ضرب عضب کا ایک سال، 2763 'دہشت گرد' ہلاک
راولپنڈی: پاک افواج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل عاصم باجوہ نے آپریشن ضرب عضب کے ایک سال مکمل ہونے پر 2 ہزار 763 مبینہ دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
اس ایک سال کے دوران پاک فوج کے 347 افسر اور جوان بھی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ٹوئٹر پر جاری کیے گئے پیغام میں آئی ایس پی آر ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ آپریشن ضرب عضب کے ایک سال کے دوران فاٹا کی ایجنسی شمالی وزیرستان اور خیبرایجنسی میں فوج کو اہم کامیابیاں ملیں اور مبینہ دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانے، مواصلاتی نظام اور پناہ گاہیں مکمل طور پر تباہ کردی گئیں۔
|
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن ضرب عضب کا دائرہ کار اب پاک افغان سرحد کے کچھ علاقوں تک وسیع کردیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں 2763 مبینہ دہشت گرد مارے جا چکے ہیں، دہشت گردوں کی837 پناہ گاہیں تباہ کی گئیں جبکہ آپریشن کے دوران 253 ٹن بارودی مواد بھی برآمد کیا گیا۔
|
فائل فوٹو/رائٹرز |
آئی ایس پی آر ترجمان کے مطابق خفیہ اطلاعات پر مبنی 9 ہزار آپریشنز کیے گئے جبکہ بڑے شہروں میں 218 اہم دہشت گرد بھی اب تک ہلاک کیے جاچکے ہیں، اس کے علاوہ 1 ہزار دہشت گرد اور ان کے معاونین گرفتار بھی کیے گئے۔
|
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے دوران 18 ہزار87 جدید ترین ہتھیار بھی دہشت گردوں سے قبضے میں لیے گئے، ان ہتھیاروں میں راکٹ لانچر، اے کے47 رائفلیں، سنائپر رائفل، ایل ایم جی اور ایچ ایم جی گنیں بھی شامل ہیں۔
|
فائل فوٹو/ رائٹرز |
جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ پاک وطن کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی اس کاوش کو پوری قوم کی تائید حاصل ہے اور اس سلسلے میں میڈیا اور سول سوسائٹی بھی مثبت کردار ادا کررہی ہے۔
|
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپریشن کے بعض مثبت اثرات بھی سب کے سامنے ہیں، جن میں چینی صدر شی جن پنگ سمیت اہم غیرملکی شخصیات کی پاکستان آمد اور زمبابوے کے کرکٹ ٹیم کا دورہ بھی شامل ہے۔
|
شمالی وزیرستان میں 20 'دہشت گرد' ہلاک
آئی ایس پی آر کے مطابق ہفتے کو پاک افغان سرحد کے قریب شمالی وزیرستان میں لڑاکا طیاروں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں 20 مبینہ دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے صحافیوں کی رسائی عام نہیں اور اس حوالے سے عموماً سیکیورٹی ذرائع پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام پاک افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اوراورکزئی ایجنسی سمیت سات ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔
حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی اور کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد پاک فوج نے گزشتہ برس جون میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کو دہشت گردوں سے خالی کروانے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کا دائرہ کار شمالی وزیرستان کے دوردراز علاقوں تک بڑھا دیا ہے۔
اور اب خیبر ایجنسی اور ملحقہ علاقوں میں آپریشن ’خیبر ون‘ اور 'خیبر ٹو' کے تحت سیکیورٹی فورسز نے اپنی کارروائیاں مزید تیز کردی ہیں۔
جبکہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے کے بعد بھی دہشتگردوں کے خلاف کارروائی میں تیزی آگئی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں