اعلیٰ تعلیم ایک منافع بخش کاروبار
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم، تعلیم کے بجائے کاروبار بن گئی ہے۔ ہمارے یہاں تعلیم کا مقصد نوکری کا حصول ہے، اس لیے نوکری کے لیے جو ڈگری چاہیے اس کی شرط پوری کرنا بھی ضروری ہے۔ مابعد نوآبادیاتی حکمت عملی نے آج پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس میں تعلیمی اداروں کی تشکیل سامراجی و استعماری مقاصد کے پیش نظر کی گئی ہے۔
نوآبادیاتی دور کے بعد ماضی میں محکوم قوم کی ثقافت، روایات، سماج، سیاسی نظام اور قومی شناخت پر جو نوآبادیاتی دور میں آبادکاروں نے اثرات چھوڑے اُس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ آمریت کے آخری دور میں پاکستان کو روشن مستقبل کا خواب دکھا کر یہاں نیو لبرل ازم کا ماڈل نافذ کیا گیا جس کے ساتھ تعلیمی ماڈل کو بھی متعارف کرایا گیا جس سے تعلیم میں سرمایہ داروں کو گھس بیٹھنے کا موقع ملا۔
نیو لبرل ازم کے حامی افراد معیشت میں سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ نجی اداروں کو فروغ دینے کے حامی ہیں۔ تعلیمی شعبہ میں اس نظریہ کو مشرف دور میں رائج کیا گیا۔ چنانچہ 2003ء کے بعد پہلی بار ملکی تاریخ میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں سرمایہ کاری ہوئی۔ یہ انویسٹمنٹ ریاست نے نہیں، بلکہ ملکی سرمایہ داروں کے ٹولے نے کی۔ ایک دہائی قبل تو اس سارے عمل کو بہت زیادہ پذیرائی ملی کہ ملک میں تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں لیکن سرمایہ داروں کے خمیر میں جو بے ایمانی شامل تھی، تعلیمی اداروں میں اس کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔
ملک میں اس وقت 173 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں، جن میں سے 72 نجی یونیورسٹیز ہیں۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری اُس وقت لوگوں کی ضرورت بن گئی، جب سرکاری و نجی ملازمتوں اور پروموشنز کے لیے ان ڈگریوں کی شرط عائد کر دی گئی۔ اس ضرورت کا سب سے زیادہ فائدہ نجی یونیورسٹیز نے اُٹھایا اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پارٹ ٹائم پروگرام متعارف کروائے گئے، حتیٰ کہ ایسی جامعات بھی ہیں جو ایم فل کی کلاس ہفتے میں صرف ایک دن کرواتی ہیں۔
پڑھیے: 185 یونیورسٹیوں کے پاس این او سی نہیں
پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے اب مافیا کی شکل اختیار کر لی ہے، اور اعلیٰ تعلیم کو بھی مارکیٹ میں صرف ڈگری فروخت کرنے کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی اس دکانداری کی وجہ سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا معیار تیزی سے گر رہا ہے، اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے ملک بھر میں بتیس ایسی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی نشاندہی کی ہے جو اعلیٰ ڈگریوں کے ساتھ فراڈ کر رہی ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایچ ای سی کو وارننگ دینی پڑی کہ اگر ان ڈگریوں کو فوری طور پر بند نہ کیا گیا، تو پھر ان ڈگریوں کو ایچ ای سی تسلیم نہیں کرے گی۔
ان یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے داخلوں کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں، جن میں طلباء کی تعداد ضوابط سے کئی گنا زیادہ اور مستقل فیکلٹی کا نہ ہونا سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ سائنسی مضامین کے لیے ریسرچ لیبز کے بغیر ہی ڈگریاں کروائی جارہی ہیں جس کا ایچ ای سی نے سخت نوٹس لیا ہے۔
نیو لبرل ازم کے اس تعلیمی ماڈل کی وجہ سے پاکستان کی نجی یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی میں تھوک کے حساب سے داخلے کیے گئے، اور اس کا مقصد تعلیم عام کرنا نہیں، بلکہ تعلیم کو کاروبار بنا کر اس سے منافع کمانا تھا۔ ان داخلوں میں نہ تو کوئی میرٹ ہے، نہ ہی کوئی فارمولا، بس ڈگری خریدنے کے پیسے ہونے چاہیے۔ جہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں اب بھی معیار باقی ہے، اور داخلے کی شرائط کڑی ہیں، تو وہیں ان نجی یونیورسٹیوں میں ہر اس شخص کو داخلہ دے دیا جاتا ہے جو فیس بھر سکتا ہو۔
