• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
شائع May 21, 2015 اپ ڈیٹ June 1, 2015

خانہ بدوشی: فطرت سے عشق کا منفرد انداز

ابوبکر شیخ

کونج بھی عجیب پرندہ ہے۔ جاڑوں کے آنے کی نوید بھی دیتا ہے، اور جاڑوں کے گذر جانے کی خبر بھی۔ شہروں کے شور اور بہت ساری کثافتوں سے دور اکتوبر کے صاف ستھرے دھلے ہوئے نیلے امبر پر لمبی اور سیدھی قطاروں میں جب کونجیں اڑتی شمال مشرق کی طرف جاتی ہیں تو یہ جاڑوں کے آنے کا اعلان ہوتا ہے۔ ساتھ میں اور بھی ہجرت کرنے والے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ انڈس ڈیلٹا کی جھیلوں پر اترنے لگتے ہیں۔ ان کی آمد کی خوشی میں گھاس پھوس، سرکنڈے، اور پانی کی دوسری گھاسوں اور جھاڑیوں کا رنگ گہرا ہرا ہوجاتا ہے۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے سردیاں گزر جاتی ہیں۔ راتیں چھوٹی، اور دن لمبے اور گرم ہوتے جاتے ہیں۔ مارچ کے آتے آتے ہجرت کرنے والے پرندے جھیلوں کو ویران کر کے جا چکے ہوتے ہیں۔ تب مارچ کی آخر میں کونجیں واپس جانے کے لیے اسی نیلے آسمان پر سے جاڑے کے اختتام کا اعلان کرتی ہوئی لمبی قطاروں میں لوٹ جاتی ہیں، اور تب نیچے زمین پر خانہ بدوشوں کے قافلے جھیلوں کے کناروں کی طرف اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔

میں نے خانہ بدوشی کے سحر کے متعلق بہت سوچا، لیکن جس طرح سمندر کی لہروں اور کناروں کے عشق کا پتہ نہ لگا سکا، بالکل اسی طرح اس خانہ بدوشی کے جنون کا کنارا بھی مجھے دکھائی نہ دیا۔ کہتے ہیں کہ انسان کو کیا چاہیے؟ ایک گھر، گھر کا آنگن، آنگن میں اگا ہوا نیم کا درخت، اور ایک منڈیر جس پر کوا بیٹھ کر مہمانوں کی آمد کی نوید دے۔ پر ان خانہ بدوشوں کا نہ کوئی گھر ہوتا ہے، نہ آنگن، اور نہ کوئی ٹوٹی پھوٹی سی منڈیر۔ وہ جس جھیل کے کنارے رہتے ہیں وہ ہی ان کی دنیا ہوتی ہے۔

سندھ کی ساحلی پٹی، جس کے اپنے الگ طبعی حالات ہیں، 250 کلومیٹر کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ دریاء سندھ اپنا 3200 کلومیٹر کا سفر یہیں آکر ختم کرتا ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ بندرگاہوں کے حوالہ سے مشہور تھا۔ اس کے علاوہ جنگلات، جنگلی حیات، اور جھیلوں کی وجہ سے بھی یہ ڈیلٹائی پٹی جانی جاتی ہے۔ انڈس ڈیلٹا میں 23 Creeks (کھاڑیاں، وہ نالے جن سے دریا کا پانی سمندر میں گرتا ہے) ہیں۔ چونکہ یہ دریائے سندھ کے بحیرہ عرب میں جانے کے راستے رہے ہیں، اس لیے ان میں پانی وافر مقدار میں ہونے کی وجہ سے جنگلات اورجھیلوں کا ہونا ایک فطری عمل تھا۔

1999 کے سمندری طوفان Cyclone 2A-1999 سے پہلے اس ساحلی پٹی میں چھوٹی بڑی جھیلوں کا جال بچھا ہوا تھا، لیکن اس سائیکلون نے اس ساحلی پٹی کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔

مقامی این جی او میں قدرتی آفات کے حوالے سے کام کرنے والے فدا سومرو نے بتایا کہ "ڈیلٹا کی اس ساحلی پٹی پر طوفان اور سائیکلون آتے رہتے ہیں، پر 1999 میں آنے والے اس سائیکلون نے بہت کچھ برباد کردیا۔ چھتیس گھنٹے چلنے والے اس سائیکلون نے 450 ملی میٹر تک پانی برسایا، جبکہ ہوا کی رفتار 270 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔"

اس سائیکلون کے بعد بہت ساری چھوٹی چھوٹی جھیلیں ریت اور مٹی سے بھر جانے کی وجہ سے اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں، یہاں تک کہ بدین کی دو مشہور جھیلیں 'نریڑی' اور 'جھبو' (یہ دونوں رامسر سائیٹ کا اعزاز رکھنے والی جھیلیں ہیں) اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ جھیلوں کا مرجانا کسی بھی علاقے کے لیے اچھا شگون نہیں ہوتا، کیونکہ یہ زندگی کی امین ہوتی ہیں۔ یہ فقط پانی مانگتی ہیں۔ اس کے بدلے میں یہ انسان کو جو دیتی ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس ڈیلٹائی خطے کے بہت سارے ایسے خاندان ہیں، جو نسلوں سے ان جھیلوں کے کناروں پر رہ کر اپنی روزی روٹی کماتے آئے ہیں۔

ہم یہاں ذکر 'ہاجراں' کا کریں گے جو 2005 میں مجھے ایک ریسرچ اسٹڈی کے دوران 'جھبو' جھیل پر ملی تھی۔ تب وہ سات آٹھ برس کی ایک کمزور سی بچی تھی، پر میں نے اس کی بہت ساری تصویریں بنا ڈالیں۔ ہاجران ماں، باپ اور دو بھائیوں والے اپنے چھوٹے سے خاندان میں سب سے چھوٹی ہے۔

ہاجراں اپنی ماں مارہیت کے ساتھ (2010)
ہاجراں اپنی ماں مارہیت کے ساتھ (2010)

اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو پتہ چلے گا کہ انسان اور کناروں کا آپس میں کتنا قدیم اور مقدس رشتہ ہے، اور انسان نے خود اس رشتے کو توڑنے کی بڑی کوشش کی ہے۔ ایریگیشن سسٹم میں میٹھے پانی کی کمی، قدرتی آفات کی بربادی کے بعد ان کی نئے سرے سے بحالی پر دھیان نہ دینا، قدرتی وسائل جیسے جھیلوں، فشنگ گراؤنڈز میں شوگر ملز اور دیگر صنعتوں کے زہریلے کیمیکلز کا اخراج، سمندر میں شہروں کے گندے نالوں اور صنعتی کا اخراج، جتنے بھی وسائل بچے ہیں، ہم کوشش میں ہیں کہ ان کو برباد کر کے ہی چھوڑنا ہے۔ اب دانستہ ہو یا نادانستہ، پر یہ سب کچھ ہو ضرور رہا ہے۔

2010 میں ایک عجیب اتفاق ہوا۔ ایک اسٹڈی کے دوران 'ہاجراں' مجھے اپنے خاندان کے ساتھ 'نریڑی' جھیل کے کنارے دوبارہ ملی۔ وہ ویسی ہی تھی، دھان پان سی، پانچ برس میں اس خاندان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی۔ بس 'مارہیت' جو، ہاجراں کی ماں تھی، وہ کچھ زیادہ کمزور ہوگئی تھی۔ اس کے باپ 'پیر بخش' کے بالوں میں کچھ زیادہ سفیدی آگئی تھی اور ساتھ میں چہرے کی لکیریں کچھ زیادہ گہری ہوگئی تھیں۔ شام کا وقت تھا، سارے خاندان نے چائے پینے کا کہا، ہم نے چائے پی، اور جاتے ہوئے میں نے ہاجراں کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا، بیٹا کھایا پیا کرو، ہڈیوں کا پنجر لگتی ہو، ہاجراں مسکرائی اور سر اثبات میں ہلایا۔

اب پھر یہ خاندان مجھے گونگڑو (یہ دریائے سندھ کی قدیم برانچ ہے، سومرو بادشاہوں کی حکومت کا مرکزی شہر 'شاہ کپور' یہیں آباد تھا) کے کناروں پر ملا۔ زمین میں چار لکڑیاں گڑی ہوئی، اور ان کے سہارے پر ہلکی سرکنڈوں اور دوسری گھاس کی چھت۔ اب اسے چھت کہنا چاہیے یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ لکڑیاں کیونکہ باریک اور پانچ فٹ سے بڑی نہیں ہوتیں، اس لیے دن میں دھوپ سے بچنے کی لیے جب اس میں داخل ہوتے ہیں، تو جھک کر داخل ہونا پڑتا ہے، جیسے شہنشاہ کا دربار ہو، بس کورنش نہیں بجا لانی پڑتی۔

دوپہر کو سرخ چاول کے آٹے کی روٹی اس خس کی جھونپڑی کے آگے تپتی دھوپ میں پکتی ہے۔ چاول کی گرم روٹی بڑی خستہ اور خوشبودار ہوتی ہے، سالن نہیں ہوتا، اس لیے ایسے ہی کھا لیتے ہیں کہ بس پیٹ کی آگ ہی تو بجھانی ہے۔

جھیلوں کے کناروں کا سحر میں نے ان خانہ بدوشوں کی آنکھوں میں ٹھنڈی چاندنی جیسا پرسحر دیکھا ہے۔ 'داندھل'، 'پارہیڑی'، 'بھڈائی'، 'ونگائی'، 'بوہریا' اور بہت سارے ایسے قبیلے ہیں جو 'پن' (پھوس، Water Reeds) سے 'چھپر' بناتے ہیں۔

چھپر کو مقامی زبان میں 'پکھے' کہتے ہیں۔ لاکھوں خاندان جو ساحلی پٹی پر اپنے گھر بناتے ہیں، ان گھروں کی چھت، پھوس کے ان چھپروں سے بنائی جاتی ہے۔ ان سے بنی چھت ہلکی ہوتی ہے، دھوپ سے گرم نہیں ہوتی، بارشیں اگر زیادہ ہوجائیں تو چھپر میں استعمال کی گئی پھوس زیادہ پانی کی وجہ سے پھول کر ایک دوسرے سے جڑ جاتی ہے جس سے چھت ٹپکتی نہیں ہے۔ چھتیں ہلکی ہوتی ہیں، اس لیے ان کے گرنے کا خطرہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، اور زلزلے کی صورت میں یہ چھت اگر گر بھی جائے تو اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔

میں نے پیر بخش سے پوچھا کہ چھپر کیسے بناتے ہیں؟ پیر بخش نے بتایا کہ "یہ جب پک کر تیار ہوجاتی ہے تو ہم کو پتہ چل جاتا ہے، پھر ہم اس کو جھیل میں جا کر تیز اوزار سے کاٹتے ہیں، اور باہر دھوپ میں کچھ دن سوکھنے کے لیے رکھ دیتے ہیں۔ پھر اس میں ایک نرم سی لکڑی چھپی ہوتی ہے، جس کو ہم 'کانی' کہتے ہیں، بنیادی طور پر ان 'کانیوں' کو ملا کر، سی کر جو چھاؤں کی چادر بُنتے ہیں، اس کو 'چھپر' (پکھا) کہتے ہیں۔

"پھر ان 'کانیوں' کو چھیل کر صاف کر کے کچھ دن کے لیے دھوپ میں رکھ دیتے ہیں، پھر سائز کے مطابق ان 'کانیوں' کو الگ کرتے ہیں۔ ان چھپروں کو باندھنے کے لیے مقامی گھاس، جس کو ہم 'منج' کہتے ہیں، کاٹ کر، سکھا کر، اور پھر کوٹ کر ان سے رسیاں بناتے ہیں، اور جو پھوس چھیلتے ہیں اس سے بھی رسی بناتے ہیں۔ یہ رسیاں بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ تیز دھوپ اور سمندر کی نمک سے بھری ہوا بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔"

"یہ ایک چھپر بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟" پیر بخش نے رسی بناتے ہوئے جواب دیا: "وہ سائیز پر منحصر ہوتا ہے، عام طور پر چھپر نو ہاتھ (ایک ہاتھ مطلب دو فٹ) کا ہوتا ہے۔ اگر رسیاں بنی ہوئی ہوں، کانیاں وغیرہ تیار ہوں تو ایک دن میں ایک چھپر بن جاتا ہے۔ ہم بیس ہاتھ سے بھی بڑے چھپر بنا سکتے ہیں۔"

پھر جب چلچلاتی دھوپ میں بغیر کسی چھپر اور چھاؤں کے یہ دوسروں کے لیے چھاؤں بُننا شروع کرتے ہیں، تو انسانی حقوق ان کے پسینے میں قطرہ قطرہ ہو کر بہتے جاتے ہیں۔ پیر بخش نے تپتی دھوپ کو دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر کر کہا "جیئن کارن جیڈیون، موں وڈا وس کیام" (زندگی کے تپتے صحراؤں کو پار تو کرنا ہے، پر مشکل بہت ہیں یہ راہیں۔"

میں نے پیر بخش کی بیوی اور ہاجراں کی ماں سے جب ایک جگہ گھر بسا کر بیٹھنے کا کہا تو تو اس نے میری بات کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ "چار دیواری میں تو ہمارا سانس گھٹ جائے گا۔ نہیں ادا، ہمارے لیے یہ ٹھیک ہے، جہاں گھاس پھوس کی خوشبو نہ آئے وہاں کیا رہنا۔"

