'پاکستان میں مذہبی آزادی کی بدترین صورتحال'
واشنگٹن: کل جاری کی گئی ایک امریکی ایک رپورٹ کے مطابق مودی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان میں ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں پر پُرتشدد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ پاکستان بھی دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے، جہاں مذہبی آزادی کے حوالے سے بدترین صورتحال موجود ہے۔
تاہم اب تک امریکا نے پاکستان کو خصوصی تشویش کا حامل ملک قرار نہیں دیا۔ واضح رہے کہ ایسا درجہ دینے کی صورت میں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد ہوسکتی تھیں۔
مذکورہ کمیشن نے تو اپنی رپورٹ میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کو مذہبی آزادی کے بین الاقوامی ایکٹ (آئی آر ایف اے) کے تحت ’’خصوصی تشویش کا حامل ملک‘‘ کا درجہ دینے کی سفارش کی ہے۔
یہ کمیشن 2002ء سے ہر سال اس طرح کی سفارشات تیار کررہا ہے۔
ہندوستان میں اقلیتوں پر تشدد:
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’’انتخابات (گزشتہ سال) کے بعد سے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی جانب سے مذہبی اقلیتی برادریوں پر توہین آمیز تبصرے کیے گئے ہیں، جبکہ راشٹریہ سوایام سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) جیسے ہندو قوم پرست گروہوں کی جانب سے بڑی تعداد میں پُرتشدد حملے کیے گئے اور لوگوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔‘‘
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ دسمبر کے دوران ہندو گروہوں نے مذہب کی جبری تبدیلی کے منصوبے کا اعلان کیا، جسے انہوں نے ’گھرواپسی‘ پروگرام کا نام دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے تحت کے تحت ایک ہزار مسلم اور چار ہزار مسیحی خاندانوں کو ہندو مذہب میں واپس لایا جائے گا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مسیحی برادریوں سمیت بہت سے فرقوں کو ہراساں کرنے اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس میں جسمانی تشدد، آتش زنی، گرجاگھروں اور بائبل کی بے حرمتی اور مذہبی رسومات کی ادائیگی میں رکاوٹ شامل ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں مسلمان برادری بھی ہراساں کیے جانے اور تشدد کے واقعات میں اضافے کا شکار ہے۔
انہیں ہندو قوم پرست گروپس اور مقامی و ریاستی سیاستدانوں کی سرپرستی میں شدید نفرت انگیز مہمات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں پر دہشت گرد ہونے، پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے، ہندو خواتین کو اغوا کرکے انہیں جبری طور پر اسلام قبول کروانے اور ان کے ساتھ شادی کرنے، گائے ذبح کرکے ہندو مذہب کی توہین کرنے کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’’پچھلے سالوں کے دوران بڑی تعداد میں ایسے پُرتشدد واقعات ہوئے ہیں، جن میں مسلمانوں کی اموات ہوئیں اور انہیں نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔‘‘
پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد:
پاکستان کے بارے میں اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ ملک طویل عرصے سے فرقہ وارانہ تشدد سے دوچار رہا ہے، جس میں شیعہ، مسیحیوں، احمدیوں اور ہندوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
’’سپریم کورٹ کے مثبت فیصلے کے باوجود حکومت نشانہ بننے والے گروہوں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے میں یا مجرموں اور ان لوگوں کو جو تشدد کی ترغیب دیتے ہیں، کے خلاف قانونی کارروائی میں ناکام رہی ہے۔‘‘
رپورٹ میں پاکستان کے ’’توہین کے جبری قوانین اور احمدی مخالف قوانین‘‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’ان کی وجہ سے مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی اور سزا سے مستثنیٰ ماحول کو فروغ مل رہا ہے۔‘‘
امریکی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ توہین کے قوانین ’’مذہبی اقلیتی برادریوں کے افراد اور اختلافِ رائے رکھنے والے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘
شیعہ برادری پر رپورٹ میں شامل ایک حصے میں بیان کیا گیا ہے کہ 2014ء کے دوران عسکریت پسندوں اور دہشت گرد تنظیموں نے مذہبی جلوسوں اور مساجد کے ساتھ ساتھ سماجی اجتماع کے مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بے خوفی کے ساتھ جاری رکھا۔
رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پولیس اگر اس موقع پر موجود بھی ہوتی ہے تو وہ حملہ آوروں کو لوگوں کو ہلاک کرنے سے روکنے میں ناکام رہتی ہے، اور حکومت نے شیعہ برادری کے افراد کو متواتر نشانہ بنانے والے گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے۔
اس کے مطابق حکومت لشکرِ جھنگوی کے رہنما کے خلاف کامیاب قانونی کارروائی نہیں کی، جنہیں مبینہ طور پر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر رہا کردیا گیا۔
رپورٹ میں مسیحی اور ہندو لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو جبری طور پر اسلام قبول کروانے اور ان کو شادی پر مجبور کرنے کا بھی ذکر کیا ہے۔