تاریخی پکا قلعہ کی فصیل مسمار، زمین پر قبضہ
حیدرآباد: قدیم اور مشہور پکا قلعہ کی فصیل کا ایک بڑا حصہ راتوں رات حکام کی ناک کے نیچے مسمار کردیا گیا۔
واضح رہے کہ یہ ایک محفوظ تاریخی ورثہ ہے۔ افسوسناک امریہ ہے کہ ڈھٹائی کے ساتھ کی گئی اس کارروائی پر حکومت فوری اور مؤثر ردّعمل دینے میں ناکام رہی۔
یہاں ایک گودام کی تعمیر کے لیے کھدائی کا کام ایک ہفتے سے جاری رہا۔
24 مئی کو ہونے والے اس جرم کی شدت کا موازنہ صرف شام اور عراق میں شدت پسندوں کی جانب سے تاریخی یادگاروں نوادرات کی تباہی سے کیا جاسکتا ہے۔
پلاٹ حاصل کرنے کے لیے کھدائی کے بعد مٹی اور پتھر کو اس مقام سے ہٹا دیا گیا ہے، اب اس پلاٹ کو سڑک کی سطح کے حساب سے ہموار کرنے کے لیے مٹی کی بھرائی کی جارہی ہے۔ اس ’پلاٹ‘ کا مالک یہاں ایک گودام تعمیر کرنا چاہتا ہے۔
ڈان کے نمائندے نے اس مقام کا وزٹ کیا تو وہاں قلعے کی فصیل کا کوئی نشان تک باقی نہ تھا۔
پیر کو اس علاقے کے ایک رہائشی نے بتایا کہ ’’یہ کھدائی مشینوں کے ذریعے گزشتہ ہفتے ہوئی تھی، لیکن کھدائی کا زیادہ تر کام رات گئے کیا گیا۔‘‘
اس پلاٹ کے مبینہ مالک شوکت کے مطابق اس نے یہ جائیداد ایک بلڈر سے ایک کروڑ پچاس لاکھ میں خریدی تھی۔
حیدرآباد میونسپل کمیٹی کے ایڈمنسٹریٹر خالد محمود جنہیں ایچ ایم سی کی پراپرٹی کے مسائل سے نمٹنے کے حوالے سے خاصی شہرت ملی ہے، کہتے ہیں کہ انہوں نے معلقہ عملے کو اس مقام کا معائنہ کرنے کے لیے بھیجا تھااور سول انتظامیہ کے ساتھ بھی رابطہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا ’’لیکن یہ غلط ہے، مجھے کچی آبادی کے کلیمز پر مبنی دستاویزات دیکھنی پڑیں گی۔‘‘
ثقافت، سیاحت، نوادرات اور آثارِ قدیمہ کے محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالحق بھنبرو کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ڈی جی کو اس معاملے کی رپورٹ پر مبنی ایک ای میل پچھلے منگل کو بھیج دی تھی۔
ان کے مطابق انہوں نے پانی ای میل میں کہا تھا کہ ’’پکا قلعہ کی مشرقی جانب اسٹریٹ نمبر ون پر تقریباً پچاس فٹ کا دیوار کا اصل پتھر بھاری مشینوں کے ذریعے بلڈرز مافیا نے مسمار کردیا ہے، اور زمین کی کھدائی کے ذریعے تقریباً 1890 مربع فٹ کی جگہ حاصل کرلی گئی ہے۔‘‘
یہ قلعہ محفوظ آثارقدیمہ کی ایک سائٹ ہے، لیکن حکومت نے اس کے تحفظ کے لیے مختلف وجوہات کی بنا پر توجہ نہیں دی۔
اگرچہ نوادرات ایکٹ 1975ء کے تحت یہ قلعہ ایک محفوظ سائٹ ہے اور اس طرح کی کسی بھی سائٹ کے احاطے کے 200 فٹ کے اندر اندر کسی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی، تاہم ایک پولیس اسٹیشن، فرنٹیئر کانسٹبلری کے اہلکاروں کی گھر اور ایک اسکول قلعے کے احاطے میں موجود ہے۔
سالوں سے قلعے کی بیرونی دیوار کی اینٹیں بوسیدہ ہوکر ایک ایک کرکے جھڑ رہی ہیں، اور برسات کے دوران بارش کے پانی کے رساؤ سے اکثر اس کی دیوار کا بڑا حصہ تباہ ہوجاتا ہے۔
اس متنازعہ پلاٹ پر سب سے پہلے اس وقت متحدہ کے ضلعی ناظم کنور نوید جمیل کی توجہ مبذول کروائی گئی تھی، انہوں نے تعلقہ ناظم صابر چشتی سے اس کی لیز منسوخ کرنے کے لیے کہا تھا۔
صابر چشتی نے جعلی دستاویزات کی وجہ سے لیز کے اس کلیم کو منسوخ کرتے ہوئے ایچ ایم سی کے ایک عہدے دار کو معطل کردیا تھا، تاہم یہ عہدے دار بعد میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے تعلقات کی وجہ سے بحال ہوگیا تھا۔
یہ بھی معلوم ہواہے کہ لیز کی منسوخی کے بعد اس پلاٹ کے مالک نے سول کورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں ایچ ایم سی کے کچی آبادی کے عملے نے جان بوجھ کر اس معاملے کی پیروی نہیں کی، نتیجے میں فیصلہ مالک کے حق میں کردیا گیا۔
پلاٹ کے مالک شوکت نے بتایا ’’میں نے یہ پلاٹ دو سال پہلے خریدا تھا۔ میرے پاس متعلقہ سرکاری محکموں کی جانب سے جاری کی گئی رجسٹری کی طرز کی تمام دستاویزات ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ اس بات سے یکسر لاعلم تھے کہ یہ پلاٹ آثارِ قدیمہ کے مقام کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ لگ بھگ 2600 مربع فٹ کی جگہ ہے، اور یہاں صرف کچرا پڑا ہواتھا، جسے ہم نے ہٹادیا ہے۔‘‘
اس پلاٹ سے ملحق ایک جانب ایک فلاحی ہسپتال اور ایک سرکاری اسکول، جبکہ دوسری طرف رہائشی کوارٹرز ہیں، جن پر رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ایجنسیوں کا قبضہ رہا ہے۔
رینجرز کے ایک سب انسپکٹر شاہد حفیظ جب ایک ملحقہ کوارٹر میں نوّے کی دہائی کی ابتدا میں مقیم تھے تو انہوں نے اس جگہ پر قبضہ کیا تھا۔ جب سے اب تک یہ جگہ ایک مالک سے دوسرے مالک کو منتقل ہوتی چالی آرہی تھی۔
کچی آبادی اتھارٹی کے ایک ریٹائرڈ ملازم کا کہنا تھا کہ ’’قلعہ کا یہ حصہ کچی آبادی میں شمار کیا جاتا ہے، اور ایچ ایم سی کی ’’فرد حقیت‘‘ حاصل کرنے کے لیے بہت سے درخواست گزاروں نے ہم سے رابطہ کیا تھا، لیکن ہم نے اس سے گریز کیا، اور صرف حقیقی کیسز پر توجہ دی، جو کچی آبادی کے ضابطوں پر پورے اترتے تھے۔‘‘
پکا قلعہ 38 ایکڑز پر پھیلا ہوا ہے، اس کی تعمیر 1768ء میں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے کروائی تھی، اس وقت ہی انہوں نے حیدرآباد شہر کی بنیاد رکھی تھی، اور اس کو اپنی سلطنت کا درالحکومت قرار دیا تھا۔انہوں نے دفاع اور شہری مقاصد کے لیے عمارتیں تعمیر کرائی تھیں۔
اس قلعے میں اب ان مہاجرین خاندانوں کی تیسری اور چوتھی نسل آباد ہے، جو ہندوستان سے غیرمعمولی حالات کے تحت نقل مکانی کے بعد یہاں آباد ہوئے تھے۔
بے نظیر کے پہلے دورِ حکومت میں ستائیس اٹھائیس مئی 1990ء کو بدنام زمانہ پکا قلعہ آپریشن کے بعد اس قلعے کا نام قومی میڈیا میں نمایاں ہوا تھا۔
کچی آبادی کی بنیاد پر یہ قلعہ ایچ ایم سی کے دائرہ اختیار میں بھی آتا ہے، جس کی وجہ سے بے ضابطگیاں اور بدعنوانیوں کو فروغ ملا ہے۔
قلعہ کا علاقہ ایم کیو ایم کا مضبوط گڑھ ہے۔ 2012ء میں متحدہ کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین نے قلعہ کے اندر اپنے ترقیاتی فنڈز سے دو کروڑ چالیس لاکھ روپے کی لاگت سے ایک جمنازیم تعمیر کروایا تھا۔
آثار قدیمہ کے مقامات پر قبضے اور شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے محکمہ آثارِ قدیمہ میں بھرپور گرفت کا فقدان ہے۔
اس کا کردار حیدرآباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور ایچ ایم سی جیسے محکموں اور اداروں کو نوٹسز کے اجراء تک محدود ہے، جو اس کے علاقے کو 1978ء میں کچی آبادی قرار دیے جانے کے بعد لوگوں کو ’فردِ حقیت‘ کی پرچی جاری کرتے ہیں۔