میں نے ان کے ساتھ آدھا دن گزارا، ان کی مشکل ترین زندگی دیکھی، جہاں پینے کے پانی سے لے کر کھانے اور رہنے تک، کوئی بھی چیز صحت و صفائی کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی، پھر بھی یہ نسل در نسل جیے جا رہے ہیں۔ تپتی دھوپ، بارشوں، طوفانوں، اور کڑکڑاتی سردیوں میں جھیلوں کے ان کناروں پر بیوفا محبتوں کی طرح کچھ مہینوں کے لیے گھر آباد ہوتے ہیں، شادیاں ہوتی ہیں، زندگیاں جنم لیتی ہیں، جنازے اٹھتے ہیں، اور پھر ایک نئے ٹھکانے کی تلاش میں مضبوط اعصاب کے یہ لوگ اپنا گھر اپنے کندھوں پر اٹھائے کہیں اور نکل جاتے ہیں۔

اس سارے وقت میں مجھے ہاجراں نظر نہیں آئی۔ جب میں نے اس کے باپ سے پوچھا تو پتہ لگا کہ کچھ ماہ پہلے اس کی شادی ہوگئی۔ میں نے سوچا کہ اتنی چھوٹی عمر میں؟ پیر بخش سے اس کی عمر پوچھی تو اس نے ایک اندازے کے مطابق سولہ یا سترہ برس بتائی۔ ہم شہری لوگوں کے لیے یہ عمر کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے، لیکن زندگی کی تلخیاں ان کو کھیلنے کودنے کی اجازت نہیں دیتیں، اور یوں ان کی شادیاں عموماً اسی عمر میں کر دی جاتی ہیں۔

ان چھپر بُننے سے اتنے زیادہ پیسے نہیں ملتے کہ ان کو جمع کر کے اپنی اولاد کی دھوم دھام سے شادی کی جا سکے۔ یہاں ان بے آنگن گھروں سے جب بیٹی بیاہی جاتی ہے، تو لوہے کی ایک پیٹی میں کچھ جوڑے کپڑوں کے، کچھ چپلیں، بازار سے لیے ہوئے کچھ نقلی زیور، کچھ گہرے رنگوں میں نہائی ہوئی چوڑیاں، ہو گیا جہیز مکمل اور ہو گئی بیٹی کی رخصتی۔ بیٹی جہاں بیاہ کر جائے گی، وہ گھر بھی اکثر آنگنوں کے سکھ سے نا آشنا ہی ہوں گے۔

ہم آرامدہ اور پرسکون کمروں میں نرم بستروں پر لیٹے ہیں، لیکن نیند کی گولی کھا کر سوتے ہیں، دن میں چار مرتبہ بلڈ پریشر چیک کرتے ہیں، اور ساتھ میں شوگر کے بڑھ جانے اور کیلوریز کا ذکر بھی چل رہا ہوتا ہے۔ یہ لوگ ہسپتالوں سے کوسوں دور ایسے ویرانوں میں رہتے ہیں جہاں گرمیوں میں سانپ اور بچھو رات کو ایسے گھمومتے ہیں جیسے مٹرگشت کرنے کو نکلے ہوں۔ پھر بھی یہ لوگ جیے جاتے ہیں۔

یہاں 'جتنا ہے وہ بہت ہے' کے اصول پر زندگی گذرتی ہے، اور ہنسی خوشی گذرتی ہے۔ میں نے ان سے باتیں کر کے یہ محسوس کیا کہ یہ لوگ زندگی سے شکایتیں بہت ہی کم کرتے ہیں، اس لیے زندگی ان کے ذہنوں میں اسٹریس کی خاردار جھاڑیاں نہیں اگاتی۔ یہ سب ان جھیلوں کے کناروں سے عشق کی وجہ سے ہوا ہے، یہ لوگ فطرت سے عشق کرتے ہیں، ان کے نصیبوں میں آنگن کا سکھ نہ ہو تو نہ سہی، پر اور بہت سارے سکھ ہیں جن سے ہم اور آپ ناآشنا ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے۔

— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (20) بند ہیں

Fida Soomro May 21, 2015 08:48pm
Dear Abu This article is really an excellent piece of work and is not a simple artistic work but a living picture of circumstances of entire coastal communities what kind of lives they are living particularly in present hi-tech period of time. Despite of innumerable claims the coastal belt is still enmeshed in vicious circle of abject poverty. These communities have always been deprived of basic necessities of lives; the major sources of their livelihoods are decreasing rapidly. Many of them has already undertaken distress migration to far-flung areas for the sake of livelihood. On other hand climate change has been posing dire threats to them compelling to leave their ancestral abodes in lurch. The green sector in Sindh coast has been no more sustainable option for the communities to eke out. This article needs to be shared with political leadership and district management to reconsider the predicament of coastal communities ensuring them provision of dignified way of life.
jamal jalalani May 21, 2015 09:25pm
nice ada
محمد ارشد قریشی (ارشی) May 21, 2015 10:38pm
واہ جناب کیا منظر کشی تحریر کی ہے جناب ۔۔ یہ وہ غریب لوگ ہوتے ہیں جو دل کے امیر ترین ہوتے ہیں
asad May 21, 2015 11:26pm
veru intresting article and very lively photos too..
Shahnaz shoro May 22, 2015 01:38am
دل سے لکھی ھوئی تحر یر
abdul latif May 22, 2015 01:57am
Nice article and pic
fazal hussain May 22, 2015 09:51am
nice
Abass Khoso May 22, 2015 12:29pm
Really nice multi information of this community w/done Abu bakar Shaikh sb
Mir Hassan Mari May 22, 2015 12:53pm
ابوبکر شیخ آپ جو لفظوں کے ذریعے کیفیات کو پینٹ کرتے ہیں وہ کمال کرتے ھے یار آپ زندگی کے آرٹسٹ ھے ۔
سہیل یوسف۔ May 22, 2015 01:24pm
محترم ابوبکر صاحب، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ صحافی ہوتے ہوئے بھی سرکاری شخصیات اور سیاسی ڈرامہ بازوں سے دور رہ کر عام آدمی کی کہانی بیان کررہے جس کی محنت کا اندازہ اس فیچر سے ہوتا ہے۔ ایک شاندار تحریر اور امید ہے کہ آپ میرے ملک کے ان غریب لوگوں کے لیے لکھتے رہیں گے۔
Waseem May 22, 2015 01:56pm
خوش رہئے بھائی ابو بکر۔۔ بہت عمدہ تحریر ہے۔۔
saeeda sager May 22, 2015 02:05pm
ایک اور اچھی تحریر۔ آپ کے الفاظ سانس لیتے اور بولتے ہیں، جیسے آپ نے لکھا،،،،،،،رنگوں میں نہائی ہوئی چوڑیاں۔۔ واہ ،،،،،انتہائی خوبصورت۔۔کسی آرکیالاجی ..سائیٹ پر بھی لکھیں
usman rahookro May 22, 2015 03:32pm
sir abubaker shaikh khana badoshi fitrat se isha ka khubsurat andaz article historical he jitni bhi tarif ki jaye kam he writer ko boht boht mubarak ho
sadam laghari May 22, 2015 03:37pm
sir I read your article khana badoshi fitrat se ishq ka munfirad andaz, very very nice article we like your article
Niaz Abbasi May 22, 2015 06:18pm
بھائی ابوبکر آپ کا لکھا ہوا آرٹیکل بھت اچھا لگا ساحلی علائقی کے رہواسی کس طرح زندگی گذارتے ہیں ۔ کیسے ان کے حالات ہیں زندگی کی بنیادی سہولیات سے کیسے محروم ہیں ۔ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیسے نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ ان راستوں پر ان کو کیسی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر بی وہ ان تصاویر میں بہت خوش نظر آرہیں ہیں ۔آپ نے ان کی زندگی حالات پر بہت اچھا لکھا ہے ۔میری دعا ہے کہ آپ ہمیشہ خوش رہیں
abdullah May 22, 2015 07:13pm
That continue an other very heart touche article , by AbuBaker. I think AbuBaker is not write on those whose havent inspire him, but he write on those whose very nearest with him .he write very beautifully on Nature, Folk , Culture , History , biodiversity. hope fully he continue his job. because its real that I person lay wait of his article .
لکھاری May 23, 2015 01:22pm
تحریر کو اتنی کہری نظر سے مطالع کرنے کیلئے شکریہ۔ میں کوشش کروں گا کہ آرکیالاجی پر بھی لکھ سکوں۔۔۔
Shahzad Iqbal Chauhan May 23, 2015 02:41pm
Mr. Abubakar Shaikh, i like the way you express the life of that particular group of people. your research is really appriciable. i read the whole artical more than single time. there are a lot of things to think about. may almighty bless you and the people you mention.
javeria soomro May 23, 2015 04:21pm
dadho sutho... well done!
Muhammad Iqbal Jun 16, 2015 03:15pm
ابو بکر صاحب، آپ کے آرٹیکل کا شدّت سے انتظار رہتا ہے