• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
شائع May 1, 2015 اپ ڈیٹ November 16, 2017

ابوبکر شیخ

اندرونِ سندھ کی تپتی اور خاموش دوپہروں میں جب کوئل بھی نہیں گاتی، اور میں امی کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوتا، تو امی آسمان سے آتے ہوئے فرشتوں کے متعلق باتیں سناتیں کہ وہ اپنے ساتھ خدا کی رحمتیں اور نوازشیں لے کر زمین پر آتے ہیں۔ میری امی نے کبھی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا، کیونکہ وہ پڑھی لکھی نہیں تھیں۔

ان دوپہروں میں امی کی شیریں باتیں سن کر میری آنکھوں میں نیند بھر آتی اور میں ان کی گود میں سوجاتا۔ جب بڑا ہوا تو 'فرشتوں' کا لفظ جب بھی یاد پڑتا تو میں ڈھونڈنے لگتا کہ کہیں کسی روپ میں نظر آجائے، پر دکھا نہیں۔ کچھ لوگوں کے متعلق سنا کہ فرشتوں جیسے ہیں۔ پر ان سے ملنا ممکن نہ ہوا۔ پھر ایک دوست نے میر غلام محمد تالپور کا ذکر کیا جن کی کوئی اولاد نہیں تھی، پر سارے غریب بچوں کو وہ بغیر کسی تفریق کے اپنی اولاد سمجھتے تھے۔ ویسے بھی اولاد میں کوئی بھی تفریق نہیں کرتا۔

بدین سے 27 کلومیٹر مشرق میں ایک چھوٹا سا شہر ہے 'ٹنڈوباگو' (1)۔ عجیب سا شہر ہے، جس جگہ کے متعلق پوچھو تو اس جگہ سے ایک کہانی وابستہ ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ جو نہر 'باگو واہ' بہتی ہے، اس سے 'میر باگو اور سندھ رانی' کی مشہور عشقیہ داستان وابستہ ہے۔ پھر آنکھوں کا وہ مشہور فلاحی ہسپتال بھی ہے جو اب تک لاکھوں بے نور آنکھوں کو نور لوٹا چکا ہے۔ پھر 1940 کا بنا 'صاحب محل' بھی ہے، جسے دیکھنے کے لیے سارے پاکستان سے لوگ آتے ہیں۔

1920 وہ زمانہ تھا جب سادگی اور غربت ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ گورے کا راج تھا، موئن جو دڑو کی کھدائی نہیں ہوئی تھی، 'جاگیریں'، 'خان بہادر'، 'خان صاحب' کے لقب اور 'آفرین نامے' بانٹنے کا زمانہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گندم کے چالیس کلو ایک روپے میں ملتے تھے، اور دیسی گھی چار آنے کلو کا بکتا۔ کراچی کی 'الفنسٹن اسٹریٹ' کا نام بھی ابھی 'زیب النسا اسٹریٹ' نہیں پڑا تھا۔

میں 1923 میں بن کر مکمل ہونے والے 'لارینس مدرسہ' کے 'ڈائننگ ہال' کے سامنے کھڑا تھا۔ یہ اپنے وقت میں بڑی خوبصورت عمارت رہی ہوگی، جہاں کسی زمانے میں وہ بچے کھانا کھاتے تھے، جن کے گھر کچے ہوا کرتے، اور جنہیں کھانے کے لیے روکھی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی۔ اس ہال کے جنوب میں 'گبسن بورڈنگ ہاؤس' کی وہ خستہ عمارت ہے جس میں دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے بچے شب و روز گذارتے تھے۔

گبسن بورڈنگ ہاؤس — تصویر ابوبکر شیخ
گبسن بورڈنگ ہاؤس — تصویر ابوبکر شیخ

— تصویر ابوبکر شیخ
— تصویر ابوبکر شیخ

— تصویر ابوبکر شیخ
— تصویر ابوبکر شیخ

اب اس ہاسٹل میں کوئی نہیں رہتا، بس تنہائی رہتی ہے، اور دیواریں ماضی کے خوبصورت دنوں کی یادیں آپس میں بانٹتی ہیں۔ یہ ڈائننگ ہال اور گبسن ہاسٹل، لارینس مدرسہ (جو اب 'گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول' کے نام سے جانا جاتا ہے) کی اس پرشکوہ عمارت کا حصہ ہیں جو 1924 میں بن کر مکمل ہوا تھا۔ اور اب تک 21,456 شاگرد اس اسکول سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔

میں اسکول کی اس تاریخی اور خوبصورت عمارت کو دیکھتا ہوں، اور سوچتا ہوں کہ کچھ لوگ ایسے ہیں، جو صرف زندگی نہیں گزارتے، بلکہ تاریخ بھی بُنتے ہیں۔ اگر وقت اپنی سنگدلی پر آئے اور اپنی کوکھ سے ایسے انسانوں کو جنم دینا چھوڑ دے تو شاید یہ دنیا رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔

میر غلام محمد تالپور 'مانکانی میروں' کے خاندان سے تھے۔ ان کی جاگیر ہزاروں ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی۔ وہ ایک جاگیردار تھے، اور ان کو برٹش راج کی جانب سے 'خان بہادر' کا خطاب بھی ملا ہوا تھا۔

— بشکریہ: کتاب 'ھھڑا مانجھی مرنا ناھن'۔
— بشکریہ: کتاب 'ھھڑا مانجھی مرنا ناھن'۔

میں لارینس مدرسہ کے موجودہ پرنسپل ڈاکٹر پروفیسر محمد اسماعیل میمن سے ملا۔ یہ صاحب خود بھی چند کتابوں کے مصنف ہیں۔ میر صاحب کے متعلق انہوں نے جو باتیں کیں، ان میں میر صاحب کے متعلق احترام کی ایک خوشبو تھی جو الفاظوں میں بستی تھی۔ "میں نے اس اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے، اور آج میں اسی اسکول کا پرنسپل ہوں۔ یہ سب میر صاحب کی وجہ سے ممکن ہوا۔ وہ فرشتہ تھے، ایک ایسا فرشتہ جس نے اپنے لیے کبھی کچھ نہیں سوچا، جب بھی سوچا غریب اور ناداروں کے لیے سوچا۔

"1914 کی پہلی جنگ عظیم میں میر صاحب نے ہند سرکار کو 1 لاکھ روپیہ قرض دیا تھا، جو انہوں نے بعد میں واپس کیا، اور اس عمل کے بدلے میں میر صاحب کو خان بہادر کا خطاب دیا۔ 1920 میں میر صاحب نے محمد صدیق 'مسافر'، جن کا تعلق ٹنڈو باگو سے تھا، سندھی زبان میں بہت ساری کتابوں کے مصنف بھی تھے، اور اس زمانے میں حیدرآباد میں ٹیچر تھے، کو اسکول کے متعلق اپنے خیالات بتائے، اور اس طرح 90 برس پہلے ایک کرائے کی جگہ میں لارینس مدرسہ کی ابتدا ہوئی، اور دھیرے دھیرے ہاسٹل اور اسکول کی بلڈنگ 1924 میں بن کر مکمل ہوئی۔"

یہ وہ زمانہ تھا جب کچھ ہی عرصہ پہلے علی گڑھ سے سر سید احمد خان نے 'تعلیمی تحریک' شروع کی تھی، جس کے زیرِ اثر کراچی میں 'سندھ مدرستہ الاسلام' چل رہا تھا۔

1976 میں میر غلام محمد کی 44 ویں برسی کے موقع پر ایک کتاب 'ھھڑا مانجھی مرنا ناھن' شائع ہوئی، جس میں بڑے اہم آرٹیکل تحریر ہیں۔ میں نے بڑی کوشش کے بعد اس کتاب کے ترتیب کنندہ 'بھون سندھی' سے رابطہ کر کے اس کتاب کی فوٹواسٹیٹ کاپی حاصل کی۔ اس کتاب میں لکھا ہے: "1932 میں گورنمنٹ سے ہائی اسکول کا درجہ حاصل کرنے والے اس اسکول کے پہلے 'مدرس اعلیٰ' یا ہیڈ ماسٹر، مسٹر عبدالرحیم کرمتی بلوچ مقرر ہوئے جو حیدرآباد میں وکیل تھے۔ گبسن ہاسٹل کو مسلسل چلانے کے لیے میر صاحب نے گورنمنٹ کے Benevolent Fund میں 383,000 روپے ڈپازٹ کیے، جس سے ماہانہ ملنے والے پیسوں سے ہاسٹل کا خرچہ چلتا تھا۔'' (2)

"تو اب یہ ہاسٹل کیوں بند ہے؟" میں نے اسماعیل میمن صاحب سے پوچھا۔

"یہ 2004 سے بند کردیا گیا ہے کیونکہ ان جمع پیسوں سے ہر ماہ اتنے کم پیسے ملتے ہیں کہ ہاسٹل کو چلانا ممکن نہیں ہے۔" میرے سوال کے بدلے جو جواب مجھے ملا، وہ انتہائی مایوس کن تھا۔ مجھے اس وقت میر صاحب کی یاد آئی۔ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا، پر پھر بھی ان کی بڑی یاد آئی۔

ڈائننگ ہال — تصویر ابوبکر شیخ
ڈائننگ ہال — تصویر ابوبکر شیخ

اسکول پرنسپل محمد اسماعیل میمن — تصویر ابوبکر شیخ
اسکول پرنسپل محمد اسماعیل میمن — تصویر ابوبکر شیخ

اس کتاب کے مطابق "1928 میں ٹنڈو باگو کے 'میر محلہ' میں میر صاحب نے عورتوں کے اسکول کے لیے بلڈنگ بنوا کر مکمل کی، اور 'لوکل بورڈ' کے حوالے کی۔ مقامی طور پر کیونکہ ٹیچرز کا ملنا ممکن نہیں تھا، اس لیے دوسرے شہروں سے اہتمام کیا گیا اور اچھے الائونس اور طعام و قیام کی سہولت دے کر اسکول میں مقرر کیا گیا۔"

یہ اسکول ابھی تک اس جگہ پر ہے، بس وہ بلڈنگ نہیں ہے جو میر صاحب نے بنوائی تھی۔ موجودہ گورنمنٹ کی بنائی گئی عمارت میں 150 کے قریب بچیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

میر صاحب کی نیکیوں کا سفر یہاں پر ختم نہیں ہوتا۔ انہوں نے غریب، بے سہارا، اور اپاہج مریضوں کی لیے خاص وظیفے مقرر کیے تھے، جو ان کی مالی مدد کرتے۔ لوگوں کی غربت دیکھ کر 1922 میں 'بولس شفاخانہ' کی بنیاد ڈالی، جہاں مفت میں علاج ہوتا۔ اگر علاج طویل ہوجاتا، تو مریض کی رہائش، خوراک، اور دواؤں کا مفت انتظام ہوتا۔

ڈاکٹر یعقوب مغل، جو اس وقت 'ڈاکٹر این اے بلوچ ہیریٹج ریسرچ سینٹر' کے ڈائریکٹر ہیں، اور بہت عرصہ ترکی میں بھی رہے، نے بھی یہاں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کتاب کے لیے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: "وہ عظیم انسان تھے۔ غریبوں کا دکھ ان سے سہا نہیں جاتا تھا۔ 1931 میں انہوں نے عورتوں کے لیے ہسپتال کھولا۔ اس زمانے میں لیڈی ڈاکٹر ملنا ناممکن سا تھا، مگر میر صاحب نے بڑی جستجو کے بعد ایک یورپی لیڈی ڈاکٹر ہسپتال میں مقرر کی، اور شفا کے دروازے کھل گئے۔ ساتھ میں وہی میر صاحب کی دریا دلی اور شفقت کہ علاج اور دوائیں مفت، رہائش اور کھانا بھی مفت۔"

اسکول کی عمارت — تصویر ابوبکر شیخ
اسکول کی عمارت — تصویر ابوبکر شیخ

— تصویر ابوبکر شیخ
— تصویر ابوبکر شیخ

فقط یہ ہی نہیں، بلکہ بہت سارے علم کے پیاسوں کو میر صاحب نے انگلینڈ، دہلی، لاہور، ممبئی، اور کراچی بھیجا، اور ان کا سارا خرچہ میر صاحب نے بھرا۔ کوئی علم کا ڈاکٹر بن کر لوٹا تو کوئی فاضل طب و جراحت کا اعزاز لے کر آیا۔ ہزاروں ایسے بڑے نام گنوائے جا سکتے ہیں، جو ماضی و حال میں بڑے نامور نام ہیں اور وہ محض اس لیے ہیں، کہ میر صاحب تھے۔ اس ہائی اسکول کو 1990 میں اپ گریڈ کر کے ہائیر سیکنڈری کا درجہ دیا گیا، تب سے اب تک، یہاں سے انٹر پاس شاگردوں کی تعداد 4776 ہے۔

نتھومل موروانی، جنہوں نے اس اسکول میں بنیادی تعلیم حاصل کی، پھر یہاں آکر استاد ہوئے، لکھتے ہیں کہ "آج تک اسکول کے سینکڑوں شاگردوں کو ہاسٹل میں مفت کھانا اور رہائش ملتی ہے۔ اس اسکول سے آج تک ہزاروں طالب علم تعلیم حاصل کرکے نکلے ہیں، جن میں سے بہت سارے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ بہترین سیاستدان، عالم، ادیب، مفکر، ڈاکٹر اور استاد اس اسکول کی دین ہیں۔"

میں ایک غبار لے کر وہاں کے مقامی صحافی عثمان راہوکڑو کے پاس پہنچا اور ان عمارتوں کی خستگی کے متعلق پوچھا۔ جواب جو ملا، وہ آپ بھی پڑھ لیں: "آپ خوش نصیب ہیں کہ یہ گرتی ہوئی دیواریں تو کم سے کم دیکھ رہے ہیں۔ دس برسوں کے بعد شاید یہ بھی دیھکنے کو نہ ملیں۔ یہاں اثاثے سنبھالے نہیں جاتے، بلکہ برباد کرنے کی روایت ہے۔ ایک زمانے میں اسکول میں بہت بڑی لائبریری تھی، اب وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔

— تصویر ابوبکر شیخ
— تصویر ابوبکر شیخ

— تصویر ابوبکر شیخ
— تصویر ابوبکر شیخ

"میر صاحب اس وقت اگر آجائیں، تو خون کے آنسو روئیں گے۔ میر صاحب بڑے انسان تھے، بہت بڑے۔ یہ اسکول 2003 میں قومی لوک ورثہ کی لسٹ میں شامل ہے اور اس وقت جو اسکول کا نام ہے، اس میں میر صاحب کا نام تک شامل نہیں۔ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ میر غلام محمد نے اتنے سارے ادارے بنائے، پر کسی پر بھی اپنا نام نہیں رکھا۔ یہ ان کا بڑا پن تھا۔ پر ان کے جانے کے بعد جب نیا نام رکھ رہے تھے تو کیا میر صاحب کا نام موزوں نہیں تھا؟"

عثمان راہوکڑو نے یہ بھی بتایا کہ میر صاحب کا ایک گشتی شفاخانہ بھی تھا، جو اونٹوں اور بیل گاڑیوں پر ہوتا تھا اور دور دراز علاقوں میں جا کر علاج کی سہولیات فراہم کرتا، گاؤں 'ماچوری' اور 'کھڈہرو' (ٹنڈو باگو) میں میر صاحب نے اسکول اور ہاسٹل بھی بنوایا تھا۔

میں نے ٹنڈوباگو میں اس مسافرخانہ کی تلاش کی جو میر صاحب نے بنوایا تھا کہ مسافر آتے جاتے ہیں، دھوپ ہے، بارش اور سردیاں ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے اور عورتیں کہاں جائیں گے۔ لیکن اس مسافرخانہ کا مجھے کوئی نشان تک نہیں ملا۔

ٹنڈوباگو کی گلیوں میں نہ جانے کتنی باتیں ہیں جو میر صاحب کی شفقت کے گیت گاتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ میر صاحب کا ایک خادم تھا، جمعہ خاصخیلی، میر صاحب نے اس کے بیٹے کو اس کی خواہش پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے دہلی بھیجا۔ اور جب وہ اپنی تعلیم مکمل کرکے آیا، تو دنیا نے دیکھا کہ جمعہ کا بیٹا قادر بخش لارینس مدرسہ کا ہیڈماسٹر بنا۔ میر صاحب کے متعلق مجھے جتنی معلومات ملتی گئی وہ حیران کردینے والی تھیں۔ حیرت اور احترام کے بیج تھے جو میری روح کی زمین پر اگتے جاتے۔

1928 میں ایک تعلیمی کانفرنس ہونی تھی، جس میں شرکت کے لیے جی ایم سید صاحب نے ایک دعوت کا خط میر صاحب کو بھیجا تھا۔ جس کا جواب میر صاحب نے تحریر کیا تھا۔ یہ انتہائی مختصر خط ہے، مگر تاریخی حقائق کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ لکھتے ہیں:

"20 جنوری کا آپ کا نوازش نامہ موصول ہوا۔ میں بہت دکھی ہوں۔ اپنے جو وسائل ہیں وہ بروئے کار لا کر جو ہو سکتا ہے وہ کر رہا ہوں۔ پر عام لوگوں کی جہالت، بیکاری اور غربت دیکھ کر روپڑتا ہوں۔ میں نے اپنی ساری ملکیت ان لوگوں کے لیے وقف کردی ہے پر میں اکیلا آدمی کیا کرسکتا ہوں؟ سندھ کے جاگیردار، زمیندار، پیر، اور مخدوم کو غریبوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ طبیعت ناساز ہے اس لیے شرکت نہیں کر سکوں گا۔ معافی کا طلبگار ہوں۔ خدا آپ کو ان کوششوں میں کامیاب کرے۔ غلام محمد"۔ (2)

میر صاحب کی شخصیت میں اتنی وسعت ہے کہ یہ تحریر اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ ایک تشنگی رہ جائے گی، اور یہ تشنگی کسی تحقیقی تھیسز کے بعد ہی ختم ہوسکتی ہے۔

کہتے ہیں کہ 1932 کی سردیاں زیریں سندھ اور خاص کر ٹنڈوباگو کے لیے بہتر ثابت نہیں ہوئیں۔ پیار علی جعفری، جو لارینس مدرسہ کے شاگرد تھے اور ان دنوں کراچی میں اپنے شب و روز گزار رہے ہیں، 'ھھڑا مانجھی مرنا ناھن' میں اپنی تحریر میں لکھتے ہیں: "سردیاں تھیں، 12 فروری 1932 کو میں اسکول میں تھا، اور ہم پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں میر صاحب کا ملازم چیختا پکارتا آیا۔ میر صاحب ہم کو چھوڑ گئے تھے۔ سارے لوگوں کو میں نے روتے پیٹتے دیکھا۔ ایک قیامت برپا تھی۔ جو سنتا وہ سر پیٹنے لگتا۔"

میں نے 1932 کا کیلینڈر دیکھا، وہ جمعے کا دن تھا۔

میں میر صاحب کی رہائش گاہ پر گیا، جہاں میر صاحب نے 1932 میں جمعے کے دن اپنے گھر کی چھت کو آخری بار دیکھا تھا۔ ایک ٹوٹی پھوٹی، سرخ اینٹوں کی چار دیواری، چار دیواری کے اندر ایک خستہ سے گھر کے اجڑے ہوئے نشانات۔ خاردار جھاڑیاں اور خاموشی اب اس عظیم انسان کے گھر کے آنگن میں اگتی ہیں۔ میں خاموش رہا۔ میر صاحب کی رہائش گاہ کی یہ حالت دیکھنے کے بعد کہنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔

میر غلام محمد تالپور کی رہائشگاہ — تصویر ابوبکر شیخ
میر غلام محمد تالپور کی رہائشگاہ — تصویر ابوبکر شیخ

— تصویر ابوبکر شیخ
— تصویر ابوبکر شیخ

شام ہونے کو آئی تھی، اور مجھے واپس لوٹنا تھا لیکن میں ٹنڈوباگو کو اس فرشتے جیسے انسان کی آخری آرامگاہ پر حاضری دینے سے پہلے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ آنکھیں تر ہوگئیں۔ امی صحیح کہتی تھیں۔ آسمان سے نیکیاں کرنے فرشتے زمین پر آتے ہیں۔

  • مضمون میں ابتدائی طور پر نتھومل موروانی کو کتاب 'ھھڑا مانجھی مرنا ناھن' کا مصنف قرار دیا گیا تھا، جبکہ یہ کتاب 'بھون سندھی' کی مرتب کردہ ہے۔ تصحیح کردی گئی ہے، اور ادارہ غلطی کے لیے معذرت خواہ ہے۔

(1): تالپوروں نے جو بھی بستیاں بسائیں ان کو 'ٹنڈو' کے نام سے پکارا جاتا ہے، جیسے: ٹنڈوباگو، ٹنڈومحمد خان، ٹنڈو حیدر وغیرہ۔

(2) کتاب 'جنم گذاریم جن سین' از جی ایم سید۔ ناشر سندھی ادبی بورڈ، جامشورو۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (58) بند ہیں

