عوامی تحریک کا پھر احتجاج کا اعلان
لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کلین چٹ دیئے جانے پر پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کل سے ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔
واضح رہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون میں پولیس کی فائرنگ سے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت کے سانحے پر حکومت پنجاب کی ہدایت پر تشکیل دی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور سابق ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار کو ماڈل ٹاؤن واقعے میں ملوث ہونے کے الزامات سے بری قرار دے دیا گیا ہے۔
جمعرات کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عوامی تحریک کے مرکزی صدر رحیق عباسی اور سیکریٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے جے آئی ٹی رپورٹ کےخلاف جمعے سے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ۔
اس موقع پر عوامی تحریک کی طرف سے کچھ مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
اس کیس کو فوجی عدالت میں منتقل کیا جائے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کو شائع کیا جائے۔
ایک نئی ،غیر جانبدار جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔
چونکہ پولیس ماڈل ٹاؤن سانحے میں ملوث تھی، لہذا اسے جے آئی ٹی کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔
دھرنے کے دوران ہم سے معاہدہ کیا گیا تھا کہ باہمی معاہدے کے تحت جے آئی ٹی بنائی جائے گی، لیکن جے آئی ٹی بنانے سے پہلے ہمارے تحفظات نہیں سنے گئے۔
جے آئی ٹی کے سربراہ کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ 17جون 2014 کو لاہور کا پوش علاقہ ماڈل ٹاؤن اُس وقت میدان جنگ بن گیا جب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر اور تحریک منہاج القرآن سیکریٹریٹ سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران عوامی تحریک کے کارکنان کا پولیس سے تصادم ہوا۔
اس تصادم کے نتیجے دو خواتین سمیت 17 افراد ہلاک اور 90سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک نے اپنے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی سربراہی میں اسلام آباد میں دو ماہ سے زائد دھرنا بھی دیا تھا۔
مزید پڑھیں:’شہباز، رانا ثناء سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار نہیں‘
پی اے ٹی کے سربراہ طاہر القادری کے مطالبے پر سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات کے لیے گزشتہ برس 13 نومبر کو پنجاب حکومت کی ہدایت پر 5 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ) تشکیل دی گئی تھی،جس کے ممبران میں کوئٹہ پولیس چیف عبدالرزاق چیمہ، آئی ایس آئی کے کرنل احمد بلال، آئی بی کے ڈائریکٹر محمد علی، ایس ایس پی رانا شہزاد اکبر اور ڈی ایس پی سی آئی اے خالد ابوبکر شامل ہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس وقت واقعہ پیش آیا ڈی آئی جی عبدالجبار موقع پر موجود نہیں تھے۔ واقعے کے دوران کانسٹیبل کی ہلاکت کی اطلاع ملی تو اُس وقت کے ایس پی سیکیورٹی علی سلمان نے اپنے ماتحتوں کو فائرنگ کاحکم دیا جس سے پی اے ٹی کے کچھ کارکن ہلاک ہوئے۔
سانحے میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے سابق ایس پی سیکیورٹی علی سلمان بیرون ملک پرواز کرچکے ہیں جبکہ ایک انسپکٹر عامر سلیم سمیت پانچ پولیس اہلکار جیل میں قید ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تمام ممبران نے واقعے کے مقدمے میں نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب اور سابق وزیر قانون کے خلاف موجود الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دیا ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں