ذوالفقار مرزا حکومت تنازع شدت اختیار کرگیا
کراچی : سندھ ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر پولیس کے نقاب پوش اہلکار ذوالفقارمرزا کے محافظوں اورصحافیوں پر چڑھ دوڑے، جبکہ سندھ ہائیکورٹ نے پولیس کو سندھ کے سابق وزیر داخلہ کی گرفتاری یا ان کے خلاف نئے مقدمات درج کرنے سے روک دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں ذوالفقار مرزا کی پیشی کے موقع پر پولیس کے اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کے نقاب پوش کمانڈوز نے عدالت عالیہ کے داخلی دروازے کو بلاک کردیا اور عدالتی عمارت کے اندر پیپلزپارٹی کے ناراض رہنماﺅں کے محافظوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اس کی کوریج کرنے والے صحافی بھی ان کی زد میں آگئے۔
اہلکاروں نے وہاں کھڑی گاڑیوں کے شیشے اور صحافیوں کے کیمرے توڑ ڈالے جبکہ ذوالفقار مرزا کے متعدد محافظوں کو حراست میں لے لیا، ذوالفقار مرزا کی اہلیہ فہمیدہ مرزا کا دعویٰ ہے کہ ان کے 17 محافظوں کو پولیس نے حراست میں لیا ہے۔
ٹی وی چینلز میں دکھایا گیا کہ نقاب پوش اور مسلح پولیس اہلکار نامعلوم افراد کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے اور پھر انہیں اٹھا کر پولیس کی گاڑیوں میں ڈال کر لے گئے جبکہ ان واقعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
ایس ایس پی جنوبی کراچی چوہدری اسد علی نے تصدیق کی ہے کہ نقاب پوش اہلکار سندھ پولیس کے ایس ایس یو کے اہلکار تھے تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کمانڈوز کو کیوں طلب کیا گیا تھا۔
پولیس کے تشدد سے کم از کم دو نجی ٹی وی چینیلز کے کیمرہ مین زخمی ہوئے جنھیں ہسپتال لے جایا گیا، کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹس نے صحافیوں کے خلاف ' پولیس تشدد' کی مذمت کی ہے۔
دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ نے ذوالفقارمرزا کی ضمانت میں ایک ہفتے کی توسیع کرتے ہوئے پولیس کو انہیں گرفتارکرنے سے روک دیا اورحکم دیاکہ عدالت کے علم میں لائے بغیر ذوالفقارمرزا پر کوئی نیامقدمہ نہ بنایاجائے۔
عدالتی حکم کے باوجود آئی جی سندھ اور کراچی پولیس کے سربراہ سندھ ہائیکورٹ میں پیش نہ ہوئے تو بعد ازاں عدالت کے حکم پر ذوالفقار مرزا کو رینجرز کی حفاظت میں ان کی رہائشگاہ پر پہنچایا گیا۔
تبصرے (1) بند ہیں