مزید پڑھیے: یونیورسٹیز کو کیسے پرکھا جائے
یہ یونیورسٹیاں طلباء سے پیسے تو پورے وصول کرتی ہیں، لیکن چند ایک ایسی جامعات ہوں گی جہاں پر فیکلٹی مستقل ہو یا پھر مطلوبہ کوالیفیکیشن رکھتی ہو۔ رہی سہی کسر 2014ء میں ان پروگرامز میں داخلوں کے لیے GAT ٹیسٹ کی شرط ختم کر کے پوری کر دی گئی۔
مجھے انتہائی افسوس ہے کہ نجی یونیورسٹیوں کے اس کاروبار میں سیاستدان سرمایہ داروں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ وفاق کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ ان یونیورسٹیوں کے ساتھ ٹکر لے کیونکہ کئی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مالکان نے اپنے اس کاروبار پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے چینلز اور اخبارات کے لائسنس حاصل کر رکھے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے ساتھ جس انداز میں ملکی سرمایہ دار کھلواڑ کر رہے ہیں، اس سے نہ تو طلباء کو کوئی فائدہ ہونا ہے، اور نہ ہی ملکی معیشت کو۔ بلکہ بے روزگاروں کی ایک ایسی فوج تیار کی جارہی ہے جو نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہورہی ہے۔ مارکیٹ کی ضروریات کو مدِ نظر رکھے بغیر ہر کسی کو اس کی پسند کے ڈگری پروگرام میں داخل کر لیا جاتا ہے، تو یہی ہوگا کہ مختلف شعبوں میں نوکریاں کم ہوں گی اور امیدوار زیادہ۔
دیر آید درست آید، ایچ ای سی نے اب ان سرمایہ داروں کو وارننگ جاری کر دی ہے کہ وہ یا تو ایچ ای سی کے معیارات کے مطابق ایم فل، پی ایچ ڈی کے پروگرام چلائیں یا پھر انہیں بند کردیں اس کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں ہے اور ان یونیورسٹیوں کے طلباء کو بھی ہدایات دی ہیں کہ وہ بھی فوری طور پر ایچ ای سی سے رابطہ کریں۔
سرکاری یونیورسٹیوں میں کسی حد تک کوئی میرٹ ہوتی ہے، اور اگر میرٹ کی کوئی خلاف ورزی ہو بھی جائے تو محاسبہ کر لیا جاتا ہے، تاہم نجی یونیورسٹیوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟ ان کی فیسیں اور ان کی داخلہ پالیسی ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔ نجی یونیورسٹیوں کو اپنا نیٹ ورک وسیع کرنے کا موقع کیوں ملا؟ میری رائے میں قصوروار ریاست کو چلانے والے وہ حکمران ہیں جن میں ذاتی مفادات سے آگے کی سوچ ناپید ہے۔
جانیے: پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی حالت زار
لاہور جیسے شہر میں ساٹھ سالوں میں ایک بھی نئی یونیورسٹی نہیں بنائی گئی بلکہ تین کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر عوام کو خوش کرنے کا جھانسہ دیا گیا۔ سڑکوں کی تعمیر کے لیے ریاست کے رکھوالوں کے پاس اربوں روپے کے فنڈز ہیں، کیونکہ اس سے انہیں کمیشن ملتا ہے، اپنی پسند کے ٹھیکیداروں کو کنٹریکٹ دے کر پیسے کمانے کا موقع ملتا ہے اس لیے سڑکیں بنتی ہیں، تعلیمی ادارے بنانے کے لیے ان کے پاس فنڈز نہ ہونے کا بہانہ ہے۔
ان میں وسعت نظری اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری معیشت زراعت پر جامد ہے، اور سائنسدان، ماہرینِ معاشیات، اور ماہرینِ سماجیات کی بدترین کمی کا سامنا ہے۔
میں نجی یونیورسٹیوں کا مخالف نہیں ہوں، کیونکہ سرکاری یونیورسٹیوں میں نشستیں کم ہونے کے باعث طلباء کے پاس یہی آپشن بچتا ہے۔ لیکن کسی یونیورسٹی کے نجی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایچ ای سی کے کنٹرول سے باہر رہتے ہوئے طلباء کے مستقبل سے کھیلے۔ وزارتِ تعلیم کو چاہیے کہ ان سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لے، ورنہ بیروزگاروں کی فوج ایسے ہی تیار ہوتی رہیں گی، جو معیشت کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کے بجائے صرف بوجھ بنے گی۔
تبصرے (7) بند ہیں