Sajjad Waraich May 01, 2015 09:35pm
I am from Punjab and dont know a lot about Sindh. You provided a glimpse of rich Sind history. Thanks.
muhammad tariq May 01, 2015 10:01pm
bhut umda tehrir hai. bhut shukriya mir sahb k bare main umda malomat dene k lye. khuda kare zor e qalm aur ziada..
A.Rauf Jamali May 01, 2015 10:47pm
الله تعالى مير صاحب کي جنت الفردوس عطاڪري .آمين
Ghulam Nabi Zaur Mirpur Bathoro May 01, 2015 10:56pm
well done abu bakar sahib ap beetay waqat ki yaad tazi karwadi hae, ham ap ko taareekh saaz salam pesh kartay hain
محمد ارشد قریشی (ارشی) May 01, 2015 11:31pm
بہت بہترین معلوماتی اور حقیقی تحریر عمدہ منظر کشی کے ساتھ دلکش تصاویر وہ عمارتیں جن پر ہمیں فخر ضرور ہے لیکن توجہ کم۔
علی عمران May 01, 2015 11:55pm
رلا دیا یار۔ میر غلام محمد تالپور آپکی عظمت کو سلام
Shahnawaz May 02, 2015 12:10am
Great work- Hope we get more published stuff of our land and culture
Shahnawaz May 02, 2015 12:12am
Great work done by author. Needs to highlight local culture & knowledge more
Hafeez Ahmed Talpur May 02, 2015 12:49am
My maternal grand father studied from this Lawrence school. well said میر صاحب کی شخصیت میں اتنی وسعت ہے کہ یہ تحریر اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ ایک تشنگی رہ جائے گی، اور یہ تشنگی کسی تحقیقی تھیسز کے بعد ہی ختم ہوسکتی ہے۔
mohsin rahimoon May 02, 2015 01:29am
Behtreen saeen
rab May 02, 2015 01:29am
real hero of sindh both he umda tereer a mir saab ka nam hamesha zinda raega
abdul latif shaikh May 02, 2015 02:11am
nice article and amazing pictures..
A B Arisar May 02, 2015 09:06am
wow what a nice and informative write-up, hats off Abu Bakar.
sardar bhayo May 02, 2015 11:17am
Dear Abubakar you have written article with basic information as well as it is historical document. Your words make the readers to visit memories of past as all things would have been done in their age........ You not only write the words but loves the words.
sardar bhayo May 02, 2015 11:33am
Writer Abubakar Sheikh ap ne buht informative article likha h apki lfzoon Ki rawani or jadoogri ka ye kamal hi he Jo mazmoon parhte howe esa mahsoos hota h k parhne wala Mir Sahib Ki zer fast or shafqat m parha hwa ho.... Parhne wala past k sabh manzar aankhoon se dekhta ho...... AP k likhne ka andaz qabil tareef he..... Inspiring role ko nae andaz se likh k apne bars ilmi kam kya he. Keep up writing dear Abubakar Sb
Your Name May 02, 2015 12:05pm
A Real hero..may Almighty Allah shower his blessings upon him......
Shah Ali May 02, 2015 12:47pm
zabadast Shaikh Sahib
Fida Hussain May 02, 2015 02:12pm
عمدہ تحریر ہے اس مطلب یہ ہوا کہ میر غلام محمد تالپور کی سلبی اولاد تو نہیں مگر اس تعلیمی ادارئے سے نکلنے والے تمام لوگ اس کے روحانی اولاد ہیں۔ تاریخ میں ہزاروں اولاد والوں کا کوئی نام لیوا نہیں مگر میر غلام محمد تالیور کے لئےدعا کرنے والے اگر لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ضرور ہونگے ۔ اللہ ہمارئے حکمرانوں کو بھی ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرما آمین!
irfan qureshi May 02, 2015 02:57pm
Allah MIR GHULAM MUHAMMAD TALPUR KI MAGHFIRAT FARMY AAMEEN. AZEEM tehreer hy app ki, Kaash k ham MIR SAHAB ki banai darsgaho ki hifazat Kar paty, Q k jo MIR sahab Kar gay ham us ko sambhal na pay. Un jaysa naya to ham kar hi nahi sakty.
arshad May 02, 2015 03:18pm
kash qaim ali shah bhi parh lain aur kuch sabaq hasil krain.
عامر سجاد گیلانی May 02, 2015 03:49pm
اللہ میر صاحب کو جزا دے۔ آمین درست کہا کہ ایسے فرشتہ صفت لوگ زمین پر نہ ہوں تو یہ برباد ہو جاۓ۔
sara May 02, 2015 03:49pm
Hats off to writer n mir sahib. Dawn can u publish in paper n broadcast on ur tv , it is an inspirational magic.
Kashif May 02, 2015 05:55pm
nice article and amazing pictures..
شاہد علی صدیقی May 02, 2015 06:11pm
سر میں آپ کی تحاریر کا عاشق ہوں۔ آپ تاریخ کے جن گمشدہ اوراق سے روشنائی کروارہے ہیںوہ قابل تحسین ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی کو قبول فرمائے، آمین ثم آمین
abdullah May 02, 2015 07:19pm
its real that during reading article I feel so sad , various time I try control to my tear ,,, some line of this article are touched very nearest to heart.....کچھ لوگوں کے متعلق سنا کہ فرشتوں جیسے ہیں۔ پر ان سے ملنا ممکن نہ ہوا۔ جہاں کسی زمانے میں وہ بچے کھانا کھاتے تھے، جن کے گھر کچے ہوا کرتے، اور جنہیں کھانے کے لیے روکھی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی . ٹنڈوباگو کی گلیوں میں نہ جانے کتنی باتیں ہیں جو میر صاحب کی شفقت کے گیت گاتی ہیں again very heart touche article by Abu Baker
Farida Rahman May 02, 2015 09:05pm
Lovely history recorded with beautiful images. Very informative, yet depicts sad state of affairs in our country: how we neglect those who are honest and dedicated and feed those who have done nothing except feeding themselves and their relatives.
راجکمار May 02, 2015 11:10pm
مجہے بہت خوشی ہے کہ میرے دوست ابوبکر نے میرے ہی شہر ٹنڈوباگو پر اتنی عمدہ چیزیں تحریر کیں۔۔۔ شکریہ
نادیہ خالد May 03, 2015 02:18am
اللہ تعالیٰ میر صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ پنجاب میں بھی کئی جاگیرداروں نے سکول کیلئے عطیات دیے ہیں، انگریزیوں سے ملنے والے خطاب بھی انکے نام کیساتھ جڑے ہیں۔ لیکن جب انکی زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بات واضع ہو جاتی ہے کہ یہ وطن اور عوام سے زیادہ انگریزوں سے مخلص تھے۔ انگریزوں سے وفاداری اور عواج سے جفاداری کی بنا پر انگریزوں نے انکو بے پناہ جاگیرو انعامات سے نوازا۔ ان میں سے نوے فیصد پاکستان کی حکومت کا حصہ ہیں۔
suresh kumar May 03, 2015 11:37am
dear Abu Baker very nice article made me visit history and feel myself in that era. Your worthwhile article not only inform about the contribution and services of an institute like person but it also shows how much "AHSAAN FARAMOSH" we are. As you mentioned hundreds of students of this institute reached to big positions but none of them tried to flourish, improve and bring forward this historical institute, Renovate and preserve Mir sb's residence and set example. This is not only the case with this hero of history but we did with all such persons. We expect such more informative articles from you in future as well.......
Sindhi May 04, 2015 01:32pm
@نادیہ خالد
Sindhi May 04, 2015 02:00pm
کئی جاگیرداروں................... وطن اور عوام سے زیادہ انگریزوں سے مخلص تھے ان میں سے نوے فیصد پاکستان کی حکومت کا حصہ ہیں۔ It was/is tragedy. Pakistan was founded by people but acquired by these BIG FISHES. One of great leader of Pakistan and actively involved on extreme level in struggle for Pakistan, invited Pir Pagara (I don't remember his name) to join struggle for separate country. Pir Pagara told him that I know, this time you are core of the struggle but when it will be achieved you will be thrown away. Most likely you will be punished. Later on that was happened with core person. Not only at that time, also this time all greedy MAFAD PARAST people hijacked the struggle and hijacking Pakistan.
SAMEER SAhil May 04, 2015 03:03pm
nice yaaaaaaar main maaan gaiyaaa,,,,,,,,,,,,,,
lachhman das May 04, 2015 04:31pm
Res.Sir,You have done a extraordinary great job. I salute you sir.
lachhman das May 04, 2015 04:33pm
I am sharing this article on face book for friends belonging to this area. Hope you will not mind. thanks
Dr Abdul Qadeer Memon May 04, 2015 08:05pm
Aap ki ye mahanat dekhkar ,Government Maddarsa and High School Naushahro feroze , 1883 men Khanbahadur Sayed Allahndo Shah Yad Agaya , jo bilkul is tarah tha aour aaj taqreeban is school se ziada tabah hall he
یمین الاسلام زبیری May 04, 2015 10:00pm
اللہ تعلی میر صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے؛ اور ہمارے خود ساختہ رہبروں کے ذہنوں میں احساس جگائے۔ پتا نہیں یہ لوگ اس قسم کے قصے پڑھتے بھی ہیں یا نہیں، یا پڑھ کر بھول جاتے ہٰیں۔ اس اسکول کی عمارت کو یقیناً محفوظ کرنا چاہیے اور جیسا کہ شیخ صاحب نے لکھا ہے اسے میر صاحب سے منصوب کرنا چاہیے،۔شیخ صاحب آپ لکھنے کا نیک کام جاری رکھیں آپ کے وصیلے سے اللہ ہماری سب کی سنے گا۔
Azhar May 05, 2015 12:12am
Mir Ghulam Muhammad Talpur of Tando Bago; A real philanthropist of the time.
Mushtaq May 05, 2015 09:29am
Delighted to read a positive story, thank you for hiligh lighting this and educating us. I had heard about this man while I was in Tando Bagho but could not visit said school. His letter to G.M. Syed is a reflection even in today's times. That class, fuedals, pirs, syeds and neo elite continue to be parasites, world has changed, they would travel abroad but will not seek any change in their own villages, cities and province. this is the leadership, who can save us from misery and poverty.
صادق معصوم May 05, 2015 10:45am
نا امیدی اور یاسیت سے بھر پور اس ماحول میں ایسی تحریر نظر سے گزرنا کوئی معمولی بات نہیں ھے . ایسے عظیم لوگ اسلام ہی کا وہ بنیادی فلسفہء ایثار و قربانی ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ دوسروں کیلئے جینا ہی اصل زندگی ہے ... بصورت دیگر اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے صرف اپنے لئیے جینا جانوروں سے بھی بدتر ہے.
abubaker Shaikh May 05, 2015 12:11pm
@شاہد علی صدیقی محترم شاہد علی صدیقی صاحب آپ کی قدردانی کیلئے میں آپ کا مشکور ہوں۔ دعائوں میں یاد رکھئے گا۔ شکریہ ابوبکر شیخ
Partab Shivani May 05, 2015 12:14pm
When I was reading article I was just thinking how he passed the time, I was looking at places what are positions, Eyes are wet , can't describe the feelings which I have. I must visit that place and salute the efforts of great legend Talpur sahib. Your write up has given waves in within words , great . I would also request to continue make writing of Such Hero.
abubaker Shaikh May 05, 2015 12:44pm
@یمین الاسلام زبیری محترم ہمت افزائی کیلئے شکریہ اپنی دعائوں میں یاد رکھئے گا۔
Fida Soomro May 05, 2015 01:53pm
Dear Abu! very nice article, you have done an excellent job through this piece of work that is really unforgettable. Mir sahib was really a great personality unfortunately the people of Laar has forgotten him. We could not control my tears while going through the narration; I am also extremely surprised that nobody told me about him although I am living and working in district Badin since last 15 years. I do not know what name I may attribute to this myopic attitude of people of Laar. They do not know their heroes. The only thing I would like to request my friends in Laar belt to explore their heroes who are hidden but their alive due to their noble deeds and respect them. Mir sahib was also a humanitarian institutes such aspects of his life still needs to be divulged ; why the humanitarian institute following his name could not be developed by the civil society of Badin district? Why the civil society of Badin has forgotten him and his noble cause and deeds? Congrats for nice work.
