 453 رنز درکار ہیں۔

مردان سے تعلق رکھنے والے یونس پاکستان کی جانب سے 30 سنچریاں بنانے والے پہلے بلے باز بننے سے بھی صرف ایک سنچری کے فاصلے پر ہیں۔

یونس کی موجودہ فارم کو دیکھا جائے تو ممکنہ پر سری لنکا کے خلاف سیریز میں یہ ریکارڈ حاصل کر لیں گے۔

احمد شہزاد

پاکستان کے باصلاحیت نوجوان اوپننگ بلے باز نے نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا شاندار آغاز کیا ہے اور وہ اب تک صرف 15 ٹیسٹ اننگ میں تین سنچریوں کی مدد سے 718 رنز بنا چکے ہیں۔

انہیں پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین ہزار مکمل کرنے کے لیے 282 رنز درکار ہیں۔ یہ ریکارڈ اس وقت سعید احمد کے پاس ہے جنہوں نے ہزار رنز کی تکمیل کیلئے 20 اننگز کھیلیں۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کی جانب سے سب سے کم وقت میں زہار رنز بنانے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کر سکتے ہیں۔ 31دسمبر 2013 میں اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے احمد کو اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کیے ایک سال 166 دن بیت چکے ہیں۔ پاکستانی سلیکٹرز نے انہیں نیوزی لینڈ کے خلاف شاندار کھیل کے باوجود انہیں بنگلہ دیش کے خلاف سیریز کے لیے غیر منصفانہ طور پر ٹیم سے باہر کر کے اس ریکارڈ کے حصول سے مھروم رکھنے کی کوشش کی لیکن پھر اپنی غلطی سدھارتے ہوئے اس باصلاحیت نوجوان کو دوبارہ ٹیم میں شامل کر لیا۔

مصباح الحق

پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے قائد بطور کپتان بہت کچھ حاصل کرچکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اب ان کے لیے کرنے کے لیے کچھ خاص نہیں بچا۔ وہ پاکستان کو ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر تین تک لے گئے، بطور کپتان پاکستان کے کسی اور قائد کی نسبت سب سے زیادہ میچز جیتے اور کپتان کی حیثیت سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے پاکستانی بلے باز ہیں۔وہ عمران خان کے بعد پاکستان کی سب سے زیادہ میچوں میں قیادت کرنے والے کھلاڑی بھی ہیں۔

تو اب ان کے لیے اپنے کرنے کے لیے کون سا ریکارڈ رہ گیا ہے؟ مصباح کو انضمام الحق کا بطور کپتان سب سے زیادہ سات سنچریاں اسکور کرنے کا ریکارڈ توڑنے کیلئے صرف دو تین ہندسوں کی باریاں درکار ہیں۔

یاسر شاہ

پاکستان کے نئے لیگ اسپنر ٹیسٹ کرکٹ میں ایک حیران کن اضافہ ہیں۔ انہوں نے اسٹار پاکستانی اسپنر سعید اجمل کی انتہائی بہتر طریقے سے جگہ لی اور متعدد وکٹیں لے کر اپنی صلاحیتوں اور باہمت ہونے کا ثبوت دے چکے ہیں۔

شین وارن کی جانب سے موجودہ دور میں دنیا کے بہترین اسپنر کا لقب پانے والے یاسر اب تک صرف سات میچوں میں 37 وکٹیں لے چکے ہیں۔ اگر وہ اگلے دو میچوں میں مزید 13 شکار کر لیتے ہیں تو پاکستان کی جانب سے سب سے جلدی 50 وکٹوں کا ہندسہ حاصل کرنے والے باؤلر بن جائیں گے۔ سب سے تیز پچاس وکٹیں کرنے کا اعزاز مشترکہ طور پر وقار یونس، محمد آصف اور شبیر احمد کے پاس ہے جنہوں نے دس ٹیسٹ میچوں میں یہ اعزاز حاصل کیا۔ اسپنرز میں یہ ریکارڈ مشترکہ طور پر سعید اجمل اور عبدالرحمان کے پاس ہے جو گیارہویں ٹیسٹ میں 50ویں وکٹ لینے میں کامیاب رہے۔

