جون کے دن ہمیشہ کی طرح گرم ہیں۔ بارشوں کے آنے تک تپے ہوئے دن۔ کمروں میں حبس سا۔ پنکھوں کا مسلسل چلنا۔ نیلی چِقوں کا گرا رہنا۔ مشروبات۔ سوکھی گھاس پر پانی کی تلاش میں پھرتی چھوٹی چھوٹی چڑیاں، کبھی کبھی آم کے درختوں پر بیٹھی کوئل کی کو کو۔ ایسے میں ٹھنڈے دنوں کی یاد کا آ جانا عجب اداسی پیدا کرتا ہے۔
گرمیوں میں جب پنجاب میں لو چلتی ہے تو مجھے گلگت بلتستان کے ضلع غذر کی چھاؤں بہت یاد آتی ہے۔ انسان کے پاس اس کے ذہن کے پردے کی صورت میں ایسا تصویری البم ہے، جو جب کھلتا ہے تو کھلتا ہی چلا جاتا ہے۔
سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے۔ یہ انسانی جسم کے آرام کے لیے سب کچھ کرتی ہے مگر روح کا کیا، جو ایک نظر نہ آنے والی شے ہے۔ جسم سکون پا بھی جائے تو روح کے سکون کی تلاش انسان کو بے چین کیے رکھتی ہے۔ شاید اس کی ترقی کے اصول کسی لیبارٹری میں طے نہیں ہو سکتے۔ قدرت کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی غرض سے سفر روحانی سکون کا ایک بہترین نسخہ ہے۔
گلگت ایک چوک ہے۔ ایک درمیانی مقام جہاں سے دلکش وادیوں کو، کہساروں کو، دریاؤں کو، چشموں کو، نالوں کو، آبشاروں کو، میدانوں کو، اور قدیم بستیوں کو راستے نکلتے ہیں۔ گلگت سے پہلے ایک طرف تو سڑک اسکردو کو نکل جاتی ہے تو دوسری سمت میں نلتر کی وادی واقع ہے۔ تیسری طرف کو چلیں تو ہنزہ اور ہنزہ سے ہوتے درہ خنجراب تک جا پہنچتے ہیں۔ رہ گئی چوتھی سمت۔ چوتھی سمت غذر کو نکلتی ہے۔ ضلع غذر۔ دریائے غذر کے ساتھ ساتھ چلتا مسافر شندور پاس تک پہنچتا ہے اور پھر اس سے آگے چترال کی آبادیاں ہیں۔ غذر رنگین پانیوں کی سرزمین ہے۔ درختوں میں گھِرا یہ علاقہ واقعی جنت نظیر ہے اور وادی پھنڈر اس علاقے کے سر کا موتیوں جڑا تاج۔
مجھے یاد پڑتا ہے محرم کا مہینہ تھا جب گلگت سے غذر جانے کا ارادہ کیا۔ ہنزہ کی بلندیوں سے اترا تو گلگت میں ڈیرہ ڈال لیا۔ وادی میں چہار سو خزاں کی اداسی پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے سارا ماحول سوگوار لگ رہا تھا۔
گلگت کو سوگوار چھوڑ کر میں آگے بڑھا تو قراقرم کا پہاڑی سلسلہ پیچھے رہ گیا۔ اب جیپ ہندوکش کے پہاڑوں میں دوڑنے لگی۔ غذر روڈ پر نکلیں تو دریائے غذر ساتھ لگ جاتا ہے۔ اس کے ٹھنڈے میٹھے یخ پانی ٹراؤٹ مچھلی سے بھرے ہوئے ہیں۔
دریا کے ساتھ ساتھ چلتے دائیں ہاتھ دریا کے پار چھوٹی چھوٹی بستیاں گزرتی رہتی ہیں۔ شیر قلعہ کے مقام سے آگے بڑھیں تو گاہکوچ اور پنیال کے قصبے مرکزی سڑک پر مسافر کا استقبال کرتے ہیں۔
گاہکوچ اس ضلع کا صدرمقام ہے۔ پنیال سے آگے دریا کے پار دائیں ہاتھ ایک چھوٹی سی بستی گچ آتی ہے۔ سارا گاؤں انگور کی بیلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ انگور کے پتوں سے چھن چھن کے روشنی زمین پر اترتی ہے۔ فضا میں انگوری مہک رچی رہتی ہے۔ انگور کی پیداوار یہاں سب سے زیادہ ہے۔ گھر کی چھتوں کے اوپر سے بیلیں گزرتی ہیں۔ موسم میں جائیں تو انگور کے گچھے لٹکتے بہت خوبصورت لگتے ہیں۔
