ہر وقت سفر کی چاہ ابھرتے رہنا ایک مانی ہوئی کیفیت ہے، اور اسے dromomania کہا جاتا ہے۔ میں بغیر جھجھک کے یہ کہہ سکتی ہوں کہ مجھ میں یہ کیفیت موجود ہے۔ میں جب بھی نقشہ دیکھتی ہوں، تو کئی ایسے ممالک کے نام نظر آتے ہیں، جہاں میں اب تک نہیں گئی ہوں۔
میں کئی ممالک کا سفر مفت میں کر چکی ہوں، کیونکہ میں گرمیوں کے کورسز، پروگرامز، کنسلٹیشن، یا رضاکارانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہوں، تاکہ سفر کرنے کا موقع مل سکے۔ ہر نئے تجربے کے ساتھ گھومنے پھرنے کی میری چاہ میں اضافہ ہو رہا ہے، اور اس دفعہ میں نے کچھ مختلف کرنے کی ٹھانی۔
میں نے وادی کالاش جانے کا منصوبہ بنایا، تاکہ اپنے ملک میں موجود حیران کن چیزیں دیکھ سکوں۔ ایک اکیلی خاتون مسافر ہونے کے ناطے میں نے دیگر مسافروں کی حیرت بھری نگاہوں کا سامنا کیا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اب بھی دوسری صنف کے لیے برداشت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت سب سے زیادہ تب محسوس ہوتی ہے، جب ایک لڑکی اپنے ملک میں اکیلی سفر کرے۔
مانا کہ یہاں پر اچھے لوگ بھی ہیں، جو مدد کے لیے آگے آتے ہیں تاکہ آپ کو پریشانی نا اٹھانی پڑے، لیکن ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں۔ سفر سے واپس آنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہو۔
میں نے جب سے وادی کالاش کے چلم جوشی میلے کی تصاویر دیکھی تھیں، میں خود کو وہاں جانے سے روک ہی نہیں پا رہی تھی۔
پتھریلے اور اونچے پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی وادی نے خطے کی مخصوص تروتازہ اور ٹھنڈی ہوا سے میرا استقبال کیا۔ چیڑ کے اونچے درخت جو ڈھلانوں پر ٹکے ہوئے تھے، دیکھنے کے قابل ہیں۔
میں اس میلے میں شرکت کرنے پر خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں، کیونکہ اس بات کا بہت امکان ہے کہ چند سالوں بعد کالاش لوگ باقی نہیں بچیں گے، کیونکہ یہ قبیلہ مذہب کی تبدیلی اور ترقی کی وجہ سے تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
بمبوریت، رمبور، اور بیریڑ کی تین وادیوں میں کالاش قبیلے کے صرف 3500 افراد باقی بچے ہیں۔ اس قبیلے، اس کے ثقافتی ورثے، اس کی انفرادیت کا خاتمہ ہمارے ملک کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہوگا۔
چلم جوشی میلہ ہر سال مئی میں ہوتا ہے۔ میلہ بہار کو خوش آمدید کہنے کے لیے منایا جاتا ہے، اور کالاش لوگ اس میں اپنے خداؤں کی تعظیم بجا لاتے ہیں۔ یہاں پر ملک بھر کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی لوگ آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کالاش قبیلے کے افراد سکندرِ اعظم کی نسل سے ہیں، لہٰذا ان کے آباؤ اجداد یونانی ہیں۔ ان کی صاف رنگت اور رنگ برنگی آنکھیں اس بات کی گواہی ہیں۔
یہ لوگ قدیم یونانی زبان بولتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے Ishpata کہہ کر خوش آمدید کہا گیا تھا، جس کا مطلب ان کی زبان میں ہیلو ہے۔ کالاش خواتین سیپیوں اور دانوں سے سجی ہوئی ٹوپیاں پہنتی ہیں جس پر ایک بڑا سا پر بھی لگا ہوتا ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے یونان کی چند جگہیں یاد آگئیں، جہاں خواتین اب بھی روایتی میلوں میں اپنا سر ایسے ہی ڈھکتی ہیں۔
کالاش لوگ بہار کا استقبال رقص اور روایتی گیتوں سے کرتے ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ رقص کرنے کے لیے کھینچ لیا۔ یہ مشرقی یورپ کا روایتی رقص لگتا ہے، جس میں رقص کرنے والے ساتھیوں کو کندھوں یا کمر سے پکڑ کر صرف پیروں کو ہلایا جاتا ہے۔
رقص اور موسیقی کے دوران مجھے کالاش قبیلے سے کئی دوست ملے۔ مجھے اب بھی شمسیہ، امرینہ، میریجیانا، زویا، اور فائس بیگم کی دلکش مسکراہٹیں یاد ہیں جو تعلیم حاصل کر رہی ہیں، اور زندگی میں کچھ کر دکھانا چاہتی ہیں۔
میریجیانا اور شمسیہ، جو آٹھویں جماعت کی طالبات ہیں، ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔ ان کی آنکھیں ایسے جذبے سے لبریز تھیں جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ جب میں جا رہی تھی، تو میریجیانا نے مجھے اپنا رومال دیا۔ اس کے پاس اس دن صرف یہی تھا، اور اس نے مجھ پر زور دیا کہ میں یہ اپنے ساتھ ضرور لے جاؤں۔
میں نہایت ہی بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئی۔ کالاش کے لوگوں نے بہت محبت اور گرمجوشی کا مظاہرہ کیا، اور مجھے زندگی کے ایک نئے رخ سے آشنا کروایا۔ انہوں نے اپنے دل کھول دیے، اور جن کے پاس صرف تھوڑا سا ہی سر و سامان تھا، انہوں نے بھی اپنے گھروں کے دروازے میرے لیے کھول دیے۔ محبت کرنے والے مہمان نواز لوگوں کے ساتھ دریا کے کنارے گھنٹوں بیٹھنا، مشکلات کی کہانیاں سننا، کھانا کھانا، لسی پینا، یہ سب آپ کو کچھ دیر کے لیے اس وادی کا ہی بنا دیتے ہیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں بھی یہیں سے تعلق رکھتی ہوں۔
میرے لیے کالاش کا سفر اپنی ذات کے سفر کے جیسا تھا، اور سکون کا وہ احساس میرے گھر واپس آنے تک باقی رہا۔
تصاویر بشکریہ لکھاری۔
تبصرے (14) بند ہیں