یاسر کے پاس ابھی کافی وقت بھی ہے کیونکہ انہیں گزشتہ سال اکتوبر میں آسٹریلیا کے خلاف اپنا ڈیبیو کیے صرف 235 دن ہوئے ہیں۔ ابھی تک کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی ڈیبیو کے ایک سال کے اندر 50 وکٹیں حاصل نہیں کر سکا۔

ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے تیز ترین 50 وکٹیں لینے کا ریکارڈ آسٹریلای کے چارلی ٹرنر کے پاس ہے جنہوں نے چھ ٹیسٹ میچوں میں یہ کارنامہ انجام دیا جبکہ اسپنرز میں ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے بائیں ہاتھ کے الفریڈ ویلنٹائن کے پاس جو آٹھویں ٹیسٹ میں اس ریکارڈ کے مالک بنے، یاسر اس ریکارڈ کے مالک تو نہیں بن سکتے ہیں لیکن ان کے پاس اسے برابر کرنے کا موقع ضرور ہے۔

جہاں پاکستان سری لنکا کے خلاف اپنا ٹیسٹ ریکارڈ بہتر بنانے کی کوشش کرے گا اور کرکٹرز اپنے انفرادی ریکارڈ پر نظریں مرکوز رکھیں گے تو وہیں پاکستان کے دو بڑے حریف کمار سنگاکارا اور رنگنا ہیراتھ اپنے پسندیدہ حریف کے خلاف کارکردگی دکھانے کے لیے بے چین ہوں گے۔ سنگاکارا اور ہیراتھ دو ایسی آہنی دیواریں جسے پاکستانی ٹیم ایک عرصے سے ڈھانے میں ناکام رہی ہے۔

کمار سنگاکارا

دنیا کے کسی بھی بلے باز نے پاکستان کے خلاف کمار سنگاکار سے زیادہ رنز نہیں بنائے۔

سنگاکارا کی نظریں پاکستان کے خلاف اب تک بنائے گئے دو ہزار 809 رنز میں مزید رنز جوڑنے پر مرکوز ہوں گی جس کے ساتھ ہی وہ پاکستان کے خلاف تین ہزار رنز بنانے والے دنیا کے پہلے بلے باز بن جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی وہ دنیا کے پہلے ایسے کرکٹر بھی بن جائیں گے جس نے آسٹریلیا یا انگلینڈ کے علاوہ کسی ٹیم کے خلاف تین ہزار یا اس سے زائد رنز بنائے ہوں۔ اس سے قبل یہ سنگ میل صرف سات کھلاڑی حاصل کر سکے ہیں جن میں عظیم ڈان بریڈ مین، ایلن بارڈر، گیری سوبرز اور اسٹیو وا نے انگلینڈ کے خلاف جبکہ سچن ٹنڈولکر، جیک ہوبس اور ڈیوڈ گاور نے آسٹریلیا کے خلاف سنگ میل عبور کیا۔

رنگنا ہیراتھ

سنگاکارا کی طرح ہیراتھ بھی پاکستان کے خلاف انتہائی کامیاب ہیں جہاں وہ اب تک 17 ٹیسٹ میچوں میں 88 وکٹیں اپنے نام کر چکے ہیں جو انہیں کسی بھی ایک ٹیم کے خلاف دنیا کا تیسرا سب سے کامیاب باؤلر بناتی ہے۔ انہیں شین وارن کا ریکارڈ توڑنے کیلئے صرف تین جبکہ پاکستان کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ میں 100 وکٹیں لینے والے دنیا کا پہلا باؤلر بننے کیلئے صرف 12 شکار درکار ہیں۔

تو بحیثیت مجموعی یہ ایک شاندار سیریز ہو گی جہاں ایک طرف شائقین کو دو دوستانہ حریف ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کرتے نظر آئیں گے تو وہیں کھلاڑی اپنی انفرادری کارکردگی سے تاریخ کے اوراق الٹنے کے لیے کوشاں نظر آئیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

adnan Dishani Jun 16, 2015 03:09pm
it is very difficult for both teams to win the series, i think drawn matches will be there at SriLanka.