گِچ سے میرا تعارف انگور اور چھاؤں تک ہی محدود ہے۔ مجھے اس کی گلیوں میں پتوں کی چھاؤں میں چلنا اچھا لگتا ہے۔ یہ مکمل طور پر بیرونی لوگوں سے کٹا ہوا گاؤں ہے۔ مرکزی سڑک کو چھوڑ کر یہاں مقامی لوگوں کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوتا اس لیے کسی بھی اجنبی شکل کو دیکھ کر لوگ حیران ہو کر ٹکٹکی باندھے تکتے رہتے ہیں۔ بچے شرما کر بھاگ جاتے ہیں اور بزرگ گھورتے جاتے ہیں۔ بس اسی وجہ سے اندر ایک بے چینی لگ جاتی ہے کہ یہاں سے چلے جانا چاہیے۔
غذر گلگت بلتستان کا وہ ضلع ہے جس کی سرحدیں خیبر پختنخواہ سمیت تاجکستان سے ملتی ہیں۔ ایک جانب سوات کے بالائی پہاڑی علاقے لگتے ہیں تو دوسری جانب چترال آباد ہے۔ وادی یاسین اور کرومبر پاس کے ذریعے یہ ضلع تاجکستان سے بھی منسلک ہے۔ آبادی زیادہ تر دہقانوں اور گجروں پر مشتمل ہے۔ لفظ 'غذر' مقامی زبان کے لفظ 'غرض' سے نکلا ہے جس کے مقامی زبان میں معنیٰ 'پناہ گزین' کے ہیں۔
چترال کے حاکم مہتر کہلاتے تھے۔ وہ اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو علاقہ بدر کر کے غذر کے مقام گوپس پر بھیج دیتے۔ ان چترال بدر لوگوں سے یہ علاقہ آباد ہونے لگا۔ بھٹو حکومت کی سیاسی اصلاحات کے نتیجے میں شاہی نظام ختم ہوا، تو غذر کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو غذر کئی راجاؤں کے زیرِ تسلط رہا۔ یہاں کٹورے، بروشے اور کھوشوتے خاندان کے لوگ مختلف ادوار میں حکومت کرتے رہے، بعد میں یہ سارا علاقہ چترال کے مہتر اور کشمیر کے مہاراجہ کے درمیان بٹ گیا۔ 1895 کے بعد غذر کو گلگت ایجنسی کے ساتھ منسلک کر دیا گیا جس پر سرکار برطانیہ کی حکومت چلتی تھی۔
گاہکوچ کا رش بھرا بازار چھوٹا۔ چھوٹی بستیوں سے گاڑی گزرتی رہی۔ گوپس آیا۔ گوپس ضلع غذر کا مرکزی مقام ہے۔ سڑک سے گزرتے کھلتی جھیل پر نظر پڑی۔ یہ جھیل دریا کا پانی ایک کھلے مقام پر رک جانے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ جھیل کے ساتھ دریا بہتا رہتا ہے۔ سڑک پر بچے ابلے آلو بیچ رہے تھے۔ یہاں کا آلو ذائقے میں منفرد ہے۔
سڑک سے اتر کر جھیل کے کنارے پہنچا تو پانیوں میں اردگرد کے پہاڑوں کے عکس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی نظر آئیں۔ بادلوں نے آسمان کو ڈھانپنا شروع کیا۔ تیز ہوائیں چلنے لگیں تو جھیل کی سطح بے قرار ہوگئی۔ قریب ہی دو مقامی لوگ مچھلیاں پکڑنے میں مشغول تھے۔ آسمان سے پہلی بوند ٹپکی تو دل مچلنے لگا، اور ایسا مچلا کہ غذر کے رنگین پانیوں سے نکلتی ٹراؤٹ مچھلیاں بھی اس سے کم مچلتی ہوں گی۔
بارش تھی اور جھیل تھی۔ گیلا سا دن تھا۔ گیلے لمحات میں بھیگا ہوا مسافر تھا۔ پہاڑوں سے پانی بہہ کر نیچے آنے لگا۔ وادی سنسان تھی۔ پانیوں پر بوندیں پڑتیں تو چھوٹے چھوٹے دائروں میں چھوٹی چھوٹی لہریں دوڑتی جاتیں۔ پھر بارش رکی۔ سورج بدلی کی اوٹ سے جھانکا۔ قوس قزاح کے رنگ بکھرنے کو تھے مگر شاید کہیں ٹھہر چکے تھے یا میری دیوانہ وار حالت کو دیکھتے ہوئے قدرت نے اپنا فیصلہ بدل لیا تھا۔ دن میں ٹھنڈک بھر آئی تھی۔ میں نے جھیل کو چھوڑ دیا۔ جیپ گیلی سڑک پر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔
دریائے غذر کی جلترنگ مسلسل بجتی رہی۔ پانی اچھلتے رہے۔ ڈرائیور سیٹ پر پہلو بدلتا رہا۔ عابدہ پروین کی آواز وادی کی فضا میں سر بکھیرتی رہی۔ بچوں کی ٹولیاں، لڑکیوں کی شرمیلی ہنسی، بزرگوں کی مسکانیں، عورتوں کے حیران کن چہرے ہمسفر بنے رہے۔ کیسے کیسے مقام آئے۔ کیا کیا بستیاں گزریں۔ آسمان سے بادل پھر برسا۔ سورج نے پھر بدلی کی اوٹ سے آنکھ ماری۔ کھیتوں میں کام کرتے کسان نے ہل چلانا چھوڑ کر ہاتھ کے اشارے سے خدا حافظ کہا۔
جیپ کی کھڑکی سے تکتا میں پلکیں جھپکنا بھول کر غذر کی خوبصورتی میں محو ہو چکا تھا۔ رنگ تھے جو ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ کھیتوں کے سبز رنگ۔ خزاں کے لال، پیلے، نارنجی، کیسری رنگ۔ کچھ کھیتوں سے فصل کٹ چکی تھی تو ان کی مٹی کے گہرے خاکی رنگ۔ بجلی کے کھمبوں اور بوند بوند ٹپکتی تاروں کے سلیٹی رنگ۔ مکانوں کی دیواروں کے رنگ۔ آسمان پر پھٹتے کالے بادلوں کے بیچ میں سے ظاہر ہوتے گہرے نیلے رنگ۔ مجھے لگنے لگا کہ میں جیپ نہیں کشتی پر سوار ہوں جو رنگوں کے سمندر میں تیرتی جا رہی ہے۔ ملاح نے بادبان لپیٹ لیا۔ لنگر ڈال دیا۔ جیپ رک گئی۔
جہاں جیپ رکی تھی اس کے بالکل نیچے نیلے پانی ٹھہرے تھے جن کے کناروں پر پوپلر کے خزاں رسیدہ درخت کھڑے تھے۔ یہ پھنڈر جھیل تھی۔ یہ وادی پھنڈر تھی۔ غذر کے سر کا موتیوں جڑا تاج۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک بار پہلے بھی جب اسی وادی کا مہمان بنا اور پھنڈر کی زمین پر قدم رکھا تب دیواروں سے دھوپ ڈھل رہی تھی، پوپلر کے سائے لمبے ہونے لگے تھے، وادی آدھی سائے میں تھی آدھی دھوپ میں۔
آسمان اب کھل چکا تھا اور اس پر ایک بادل کا ٹکڑا ٹھہرا تھا۔ کافی دیر سے وہ اسی جگہ معلق تھا اور میں اسے بار بار دیکھتا کہ شاید کچھ آگے بڑھا ہو۔ ہوا چلتی تو پاپولر کے پتے اور کچھ چھوٹی نازک ٹہنیاں نیچے گرتیں۔ گرتیں تو دھماکا سا سنائی دیتا۔ پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز آئی تو میں نے چاروں طرف دیکھا، مگر کوئی پرندہ نظر نہیں پڑا تو میں پھر سے بادل کے ٹکڑے کو دیکھنے لگ گیا جو ابھی بھی اپنی جگہ ساکن تھا۔
پروں کی آواز پھر سے گونجی اور ایک لمبی سی دم والا پرندہ میرے سامنے اڑتا ہوا اونچی ٹہنی پر جا بیٹھا۔ یہ برڈ آف پیراڈائیز تھا۔ اس کی دم ایک فٹ سے زیادہ لمبی تھی اور پروں پر نیلے رنگ تھے۔ برڈ آف پیراڈائیز پاکستان کے شمال میں پایا جاتا ہے، لیکن بہت نایاب پرندہ ہے اور عام طور پر نظر نہیں آتا۔ اسے اڑان بھرتے دیکھیں تو اس کی لمبی سے دم پیچھے پیچھے ہوا میں ایسے اڑتی جاتی ہے جیسے کسی نے ڈوری باندھ رکھی ہو۔ پرندہ اڑا تو میں نے دھیان پھر بادل کی طرف کر لیا۔
وادی میں قمقمے جلنے لگے۔ نیچے گزرتی گاڑیوں کی لائٹس جلنا شروع ہوئیں۔ بادل کے ٹکڑے نے رنگ بدلا اور اس میں سرخی جھلکنے لگی پھر دیکھتے دیکھتے سیاہی مائل ہونے لگا۔ ٹاپ پر بیٹھے نیچے وادی کو شام ڈھلے دیکھنا بھی کیا منظر ہوتا ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سائے گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں تو دل اندر ہی اندر بیٹھا جاتا ہے۔ گوپس کی وادی پھنڈر میں رات اترنے لگی تھی۔ دیپ جلنے لگے تھے۔ چولہوں کی چمنیوں سے دھواں اٹھنے لگا تھا۔ ہر گھر سے دھوئیں کا بادل اٹھتا لگتا جو کچھ اوپر ہوا میں معلق ہو کر پھیل جاتا اور کافی دیر وہیں رکا رہتا۔ شفق کی سرخی غائب ہوئے کافی وقت ہو چکا تھا، بادل کا ٹکڑا بھی اب کالی لکیر بن کر رہ گیا تھا۔
