• KHI: Fajr 4:58am Sunrise 6:16am
  • LHR: Fajr 4:20am Sunrise 5:43am
  • ISB: Fajr 4:22am Sunrise 5:47am
  • KHI: Fajr 4:58am Sunrise 6:16am
  • LHR: Fajr 4:20am Sunrise 5:43am
  • ISB: Fajr 4:22am Sunrise 5:47am

غیر صحت مند طرز زندگی پاکستانیوں پر بھاری

شائع June 9, 2015
طویل زندگیاں پانے والے پاکستانی شہری اپنا زیادہ وقت خراب صحت کے ساتھ گزارتے ہیں— کریٹیو کامنز فوٹو
طویل زندگیاں پانے والے پاکستانی شہری اپنا زیادہ وقت خراب صحت کے ساتھ گزارتے ہیں— کریٹیو کامنز فوٹو

اسلام آباد : پاکستان کے عوام اب طویل زندگیاں تو پا رہے ہیں مگر وہ خوش باش نہیں۔

یہ کوئی سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک عالمی تحقیق کا حصہ ہے جس کے مطابق طویل زندگیاں پانے والے پاکستانی شہری اپنا زیادہ وقت خراب صحت کے ساتھ گزارتے ہیں۔

بین الاقوامی محققین گلوبل برڈن آف ڈیزیز پراجیکٹ کے لیے کام کررہے تھے جس کے مطابق 2013 میں آدھے سر کے درد، پھیپھڑوں کے دیرینہ امراض اور ذیابیطس پاکستان میں ' کئی برس معذوری کے ساتھ گزارنے پر مجبور کرنے(وائی ایل ڈی)' والی دس اہم وجوہات میں شامل ہیں۔

دیگر اہم وجوہات میں قوت سماعت سے محرومی، ڈر و تشویش کے امراض اور گردن میں درد وغیرہ شامل ہیں۔

اس تحقیق کی سربراہی واشنگٹن یونیورسٹی کے انسٹیٹوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوولوشن نے کی اور اس میں 188 ممالک کے دیرنہ اور دیگر امراض کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔

تحقیق کے مطابق پاکستان میں لوگوں کی زندگیاں طویل ہوئی ہیں تاہم وہ اپنا زیادہ وقت خراب صحت کے ساتھ گزارتے ہیں کیونکہ غیر مہلک بیماریوں اور زخموں میں کمی قابو پانے کی شرح اموات کی شرح سے کم ہے۔

دونوں جنسوں کے لیے معذوری کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کی بنیادی وجوہات 1990 سے 2013 تک لگ بھگ یکساں ہی رہیں، تاہم آبادی بڑھنے اور بڑھاپے کے باعث صحت پر اس کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اعصابی و عضلاتی امراض جن میں کندھوں کے زخم اور ہڈیوں کی کمزوری کے باعث فریکچر نے گزشتہ 23 برسوں کے دوران پاکستانی خواتین میں ہیضے کے امراض کی جگہ لے لی ہے جبکہ آئرن کی کمی سے متاثرہ خون 11 فیصد کے ساتھ وائی ایل ڈی وجوہات میں سب سے کم اضافے والی بیماری ہے۔

اعصابی و عضلاتی امراض میں 163 فیصد اور ذیابیطس میں 170 فیصد کے ساتھ سب سے نمایاں ہیں۔

گزشتہ 23 برسون کے دوران پاکستانی مردوں میں ذیابیطس کی شرح میں سو فیصد اور مایوسی یا ڈپریشن میں 94 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ خون میں آئرن کی کمی کے مرض میں نو فیصد کمی واقع ہوئی۔

تحقیق کے مصنفوں میں شامل اور آغا خان یونیورسٹی کراچی میں سینٹر فار ایکسی لینس ان ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے بانی ڈائریکٹر ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ کے مطابق " پاکستانیوں کی صحت کو غیر متعدی امراض جیسے ڈپریشن، کمر درد اور آدھے سر کے درد وغیرہ کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے"۔

انہوں نے کہا " اس کے ساتھ ساتھ امراض جیسے خون میں آئرن کی کمی، پھیپھڑوں کے دیرینہ امراض اور ذیابیطس پاکستانی عوام کی صحت مند زندگی کے متعدد برسوں کو ختم کردیتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ ہم ایسے امراض اور زخموں کو جانے جو معذوری کا باعث بنتے ہیں حالانکہ قومی منصوبہ بندی کے ساتھ وسائل مختص کرکے ان پر موثر طریقے سے قابو پایا جاسکتا ہے"۔

عالمی سطح پر دونوں جنسوں میں وائی ایل ڈی کی تعداد 1990 میں اگر 537.6 ملین تھی تو وہ 2013 میں 764.8 ملین تک پہنچ گئی۔

ڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو اس طرح کی معذوری سے بچنے کے لیے اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی۔

انہوں نے کہا " ہم دنیا میں سب سے بدتر طرز زندگی گزار ررہے ہیں، بچے میدانوں میں کھیلنے کی بجائے کمپیوٹر پر گیمز کھیل رہے ہیں، لوگ عام غذا کی بجائے فاسٹ فوڈ کو ترجیح دے رہے ہیں، حکومت کے پاس صحت کی پالیسی نہیں اور تصور کریں پاکستان 2042 میں سب سے زیادہ آبادی والا تیسرا بڑا ملک بن جائے گا"۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی 15 فیصد آبادی ذیابیطس سے متاثر ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کیونکہ لوگ اپنا طرز زندگی بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ لفٹس پر سفر کرنے کے لیے طویل انتظار تو کرلیں گے مگر دوسری اور تیسری منزل پر جانے کے لیے سیڑھیوں کا انتخاب نہیں کریں گے۔

کارٹون

کارٹون : 7 ستمبر 2024
کارٹون : 6 ستمبر 2024