abubaker Shaikh May 05, 2015 02:12pm
@Partab Shivani محترم پرتاب شیوانی صاحب ہمت افزائی کیلئے آپ کا شکریہ۔۔۔میں آنے والے وقت میں بھی کوشش کرونگا کہ میری تحریریں زمین کی خوشبو سے جڑی ہوں۔۔۔۔شکریہ ابوبکر شیخ
abubaker Shaikh May 05, 2015 02:15pm
@Sajjad Waraich محترم سجاد وڑائچ صاحب آپ کی قدردانی کا میں تہہ دل سے شکرگذار ہوں۔ دعائوں میں یاد رکھئے گا۔۔ شکریہ ابوبکر شیخ
Mir Muhammad Baloch May 05, 2015 04:08pm
محترم ابوبکر شیخ نے مرحوم میر غلام محمد تالپور کی شاندار کاوشوں کو ہم تک ایک بھترین تحریر کی شکل میں پہنچائی۔ جسکی آپ مبارکباد کے بالکل مستحق ہیں۔ہمیں امید ہے کہ آئندہ بھی لکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
yasir bhatti May 05, 2015 04:12pm
kash sindh mai ab bhe koi aisa taleem dost insan jnam lay
Amjad Qaisrani May 06, 2015 10:21am
Very informative article which not only throws light on the valuable services rendered by Mir Sb for the downtrodden people of his area, but also describes general socio-economic conditions of Sindh Dharti and the typical feudal mentality of the big landlords of Sindh who have not done anything to save (at least) the historical heritage.
Jamal Khan May 06, 2015 04:53pm
Aaj ke es dour men atni tahqeqi reporting karna bari baat hay History men sy un lugun ko talash karna humar farz hy
Jamal Khan May 06, 2015 04:56pm
it's a very good cortical
Seeda Sager May 06, 2015 06:28pm
یہ وہ لوگ تھے جن کے روشن کئے ہوئے دیپکوں کی روشنی میں ہمارا آج منور ہے، یہ ہمارے بڑوں نے ہمارے لئے چھوڑا ہے ہم اپنے آنے والی نسلوں کیلئے کیا چھوڑ رہے ہیں۔ میں تاریخ کی شاگرد ہوں میں نے جب ابوبکر شیخ صاحب کا یہ آرٹیکل پڑہا تو، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، جب تک مشاہدہ تیز ہو اور ہم حقائق کو دل کی آنکھوں سے نہ دیکھیں تب تک ایسی تحریر ممکن نہیں ہے۔ میں شیخ صاحب کو اس تحریر اور موضوع پر مبارکباد دیتی ہوں، اور امید کرتی ہوں کہ ان مشاہدوں کو تحریر کا روپ دے کر ہم تک پہنچاتے رہیں گے۔ میں ڈاب والوں کو بھی دلی مبارکباد دیتی ہوں کہ وہ ان تحریروں کی اہمیت کو سمجھہ کر ان کو شایع کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کی آنے والی تحریر کا شدت سے انتظار رہے گا
Shakeel Rana May 06, 2015 09:29pm
What a great insight into Sindh and some of its great sons. Its good to know that the school is still runing. Does anyone know what is the name of this school? can we have email contact/phone number of the school as well. If yes, please email me. Thanks Shakeel
Qamar hashmi May 07, 2015 12:07am
Mir Sahab's life is just like a mirror to blind... A great visionary and kind soul.. A role model for our leaders
Muhammad Aqeel May 07, 2015 01:14am
parh kr bhut acha lga Allah unki magfirat kre..mir sahab ky buland hosle or himmat ko salam!! Allah aisa he insan banaey sb,!!
محمد ذوالقرنین sst گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول، کہروڑپکا۔ Jun 20, 2015 02:19pm
السلام علیکم آپ کا تحقیقی مضمون پڑھا، واہ واہ، شیخ صاحب پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ یوں لگتا ہے، کہ میں تمام واقعات میں آپ کے ہمراہ ہوں۔ تحریر کی خاصیت آپ کی کاوش کو سراھتی ہوئی نظر آتی ہے۔تصاویر خوب ہیں۔ سچ بتا رہا ہوں،اولین فرصت میں ٹنڈو باگو جاکر میر صاحب(میر صاحب) کی یاد گاروں کو دیکھوں گا۔دعا گو ہوں،اللہ اس عظیم انسان کے دراجات بلند کرے۔ شکریہ،آپ کی وجہ سے اتنی مفید معلومات حاصل ہوئیں،خداحافظ۔
Muhammad Imran Junejo Jul 20, 2015 02:20pm
This was really a huge educational institute of Laar, from where my great family members got education. I pray for Mir Sahib who laid the foundation of this school.
Fida Soomro Aug 11, 2015 11:08am
Laar abounds in heroic personalities and it is really a fact that the deeds make man great; being the richest or landlord is not standard of greatness. I think Mir sahib and such other personalities which you penned earlier were no doubt the architects of developing and promoting civil society at that time. Whatever socio-political awareness is found, is actually based on the foundations laid by such great persons. Such persons must be awarded with life achievement awards for such services. After partition government of Pakistan must have taken it in official possession and would have run it regularly. I do not know why we are ruining our glorious history; are we vandalized? I think we must feel guilty and ashamed of him consciously that we have forgotten him and his crusade which he waged during the period when there was no silver lining around. It was unflinching effort by him to disentangle their fellow-beings from the vicious circle of poverty and adversity; great Mir sahib.
Inayatullah Thebo Nov 16, 2017 07:20pm
Dawn and Shaikh Sahab Dear Sirs May I please contribute some funds every year to repair the school and hostel buildings and then for running the facilities. Please contact me on my email. Thank you. Inayatullah Thebo in London and Nice cote d' Azur