صبح اس وادی میں رونق تھی۔ کھیتوں میں مرد و عورتیں کام کر رہے تھے، بچے ہاتھ بٹانے میں لگے تھے اور چھوٹے بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ ایک شکاری نے پھنڈر کی جھیل کے اوپر ایک بڑا سا پرندہ شکار کیا، جس کا نام اسے بھی معلوم نہیں تھا، لیکن اتنا جانتا تھا کہ اس پرندے کا گوشت مزیدار ہوتا ہے اور اس کے پر چترالی ٹوپی کے اوپر لگائے جاتے ہیں۔
آدھا دن ابر آلود گزرا تھا لیکن سہ پہر ہوتے ہوتے آسمان صاف ہونے لگا۔ پی ٹی ڈی سی موٹل میں رش تھا۔ پی ٹی ڈی سی جہاں بنا ہے، اس کے بالکل نیچے پھنڈر جھیل واقع ہے۔ شام کو کھانا کھا کر باہر نکلا تو ایک گھنی داڑھی اور لمبے سفید بالوں والا فرانسیسی بزرگ ملا۔ پہلے میں سمجھا کہ کوئی ملنگ یا درویش نما انسان ہے۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں مخاطب کیا تو میں اس کے پاس چلا گیا۔ سگار پیتے ہوئے وہ نیچے پھنڈر جھیل کو دیکھتا جاتا تھا۔
بات کچھ شروع ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس کا بیٹا پاکستان کے شمال میں کئی بار آیا، اور یہیں مر گیا۔ رائنہولڈ میسنر (میسنر دنیا کا نامور ترین کوہ پیما ہے) سے متاثر تھا، اور خود بھی زبردست کوہ پیما تھا۔ اس کی لاش کے ٹو سے تب نہیں لائی جا سکی تھی، اور جب لائی جا سکی تو اس کو اس کی ماں نے آسٹریا میں لے جا کر دفنا دیا جہاں سے وہ خود تعلق رکھتی تھی۔ وہ کبھی کبھار چھٹی لے کر پاکستان آتا ہے اور چونکہ خود بالتورو گلیشئیر کو پار کر کے ٹو نہیں جا سکتا، تو پاکستان کے شمال میں کچھ وقت گزار کر بیٹے کو یاد کر کے واپس چلا جاتا ہے۔
اس نے بتایا کہ وہ پہلی بار بہت نفرت کے عالم میں پاکستان آیا۔ اسے پہاڑوں اور پاکستان سے چِڑ تھی، لیکن پھر انہی وادیوں نے اسے اسیر کر لیا، جنہوں نے اس کا بیٹا چھینا تھا۔ اس کی داستان ختم ہوئی تو میں نے اس سے کچھ تسلی کے الفاظ ادا کر کے رخصت چاہی۔ میں اس کے سگار، بیٹے کی یادوں، اور جھیل کے منظر کے بیچ مخل نہیں ہونا چاہتا تھا۔
شام ڈھلنے لگی تو میں سڑک سے منسلک پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس کے عقب میں جہاں ہیلی پیڈ بھی بنا تھا کرسی پر بیٹھ کر اونچائی سے وادی کو دیکھنے لگا۔ شمال میں موت کا آنا میرے لیے بہت رومانس بھرا خیال ہے خاص کر جب پہاڑوں سے دھوپ اتر رہی ہو اور آسمان رنگ بدلنے لگے اس وقت ایسا سماں ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے گر مرنا ہی ہے، تو اس سے بہتر کیا جگہ ہو گی۔ ویسے تو میں نے اتنا ہی سفر کیا جتنا زنجیرِ پا نے کرنے دیا، اور آئندہ بھی غمِ روزگار سے الجھتا ہوا اتنا ہی کر سکوں گا جتنے سے دل بہلا رہے اور کاروبارِ حیات بھی چلتا رہے۔ کیا کریں۔ "پاؤں بھی شل ہیں اور شوقِ سفر بھی نہیں جاتا"۔ رات اتری تو سردی رگوں میں اترنے لگی اور باہر بیٹھنا مشکل ہو گیا۔ پھنڈر میں بِیتا ایک دن تمام ہوا۔
جیپ اسٹارٹ کی اور پھنڈر سے آگے ٹیرو کے مقام کی طرف نکل گیا۔ ٹیرو پھنڈر سے آگے ایسا چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں دریائے غذر کے اندر چھوٹے چھوٹے جزیرے بنے ہیں جن پر سبز مخملی گھاس اگتی ہے اور چند شجر ہیں۔ یوں کہیے کہ پانی پر تیرتے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں۔ پہلی تاریخوں کا چاند ان جزیروں اور پانیوں پر چمکتا تھا، اور تارے جھلمل کرتے تھے۔
دریائے غذر کے کنارے چلتے سردی لگتی تھی۔ وہ گہری چپ کی رات تھی۔ پانی کے بہاؤ کے شور کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ چاند کی مدھم روشنی میں جزیروں کا بس شائبہ سا محسوس ہوتا۔ دور دراز کی گم گشتہ وادیوں میں جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے ایک درخت سے ٹیک لگا کر ٹوٹتے تارے تلاش کرنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ ٹیرو ایک جادوئی سرزمین ہے، اور وہ بھی جادوئی رات تھی۔ آج جون کی گرم رات میں بیٹھا میں یہ لکھ رہا ہوں تو جب نظر اٹھاتا ہوں میرے کمرے کی سامنی دیوار سینما اسکرین بن جاتی ہے جس پر ٹیرو میں بیتی رات کا منظر چلنے لگتا ہے۔
انشاء نے 'چاند نگر' لکھی جو میرے بستر پر آدھ کھلی اوندھی پڑی ہے۔ چاند کو اور چاند کے استعارے کو انشاء نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ استعمال کیا ہے۔ پتہ نہیں انشاء جی اندھیری راتوں میں کیا کرتے تھے۔ چاندنی راتیں ہیں۔ شہر کی روشنیوں میں ستارے بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ میرا مشغلہ رات میں شمالی تارے کو دیکھنا ہے۔ شمالی تارا دور دور سے مجھے دیکھے جاتا ہے اور میں اسے۔
یہ ہمیشہ یہاں ہی ملتا ہے۔ جگہ تبدیل نہیں کرتا اور میں جگہ بدل بدل کر اسے اندھیری راتوں میں دیکھتا رہتا ہوں۔ کبھی کسی شہر کبھی کسی نگر۔ یہ تارا گلگت بلتستان کے اوپر چمکتا ہو گا۔ ابھی اسی لمحے شیوسر کے پانیوں میں اس کا عکس گھل رہا ہو گا اور ہنزہ نگر کی وادیوں میں سوئے ہوئے مکانوں کے اوپر۔ غذر کی جھیلوں میں جھلکتا ہوا، نلتر کی بلند وادی پر ٹمٹماتا، گھانچے کی بستیوں کے اوپر جلوہ افروز، راما گاؤں کے کھیتوں کے اوپر دمکتا ہوا۔
ایک تارا جنوب میں بھی چمکتا ہے لیکن وہ مدھم ہوتا ہے۔ وہ تارا جھنگ کے اوپر چمکتا ہو گا جس کے پیچھے کوئی تختِ ہزارہ چھوڑ کے جھنگ چلا آیا تھا۔ یہ دونوں تارے محبت کے استعارے ہیں۔ ہمیشہ ایک ہی جگہ ملتے ہیں اور چاند آوارگی کا استعارہ ہے جو ساری رات سفر میں رہتا ہے۔ گلگت بلتستان کا سفر ختم ہوا۔ آگے شیندور تھا جہاں سے خیبر پختونخواہ کا آغاز ہوتا ہے۔ شیندور کے پار چترال کی بستیاں تھیں۔ انہیں بستیوں میں کہیں کیلاش کی وادیاں تھیں۔
انشاء کا چاند آج نہیں نکلا پر انشاء کی کتاب چاند نگر سے شعر یاد آ گیا
اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا
یہ بھی کہنا کہ بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو
یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سفرنامے کی سیریز میں آٹھواں مضمون ہے۔ گذشتہ حصے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے نیٹ ورک انجینیئر ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں۔
تبصرے (95) بند ہیں